تازہ تر ین

سکولوں میں جنسی تعلیم کا خوفناک نتیجہ ۔۔۔ 8لاکھ لڑکیاں نا جا ئزبچوں کی مائیں بن گئیں

لاہور،کراچی (نیااخبار رپورٹ) حکومت سندھ کی جانب سے چھٹی سے آٹھویں جماعت تک کے تعلیمی نصاب میں جنسی مواد شامل کرنے کی تیاری مکمل کر لی گئی ہے۔امریکہ اور برطانیہ سے امداد لینے والی این جی او” زندگی ٹرسٹ“ یہ نصاب تیار کر رہی ہے۔تعلیمی نصاب کے حوالے سے این جی اوز کا ایجنڈا مشکوک ہے۔ سندھ حکومت بیرونی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے نصاب میں تبدیلی کر رہی ہے۔ نصاب میں جنسی مواد کی شمولیت سے نہ صرف خاندانی نظام متاثر ہو گا بلکہ بچوں میں بے راہ روی بھی پھیلے گی۔ سابق چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد نے کہا کہ ”صرف مڈل ہی نہیں بلکہ چھوٹے بچوں کو ایسی تربیت دینی چاہئے کہ وہ اپنے قریبی رشتہ داروں کے علاوہ کسی اور کے قریب نہ جائیں۔ ہم کسی این جی اوز کو اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ ہمارا نصاب تعلیم بنائے۔ پاکستان میں این جی اوز کے ایجنڈے مشکوک ہیں۔ یہ این جی اوز بظاہر خوبصورت اور دلکش سلوگنز کے ساتھ سامنے آتی ہیں لیکن ان کے مقاصد پاکستان کی اساس کو ختم کرنا ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) خلیل الرحمن نے کہا کہ تعلیمی نصاب کے معاملے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں مادرپدر آزاد جنسی تعلیم کی ضرورت نہیں، بلکہ اسلامی اصولوں پر مبنی اسلامی تعلیم کی ضرورت ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس ، جسٹس (ر) خواجہ محمد شریف نے کہا کہ دینی جماعتوں کو خاص طور پر اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ کسی این جی او کو نصاب تیار کرنے کی ذمہ داری نہیں دینی چاہیے۔ ممتاز ماہر قانون احمد اویس ایڈووکیٹ نے کہا کہ غیر ملکی امداد سے چلنے والی این جی اوز کو ملک بھر میں کالعدم کر دینا چاہیے۔ کیونکہ وہ برائی کو بھلائی بنا کر پیش کر رہی ہیں۔ یہ ہمارے تعلیمی نظام کے ذریعے ہماری معاشرت کو مغربی معاشرت کی طرح کھوکھلا کرنا چاہتی ہیں۔ طارق اسد ایڈووکیٹ نے کہا کہ وہ اس خبر کا نوٹس لیتے ہوئے سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 184 کے تحت پٹیشن دائر کریں گے کہ کسی طرح ایک این جی او پاکستان کے نصاب تعلیم میں مداخلت کر رہی ہے اور اس این جی او کو کسی نے یہ ایجنڈا دیا ہے کہ وہ ملک کے تعلیمی اداروں میں اپنا نفوذ کرے۔ انہوں نے کہ بچوں کو اخلاقی تعلیم کی ضرورت ہے۔ جماعت اسلامی کے نائب امیر اسداللہ بھٹو کا کہنا تھا کہ ” سندھ حکومت کی جانب سے جنسی مواد کو نصاب کا حصہ بنانے پر ہمیں شدید تشویش اور تحفظات ہیں۔ بچوں سے زیادتی کے واقعات خالص سماجی مسئلہ ہے، جو حکومت کی نا اہلی کا نتیجہ ہیں مہتمم آل مدارس بورڈ آف ٹرسٹیز ہانگ کانگ کے مفتی محمد شعیب نے کہ ہانگ کانگ کے اسکولوں میں جنسی تعلیم کا سلسلہ موجود ہے لیکن یہاں کی سوسائٹی کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ یہاں بھی ریپ کیسز ہوتے ہیں۔ مفتی شعیب کا کہنا تھا کہ ” میں چند ماہ قبل آسٹریلیا گیا تھا، وہاں بھی تعلیمی اداروں میں جنسی نصاب ہونے کے باوجود ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ضرورت ایسے نصاب کی نہیں بلکہ بچوں کی تربیت کی ہے، جس تربیت کی بات قرآن کریم کرتا ہے۔ جنسی تعلیم سے خاندانی نظام مزید متاثر ہو گا“۔جامعہ الصفہ کے نائب مہتمم مفتی محمد زبیر کا کہنا تھا کہ جنسی تعلیم معاشرے کیلئے انتہائی خطرناک اور تباہ کن ثابت ہو گی۔ تعلیمی نصاب میں تبدیلی سے پہلے جامعہ الصفہ کے نائب مہتمم مفتی محمد زبیر کا کہنا تھا کہ جنسی تعلیم معاشرے کیلئے انتہائی خطرناک اور تباہ کن ثابت ہو گی۔ تعلیمی نصاب میں تبدیلی سے پہلے اس کے بھیانک اثرات کا ضرور جائزہ لینا چاہئے۔ مسلمانوں بالخصوص پاکستان کا مشرقی معاشرہ ایسی تعلیم کا ہرگز متحمل نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے بتایا کہ 1983 میں برطانوی میں اسکولوں میں جنسی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا گیا اور صرف 7 سال میں 8 لاکھ 73 ہزار نوجوان لڑکیاں نا جائز بچوں کی مائیں بنیں جن کی عمریں 11 سے 16 سال کے درمیان تھیں۔ کیا پاکستانی معاشرہ بے راہروی پر مبنی ایسی تعلیم کو قبول کر سکتا ہے۔ کیا جن ممالک میں جنسی تعلیم کو نصاب کا حصہ بنایا گیا، وہاں بچوں سے زیادتی کے واقعات ختم ہو گئے۔ انہوں نے بتایا کہ جون 2017ءمیں برطانوی دارالحکومت لندن میں این جی اوز کے تھنک ٹینکس کی ایک کانفرنس ہوئی، جس میں ماہرین نے کہا کہ ہمیں اپنے تعلیمی نصاب نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔جامعہ مظاہر العلوم کوٹ ادو کے مفتی عاصم فاروق کا کہنا تھا کہ نصاب میں جنسی تعلیم کی شمولیت سے زینب جیسے واقعات کی روک تھام نہیں ہو گی، بلکہ ایسے مزید واقعات رونما ہوں گے۔ مغرب و یورپ اس کا تجربہ کر چکے ہیں۔ ادارہ تعلیم القرآن والسنہ کے مہتمم مفتی شبیر احمد عثمانی کا کہنا تھا کہ جنسی تعلیم کو فروغ دینے کیلئے کارفرما عناصر کے پیچھے ایک گلوکار ہے، جس کا تعلیم سے کوئی تعلق نہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ نصاب میں کسی بھی مضمون کو شامل کرنے یا خارج کرنے کیلئے تعلیمی ماہرین کا چناﺅ کرے۔ جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا قطب الدین عابد نے کہا کہ تعلیم و تربیت کا ذمہ اسلام نے والدین کو ٹھہرایا ہے جنسی بے راہروی کو کنٹرول کرنے کیلئے شادیوں کو آسان بنایا جائے۔ عصری تعلیم کے ساتھ دینی علوم اور اخلاقی اقدار کو بھی فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ شبان غربا اہلحدیث کے رہنما اور اسلامی یکجہتی کونسل کے جنرل سیکرٹری علامہ عبدالخالق فریدی کا کہنا تھا کہ جنسی تعلیم اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اسلام بچوں کی دینی اخلاقی تربیت کا حکم دیتا ہے۔ واضح رہے کہ آئین آرٹیکل 31 جوکہ اسلامی طریق زندگی کے بارے میں بتاتا ہے، اس کے مطابق، نمبر پاکستان کے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کیلئے اور انہیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کیلئے اقدامات کئے جائیں گے، جن کی مدد سے وہ قرآن پاک اور سنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔ 2، پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں مملکت مندرجہ ذیل کے لیے کوشش کرے گی: (الف) قرآن پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قرار دینا، عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس کیلئے سہولت بہتم پہنچانا اور قرآن پاک کی صحیح اور من و عن طباعت اور اشاعت کا اہتمام کرنا، (ب) اتحاد اور اسلامی اخلاقی معیاروں کی پابندی کو فروغ دینا حکومت کی ذمہ داری ہے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain