تازہ تر ین

شاہد خاقان کہتے ہیں شہباز شریف اچھے وزیراعظم ثابت ہونگے ، اس کا مطلب نواز شریف آﺅٹ

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیاشاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیاشاہد نے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ کے پی کے پرویز خٹک شاید دنیا کے پہلے حکمران ہیں جو اقتدار میں ہونے کے باوجود کہہ رہے ہیں کہ ”میں نے ہاتھ کھڑے کردیئے ہیں۔ اب عاصمہ (بچی) قتل کیس میں کچھ نہیں کرسکتا۔ پہلے مجھے لگا کہ یہ خبر ہی درست نہیں لیکن پرویز خٹک کی طرف سے کوئی تردید سامنے نہیں آئی۔ کل میرا تمام دن ہی سپریم کورٹ میں گزرا ہے۔ ڈاکٹر شاہد مسعود والے معاملے پر عدالت نے ہمیں بلایا تھا یعنی زینب کیس کے سلسلے میں چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے کہا تھا کہ اس کیس میں معاونت کیلئے میں جرنلزم کے بھی بڑے لوگوں کو بلواﺅں گا۔ اس وجہ سے میں بھی عدالت میں صبح 10 بجے سے 3 بجے تک رہا۔ کے پی کے حکومت نے عاصمہ کیس پر کہا ہے کہ ہم لاتعلق ہیں ہم اس پر کچھ نہیں کرسکتے۔ یہ بچی کا قتل کیس ہے اس میں زیادتی بھی ہوئی ہے۔ کوئی حکومت کیسے کہہ سکتی ہے کہ ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ پنجاب حکومت کی طرف سے شہبازشریف نے کہا تھا کہ ہماری خدمات حاضر ہیں کیونکہ ایشیا کی بہترین فرانزک لیبارٹری لاہور میں موجود ہے۔ خبر یہ ہے کہ کے پی کے حکومت نے ڈی این اے کے کچھ نمونے لاہور بھیجے بھی ہیں۔ واقعہ میں تقریباً گیارہ سو ٹیسٹ کروائے گئے ہیں اگر کے پی کے حکومت بھی اس طرح تحقیقات کرے تو ملزمان گرفتار ہوسکیں گے۔ الیکشن میں فتح کس کو حاصل ہوگی اس کا اندازہ قبل از وقت کرنا ذرا مشکل ہوتا ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے آکر کہا کہ اگلا دور بھی ہمارا ہوگا۔ تو ان کے پاس کوئی حربہ ہوگا جس سے وہ الیکشن میں فتح یاب ہوسکتے ہیں۔ اس کے کئی طریقے ہوتے ہیں۔ کمپیوٹرائزڈ ریگنگ ‘ اثرورسوخ کا استعمال‘ پیسے کا استعمال یہ سارے ذرائع استعمال کئے جاسکتے ہیں۔ لیکن فری اینڈ فیئرالیکشن میں کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ فتح کس کی ہوگی۔ 1970ءمیں بھٹو کے الیکشن کے وقت لوگ ان کی گاڑیوں میں نکلتے تھے‘ چاول بھی ان کے کھاتے تھے لیکن جب نتیجہ آیا تو اس کے برخلاف تھا۔ اس وقت یحییٰ خان حکمران تھے۔ فوج کوئی سیاسی پارٹی نہیں تھی نہ اس نے اس میں حصہ لینا تھا۔ انہوں نے کوئی مداخلت نہیں کی اور لوگوں نے دھڑا دھڑ ووٹ دیئے۔ میاں نوازشریف کے بارے عدالتیں کیا فیصلہ کرتی ہیں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ موجودہ حالات کے مطابق جس میں میاں نوازشریف کا لہجہ بھی تلخ سے تلخ ہوتا جارہا ہے۔ ایک شہری نے عدالت میں میاں نوازشریف کے عدلیہ مخالف بیانات پر ایک پٹیشن دائر کی ہے۔ میاں نوازشریف نے ایک جلسے کے دوران کہا مجھے 5 ججوں نے نکالا اسی طرح مریم نواز کا بیان ہے کہ عدالت نے عمران خان کو کہا کہ تم سے کچھ نہیں ہوسکتا درخواست جمع کرواﺅ ہم نوازشریف کو نکالتے ہیں۔ الزام لگانا تو آسان ہوتا ہے لیکن اسے ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ یہ ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ نوازشریف کی نااہلی ایک سال کیلئے تھی‘ 5 سال کیلئے تھی یا تاحیات تھی۔ لگتا ہے اس میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ ہوسکتا ہے کہ نوازشریف کی نااہلی ختم ہوجائے لیکن اس کے چانسز کم نظر آتے ہیں۔ عدالتی فیصلے سے قبل کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ کرے گی وہ قانون بن جائے گا۔ اگر عدالت نے تاحیات نااہلی کا فیصلہ کیا تو وہ سیاست سے آﺅٹ ہوجائیںگے۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ آئندہ وزیراعظم شہبازشریف ہوں گے اس کا مطلب ہے کہ انہیں بھی یقین ہو چلا ہے۔ نوازشریف کیس میں‘ جے آئی ٹی نے جو کچھ بھی شواہد اور ثبوت اپنی طرف سے پیش کئے اور انہیں درست ثابت کیا۔ اس سے منی ٹریل سب سے بڑا ایشو تھا‘ جس کے سلسلے میں قطری خط سامنے آیا تھا۔ نہ تو قطری خط دینے والے شخص یہاں آئے نہ ہی اس خط پر تحقیقات سامنے آئیں۔ موجودہ عدالتی فیصلے میں موجود جج صاحبان کی موجودگی میں ممکن نہیں کہ وہ نااہل کو اب اہل قرار دے دیں۔ مشرف نے این آر او اس لئے کیا کہ آئین سے تجاوز ہوکر ان کے پاس اختیارات موجود تھے۔ وہ مارشل لا کی بنیاد پر آئے ہوئے تھے وہ سول منتخب صدر نہیں تھے۔ اس قسم کا این آر او نہ تو تاریخ میں پہلے آیا نہ ہی شاید آئے گا۔ اب وہ شخص خود باہر بیٹھ کر کہہ رہا ہے کہ یہ میری بڑی غلطی تھی۔ پنجاب کے وزیر قانون سے زیادہ طاقتور تو کوئی وزیر نہیں ہوسکتا ان کے پاس پولیس‘ سپیشل برانچ‘ انٹیلی جنس بیورو بھی ان کے پاس ہیں۔ فوج کے دو ادارے آئی ایس آئی ‘ ایم آئی ہیں۔ فوج کے لوگ ہی اس کے سربراہ ہوتے ہیں اس لئے اسے فوجی ادارہ ہی تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے دو بڑے شعبہ جات ہیں جو بیرون ملک اور اندرون ملک کام کرتے ہیں۔ ہماری ایجنسی آئی ایس آئی کی ریٹنگ بہت ہائی ہے۔ دنیا کی دیگر ایجنسیوں کے ساتھ ان کا موازنہ کیا جاسکتا ہے۔ سابق وزیراعلیٰ چودھری پرویزالٰہی نے کہا ہے کہ شہبازشریف کو یہ کریڈٹ نہیں لینا چاہئے کیونکہ یہاں فرانزک لیبارٹری تو میں نے بنوائی تھی۔ لیکن یہ بات ثابت ہے کہ شہبازشریف کی محنت اور فرانزک لیبارٹری کی جانچ کی وجہ سے عمران علی پکڑا بھی گیا۔ پنجاب کے وزیرقانون کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کے ذریعے تفتیش کا رخ بدلہ جارہا ہے سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایک اینکر پروگرام کرکے صوبائی حکومت کے نظام کو درہم برہم کرسکتا ہے؟ زینب کے ڈی این اے سے ثابت ہوگیا ہے کہ عمران علی ہی ایک ملزم ہے لیکن اس سلسلے میں پولیس مقابلے میں مارا جانے والا مدثر تو بے گناہ ہی مارا گیا۔ میرے اندازے کے مطابق ڈاکٹر شاہد کا یہ کہنا کہ اکیلا ملزم عمران علی ہی اس کیس میں ملوث نہیں ہے بلکہ دیگر ملزمان بھی ہیں یہ درست ہے۔ ایک نجی ٹی وی نے یہ خبر چلائی کہ عمران علی کے پچاس اکاﺅنٹ کی دستاویزات ہمارے پاس موجود ہیں میں نے فون کرکے پوچھا کہ اس نجی ٹی وی کا کوئی بیورو چیف میں موجود ہوگا پوچھ کر بتائیں کہ یہ درست ہے؟ انہوں نے بتایا کہ خبر ضرور چلی تھی لیکن بعد میں اس چینل نے اس کی تردید بھی چلا دی۔ ایک اور نجی ٹی وی ”بول“ نے بار بار یہ کہا کہ ملزم عمران کے 120 اکاﺅنٹ تھے۔ وزیر قانون پنجاب نے دونوں نجی ٹی وی کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔ میں نے ڈاکٹر شاہد سے کہا کہ اگر غلط خبر ہوگئی ہے تو آپ تسلیم کرلیں انہوں نے کہہ دیا کہ اگر میری خبر غلط ہو تو مجھے پھانسی دیدی جائے۔ چیف جسٹس صاحب نے جذبات میں آکر شاہد مسعود سے کہا کہ اگر آپ کی خبر جے آئی ٹی میں سچ ثابت ہوئی تو آپ کو سرٹیفکیٹ دوں گا۔ ورنہ آپ کو وہ سزا دونگا کہ قانون میں بھی نہیں ہوگی۔ بس انہوں نے کہہ دیا۔ ڈان اخبار کی خبر پر سرل المیڈا پر خوب شور شرابا مچا تھا۔ اس کے بارے آخر میں حکومت اور فوج دونوں نے کہہ دیا کہ خبر غلط تھی۔ کیا ڈان نے یہ نہیں کہا کہ شرجیل میمن کے گھر سے دو ارب روپے نکلے ہیں۔ شرجیل میمن نے دبئی سے کہا کہ لیگل نوٹس بھجوا دیا ہے فوراً۔ ڈان نے اس کی تردید چلا دی۔ انہوںنے چیف رپورٹر شاہد غزال کو فائیرکردیا۔ میں سنی سنائی بات پر یقین نہیں کرتا۔ خبر آنے کے بعد چھ مرتبہ اسے چیک کرتا ہوں کہ کہیں یہ غلط نہ ہو۔ پھر بھی غلط خبر چھپ جائے تو قانون کے مطابق فوراً وضاحت چھاپ دینی چاہئے۔ لیکن یہ بات کہ ڈاکٹر شاہد کے پاس کونسے کاغذات تھے۔ جس پر عدالت نے بھی بات نہیں کی اور نہ ہی کسی اور نے اس کا تذکرہ کیا اس پر ہم کل بات کریں گے۔ نمائندہ خبریں مردان محمد یعقوب نے کہا ہے کہ عاصمہ قتل کیس پر صوبائی حکومت کے پی کے پر بہت زیادہ تنقید کی جارہی ہے۔ وزیراعلیٰ پرویز خٹک عاصمہ کے گھر تقریباً چار پانچ روز کے بعد تشریف لائے تھے۔ علاقے کے جرگہ نے ان سے درخواست کی تھی کہ عاصمہ کے لواحقین کی مالی امداد کی جائے وزیراعلیٰ آئے لیکن کوئی مالی امداد کا اعلان نہ کیا۔ صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ پولیس کی تفتیش درست ہے۔ وزیراعلیٰ کہتے ہیں کہ میں پولیس کی کارکردگی سے مطمئن ہوں۔ کل بھی پولیس نے ایک اور واقعہ میں ملوث ایک شخص کو گرفتار کیا تھا لیکن عاصمہ کیس کا ملزم ابھی تک گرفتار نہیں ہوسکا۔ صوبے میں ہونے والے پے درپے واقعات نے پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کو پریشان کررکھا ہے۔نمائندہ خبریں جاوید ملک نے کہا ہے کہ ڈاکٹر شاہد کا یہ مو¿قف کے ملزم عمران کے 37 اکاﺅنٹس ہیں یہ تو حقیقت پر مبنی نہیں ہیں لیکن باقی حقائق جیسے عمران علی مین ملزم ہے۔ بچی کے والد نے الزام لگایا تھا کہ ایک سے زائد ملزمان اس میں شامل ہیں۔ ڈاکٹر شاہد کے پروگرام کے بعد اس کیس میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی لیکن سپریم کورٹ اور ادارے اس طرف توجہ ہی نہیں دے رہے کہ 11 اور بچیوں کے کیس کہاں ہیں۔ زینب تو ایک ماڈل بن گئی ہے۔

 


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain