لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کیس میں ہمارا قانون آڑے آیا کہ لواحقین کو خون بہا دے کر رضا مند کر سکتے ہیں۔ دوسرے ممالک میں یہ قانون رائج نہیں۔ اس واقعے پر امریکہ کو موردِ الزام ٹھہرانے کے بجائے اپنے قوانین کا جائزہ لینا چاہئے۔ کرنل جوزف والا واقعہ ٹریفک حادثہ تھا جسے ایک اتفاقی امر سمجھا جاتا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کیس میں اس وقت کوشش کی ہوتی تو اسے روکا جا سکتا تھا۔ ریمنڈ ڈیوس کے حوالے سے اب خورشید قصوری بھی کہہ رہے ہیں کہ اب پتہ چل رہا ہے کہ وہ سفارتکار نہیں تھا۔ امریکہ نے کہہ دیا کہ سفارتکار ہے۔ اس وقت کی حکومت نے بھی تصدیق نہیں کی۔ اب پتہ چلا کہ وہ حساس اداروں کا جاسوس تھا جسے یہاں بھیجا گیا تھا، سفارتکار نہیں تھا۔ ہمارے ملک میں چونکہ خون بہا جائز ہے۔ امریکہ نے نہ صرف ورثاءکو پیسے دیئے بلکہ خاندان کو ہی غائب کر دیا۔ ویزے دے کر امریکہ یا کسی دوسرے ملک میں جگہ دے دی۔ حدیث بھی ہے کہ ”غربت انسان کو کفر کے قریب لے جاتی ہے۔“ غریب کو ڈالروں میں بے تحاشہ پیسے دیں تو ظاہر ہے وہ قبول کر لیں گے۔ اگر ہماری قوم زندہ قوم ہوتی اور کہتی کہ اگر تمہیں پیسے چاہئیں تو ہم چندہ اکٹھا کرتے ہیں لیکن امریکہ کے پیسے اس کے منہ پر مارو اور کہو کہ قتل کا انتقام لیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نوازشریف جب پہلی دفعہ آئے تو ”قرض اتارو، ملک سنوارو“ کی مہم چچلائی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ امریکہ و برطانیہ میں میرے بھی بڑے دوستوں نے بہت سارے پیسے دیے تھے کہ پاکستان کا قرض ختم کریں۔ شاید کسی وقت یہ بات بھی سامنے آئے کہ کتنے پیسے اکٹھے ہوئے تھے؟ کیا وہ واقعی قرض اتارنے کیلئے خرچ ہوئے؟ لگتا ہے کہ وہیں کہیں ان کے اکاﺅنٹ میں جمع ہو گئے تھے، اسی لئے آج ہر دوسرے شخص کی آف شور کمپنیاں ہیں۔ اپوزیشن و عقلمندوں کو چاہئے کہ اس کی تحقیقات کروائیں، کیا وہ رقم سٹیٹ بینک کے ذریعے پاکستان آئی تھی؟ قرض کی واپسی کے لئے اس میں سے کتنا خرچ ہوا؟ کتنے قرضے کم ہوئے تھے؟ انہوں نے کہا کہ کہتے ہیںکہ 15دنوں میں نگران حکومت آ جائے گی۔ شاہد خاقان عباسی اپنے آخری چند دنوں میں عدل و انصاف کی توہین کر کے اپنی پوزیشن خراب کر رہے ہیں۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں فوج کو خوش کرنے کے لئے نوازشریف کا بیان مسترد کرتے ہیں اور پھر آدھے گھنٹے میں نوازشریف سے جھڑکیں کھا کر اپنے بیان سے مکر جانے ہیں۔ اجلاس میں کیوں نہیں کہا کہ نواز بیانیہ ٹھیک ہے؟ آپ وزیراعظم ہیں، ہر تیسرے دن کہتے ہیں کہ نوازشریف میرا لیڈر ہے، اگر لیڈر ہے تو استعفیٰ کیوں نہیں دیتے؟ وہ نااہل سابق وزیراعظم ہیں ان پر مالی بدعنوانی کے مقدمات چل رہے ہیں۔ وہ تاحال کوئی منی ٹریل نہیں دے سکے، شاہد خاقان عباسی اپنی 15 دن کی وزارت عظمیٰ کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں۔ پی آئی اے کا بیڑہ غرق ہو چکا ہے، روزانہ 3,2 پروازیں کینسل ہوتی ہیں۔ خبر شائع ہو چکی ہے کہ پی آئی اے کو گیس و تیل نہیں دیا جا رہا کیونکہ پچھلے پیسے نہیں دیے گئے۔ ایک ہی فضائی کمپنی ایئر بلیو ہے جس کے مالک وزیراعظم ہیں۔ پچھلے ایک ہفتے کا شیڈول دیکھ لیں پی آئی اے کی کتنی پروازیں منسوخ ہوئیں جبکہ ایئر بلیو میں سیٹ نہیں مل رہی۔ لوگوں میں احساس پیدا ہو رہا ہے کہ شاید شاہد خاقان عباسی نے پی آئی اے خریدنی تھی، مطلب کہ صرف 25 فیصد رقم دینی تھی وہ بھی پتہ نہیں دیتے یا نہیں۔ اخبار میں چھپ چکا ہے کہ دبئی اسلامک بینک 10 لاکھ روپے میں خریدا گیا اور اسے چلانے کے لئے سٹیٹ بینک نے 20 ارب روپے قرضہ دے دیا۔ وزیراعظم، وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل کو یہ چوری نظر نہیں آتی۔ پارلیمنٹ خاموش ہے۔ کسی ایک مخبر نے جواب نہیں مانگا۔ ملک میں لوٹ مار اتنی ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہاں سے شروع کہاں ختم ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف کے قومی کمیشن بنانے کی تجویز سے متفق ہوں لیکن اے پی سی میں اس کی منظوری لیں۔ حکومت کے کسی تحقیقاتی کمیشن پر عوام اعتماد نہیں کریں گے۔ سب جانتے ہیں کہ آپ کی حکومت فراڈ و غبن کو تحفظ دے رہی ہے۔ وزیراعظم صاحب آپ پر خود مالی بدعنوانی کے کیسز ہیں۔ چاہیں تو شیخ رشید سے تفصیل لے لیں۔ سپریم کورٹ میں آپ کے خلاف ایئر بلیو میں جعلی ڈگری کیس چل رہا ہے۔ پنڈی میں ایئربلیو کا جہاز گر کر تباہ ہوا تھا، شاہد خاقان عباسی پر الزام ہے کہ جعلی ڈگری والے پائلٹس، بغیر تربیت جہاز چلا رہے تھے۔ سپریم کورٹ نے پوچھا ہے کہ ایئربلیو میں 22 یا 26 جعلی ڈگری والے پائلٹس کس طرح بنے پھرتے ہیں۔ اس کا جواب کون دے گا۔ وزیراعظم صاحب آپ کو جواب دینا پڑے گا۔ اس کا بھی جواب دینا پڑے گا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں کیسے اپنے بیان سے مکر گئے اور کہا کہ مِس رپورٹنگ تھی اگر اخبار کی غلطی تھی تو کیا آپ نے ڈان اخبار کے ایڈیٹر سے کہا کہ اس غلطی کو درست کر کے شائع کیا جائے؟ اگر آج جواب نہیں دیں گے تو 20 دن بعد دیں گے ورنہ آپ کے خلاف رٹیں ہوں گی۔ ڈان لیکس کی دفعہ بھی اخبار سے استفسار نہیں کیا گیا تھا۔ وزیراعظم عوام کو بے و قوف بنا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بڑی تشویشناک بات ہے کہ نواز بیانیہ جس کو بھارتی میڈیا نے خوب اچھالا، اب خبر پڑھی ہے کہ بھارت اس کی رپورٹ امریکی کانگریس کو بھیج رہا ہے۔ گویا بھارت کی طرف سے یہ بتایا جا رہا ہے کہ ہم جو پاکستان پر الزام لگاتے تھے کہ وہ انڈیا میں دہشتگردی کروا رہا ہے۔ اب پاکستان کے سابق وزیراعظم اس کی تصدیق کر رہے ہیں۔تجزیہ کار نیویارک محسن ظہیر نے کہا ہے کہ پاک بھارت کے درمیان جو تنازعات پائے جاتے ہیں۔ ممبئی حملہ منفرد کیس ہے جس میں امریکہ کی نہ صرف خاص دلچسپی رہی بلکہ پاکستان پر دباﺅ رہا کہ ملوث لوگوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ امریکہ نے عالمی سطح پر پاکستان کی ایک تنظیم اور اس کے سربراہ حافظ سعید کو کالعدم قرار دینے اس کی سیاسی سرگرمیوںپر پابندی عائد کرنے کے سلسلے میں اقوام متحدہ کی سطح پر بھی اپنا کردار ادا کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب سے ممبئی حملہ ہوا پاکستان کہہ رہا تھا کہ ہم اس میں ملوث نہیں، الزامات کے حوالے سے جو پاکستان پر دباﺅ آتا تھا اسے اور امریکی موقف کو بھی مسترد کرتا رہا۔ نواز بیانیے سے پاکستان پر امریکی دباﺅ مزید بڑھانے کے لئے مواد فراہم کر دیا گیا۔ پاکستان کی پوزیشن کمزور کرنے کی کوشش کی گئی ہے پاکستان کے لئے گڑھے مردے کو اکھاڑا گیا اور ایک بار پھر ملک کو عالمی و سفارتی سطح پر چیلنجنگ پوزیشن میں لایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انڈین لابی امریکہ میں سب سے زیادہ متحرک ہے۔ ان کے لئے یہ ایک سنہری موقع ہے وہ اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوش کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں حکومت اپنی مدت پوری کرنے کو ہے اور ان حالات میں امریکہ میں نامزد کردہ سفیر علی جہانگیر صدیقی کی تقرری کی منظوری دے دی گئی ہے۔ چند روز میں وہ اپنا عہدہ سنبھالیں گے۔ ایسے وقت میں عہدہ سنبھال رہے ہیں جب پاک امریکہ تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں اور پاکستانی حکومت بھی اپنی مدت پوری کر کے ختم ہونے والی ہے۔سابق وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری نے کہا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس نے گولی چلائی تھی وہ سفارتکار نہیں تھا اب پتہ چلا ہے کہ وہ جھوٹ بولا گیا تھا اور وہ کوئی سفارتکار نہیں تھا لیکن کرنل جوزف امریکہ کے ملٹری اتاشی تھے۔ یہ سفارتکار تھے جب جہاز آیا تو اس وقت انہیں جہاز میں یہ کہہ کر کہ ان کا نام بلیک لسٹ میں ہے ایف آئی اے نے ڈالا ہوا ہے شاید اس کا مجھے جو سمجھ آئی ہے کہ بیک چینل پر بات چیت ہو رہی ہو گی کیونکہ ان کے سفارتکار ہونے پر تو کوئی شبہ نہیں تھا اور انہوں نے سرخ بتی توڑی تھی قانون کے خلاف لیکن انہوں نے جان بوجھ کر جو آپ نے ریمنڈ ڈیوس کا اشارہ کیا تھا ویسا کیس نہیں تھا۔ پاکستان نے جو پہلے ان کو نہیں جانے دیا وہ ایک غصہ تھا پاکستانی قوم میں کہ جی انہوں نے جس قسم کی پاکستان کے ڈپلومیٹس پر پابندیاں لگائی ہیں واشنگٹن میں اس کے جواب میں ہمارے لوگوں نے بھی ویسے ہی پابندیاں لگائی ہیں امریکی ڈپلومیٹس پر۔ جہاں تک ان کا معاملہ ہے میری ذاتتی رائے ہے کہ انہوں نے گورنمنٹ آف پاکستان فارن آفس یا ملٹری، کیونکہ یہ ملٹری اتاشی تھے ہو سکتا ہے جی ایچ کیو اور پینٹا گون کی آپس میں کوئی بات چیت ہوئی ہو اور شاید پاکستانی کی طرف سے یہ سمجھا گیا ہو کہ امریکہ کو جو اشارہ دینا تھا اپنے غصے کا باوجود اس کے کہ یہ سفارتکار تھے ان کو نہیں جانے دیا گیا۔ پہلے ان کا نام بلیک لسٹ کر دیا گیا۔ یہی مناسب سمجھا گیا ہو گا فوج کی طرف سے گورنمنٹ کی طرف سے کہ جتنے حالات خراب ہیں امریکہ کے ساتھ وہ کافی خراب ہیں۔ ان کو اس بنیاد پر رکھا جائے کہ ڈی پراسٹی کی بنیاد پر ہم نے کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ اس کو اس پیرائے میں دیکھیں گے تو قانون سے زیادہ سمجھنے میں آسانی ہو جائے گی۔ ٹھیک ہے کہ ہیں یہ ڈپلومیٹ یہ تو پاکستان میں پہلے دن سے کسی نے کہا پہچانیں کہ ڈپلومیٹ نہیں ہیں۔
ضیا شاہد نے سوال کیا کہ اگر کوئی سفارتکار ہو تو کیا اس کو یہ استثنیٰ حاصل ہے کہ جس ملک میں وہ متعین ہے اگر لا آف دی لینڈ کی وہ خلاف ورزی بھی کرے تو بھی کیا جو مدر کنٹری ہے وہ اس کو بنیاد پر کہ یہ سفارتکار ہے اس پر کیس نہیں چل سکتا وہ اس کو واپس منگوا سکتا ہے۔ خورشید محمود قصوری نے جواب دیا کہ آپ کو یاد ہو گا کچھ سال پہلے بھارت کی ایک سفارتکار واشنگٹن میں تھی اور اس نے ملازمہ گھر پر رکھی ہوئی تھی اس کو امریکی قانون کے مطابق تنخواہ نہیں مل رہی تھی۔ جب اس کو گرفتار کیا گیا شاید غیر مناسب طریقے سے اس کو سرچ کیا گیا تو بھارت میں بہت واویلا ہوا تو امریکہ نے کہا کہ ہم اپنے قانون کے مطابق کر رہے ہیں لیکن جب زیادہ شور مچا تو اس عورت کو واپس جانے دیا گیا۔ یعنی شور تو مچایا میرا خیال ہے پاکستان نے بھی یہ سوچا کہ ہم نے شور تو مچا لیا ان کے جہاز کو واپس کر دیا ہے لیکن ایک حد سے آگے بڑھ کر۔ آپ نے جو جنرل پرنسپل پوچھا ہے تو ایسا کوئی کیس ہو جس میں لگے کہ بندہ قتل کر دے کسی کو ایک ملک دوسرے کو کہہ سکتا ہے اور ڈی لے بھی کر سکتا ہے یہ جواز دے کر کہ آپ ڈپلومیٹک الیونٹی ویو کریں۔ عموماً ملک کرتے نہیں ہیں لیکن اگر قتل کا مقدمہ ہو تو وہ کر دے یا یقین دلاتے ہیں کہ ہم اپنے ملک میں اس پر مقدمہ چلائیں گے۔ پاکستان حکومت کو یقین ددہانی کرائی گئی ہو گی کہ کرنل جوزف ان پر امریکہ میں مقدمہ چلایا جائے گا۔