قصور(بیورورپورٹ)قصور اور گردونواح میں بااثر ملزمان اور اوباش نوجوانوں کے ظلم اور زیادتی کانشانہ بننے والے بے قصور اور مظلوم شہریوں کے ساتھ قصور پولیس کے اکثر افسران اور ملازمین ملزمان سے بھی بڑھ کر ظلم کی انتہاءکر رہے ہیں جس کی تازہ ترین مثال نواحی گاﺅں جاگو والا میں جنسی درندگی کانشانہ بننے والی آٹھ سالہ بچی کے والدین کے ساتھ پیش آنیوالا پولیس کا وہ مجرمانہ رویہ ہے جسے سن کر مضبوط اعصاب کے مالک افرا د کے بھی دل دہل جاتے ہیں آٹھ سالہ معصوم بچی (س)کے والدین اور دوسرے رشتہ داروںنے کھڈیاںپولیس قصور کی طرف سے دی جانیوالی دھمکیوںاور ملزمان کو فراہم کردہ تحفظ کی تفصیلات بتانے کے لیے روزنامہ خبریں قصور کے سب آفس کا رخ کرلیا انہوںنے بتایا کہ قریباً چھ ماہ قبل (س)کھیتوںمیںکام کرنیوالے اپنے بھائی ممتاز کا کھانا لیکر جارہی تھی کہ راستے میں پہلے سے ناکہ زن تین ملزمان خادم ولد منور وغیرہ بچی کو زبردستی اٹھا کر قریبی کھیتوںمیںلے گئے اور وہاںپر ان درندوںنے معصوم بچی کو باری باری جنسی زیاددتی کانشانہ بنایا اور خون میں لت پت معصوم بچی کو وہیں پر پھینک کر فرا رہوگئے جس پر غریب والدین بچی کو لیکر ڈسٹرکٹ ہسپتال قصور آگئے جہاں پرزندگی موت کی کشمکش میں مبتلا (س) کئی روز تک زیر علاج رہی اور بچی کے والد کی رپورٹ پر پولیس نے کئی روز بعد ملزمان کے خلاف مقدمہ تو درج کرلیا مگر گزشتہ چھ ماہ سے وہ تھانے کے چکر کاٹ رہے ہیں تفتیشی تھانیدار محمد حنیف بھٹی خدا بنا ہوا ہے پہلے وہ ہم پر دباﺅ ڈالتا رہا کہ تم دو لاکھ روپے لے لو اور اس مقدمہ سے دستبردار ہوجاﺅ تم غریب لوگ ہو اور ملزمان بااثر ہیں تم ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے جب (س) کے ورثاءنے پیسے لینے سے صاف انکار کر دیا تو تفتیشی تھانیدار نے ملزمان کو بھی چھوڑ دیا اور کہاکہ اب یہی لوگ تم سے حساب برابر کریںگے بچی کے والدین نے بتایا کہ کئی ماہ سے وہ تھانے کے دھکے کھارہے ہیں مگر پولیس افسران انہیں انصاف فراہم کرنے یا ملزمان کی گرفتاری کو ممکن بنانے کی بجائے انہیں الٹا دھمکیاںدے رہے ہیں کہ ہم تمہیں عبرت کا نشان بنا دیںگے تمہارے خاندان کے ایک ایک فر دکے خلاف دس دس مقدمے درج کیے جائیں گے اور تم ساری عمر جیل میں پڑے رہوگے انہوںنے کہاکہ چھ ماہ تک کھڈیاںاور قصور میں افسروںاور سیاستدانوں کے دفاتر کے دھکے کھاکھا کر وہ کنگال ہوچکے ہیں ایک تو ان کی بچی زیادتی کے بعد ذہنی طور پر معذور ہوگئی ہے اور اس پر ظلم کی انتہاءیہ ہے کہ پولیس ملزمان کی سرپرستی کر رہی ہے جبکہ ملزمان کی طرف سے بھی ہمیں دھمکیاںدی جارہی ہیں کہ تم نے پیسوں کے بدلے صلح نہ کرکے بہت بڑی غلطی کی ہے ہم نے وہی پیسے پولیس افسران کو دیے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ تم اب دربدر کی ٹھوکریںکھارہے ہو انہوںنے کہاکہ ہم نے ہر افسر کا دروازہ کھٹکھٹا کر دیکھا مگر ہمیں کہیں سے انصاف نہیں مل رہا الٹا ہمارے خاندان کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں انہوںنے روتے ہوئے کہاکہ ہماری چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ اور چیف جسٹس پاکستان سے اپیل ہے کہ وہ ہمیں انصاف اور تحفظ دلانے میں ہماری مدد کریں ورنہ پولیس ہمیںزندہ نہیں چھوڑے گی۔