لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیاشاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیاشاہد نے کہا ہے کہ میاں محمد نواز شریف پارٹی کے صدر ہیں اور ن لیگ کی ٹکٹ پر ہی ارکان اسمبلی کامیاب ہو کر اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ لہٰذا ان پر نواز شریف کی بالادستی تو بنتی ہے۔ میاں شہباز شریف خود آج نیب عدالت میں پیش ہوئے۔ یہ ایک اچھی بات ہے۔ وہ چاہتے تو جواب بھی بھجوا سکتے تھے۔ انہوں نے اداروں کو اہمیت دی۔ یہ ایک اچھی روایت ہے۔ بہرحال انہوں نے بھی نیب کی کارروائی کو شک و شبہ کی نیت سے دیکھا اور یہ کہا کہ فیصلے اوپر سے لکھے ہوئے آتے ہیں۔ شاید ان کا مطلب یہ تھا کہ اوپر سے حکم آنے پر انہیں طلب کیا گیا ہے۔ یہ خوش آئند ہے کہ وہ خود عدالت میں پیش ہوئے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ پریس کانفرنس کےلئے چند ہی لوگوں کو بلایا گیا۔ جس میں ہمارے اخبار اور چینل سے کوئی بھی نہیں گیا۔ میاں شہباز شریف نے جو اپنے اردگرد بیورو کریسی جمع کر رکھی ہے۔ شاید انہوں نے مشورہ دیا ہو گا کہ ان ان اداروں سے رپورٹرز کو بلایا جائے۔ آج کی پریس کانفرنس میں جس طرح لوگوں کو نام لے لے کر سوال کےلئے بلایا گیا ہے اس سے کوئی اچھی مثال قائم نہیں ہوئی بلکہ ان کی پوزیشن خراب ہوئی ہے۔ وہ سب کو بلا لیتے اور سب کے سوالوں کے کھل کر جواب دیتے۔ ڈی سی قصور محترمہ سائرہ صاحبہ سے پوچھ لیتے ہیں کہ انہوں نے کل ٹیچرز اور طالبعلموں کو جنہوں نے زینب کی قبر پر جاکر شمعیں روشن کی ہیں، بہت ڈانٹ ڈپٹ کی ہے اور کہا کہ انہوں نے بچوں کی جان خطرے میں ڈالی۔ آج اس سکول کے مالکان نے پریس کانفرنس کی۔ انہیں انتظامیہ نے زبردستی روک دیا۔ اگر کوئی اپنے جذبات کا ا ظہار کرنا چاہتا ہے تو اس میں کیا حرج ہے۔ قصور احتجاج کے دوران ڈی سی او کے دفتر اور وہاں موجود سٹاف کو یقیناً تحفظ کی ضرورت تھی لیکن جب ان پر گولی چلی، کوئی بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں جو اے ڈی سی کہتا ہے کہ میں نے گولی نہیں چلائی۔ سابقہ ڈی سی او کہہ چکے کہ انہوں نے گولی نہیں چلوائی۔ محترمہ خود واقعہ سے قبل ہی گھر جا چکی تھیں۔ آپ موقع پر موجود ہی نہیں تھیں۔ پھر وہاں موجود اہلکاروں نے کس کے کہنے پر گولی چلائی، یا خود ہی فیصلہ کر لیا۔ سانحہ قصور پر گولی چلانے والے سکیورٹی اہلکار تھے۔ ایف آئی آر میں کہا گیا کہ نامعلوم افراد نے گولیاں چلائیں حالانکہ ہر فوٹیج میں صاف نظر آ رہا تھا کہ سکیورٹی پر مامور عملہ نے گولی چلائی ہے۔ ڈی سی قصور صاحبہ کا کہنا ہے کہ انکوائری ہو رہی ہے کہ کس نے گولی چلائی۔ ہمارے ملک میں انکوائریاں تو ہوتی رہتی ہیں۔ ہمارے موجودہ آئی جی صاحب فوج سے آئے ہوئے ہیں سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ تین دنوں کے اندر اندر اس کا کھوج لگائیں۔ لیکن آئی جی محترم نے کہا کہ ہم تین دنوں میں کھوج نہیں لگا سکتے۔ اب ا یسے کئی تین دن آئیں گے۔ آئی جی صاحب نے کہا ہے کہ پندرہ دن بھی لگ سکتے ہیں۔ لہٰذا کوئی ٹائم فریم نہیں دے سکتا۔ سابقہ ڈی پی او قصور ذوالفقار علی سے میری بات ہوئی ہے۔ جن کے دور میں تین چار کیس ہوئے تھے۔ شہباز شریف جہاں بھی جاتے ہیں گڑ بڑ ہونے پر وہاں کے انچارج کو معطل کر دیتے ہیں، معطل ہونا کوئی سزا نہیں ہے۔ کچھ عرصہ بعد وہ پھر بحال ہو جاتے ہیں۔ بس پوسٹنگ کسی اور جگہ ہو جاتی ہے۔ جو بھی افسر معطل ہوتا ہے تھوڑے عرصہ بعد بحال ہو جاتا ہے یہ کس قسم کی سزا ہے۔ انہیں تنخواہ بھی ملتی رہتی ہے۔ گھر بھی ان کے پاس رہتا ہے۔ بس معطلی میں دوستوں کے ساتھ خوش گپیاں اور انجوائے کرتے رہتے ہیں۔ کچھ رشتے داروں سے ملنے چلے جاتے ہیں کچھ پہاڑوں پر چلے جاتے ہیں۔ فرائض پر غفلت برتنے پر انہیں فارغ کر دینا چاہیے۔ سانحہ قصور کے وقت ڈی سی صاحب کی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنی سیٹ پر بیٹھتیں ان کی حفاظت کےلئے ایک مستعد عملہ موقع پر موجود تھا۔ احتجاجی مظاہرہ جتنا بھی بڑا ہو وہ ڈی سی اور بالخصوص خاتون پر حملہ نہیں کرتا۔ ان خاتون کے پیچھے وہ کون مضبوط شخص ہے جو انہیں سیٹ سے ہٹنے نہیں دے رہا جبکہ قصور کا امن و امان ختم ہو چکا ہے۔ ان کی سفارش کون کرتا ہے؟ اسی طرح قصور کے ایم پی ایز اور ایم این ایز جنہیں الیکشن میں مینڈیٹ دیا جاتا ہے کہ ا نہوں نے لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کرنی ہے۔ ایک ایم پی اے جب تاجروں کے ساتھ میٹنگ کےلئے آگئے تو وہاں ان کے خلاف نعرے لگے اور کتا کتا کہا گیا۔ یہ حضرات لوگوں کی پروٹیکشن کرنے سے عاری ہیں۔ ایک ایم پی اے صاحب ہیں جن کے بارے مشہور ہے کہ جو بھی مشتبہ شخص تھانے میں گرفتار ہوتا ہے وہ تھانے پہنچ کر اسے چھڑوا لیتے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی میں ہونے والے ہنگامے پر میں یہی مشورہ دونگا کہ ہماری سیاسی جماعتیں، تعلیمی اداروں میں بھی ا پنے بغل بچہ بنانے سے باز رہیں۔ جب آپ کسی سیاسی جماعت کی سٹوڈنٹ فیڈریشن تعلیمی اداروں میں بناتے ہیں اس کا مطلب ہے اس کی اصل باگ ڈور اس سیاسی پارٹی کے ہاتھ میں ہی ہوتی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر صاحب سے پوچھ لیتے ہیں کہ پنجاب یونیورسٹی کے ہنگاموں کے بارے وہ سیاسی تنظیموں کا کیا رول دیکھتے ہیں۔ میں پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو یقین دلاتا ہوں کہ میرا اخبار اور میرا چینل انہیں ہر قسم کے تعاون کےلئے تیار ہیں کیونکہ پنجاب یونیورسٹی ہمارے ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے اور یہ ادارہ تعلیم کے حوالے سے پورے ملک میں سب سے اہم ادارہ ہے۔ راﺅ انوار کا نام کراچی، ملیر کے حوالے سے اکثر خبروں کی زینت بنا رہتا ہے۔ کبھی ایم کیو ا یم کے ارکان کی گرفتاری کے حوالے سے اور کبھی ”را“ کے تعاون کے الزام میں گرفتار افراد کو یہ سامنے لاتے ہیں۔ کبھی اور بڑی بڑی گرفتاریوں کے سلسلے میں ان کا نام آتا ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ راﺅ انوار خود پولیس ہیں یا پولیس کا حصہ ہیں۔ پوری پولیس فورس ایک طرف اور راﺅ انوار ایک طرف۔ اب انہوں نے تفتیش کےلئے پیش ہونے سے ہی انکار کر دیا ہے۔ یہ کس قسم کا پولیس افسر ہے جسے کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔ کوئی سیاسی قوت اس کے پیچھے ہے۔ جو ہر بار اسے بچا لیتی ہے؟ راﺅ انوار اصل میں سندھ پولیس کے ”ڈان“ ہیں۔ کہتے ہیں کہ ان کے پیچھے آصف زرداری کا ہاتھ ہے۔ ان کے خلاف جو بھی تحقیقات شروع ہوتی ہے تھوڑے عرصہ بعد پراسرار طریقے سے وہ ختم ہو جاتی ہے کچھ تو ایسا ہے نہ جس کی پردہ داری کی جاتی ہے۔ڈی سی قصور سائرہ عمر نے چینل ۵ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں ضرور اس بات کی وضاحت کرنا چاہوں گی۔ سانحہ قصور کے بارے میں ہونے والی ہماری میٹنگ بہت اچھی رہی تھی۔ اس میں تقریباً50 سکولوں کے نمائندے میرے ہاں موجود تھے۔ ہم نے ”چائلڈ پروٹیکشن“ کے بارے میں بھی بات کی۔ میں نے ان سے کہا کہ ہم بچوں میں اعتماد سازی کےلئے بھی کام کریں۔ ان سے درخواست کی کہ بچوں کو اگر اس طرح گلیوں میں لے کر جائیں گے تو کوئی دہشتگردی کا واقعہ بھی ہو سکتا ہے اس لئے ہمیں بہت محتاط رہنا ہوگا۔ میٹنگ کے بعد جس قسم کا ردعمل ان کی طرف سے آیا وہ حیران کن تھا۔ اس سلسلے میں ایجوکیشن افسران سے آپ پوچھ سکتے ہیں۔ ان سکول مالکان نے ہمیں بہت اچھے اچھے مشورے بھی دئیے ہیں۔ ان کو بلانے کا مقصد صرف بچوں کو پروٹیکشن کے حوالے سے بات کرنا تھا۔ قصور سانحہ کے احتجاج کے وقت ہجوم نے دو مرتبہ ہم پر اٹیک کیا تھا، دوسرے اٹیک کے وقت ہم لوگوں نے اپنی پوزیشن چھوڑیں۔ تحقیقات جاری ہیں۔ منظر عام پر آتے ہی سب کچھ عیاں ہو جائے گا۔ نمائندہ خبریں قصور جاوید ملک نے کہا ہے کہ جس روز قصور کے طلبہ و طالبات نے زینب کی قبر پر شمع روشن کی۔ اگلے دن ہی ان سکولوں کے مالکان کو طلب کر لیا گیا۔ سکولوں کے پرنسپل اور ہیڈز نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں ڈرایا اور دھمکایا گیا ہے کہ آئندہ اس قسم کی حرکت نہیںکرنی۔ اگر ایسا کیا گیا تو آپ کا لائسنس ختم کر دیا جائے گا۔ زینب کے واقعہ سے قبل جو واقعہ رونما ہوا تھا اس وقت علی ناصر یہاں ڈی پی او تھے۔ ان کے دور میں 4بچیوں کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی۔ اور چاروں کو قتل بھی کر دیا گیا تھا۔ علی ناصر رضوی صاحب کے دور میں بچوں کے قتل پر ہنگامے شروع ہوئے تو انہوں نے ایک بندے مدثر حسین کو پکڑ کر جعلی پولیس مقابلے میں مار دیا۔ کہا گیا کہ یہ بچیوں کا قاتل تھا۔ اسے پولیس مقابلے میں مار دیا گیا ہے جب اس شخص کا ڈی این اے آیا تو وہ اس بچی سے میچ نہیں کر رہا تھا۔ ڈی پی اوز اور ڈی سی اوز کی تقرری کےلئے پہلے ا یک میرٹ بنا ہوا تھا۔ لیکن اب ان کی تقرری سی ایم صاحب خود کرتے ہیں۔ موجودہ ڈی سی صاحب کی طاقت کا اصل سبب یہ ہے کہ علاقے کے ٹھیکے ان کی منظور نظر ایم پی اے کے بندوں کو دے دئیے جاتے ہیں، الیکشن کا دور شروع ہو گیا ہے یہاں ایسے بندوں کو رکھا گیا ہے جو پارٹی کو الیکشن جتوا سکیں۔ مہر سلیم نے قصور سے چینل ۵ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ زینب کا واقعہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے پہلے بھی 11 سے بارہ کیسز ہو چکے ہیں انتظامیہ نے جتنے لوگوں کو پکڑنے کا دعوی کیا ہے ان کے ڈی این اے میچ ہی نہیں ہوئے ہیں۔ قصور کی صورتحال پر بچوں میں خوف و ہراس ہے۔ بچے باہر نکلنے سے ڈرتے ہیں بچیاں ہی نہیں بلکہ اب تو بچے بھی باہر نکلنے سے گھبرا رہے ہیں۔ ایم این اے اور ایم پی ایے کے پاس جب عوام جاتی ہے تو وہ بات تو سنتے ہیں لیکن کوئی کارروائی نہیں کرتے۔ وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر زکریا ذاکر نے کہا ہے کہ پنجاب یونیورسٹی میں چار سالوں سے ایک جھگڑے کی کیفیت چلی آ رہی ہے، پچھلے سال مارچ میں بھی ایک جھگڑا ہوا تھا، چھوٹے موٹے واقعات توہوتے رہتے ہیں، جب کوئی ادارہ سخت ایکشن نہیں لیتا تو وہاں اس قسم کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ آج کے واقعہ کے بعد پنجاب یونیورسٹی نے حکومت پنجاب کے ساتھ ملکر یہ فیصلہ کیا ہے کہ اب کسی قسم کی رعایت کسی کو بھی نہیں دی جائے گی۔ جن لوگوں نے ان واقعات میں حصہ لیا ہے ہم انہیں کریمنل سمجھتے ہیں۔ ان کے خلاف سخت قسم کی ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔ انہیں یونیورسٹی سے سسپنڈ کر دیا گیا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی ان عناصر کو سزائیں دلوائے گی۔ اس سے یونیورسٹی کا امیج خراب ہوتا ہے۔ قصور سے وحید جمال نے کہا ہے کہ راﺅ انوار پولیس میں اے ایس آئی کے طور پر بھرتی ہوئے تھے۔ انہوں نے پہلا پولیس مقابلہ کیماڑی کے اندر کیا۔ اب تک 424 پولیس مقابلوں میں یہ بندوں کو مار چکے ہیں۔ دو مرتبہ ان کے خلاف کارروائی ہو چکی ہے ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ بھی ان کے خلاف ایکشن لے چکا ہے۔ لیکن تھوڑے عرصہ کے بعد ہی یہ ملیر میں واپس آ کر تعینات ہو جاتے ہیں۔ ملیر ایک بہت بڑا علاقہ ہے۔ ایس ایس پی یہاں دو سال سے زیادہ کےلئے تعینات نہیں ہوتے۔ لیکن یہ راﺅ انوار ہی ہیں جو سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے نوٹس کے باوجود دوبارہ یہاں مقرر ہو جاتے ہیں۔ ان کے بارے مشہو ہے کہ یہ سیاسی طور پر بہت طاقتور ہیں ان کے تعلقات سیاستدانوں سے بہت قریبی ہیں۔ یہ ا ن کےلئے کام کرتے ہیں اس لئے یہ بار بار یہاں تعینات کر دئیے جاتے ہیں۔