تازہ تر ین

اسد درانی کو کیسے پتہ چل گیا کہ اگلے وزیراعظم بھی شاہد خاقان عباسی ہونگے اور کلبھوشن کو رہا کر دیا جائیگا ، معروف صحافی ضیا شاہد کا چینل ۵ کے لائیو پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں دبنگ تجزیہ

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ ضیا شاہد نے کہا ہم عام طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی فوج کے حاضر سروس جنرل اور افسر اور نیچے سپاہی تک انتہائی محب وطن ہوتے ہیں وہ فورس جو وطن کے دفاع کے لئے یا دہشتگردوں کے خلاف اپنی جانیں قربان کرتی ہے ان سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ دشمن ملک کے کاﺅنٹر پاٹس یعنی ہم منصب افراد سے اتنے گہرے روابط رکھیں گے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں جس طرح سے سول محکموں، اداروں، سیاستدانوں اور ایسے لوگوں جو سابق سفارت کار ہیں ان میں حسین حقانی بھی مل جائیں گے ان میں نواز شریف بھی مل جائیں گے جو شیخ مجیب کو محب وطن قرار دیتے ہیں اور جو یہ کہتے ہیں کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ایک لکیر بھی ہے وگرنہ دونوں طرف ایک جیسے لوگ رہتے ہیں اور وہ ایک جیسے لباس پہنتے ہیں۔ بدقسمتی ہے اس قوم کی خاص طور پر میں گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ یہ آرمی چیف کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس قسم کی جو کالی بھیڑیں ہیں خواہ وہ سابق فوجی افسر ہے خواہ وہ سول سے تعلق رکھتے ہیں ان کا نوٹس لیں۔ اور یہ جو جنرل اسد درانی صاحب نے اپنے ہم منصب یعنی ”را“ کے سربراہ سے مل کر کتاب لکھی ہے اس کا بیانیہ کم و بیش وہی ہے جو ”امن کی آشا“ کا ہے اس سے پہلے جنرل نصیر اختر صاحب جب کراچی کے کور کمانڈر تھے تو مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ انہوں نے بھی اس منصب سے علیحدہ ہونے کے بعد پاک انڈیا فرینڈ شپ سوسائٹی قائم کر لی اور وہ انڈیا کے دورے کے دورے پر بھی گئے اور وہاں بھی انہوں نے مذاکرے منعقد کروائے اس سے بھی پہلے جنررل اطہر عباس صاحب جن کے ایک بھائی مظہر عباس صاحب اور دوسرے بھائی ظفر عباس آج کل ڈان کے ایڈیٹر ہیں تو جنرل اطہر عباس صاحب ڈی جی آئی ایس آئی تھے۔ آئی ایس پی آر تھے جب مجھے ذاتی طور پر معلوم ہے اور اس بات کی بہت سے لوگوں نے تصدیق کی کہ جنرل اطہر عباس صاحب ایک فائل لے کر آئی ایس آئی کے دفتر گئے اور انہوں نے پاکستان کے ایک میڈیا ہاﺅس اور ایک اخبار اور انڈیا کے ایک اخبار کے درمیان ”امن کی آشا“ کے نام سے اس پروگرام کے لئے منظوری لی تھی کہ یہ بہت اچھا پروگرام ہے۔ جنرل (ر) امجد شعیب صاحب میں آپ سے یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ کیا آپ کے خیال میں اپنی حیثیت و اختیار سے ناجائز فائدہ اٹھانا نہیں ہے کہ سول میں یہ اصول بخوبی رائج ہے کہ جو لوگ حلف تک اٹھاتے ہیں وہ بھی جس حیثیت میں وہ رہے ہوتے ہیں اس سے جو واقفیت انہیں ہوتی ہے محترم پر اظہار خیال نہیں کر سکتے۔ نہ ان رازوں کو افشا کر سکتے ہیں۔ یہ اسد درانی صاحب، ہمارے اس دور کے اطہر عباس ہوں جو ریٹائر ہو چکے ہیں اور جناب نصیر اختر صاحب ہوں یہ فوج میں روش چلی ہے کہ فوجی فارن آفس سے بھی دو جوتے (قدم آگے) جا کر انڈیا سے مداکرات کرنا چاہتے ہیں وہ کلبھوشن کے بارے میں اظہار خیال فرماتے ہیں اور یہ فرماتے ہیں کہ اگلا وزیراعظم کون ہو گا۔ جناب کس نے سابق فوجی افسروں کو اختیار دیا کہ اپنی پوزیشن سے فائدہ اٹھائے ہوئے ہم منصب ریٹائرڈ انڈین جرنیلوں کے ساتھ مل کر کتابیں لکھیں یا بیٹھ کر مختلف قسم کے معاملات پر اظہار خیال فرمائیں۔ آپ کیا فرماتے ہیں۔ جنرل (ر) امجد شعیب نے کہا کہ ضیا شاہد صاحب آپ درست کہہ رہے ہیں۔ سرکاری پابندی تو دو سال کی ہوتی ہے لیکن آپ اپنے اوپر سابق اؑٓرمی آفیسر ہونے کی حیثیت سے پوری زندگی یہ پابندی عائد کرتے ہیں۔ اور وہی تقاضا ہے جو لوگوں کو پورا کرنا چاہئے۔ اب جنرل اسد درانی کا جہاں تک تعلق ہے ان کو فوج سے نکالا بھی اس وجہ سے گیا تھا کہ یہ اپنی حیثیت میں سیاسی معاملات میں دخل اندازی کر رہے تھے بے نظیر کے ساتھ، کسی نہ کسی کے ساتھ انہوں نے تعلق رکھا ہوا تھا۔ اس وقت چیف آف آرمی سٹاف نے آئی ایس آئی سے تبدیلی کر کے فوراً جی ایچ کیو میں رکھا۔ جب ان کو پتہ چلا کہ جی ایچ کیو میں بھی اپنی حیثیت میں کچھ ایسی کارروائیاں کر رہے ہیں تو انہوں نے آرمی سے نکال دیا۔ جو کچھ ان کا جو تجربہ ہے وہ 1995ءتک ہے اس کے بعد یہ اس وقت ریٹائرڈ کر دیئے گئے تھے اس کے بعد 24,23 سال گزر چکے ہیں باتیں تو بہت پرانی ہو گئی ہیں اس کے باوجود چونکہ ان چیزوں سے غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں ان چیزوں سے افواہیں جنم لیتی ہیں ان چیزوں سے ملک کے بعض راز کھل جانے کا امکان ہوتا ہے یہ کرنا نہیں چاہتے ان لوگوں کو جو بھی بات چیت کرنی ہے یہ اپنے ادارے سے کلیرنس لے کر کرنی چاہئے تا کہ وہ بتا دیں کہ آپ نے یہ بات کرنی ہے یا نہیں کرنی۔ یہ بچے تو نہیں کہ ان کو پتہ نہیں ہے کہ کیا اچھا اور کیا برا ہے۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ یہ انتہائی غیر دمہ دارانہ کام ہے۔تبھی ان پر تنقید بھی ہو رہی ہے اور آرمی والے بھی ان سے خوش نہیں ہوں گے یہ کیا کرتے پھرتے ہیں۔ضیا شاہد نے کہا کہ اسد درانی نے اپنے ہم منصب کے ساتھ مل کر جو کتاب لکھی ہے اس کے اقتباسات روزانہ مختلف اخباروں میں شائع ہو رہے ہیں یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ یہ دونوں سابق سربراہ، یہاں آئی ایس آئی کے سربراہ اور ”را“ کے سربراہ دونوں ریٹائرڈ جنرل صاحبان مل کر جو انہوں نے باتیں کہی ہیں جو چھپ رہی ہیں وہ باتیں جو ہیں وہ اس قسم کی ہیں کہ ان کو کیسے پتہ چل گیا کہ الیکشن ہوں گے اس کی حکومت بن جائے گی سب کو حق حاصل ہے بشرطیکہ وہ جت جائے ان کو کیسے پتہ چلا کہ شاہد خاقان عباسی صاحب اگلے بھی وزیراعظم ہوں گے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ان کو کیا حق حاصل ہے کہ وہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے معاملے میں امریکہ کی طرف سے جو خفیہ کارروائی (حملہ) ہوا تھا اور جس طرح سے اسامہ بن لادن کو اٹھا کر لے گئے تھے اس پر اظہار خیال کریں معاف کیجئے گا کیا فوج کا کوئی ڈسپلن موجود نہیں ہے کہ وہ اس قسم کے معاملات کا سختی سے نوٹس لے۔ سابق جرنیل ہونا جو ہے وہ ان کو پاکستان کے مفادات کے خلاف کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ جنرل (ر) امجد شعیب نے کہا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ یہ انتہائی غلط اور غیر ذمہ دارانہ کام انہوں نے کہا ہے ان کو کوئی ضرورت نہیں تھی۔ یہ ساری چیزیں اگر پابندی نہ بھی ہو تو ہم ملکی مفاد میں خود ساختہ پابندی اپنے اوپر رکھتے ہیں کیونکہ ہم ذمہ دار رہے ہوتے ہیں انٹیلی جنس میں بھی اور آپریشنز میں بھی تو منہ سے کوئی ایسی بات نکالنا نہیں چاہتے کیونکہ وہ بات نکلے گی ہمارے منہ سے مستند سمجھا جائے گا۔ اسد درانی نے غلط کام کیا ہے جس کی وجہ سے جی ایچ کیو میں نوٹس لے گا۔ میں نے جہاں تک سنا ہے اس کتاب کا جائزہ لیا جا رہا ہے جی ایچ کیو میں اور اس کے بعد کووئی ایکشن ہو گا۔ دوسری طرف یہ بھی ہے کہ ہم خود بھی سارے ذمہ دار ہیں اگر سمجھا جائے تو انہیں کوئی شہری عدالت میں لے جا سکتا ہے۔ اگر وہ سمجھے کہ اس نے کتاب میں کوئی چیز ایسی لکھی ہے جو نہیں ہونی چاہئے تھی تو ان کو عدالتوں میں گھسیٹا جا سکتا ہے۔ ضیا شاہد نے کہا آج ہی پاکستان کی حکومت کو، وزارت خارجہ کو اور بعض دوسرے ذمہ دار لوگوں کو وضاحت کرنا پڑی کہ دور دراز تک کلبھوشن کو رہا کرنے کا کوئی پروگرام نہیں لیکن آج صبح بھی دو ایوننگر میں یہ انہی کی تاب کے اقتباسات کی بنیاد پر یہ خبریں چھپی ہیں جس کی تردید سرکاری طور پر کر دی گئی ہے کہ کلبھوشن دونوں حضرات جو ہیں اسد درانی اور ان کے ہم منصب بھارتی کی گفت و شنید کے نتیجے میں فیصلہ ہو چکا ہے ان کو رہا کر دیا جائے۔ جناب اتنا غیر ذمہ دارانہ بیان دینے سے دس دفعہ غور کرتا ہے۔ اس حد تک معاملات کس لئے پہنچے ہیں اور جو آپ فرما رہے ہیں کہ اس کا جائزہ لیا جا رہا ہے یہ بڑی اچھی بات ہے لیکن جب کوئی کام ہو چکتا ہے۔ ان کی ملاقاتیں بھی ہو چکیں سب خاموش رہے کتاب بھی چھپ گئی سب خاموش رہے کتاب کے اقتباسات پاکستانی اخبارات میں چھپنے لگے سب خاموش کیوں ہیں۔ ہم اپنے ملک کے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔ جنرل (ر) امجد شعیب نے کہا یہ ملک کے ساتھ زیادتی ہے لیکن یہ کچھ کر رہے ہیں۔ 26,25 سال پہلے ریٹائر ہوئے حکومت ان کو پکڑ سکتی ہے ان کا ٹرائل بھی کر سکتی ہے جیسے ان کا ہو بھی رہا ہے۔ضیا شاہد نے کہا کہ زرداری ذہین سیاستدان ہیں، 5 سال صدر بھی رہے لیکن پوچھنے والے پوچھیں گے کہ جس کو دودھ میں سے مکھی کی طرح باہر پھینک دیا، این آر او اسی سے کیا تھا یا کسی اور سے کروایا تھا۔ عجیب و غریب قانون جس کو مفاہمت کا آرڈیننس کہتے تھے وہ مشرف سے بنوایا گیا کہ فلاں وقت سے لے کر فلاں وقت تک کے درمیان تمام کیسز واپس کر دیئے گئے۔ زرداری صاحب یہ سب آپ ہی کا کیا دھرا ہے۔ مشرف کے ساتھ این آر او کر کے آپ خود بھی رہا ہوئے، بے نظیر کے خلاف بھی مقدمات ختم کرائے، پی پی و ایم کیو ایم کے سارے لوگ نہائے دھوئے ہوئے ہو گئے۔ اس کے بعد آپ نے اور نوازشریف نے مل کر سوچا ہو گا کہ مشرف سے جو کام لینا تھا لے چکے اب اس کی چھٹی کروائیں۔ زرداری صاحب اب اس پر بھڑکیں نہیں لگائی جا سکتیں، آپ مشرف کی مہربانی سے ہی سیاست میں آئے تھے۔ نوازشریف بھی کہتے ہیں کہ مجھے اس لئے نکالا گیا کہ مشرف کے سلسلے میں تعاون کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ خوشی کی بات ہے اچانک نواز کو عدلیہ پر اعتماد آ گیا اور مشرف کے حوالے سے عدلیہ کی تعریف شروع کر دی لیکن عوام جانتے ہیں کہ ایک عرصے سے آپ نے اور آپ کی صاحبزادی نے عدلیہ مخالف کیا زبان اختیار کی ہوئی ہے۔ نوازشریف نے کہا تھا کہ حکومت میں آ کر ان 5 ججوں کو کٹہرے میں کھڑا کریں گے۔ فوج کو کبھی مقتدر قوتیں، فرشتے، پراسرار لوگ یا سٹیبلشمنٹ کہا جاتا تھا۔ مریم نواز نے نیا خطاب دیا کہ آرمی ”خلائی مخلوق“ ہیں شہباز شریف نے الزام لگایا ہے کہ ان کے جو لوگ دوسری پارٹی میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں ان کو خلائی مخلوق مجبور کر رہی ہے کہ پارٹی چھوڑو اور کھلاڑی کے ساتھ چلو۔ یہ چند روزہ اقتدار ختم ہونے کا انتظار کرنا چاہئے راز تو سب کے پاس ہیں، نگران حکومت کے دور میں بہت ساری مزید باتیں کھل کر سامنے آئیں گی۔ فیض کی نظم کا عنوان ہے ”چند روز فقط چند روز“ بس فقط چند روز انتظار کرنا چاہئے۔سابق وزیرخارجہ سردار آصف احمد علی نے کہا ہے کہ پاکستان و انڈین ریٹائرڈ جنرل اگر کتاب لکھنا چاہیں تو کوئی پابندی نہیں لیکن ملکی سکیورٹی کے حوالے سے کوئی سمجھوتہ نہیں ہوتا۔ حیران ہوں ریٹائرڈ جنرل اسد درانی نے باتیں کیسے کر دیں، حلف اٹھایا ہوتا ہے کہ ملکی سکیورٹی کے حوالے سے اگر کچھ معلومات ہوں تو کبھی اس کا ذکر نہیں کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم کہیں تو ناراضگیاں ہوتی ہیں اب جنرل ریٹائرڈ بولا ہے تو آئی ایس پی آر کی طرف سے کمزور سا جواب آیا ہے وہ بھی صرف کلبھوشن کے سلسلے میں جبکہ کتاب پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس بھی بہت راز ہیں لیکن ہم کبھی سوچ بھی نہیں سکتے کہ ان کو کھولیں جس طرح نوازشریف لگے ہوئے ہیں۔ جنرل (ر) اسد درانی اور نوازشریف کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ریاست پاکستان ”فری فار آل“ بنی ہوئی ہے جس کا جو دل چاہے کہہ دے۔

 


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain