تازہ تر ین

تحریک انصاف کے پی کے اسمبلی میں اکثریت کھو بیٹھی ، حقائق واضح ہوگئے

پشاور( شمیم شاہد ) خیبرپختونخوا میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف نے صوبائی اسمبلی میں اکثریت کھودی ہے جس کی بنیاد پر نہ صرف چند روز قبل غیر معینہ مدت تک ملتوی ہونے والے اجلاس میں کورم ایک اہم مسئلہ بن چکا تھا بلکہ اسی بنیاد پر عمران خان نے آئندہ مالی سال کے لئے بجٹ تخمینہ جات اسمبلی کے سامنے نہ لانے کا اعلان کیا ہے ۔ سینٹ کے انتخابات میں ووٹ بیچنے کے الزام میں عمران خان کی جانب سے نوٹسز کے جاری کرنے کے اعلان سے قبل 11 ممبران اسمبلی نے تو اکستان تحریک انصاف سے باقاعدہ طور پر چھوڑنے کا اعلان کیاہے جبکہ اپنے ہی ممبران اسمبلی اب پارٹی کی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے رہے ہیں ۔ اعداد و شمار کے مطابق سینٹ کے انتخابات کے وقت پاکستان تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی 60 تھے مگر اب یہ تعداد بکھر کر 50 سے بھی کم ہوگئی جبکہ مخلوط حکومت میں شامل جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے ممبران اسمبلی کی تعداد صرف سات ہے ۔ خیبرپختونخوا اسمبلی میں اراکین کی کل تعداد 124 ہے تاہم مذہبی اقلیت کے لئے مخصوص نشست پر بلدیو کمار کے حلف لینے کی وجہ سے ایک نشست خالی ہے تاہم ایوان میں حکمران جماعت کےلئے کم از کم 63 ممبران کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ابھی تک پاکستان تحریک انصاف سے علیحدگی یا بغاوت اختیار کرنے والوں میں ضیاءاللہ آفریدی ، جاوید نسیم ، دینا ناز ، نگینہ خان ، عبید اللہ مایار ، قربان علی خان ، زاہد درانی ، وجیہہ الزمان ، بابر سلیم اور امجد آفریدی شامل ہیں جبکہ 10 دیگر ممبران اسمبلی جن کو شوکاز نوٹسز جاری ہوئے ہیں میں فوزیہ بی بی ، نسیم حیات ، عارف یوسف، یاسین خلیل ، سمیع اللہ علیزئی ، سردار ادریس ، عبدالحق ، خاتون بی بی ، فیصل زمان اور معراج ہمایون شامل ہیں ۔ ان ممبران میں معراج ہمایون اور وجیہہ الزمان قومی وطن پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) سے علیحدگی اختیار کرکے پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے ۔ تاہم اس سال بالخصوص سینت کے انتخابات کے بعد جمعیت علماءاسلام (ف) کے فضل شکور ، قومی وطن پارٹی کے سلطان محمد خان اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ارباب وسیم نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا ہے مگر ان ممبران اسمبلی کی حمایت کے باوجود پاکستان تحریک انصاف صوبائی ایوان میں اکثریت حاصل نہیں کرسکتا ۔ تاہم پاکستان تحریک انصاف بالخصوص وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کی خوش قسمتی ہے کہ حزب اختلاف میں شامل جماعتوں میںاتحاد کا فقدان ہے جبکہ دوسری طرف موجودہ پارلیمان کا پانچ سال دور بھی مکمل ہونے کو ہے جس کی وجہ سے کوئی بھی سیاسی جماعت اس عرصے کےلئے اقتدار کے حصول پر توانائیاں صرف نہیں کرسکتی ۔ چند روز قبل غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی ہونے والے صوبائی اسمبلی کے اجلاس پر عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سردار حسین بابک نے وزیر اعلیٰ اور حکومت پر تنقید کی تھی اور اس نے الزام لگایا تھا کہ وزیر اعلیٰ صوبائی اسمبلی کو توڑنے کےلئے جواز ڈھونڈ رہے ہیں جبکہ دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنما اور عہدیداران اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کی اکثریت کھو جانے پر مکمل طور پر خاموش ہیں ۔ قومی وطن پارٹی کے صوبائی صدر اور سابق وزیر سکندر حیات خان شیرپاﺅنے خبریں کو بتایا کہ چونکہ حزب اختلاف میں شامل جماعتوں میں اتحاد ، اتفاق اور رابطوں کا فقدان ہے اس لئے موجودہ حکومت کے خلاف پارلیمانی سطح پر کوئی حکمت عملی وضع نہیں کی گئی ہے انہوں نے تصدیق کی کہ حکمران پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی مخلوط کو صوبائی اسمبلی میں اب اکثریت حاصل نہیں ہے اور اس حکومت کے تمام تر الزامات اب غیر جمہوری اور غیر اخلاقی ہیں سکندر حیات شیرپاﺅ نے کہا کہ ان کی کوشش ہے کہ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف مولانا لطف الرحمان سے رابطہ کرکے ایک اجلاس بلایا جس میں وزیراعلیٰ سے اعتماد کے ووٹ لینے کا مطالبہ کیا جائے پاکستان تحریک انصاف سے پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والے ممبر صوبائی اسمبلی اور سابق وزیر ضیاءاللہ آفریدی نے کہا کہ اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کی اکثریت ختم ہوچکی ہے اور اب وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینا چاہیے اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ اپوزیشن بہت جلد اسمبلی کا اجلاس بلانے کےلئے ایکوزیشن جمع کردیگی ۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شوکت علی یوسفزئی نے کہا کہ اسمبلی میں اکثریت ختم ہونے سے اب کوئی فرق نہیں انہوں نے کہا کہ اب صرف ایک مہینہ رہ گیا ہے جو بھی جماعت اکثریت حاصل کرے آجائے حکومت سنبھال لے تاہم انہوں نے واضح کیا کہ جو ممبران سینٹ کے انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کا شکار ہوئے ہیں ان کے خلاف کارروائی کی تعریف کرنا چاہیے سیاست میں خرید و فروخت کی لعنت کا خاتمہ ضروری ہے جس کے لئے عمران خان نے بروقت قدم اٹھایا ہے ۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain