تازہ تر ین

احسن اقبال پر حملے جیسا مکروہ فعل ، خدانخواستہ کسی اور سیاستدان کیساتھ بھی ہو سکتا ہے

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) نامور تجزیہ نگار چیف ایڈیٹر روزنامہ خبریں ضیا شاہد نے کہا ہے کہ وزیر داخلہ احسن اقبال پر قاتلانہ حملہ ہماری نااہل قائد رکھنے والی حکومت کی ناکامی ہے۔ چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں ویڈیو لنک کے ذریعے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیر داخلہ پر قاتلانہ حملہ انتہائی تشویشناک بات ہے جس پر تمام سیاسی جماعتوں نے شدید مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک سیاسی لیڈر پر حملہ کے بعد سیاسی جماعتیں خاموش رہیں کہ ٹھیک ہے مخالف پارٹی پر حملہ ہوتا رہے تو خدانخواستہ کسی کی بھی باری آ سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے ان کی گفتگو ہوئی جس میں وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ سیاسی حرارت بڑھتی چلی جا رہی ہے اور لگتا ہے کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان مخالفت کی فضا پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ انہوں نے شہباز شریف سے پرامن انتخابات اور سیاسی جماعتوں کو آزادی کے ساتھ الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دینے کی خواہش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ اللہ نے وزیر داخلہ احسن اقبال پر خاص کرم کیا ہے اور ان کے آپریشن کامیاب ہوئے ہیں۔ ہم سب کو ایسے واقعات کی پرزورمذمت کرنی چاہئے اور ایسے حالات میں افہام و تفہیم کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر داخلہ احسن اقبال پر قاتلانہ حملے کے مجرم کا تعلق تحریک لبیک سے ہونے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ تحریک لبیک کے سربراہ خادم حسین رضوی نے اس عمل سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ مگر دوسری جانب چینل ۵ کے پروڈیوسر نے بھی فوٹیج دکھائی ہے جس میں حملہ آور کی موٹر سائیکل پر تحریک لبیک کی نیم پلیٹ لگی ہوئی ہے۔ ضیا شاہد نے تحریک لبیک کے سربراہ خادم حسین رضوی اور دیگر علماءکرام سے گزارش کرتے ہوئے کہا کہ مذہبی انتہا پسندی کو اس نقطہ تک نہ لے جایا جائے کہ لوگ ایک دوسرے کو مارنے پر اتر آئیں۔ انہوں نے کہا کہ رسول اکرم کی حرمت ہم سب کو جان سے زیادہ عزیز ہے۔ حضور رحمة اللعالمین تھے نہ کہ صرف مسلمانوں کے لئے رحمت تھے۔ حکومت کی کوتاہی پرافہام و تفہیم کے ذریعے ازالہ کروایا جانا چاہئے نہ کہ اشتعال انگیز بیان دیئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیر داخلہ احسن اقبال دینی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی والدہ کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا۔ اور میں نے احسن اقبال کو کبھی خلاف دین یا اخلاقیات کے خلاف نہیں دیکھا۔ انہوں نے کہا کہ احسن اقبال پر حملہ کے بعد تحریک انصاف کے رکن ابرارالحق جو کہ احسن اقبال کے مقابلہ میں ایم این اے کا الیکشن ہارے تھے نے مجھے فون کیا اور کہا کہ میں نے احسن اقبال کو پیش کش کی کہ انہیں ایسی حالت میں لاہور لے جانے کی بجائے میرے ہسپتال میں بہترین ڈاکٹروں اور میری نگرانی میں علاج کروایا جائے۔ جس پر انہیں خراج تحسین پیش کرنا چاہئے۔ پروگرام کے آخر میں اصغر خان کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت میں سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ اور اسلم بیگ کی نظرثانی کی درخواستیں مسترد ہونے کے سوال پر ضیا شاہد کا کہنا تھا کہ اصغر خان نے رِٹ دائر نہیں کی تھی بلکہ سپریم کورٹ کے سربراہ کو خط لکھا جس میں آئی ایس آئی کے ذریعے سیاستدانوں کو پیسے دیے جانے پر سپریم کورٹ سے تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے بطور سینئر سیاستدان اصغر خان کے خط کورٹ کا درجہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ اصغر خان بہت شریف آدمی تھے اور سابق وزیراعظم محمد نوازشریف نے بھی سب سے پہلے اصغر خان کی پارٹی تحریک استقلال کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا تھا جس کے متعلق عوامی تحریک کے سربراہ شیخ رشید اکثر مذاق میں کہا کرتے ہیں کہ نواز شریف کو گوالمنڈی سے اتنے تھوڑے ووٹ ملے تھے۔چیف ایڈیٹرخبریں ضیا شاہد نے اتوار کے توز عمران خان سے بنی گالا میں ہونے والی ملاقات کے حوالہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرے عمران خان سے بڑے سوشل تعلقات ہیں۔ انہوں نے شوکت خانم بڑی کامیابی سے بنایا اس میں بھی میں نے بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور میں نے ان کی پبلسٹی میں ان کی چندہ مہم میں بھی حصہ لیا تھا۔ پھر میرا خیال تھا کہ اس وقت ہمارا خیال تھا ہمارے دوست حسن نثار کا بھی خیال تھا اس وقت اور ہمارے اور بہت سے دوستوں کا بھی خیال تھا کہ مجھے ڈاکٹر نوشیرواں صاحب ملے، یہ وہ پہلے ڈاکٹر تھے جنہوں نے لاہور کا کینسر ہسپتال بنایا تھا اور وہ بھی اب امریکہ میں ہیں لیکن یہ پشاور کا ہسپتال بھی انہی کے زیر نگرانی بن رہا ہے تو ہم سب کی خواہش تھی کہ عمران خان نے آگے چل کر سیاست میں کیا یہ سب جانتے ہیں میں اس پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتا۔ میرا تعلق بھی تحریک انصاف سے بھی بطور پارٹی نہیں ہے میں تو ان کے پروگرام کا حامی ہوں کہ واقعی اس ملک میں واقعی صاف ستھری انتظامیہ اور صاف ستھری حکومت ہونی چاہئے۔ ان کی پہلی سیاسی تقریر میں نے لکھی تھی ان کا پہلا فنکشن لاہور میں نے کروایا تھا میرے دوست حسن نثار نے پارٹی کا نام تحریک انصاف رکھا تھا۔ حسن نثار نے ہی ان کا منشور بنایا تھا ہم سب نے بڑی خواہشوں سے بڑی امیدوں سے انہیں سیاست میں اتارا تھا پوری رات وہ میرے دفتر میں خبریں کے دفتر میں ہم بار بار ان کی تقریر تیار کر رہے تھے صبح 6 بجے وہ فارغ ہو گئے 11 بجے ہالیڈے ان ہوٹل میں جا کر کہا کہ میں آج سے سیاست میں حصہ لے رہا ہوں میں یہ سمجھتا ہوں کہ میں نے کل انہیں ایک بات پر خراج تحسین پیش کیا دیکھیں عمران خان کے بہت سے دیوانے ہیں بہت سارے پرستار ہیں لیکن بڑے مخالف بھی ہیں۔ ہمارے ن لیگ کے لوگ ان کو بُرا بھلا سمجھتے ہیں ان کو دھرنوں والے کہتے ہیں۔ اب دلچسپ بات ہے کہ پاکستان کے اخبارات کا مطالعہ کرنے والوں کو دیکھنا چاہئے کہ ان کے مخالفین نے عمران کا لفظ بھی استعمال کرنا چھوڑ دیا ہے ان کو عمران سے چڑ ہے اور ان کو انہوں نے نیازی صاحب کہنا شروع کر دیا ہے اور یہ نیازی صاحب کا مطلب ہے اور عبداللہ نیازی جو ڈھاکہ میں پاکستان کی افواج کی طرف سے یہ جنرل نیازی کے نام سے جن کو ٹائیگر نیازی کہا جاتا تھا میں یہ سمجھتا ہوں کہ سب کو حق حاصل ہے باتیں کہنے کا۔ لیکن ہم نے کچھ باتیں بھی تازہ کیں۔ ان کا ہمیشہ ایک چھڑا خانہ لگا رہتا تھا ہمیشہ 100، 50، 150 بندے ہمیشہ وہاں ہوتے تھے۔ لیکن کل میں نے دیکھا کہ بڑا نظم و ضبط تھا گھر میں۔ میں نے ان کو مبارکباد دی انہوں نے ساری عمر، یہ ان کی نیک نیتی ہے کہ انہوں نے مجھے محبت سے کہا کہ ضیا صاحب آپ مجھ سے بڑے ہیں اور ہمیشہ مجھے بھائیوں کی طرح رکھا۔ جس بات پر میں نے خراج تحسین پیش کیا۔ میں نے کہا یار عمران آپ نے بڑا کمال کر دیا کہ اٹھارہ 20 سال آپ کو سیاست میں جتنی مار آپ کو پڑی آپ یقین کریں پہلے ان کو سیٹ نہیں ملتی تھی، سیٹ ملی تو صرف ایک، ایک سیٹ کے اسمبلی میں رہے۔ لیکن یہ سمجھتا ہوں کہ کرکٹر ہونا ان کے کام آ گیا جس طرح کرکٹ کے آخری میچ یادگار ہیں جس میں آخری گیند تک وہ ہمت نہیں ہارتے تھے۔ ایک دفعہ تو جاوید میانداد نے آخری بال پر چھکا لگایا تھا اور پاکستان بھارت سے میچ جیت گیا تھا۔ اسی طرح ورلڈ کپ میں بھی عمران خان مشکل ترین حالات میں آخر وقت تک انہوں نے صبر سے گیم کھیلی۔ اگر عمران کرکٹ کا کھلاڑی نہ ہوتا تو میں ایک دو سال، چار سال، سال انسان مایوس ہو جاتا ہے وہ سیاست چھوڑ دیتے۔ اپنے گھر میں جا کر بیٹھ جاتے، کسی اور سیاسی پارٹی میں شامل ہوجاتے۔ یہ عمران خان کا اندر کا کھلاڑی ہے یہ وہ وکٹ پر کھڑا ہوا سمجھتا ہے کہ یہ کہتا ہے ہار رہا ہے۔ بظاہر لگ رہا ہے اس لی ٹیم پٹ رہی ہے لیکن وہ آخری گیند تک اپنے ہوش و حواس قائم رکھتا ہے۔ میں عمران خان کو کم از کم کریڈٹ دوں گا کہ وہ ہمت نہیں ہارا۔ کوئی مائی کا لعل۔ میں نے بڑے ملکوں کے سیاست دان دیکھے ہیں لیکن میں نے دیکھا کہ 18 سال تک، 20 سال مار کھاتا۔ یا پھر مسلسل ناکام ہوتا رہا ہو وہ سیاست نہ چھوڑ گیا ہو۔یہ جو اس کی طبیعت کا ضدی پن ہے۔ اس کی والدہ نے ایک دفعہ مجھے کہا۔ ان کو ٹخنے کا فریکچر ہو گیا تھا۔ میں جنگ اخبار میں تھا ہم ہر چوتھے، پانچویں دن ان کے گھر پر جاتے تھے ان کی والدہ شوکت خانم حیات تھیں اور بڑی اچھی سادہ سی خاتون تھیں بڑے پیار سے کہتی تھیں یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ چائے پئے بغیر جاﺅ۔ وہاں سے ہمیں لندن ان سے فون پر بات کرواتی تھیں اور وہ کہتی تھیں کہ میرا بیٹا ٹھیک ہو جائے گا۔ میں نے کہا خالہ جی آپ کو کیسے پتہ ہے ٹھیک ہو جائے گا۔ تو ان کی والدہ نے مجھے کہا کہ ضیا شاہد صاحب بچپن سے میں اس کو جانتی ہوں وہ اتنا ضدی ہے کہ وہ یہاں کہہ کے گیا تھا کہ میں ٹھیک ہو جاﺅں گا جسے پتہ ہے وہ لڑتا رہے گا اس لڑائی سے۔ وہ بھی ایک زبردست بات ہے کہ لوگوں نے اس کریکٹر کو سٹڈی نہیں کیا میں اس کو بہت جانتا ہوں لیکن وہ شخص ہے لوگ مایوس ہو چکے تھے جس کے ٹخنے سے لے کر گھٹنے تک درمیان میں ہڈی ٹوٹ چکی ہو وہ کیسے دوبارہ کھیل سکے گا تو پھر اگر وہ کھیلے گا تو بھی بالنگ کیسے کر سکے گا ٹھیک ہے اس نے ٹرانسفر کیا اپنے آپ کو اور بیٹسمین ہونے پر اس نے زیادہ توجہ دی لیکن اس نے بالنگ چھوڑی نہیں۔ وہ فاسٹ باﺅلر تھا۔ تیز دوڑ کر آتا تھا۔ اب تیز دوڑ نہیں سکتا تھا میڈیم پیس باﺅلر بن گیا لیکن اس نے ہمت نہیںہاری، اس طرح 18 سال اتنی پٹائی نے اس نے دیکھی ہے میں اس کو اب بھی خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ یہ انتہائی مار کوئی نہیں کھا سکتا۔ اس کے بارے میں جتنے لوگ کیلکولیشن کرتے ہیں کہ ڈر جائے گا بھاگ جائے گا۔ ایک تو وہ ڈرے گا نہیں۔ اس سے غلطی ہو سکتی ہے فرشتہ وہ کوئی نہیں ہے۔ ایک وہ کرپٹ نہیں وہ پیسے نہیں کھاتا دوسری بات یہ ہے جتنا کنوکشن عمران خان میں ہے میں نے پاکستان کے کسی سیاستدان میں اتنا حوصلہ اتنا اعتماد نہیں دیکھا۔ وہ پاگل پن کی حد تک خوبی ہے جو بات اس کے دماغ میں آ جاتی ہے وہ لڑ جائے گا مر جائے گا اس کو چھوڑے گا نہیں۔ چنانچہ میں نے اس کے بڑے مخالف سے جب وہ کہہ رہا تھا اس کے پیسوں کی باتیں چل رہی تھیں کسی نے اس کو اتنی آفر کر دی، کسی نے اتنا لالچ دیا۔ میں نے کہا وہ کوئی کسی طرح اس طرف نہیں آ سکتا۔ کل کو سنگل مجارٹی پارٹی لے یا نہ لے۔ لیکن آپ دیکھتے نہیںالیکشن کے قریب کون اپنے 20 لوگوں کو نوٹس دیتا ہے پارٹی سے نکالتا ہے۔ صرف عمران یہ کام کر سکتا ہے۔ بغیر اس بات کو سوچے کہ اس کو نقصان ہو گا۔ جس پر ڈٹا رہتا ہے یہ اس کا کریڈٹ ہے۔ نوازشریف کے بعد شہباز شریف کے پیچھے پڑوں گا۔ میں ثابت کروں گا کہ شہباز شریف نے نواز شریف سے زیادہ کرپشن کی ہے۔ میں نے کہا کہ کوئی تو پارٹی چھوڑ دو۔ کل کو اتحاد ہونے ہیں۔ اس کی سوئی اس پر پھنسی ہے کہ آصف زرداری نے بڑے پیسے کمائے ہیں۔

 


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain