لاہور(نیوزایجنسیاں) پاکستان فٹبال فیڈریشن نے تین سال سے بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت سے محروم رہنے والی پاکستانی ٹیم کی دوبارہ تیاری کے لیے برازیل سے تعلق رکھنے والے کوچ ہوزے انتونیو نوگیرا کی خدمات حاصل کی ہیں۔ہوزے انتونیو نوگیرا نے کہا ہے کہ پہلا ہدف اس سال ساف چیمپیئن اور ایشین گیمز کے لیے ٹیم تیار کرنا ہے۔ہوزے انتونیو نوگیرا کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ پاکستانی فٹبال کے معاملات جس انداز سے چلتے آئے ہیں ان کے لیے یہ ذمہ داری ایک بڑا چیلنج ہے جس کے لیے وہ تیار ہیں۔’میں چیلنج قبول کرنے والا شخص ہوں۔ مجھے پتہ ہے کہ آپ کے ملک کی فٹبال تین سال سے رکی ہوئی ہے میری اولین ترجیح ملک میں فٹبال کو دوبارہ منظم کرنا ہے تاکہ ضائع ہونے والے وقت کا ازالہ ہو سکے۔فیفا عالمی رینکنگ پاکستان کی پوزیشن اس وقت 205 ہے اور ہوزے انتونیو نوگیرا کسی لگی لپٹی کے بغیر کہتے ہیں کہ پاکستانی فٹبالرز پر بہت کام ہونا ہے۔’میری کوشش ہو گی کہ اگلے سال تک نہ صرف عالمی رینکنگ میں بہتری آئے بلکہ پاکستانی ٹیم اپنے علاقائی خطے میں بھی اچھی کارکردگی دکھانے کے قابل ہو سکے۔ پاکستانی فٹبالرز کا سب سے بڑا مسئلہ فزیکل فٹنس کا ہے اس کے علاوہ تکنیک بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ آج کی کل کی فٹبال بہت تیز ہو چکی ہے ہمیں اس جانب توجہ دینی ہو گی۔‘ہوزے انتونیو نوگیرا کہتے ہیں کہ سیاست اور فٹبال ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔’پاکستان میں فٹبال کے معاملات عدالتوں میں رہے ہیں۔ جب یہ معاملات حل ہو گئے اس کے بعد ہی میں نے یہ ذمہ داری قبول کی اور یہاں آیا ہوں۔ اب ہمیں فٹبال کی بہتری کے لیے سوچنا چاہیے۔پاکستانی فٹبال ٹیم کے سابق کپتان محمد عیسیٰ کو اس بات کا دکھ ہے کہ سیاست نے پاکستانی فٹبال کے تین اہم سال ضائع کر دیے۔’ان ضائع ہونے والے تین برسوں میں فٹبالرز کا جو نقصان ہوا ہے وہ پانچ سال میں بھی پورا نہیں کیا جا سکتا کیونکہ دس سال سے جو لیگ جاری تھی وہ بھی ان تین برسوں میں نہیں ہوئی۔ ہمارے باصلاحیت نوجوان کھلاڑیوں کی عمریں ضائع ہو گئیں۔کئی اداروں نے اپنی فٹبال ٹیمیں ہی ختم کر دیں۔‘واپڈا سے تعلق رکھنے والے محمد احمد پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ وہ اس بات پر بہت خوش ہیں کہ برازیلین کوچ کے آنے سے نہ صرف انہیں ٹریننگ کے بہتر مواقع میسر آ سکیں گے بلکہ وہ ایک بار پھر انٹرنیشنل سطح پر کھیلنے کے قابل ہو سکیں گے۔’مجھے تو وہی خوشی محسوس ہو رہی ہے جیسے میں نے پہلی بار پاکستان کلر حاصل کیا ہو۔ آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ پچھلے تین سال ہم کھلاڑیوں کے لیے کتنے کٹھن گزرے ہیں۔ نوجوان کھلاڑی مکمل طور پر ضائع ہو گئے۔ اب نئے سرے سے محنت کرنی پڑے گی۔ تجربہ کار کھلاڑیوں کو ملک سے باہر جا کر کھیلنے کے مواقع ملیں گے تو انھیں دیکھ کر نوجوان فٹبالرز میں بھی زیادہ محنت کا جذبہ پیدا ہو گا۔‘
