تازہ تر ین

اسقاط حمل ،شادی کے بعد عورت مرد تعلقات ،ھم جنس پرستی کا فروغ ،شیطانی تنظیم کے گھناﺅنے اقدامات

ڈکار (ویب ڈیسک ) افریقی ملک سینیگال میں عوامی دباﺅ نے عالمی تنظیم فری میسن کے عزائم کو ذلت آمیز ناکامی سے دو چار کر دیا۔ گزشتہ ایک ماہ سے جاری عوامی احتجاج کے آگے بے بس ہو کر حکومت نے فری میسن کے سالانہ اجلاس کو منعقد کرنے سے روک دیا ہے۔ فری میسن کے اجلاس کے انعقاد کے مقامی آرگنائز ادارے نے فری میسن کی اعلی قیادت کو جلاس کی میزبانی سے معذرت کرتے ہوئے اطلاع دی ہے کہ سینیگال اب فری میسن کی سرگومیوں کے لئے مناسب نہیں رہا۔ عالمی تنظیم کے خلاف عوامی سطح پر نفرت بڑھ گئی ہے جس کا اظہار رواں ماہ پیبلک اداروں، تنظیموں اور عوامی حلقوں نے کر دیا ہے۔ رواں ماہ جنوری 2018ءکے آخری عشرے میں ڈاکار میں فیر میسن کا سالانہ اجلاس مقرر تھا جس میں دنیا بھر سے 600 فری میسن ممبران کی شرکت متوقع تھی جس میں فری میسن کے فرانس سے اہم ترین ذمہ داروں نے شرکت کرنی تھی۔ یہ اجلاس پورے افریق میں ہونے والا سب سے بڑا اجلاس تھا جس کے لئے سینیگال کے دارالحکومت ڈاکار کے لگژری ہوٹل فہد میں انتظامات کئے گئے تھے۔ فری میسن کے سالانہ اجلاس سے متعلق میڈیا پر تشہیر نہیں کی گئی تھیں لیکن اس کے باوجود اس کی اطلاعات عوامی حلقوں تک پہنچ گئی جس کے بعد عوامی سطح پر احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ڈاکار کے ہوٹل فہد کے مینیجر نے تقریب کی منسوخی کی تصدیق کر دی ہے۔ منیجر کے مطابق منسوخ ہو نیوالا اجلاس 26 واں اجلاس تھا۔انہوں نے بتایا کہ فری میسن کے اجلاس کے انعقاد کے خلاف سینیگال کی 60 اسلامک تنظیموں، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور عوامی حلقوں نے ایک ملک گیر مہم چلائی۔ ”اپنے اقدار کے بچاﺅ کیلئے ہم سب ایک ہیں“ کے عنوان سے ترتیب دی جانے والی مہم نے غیر متوقع اثرات مرتب کئے۔ اس سے قبل ماضی میں بھی فری میسن کے سالانہ اجلاسوں اور پروگراموں کی عوامی سطح پر مخالف کی جاتی رہی تا ہم اس حد تک کوئی مہم کامیاب نہیں ہوئی تھی۔ 16 جنوری کو ڈاکار میں بہت بڑا مظاہرہ ہوا جس میں مظاہرین نے انتظامیہ پر دباﺅ ڈال کر اجلاس منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔عوامی مظاہرین نے بتایا کہ فری میسن نے افریقی ممالک کی اقدار کو بری طرح سے نشانہ بنائے رکھا ہوا ہے۔ شادی کے بغیر مرد عورت تعلق، اسقاط حمل اور ہم جنس پرستی کی لعنت جیسی گھناﺅنی سرگومیوں کی راہ ہموار کی جا رہی ہے اور ان شیطانی اعمال کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ سینیگال کی پچانوے فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ ملک میں اسلامک تنظیمیں کافی حد تک مضبوط ہیں۔ اسلامک تنظیم ”جمرہ“ کے ایک ذمہ دار نے بتایا کہ فری میسن نے سینیگال میں اسلامی تعلیمات کے خاتمے کے لئے گزشتہ کئی سالوں سے مہم چلا رکھی تھی جس میں اسے خاصی کامیابی ملنے لگی تھی۔ 1975ءمیں سینیگال میں ایسے قوانین رائج ہوئے تھے جس کے باعث ناجائز تعلقات کو خاصی آزادی دی گئی ہے۔ 2013ءمیں ملک میں فری میسن کے دباﺅ پر ہم جنس پرستوں کے درمیان شادی کی اجازت دی گئی ہے۔ سینیگال میں فری میسن کے اجلاس کی منسوخی عالمی تنظیم کی جانب سے ابھی متبادل جگہ پر اجلاس کے انعقاد کا اعلان سامنے نہیں آیا۔ سینیگال میں فری میسن کے اجلاس کی منسوخی کا فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کچھ عرصہ قبل سینیگال کے سابق صدر عبداللہ واد نے ایک اخباری بیان میں فری میسن سے اپنے تعلق کا اعتراف کیا ہے۔ سابق صدر نے دعوی کیا کہ وہ اب فری میسن سے اپنی رکنیت ختم کرا چکے ہیں اور تنظیم سے ان کا کوئی تعلق باقی نہیں رہا۔ سینیگال کا شمار ان افریقی ممالک میں ہے جو ماضی میں فرانس کے زیر استعمار رہے ہیں۔ فرانسیسی اثر و رسوخ سے ملک ابھی تک آزاد نہیں ہوا۔ مسلمان آبادی کی اکثریت کے باوجود ملک مین لادین اور الحادی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ سینیگال کی آبادی ڈیڑھ کروڑھ کے قریب ہے لیکن یہ ملک دیگر افریقی ممالک کی طرح غربت زدہ ہے۔ 1960ءمیں فرانس سے آزادی حاصل کرنے کے بعد فری میسن اور فرانسیسی ادارے ملک میں غربت اور جہالت مٹانے کے دعوے کر رہے ہیں لیکن ملک میں غربت اور جہالت کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہے۔ سینیگال افریق کے ان ممالک میں ہے جہاں دینی مدارس کو غیر معمولی مقبولیت مل رہی ہے ملک میں واقع دینی مدارس میں 1 لاکھ 60 ہزار سے زائد بچے زیر تعلیم ہیں۔ مقامی ذرائع کا ماننا ہے کہ فری میسن کے خلاف حالیہ مہم کے پیچھے بھی حقیقی محرک دینی مدارس ہی ہیں۔ فری میسن کے ذیلی گروپوں نے سینیگال میں دینی مدارس کے خاتمے کے لئے گزشتہ کئی دہائیوں سے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کئے ہیں لیکن دینی مدارس کا خاتمہ ممکن نہیں ہو سکا ہے بلکہ رواں برس تو فری میسن کو منہ کی کھانی پڑ گئی۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain