لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ سبھی لوگ کہتے ہیں آخری حکومت چل رہی ہو وہ کوشش کرتی ہے جتنی مدد مل سکے سرکاری محکموں سے‘ نگران حکومت کے دور ہی میں کہا جاتا ہے آئی جی‘ چیف سیکرٹری تبدیل ہوگئے لیکن کہا جاتا ہے کہ 35 سال سے جو مسلم لیگ ن کی حکومت رہی ہے ان کے بڑے تعلقات ہیں مختلف جگہوں پران کے لوگ ہیں الیکشن میں دو محکمے ایسے ہوتے ہیں ایک الیکشن کمیشن اور دوسرا نادرا جہاں سے ناموں کی تصدیق ہوتی ہے۔ تیسرے اور چوتھے نمبر پر ہوتے ہیں ایک ڈی سی اوز ہیں‘ آر اوز ہیں اور پھرمحکمہ تعلیم کے لوگ ہوتے ہیں کیونکہ اکثر ان لوگوں کی ڈیوٹیاں لگتی ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جس حکومت کی پہنچ ہوگی اپنے ضلعی افسران تک اور جن کا تعلق واسطہ ہوا محکمہ تعلیم کے ارکان اور چھوٹے عملے سے یہی لوگ ہوتے ہیں الیکشن کمیشن کا اپنا تو عملہ ہوتا نہیں لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ مسلم لیگ (ن) کے خلاف جو الزام لگایا گیا ہے اس کا الیکشن کمیشن سنجیدگی سے نوٹس لے اور خواہش ہے کہ صرف تحریک انصاف نہیں بلکہ کسی جماعت کو شکایت نہیں ہونی چاہئے۔ مجھے ایک دوست کا حاصل پورسے فون آیا ہمارے ایک مضمون نگار ہیں خدایار چنڑ صاحب وہ پانی کے مسئلے پر ہمارے ساتھ بہت تعاون کرتے ہیں ایک زمانے میں وہ پی ٹی آئی میں ہوتے تھے پھر وہ کچھ ناراض ہوگئے ایک نوجوانوں کا گروپ بھی بنالیا اب مجھے بتا رہے تھے کہ ہمارے تحریک انصاف ‘ پیپلزپارٹی میں بھی نہیں ہوں اور میں تو مسلم لیگ (ن) میں بھی نہیں ہوں میں نے تو جناب بڑی کوشش کی ہے اپنے حلقے میں بڑی بھاگ دوڑ کی ہے لیکن میں نے تحریک لبیک کا ٹکٹ لیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ 3 بڑی پارٹیوں کے علاوہ بھی پارٹیاں ہیں جن کے ٹکٹ پر لوگ الیکشن لڑ رہے ہیں ان کو بھی اتنا ہی حق حاصل ہے اگر ان کو کوئی شکایت ہے تو اس کا ازالہ کیا جائے۔
صبح سے اس بات پر شور مچا ہوا ہے کہ عید کی چھٹیوں میں بھی خاص طور پر دوسرے دن تو اس پر بہت بحث بھی ہوتی رہی کہ یہ نادرا کون سا ریکارڈ تھا جو (ن) لیگ کی حکومت نے حاصل کرلیا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بابر اعوان صاحب کو پی ٹی آئی کی طرف سے ہدایت کی گئی ہے کہ بطور وکیل وہ اس کیس کو تیار کریں وہ کیا ریکارڈ ہے جس پر آپ کے لیڈروں کو شکایت ہے اور یہ کس قسم کا ریکارڈ ہوتا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہمیں یہ شکایت آرہی تھی کہ نادرا اگر جماعت کا آلہ کار بن جائے تو اس پر تشویش ہوتی ہے اور یہ ریکارڈ جو کانفی ڈینشل ریکارڈ ہوتا ہے مگر جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ مختلف کمپنیوں کا ذکر ہوتا رہا کہ کس طرح کمپنیوں کو ہائر کرلیا گیا ہے انتخابات کو مینج کرنے کے لئے اب ہم چاہتے ہیں کہ اس کو دیکھا جائے اور شفاف الیکشن جو ہمارا آئینی حق ہے اور جو جمہوریت کے لئے ضروری ہے اس کو یقینی بنایا جائے۔ تفصیلات میرے سامنے نہیں ہیں میں تو کمپین میں ہوں اسلام آباد آﺅں تو مزید تفصیلات حاصل کرکے آپ کو پیش کردوں گا۔ضیا شاہد نے کہا خبر آئی ہے کہ آپ کی ملاقات ہوئی جناب ہارے دوست ارباب غلام رحیم صاحب سے جو ایک زمانے میں سندھ کے وزیراعلیٰ بھی رہے ہیں غالباً انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ آپ یہاں سے الیکشن لڑیں آپ اس سے پہلے بھی سندھ کی ایک نشست سے الیکشن لڑا ہے اس کے ساتھ ہی یہ خبر بھی آئی ہے کہ جی ڈی اے جس میں مسلم لیگ پگارا اور کچھ اور جماعتیں بھی شامل ہیں ان کی بھی کوئی بات چیت بھی آپ سے ہوئی ہے اورکسی قسم کی انتخابات میں کوآپریشن کی بات چل رہی ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آپ کی خبر درست ہے کہ ارباب رحیم سے میری ملاقات بھی ہوئی ہے اور کل رات عمر کوٹ کے تاریخی جلسے میں وہ موجود تھے اور میری مکمل حمایت کا اعلان کیا اور تحریک انصاف کے بلے کے امیدواروں میرے اور دوست محمد کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے۔ جہاں تک جی ڈی اے کا تعلق ہے جی ڈی اے نے مختلف جماعتوں کا ایک الائنس ہے اوروہ ستارہ کے نشان پر الیکشن لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔پی ٹی آئی اور جی ڈی اے کے آپس میں مل بیٹھ کر ایک لائحہ عمل مرتب کررہی ہے کہ ہم سندھ میں پیپلزپاٹی کا مقابلہ کرسکیں کیونکہ ہم نے محسوس کیا ہے کہ سندھ کے عوام پیپلزپارٹی سے مایوس ہیں لیکن وہ سمجھتی ہے کہ جتنے ایلیمنٹ ہیں جنہوں نے سندھ کو برباد کردیا ہے کہ ان سے نجات حاصل کرنے کیلئے ریسورسز ‘ اپنی سیاسی رپورٹ کو اکٹھا کرنا چاہئے اس لحاظ سے ہمارا آپس میں ایڈجسٹمنٹ کا امکان موجود ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ پیرپگارو کا ایک دینی اور سیاسی وجود ہے۔ میری ان سے اور ان کی جماعت کے سربراہ سے ایک نشست ہوئی ہے اور انہوں نے بھی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ جہاں تک سروری جماعت جو مخدوم طالب المولیٰ کے خاندان ہیں وہ پیپلزپارٹی میں کھڑے ہیں لیکن انہوں نے بھی بہت بڑافیصلہ کیا کہ شاہ محمود کی مخالفت نہیں کرنی کیونکہ وہ درگاہوں کے اقدام کو سامنے رکھتے ہوئے انہوں نے تمام فیصلہ کیا ہے اور سروری جماعت جو ان کی پیپلزپارٹی کو جو ننگر ہارکر کے امیدوار ہیں قاسم سومرو کو مسترد کردیا ہے ان کے فیصلے کو انہوں نے مسترد کردیا ہے۔ اور ان کے پیپلزپارٹی کے ہی حمید کھوسو صاحب وہ ان کے سامنے کھڑے ہوگئے ہیں۔یہ ایک دلچسپ صورتحال سندھ میں پیدا ہورہی ہے اور جو لوگوں کا خیال تھاکہ سندھ میں پیپلزپارٹی بالکل سویپ کرے گی عنقریب آپ کو سندھ کا نقشہ بدلتا ہوا دکھائی دے گا۔ ضیاشاہد نے کہا کہ یہ پگارا صاحب جواب پیر صاحب ہیں ان کے والد صاحب سے ساری عمر نیاز مندی رہی اور بہت دیر ملاقات رہی بڑے شفیق انسان تھے جب بھی کبھی پور میں آتے تو جن چند لوگوں سے خاص طور پر ملاقات ہوتی تھی مجھے بھی اس میں شامل کرتے تھے۔ زندگی میں بے شمار ملاقاتیں ہوئیں۔ جب بھی میں سندھ گیا کنگری ہاﺅس جاکر ان سے لازمی ملا۔ پچھلے دنوں نوجوان پیر صاحب جو ہیں وہ لاہور آئے تو ہم نے اکٹھے کھانا بھی کھایا۔ میں نے اس وقت ان سے سوال کیا تھا کہ جناب آصف زرداری صاحب ان کے پاس خود چل کر تشریف لے گئے اور انہوں نے دعوت دی تھی کہ وہ پیپلزپارٹی سے کوئی الائنس کرلیں مجھے بھی پیر صاحب نے بتایا کہ ہم نے ابھی فیصلہ نہیں کیا اوراس وقت مجھے انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں شاید جی ڈی اے کی طرف ہمارا کچھ رجحان ہے ہمارے ساتھیوں کا ۔ اب میں سمجھتا ہوں کہ ان کی آپ کی جماعت سے کوئی بات طے ہوجاتی ہے تو مسلم لیگ فنکشنل بڑا مضبوط سمجھا جاتا ہے۔ اندرون سندھ کا اور ہمیشہ ہراسمبلی ان کے ایم پی اے حضرات‘ قومی اسمبلی میں ان کے ایم این اے اور بعض اوقات سنیٹر بھی شامل ہوتے رہے ہیں۔ آپ سمجھتے ہوں کہ پی ٹی آئی کی اگر ان سے کوئی انڈر سٹینڈنگ ہوتی ہے تو آپ لوگوں کے لئے کچھ سہولت ہوجائے گی صوبہ سندھ میں بھی کچھ سیٹوں کے حصول تک آپ کو کامیابی مل سکتی ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس وقت پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے جس میں کلیدی کردار ادا کرنا ہے اور آج جتنے دانشور ہیں وہ اس بات پر قائل ہوچکے ہیں کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی اپنا مقام کھو چکی ہے اور پنجاب میں ن اور پی ٹی آئی کا مقابلہ ہے۔ اس طرح خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کو مدمقابل جتنی خواتین ہیں وہ تحریک انصاف سے خائف ہیں اور انہیں ڈر ہے کہ پی ٹی آئی وہاں پرحکومت بنالے گی۔ سندھ میں پی ٹی آئی کا جو ٹرینڈ دیکھ رہا ہوں وہ نوجوانوں اورپسے ہوئے طبقے میں بے پناہ ہے۔ اس سے ظاہر ہورہا ہے سندھ بھی ایک سیاسی انگڑائی لے رہا ہے اور سندھ کے عوام بھی متبادل قیادت کی تلاش میں ہے جس دن انہیں اعتماد ہوگیا کہ یہاں کوئی متبادل قیادت پیدا ہوئی ہے بہاں بھی پیپلزپارٹی کے پاﺅں اکھڑنے کے امکانات موجود ہیں۔ ضیاشاہد نے کہا کہ سراج الحق صاحب کو ایک مرتبہ کھانے پر بھی اپنے گھر پر بلایا میں نے ان سے بحث بھی کی تھی کہ آپ اب ایم ایم اے کے ساتھ جارہے ہیں مولانا فضل الرحمان سے آپ کی دوبارہ پیار محبت کی شروعات ہونے والی ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ قاضی حسین احمد صاحب نے ساری عمر کرپشن کیخلاف زبردست مہم چلائی‘ پی ٹی آئی سے بھی پہلے اصل میں مختلف ادوار میں جو لڑائی لڑی ہے اور جو پہلے الیکشن تھے دوسرے الیکشن تھے تیسرے الیکشن تھے جماعت اسلامی کا ہیمشہ یہ مو¿قف ہوتا تھا خاص طورپر قاضی حسین احمد کا مو¿قف ہوتا تھا کہ الیکشن بعد میں کروائے پہلے تطہیر کریں‘ صفنائی کریں‘ لیکن میں نے سراج الحق صاحب سے بھی کہا تھا۔ سراج الحق ہمارے زمانے میں قاضی حسین احمد کے ساتھ کہیں جاتا تھا تو جناب سراج الحق اسلامی جمعیت طلباء کے سربراہ ہوتے تھے بڑے ایکٹو تھے تو میں نے پوچھا کہ آپ ایم ایم اے کے ساتھ جارہے ہیں قاضی حسین احمد صاحب کے دور میں ہی اختلافات شروع ہوگئے تھے اور اس کے بعد مولانا فضل الرحمن کے خلاف بھی اس قسم کے بہت سے الزامات لگے تھے کہ ڈیرہ اسماعیل خان جہاں سے وہ الیکٹ ہوئے خود ان کے بھائی کو جو سہولتیں حاصل ہیں اور خود ایم ایم اے کے دور میں اورجو اس کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان میں زمینوں کی الاٹمنٹ کا سکینڈل جو صحیح تھا یا غلط چیزیں سامنے آئیں گی تب پتا چلے گا لیکن بہرحال مولانا فضل الرحمان کیخلاف وہاں کافی شور شرابا تھا۔ میں نے کہا کہ اب آپ ان کے ساتھ جارہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ نہیں اب وہ چیزیں شاید ابھی ثابت نہیں ہوسکی تھیں۔ بہرحال میں سمجھتا ہوں کہ جس زور و شور سے ایم ایم اے سے دوبارہ قیام کی باتیں ہوئی تھیں وہ زور و شورسامنے آیا نہیں۔میں ان کے خلاف بات نہیں کررہا میری بڑی دوستی ہے سراج الحق ‘ لیاقت بلوچ سے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک زمانے میں اے این پی کی خیبر پختونخوا میں حکومت بھی قائم ہوگئی تھی جب انہوں نے نام بدلا۔ اعظم ہوتی صاحب کے بیٹے خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ بنے تھے۔ لیکن آج کے دور میں ان کی بھی کوئی ہائپ کریٹ ہوتی نظر نہیں آئی۔ اسفند یار ولی یقیناً کچھ سیٹیں ضرور لیں گے۔ لیکن کوئی سیاسی ابھار دکھائی نہیں دیتا۔ بلوچستان میں الیکشن ٹرینڈ کے حوالے سے ضیاشاہد نے کہا کہ معاف کیجئے گا بلوچستان بہت زیادہ میٹر نہیں کرتا۔ اس کی وجہ ہے سینٹ میں بلوچستان کی بڑی اہمیت تھی کیونکہ اگر 17 یا 20 سیٹیں ایک صوبے میں آتی ہیں توبلوچستان چاہے چھوٹا صوبہ ہو‘ چاہے آبادی کم ہو‘ سینٹ کے ممبر وہاں سے بھی اتنے ہی ہوتے ہیں لیکن قومی اسمبلی میں بلوچستان کی نمائندگی اتنی کم ہے کہ اگربلوچستان سے کوئی ساری سیٹیں بھی جیت کر آجائے تو قومی اسمبلی میں میٹر نہیں کرتا۔ سوشل میڈیا اورالیکٹرانک میڈیا پر کلثوم نواز کے حوالے سے وینٹی لیٹر پر ہونے ‘ طبیعت خراب ہونے اور عوام کی جانب سے ن لیگ کے ٹائم حاصل کرنے کے لئے یہ مو¿قف اپنانے کے حوالے سے سوال پر ضیاشاہد نے کہا کہ انسانی ہمدردی اور اعلیٰ اخلاقیات کے تقاضوں کے پیش نظر میرا خیال ہے کہ میں نے پاکستان میںان کے سخت ترین مخالفوں کو بھی یہی کہتے سنا ہے میں تو مخالف ہوں بھی نہیں‘ میں بھی ہمیشہ یہاں سے بات شروع کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کو صحت کاملہ عطا فرمائیں یہ ایک انسانی اخلاقیات اورمسلمانوں کے معاشرتی اقدار کا تقاضا ہے تو کوئی بھی بیمار ہو‘ اور وہ تو پھر پتہ نہیں کیا سمجھتے ہیں۔ میں تو کتاب بھی لکھ رہا ہوں ‘ لکھ رہا ہوں ‘ میرا دوست نوازشریف نے یہ ان کی بیگم صاحبہ بیٹھیں اگرچہ ان کے گھرانے میں ان معنوں میں زیادہ فری ماحول نہیں تھا‘ خواتین ملتی تھیں‘ بہت بار میری ملاقات ہوئی‘ شاید سلام دعا بھی ہوئی ہو لیکن اوپن ماحول نہیں تھا کہ وہاں کی عورت بینظیر بھٹو کی طرح سے ہوں‘ جب وہ سیاست میں بھی رہیں ‘ ایک شائستگی‘ احترام اور نقد میں کلثوم نوازشریف کے گرد ہمشہ رہاہے اورانہوں نے بہت نفاست سے اپنی عزت و احترام رکھتے ہوئے سیاست کی ہے۔ پروگرام میں لندن سے نمائندہ چینل فائیو وجاہت علی خان سے ٹیلی فونک گفتگو میں ضیاشاہد نے سوال کیا کہ ہم تہہ دل سے چاہتے ہیں کہ محترمہ کلثوم نواز بہت نفیس ‘ وضع دار اور پڑھی لکھی خاتون ہیں میں نے تو کتاب میں بھی لکھا ہے کہ حسن رضوی صاحب ان کے ایگزامینر تھے اور انہوں نے پی ایچ ڈی بھی کی تھی ہم سب کی دعا ہے کہ وہ صحت یاب ہوں لیکن کل پرسوں سے سوشل میڈیا پر ایک نیا ٹرینڈ شروع ہوا ہے اور ان کے کچھ مخالفین نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ جیسے یہ ساری سیاسی بات ہے اور ان کو تکلیف ہی کوئی نہیں ہے میں نہیں سمجھتا کہ اتنا بڑاجھوٹ بولا جاسکتا ہے ہماری یہی دعا ہے کہ وہ صحت یاب ہوں مگر آج شام کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ڈاکٹر بتادیںگے مگران کی طبیعت کچھ سنبھل گئی ہو تو ان کو وینٹی لیٹر کی سہولت ختم کردی جائےگی میں نے خود ڈاکٹرز سے فون پر گفتگو میں پتا کیا وہ کہتے ہیں کہ ان کو اس سپیشل بیڈ سے ہٹا بھی دیا جائے اوران کو کہا جائے کہ وینٹی لیٹر اتار لیا گیا ہے تو بھی اس بات کی ضمانت نہیں ہوتی بلکہ بعض اوقات مریض کی حالت زیادہ خراب ہو جائے تو اسے ہٹا بھی دیتے ہیں۔ بہتر ہوتا نوازشریف کی فیملی ایک ترجمان مقرر کردیتی تاکہ کلثوم نوازکے بارے میں صحیح معلومات مل سکتیں اور ایسی صورتحال نہ ہوتی کہ جو جیسا دل چاہتا ہے کیٹ خط میٹنگ کررہا ہے۔ اس وقت کیا صورتحال ہے ڈاکٹرز نے شام کا کہا تھا‘ وہاں شام ہوچکی ہے اللہ تعالیٰ انہیں صحت دیں مگر موجودہ صورتحال کیا ہے۔ نمائندہ چینل فائیو نے بتایا کہ کلثوم نواز کے حوالے سے ابہام اورغلط فہمیوں کی ذمہ داری شریف خاندان پر عائد ہوتی ہے۔ فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پر منفی سیلاب آیا ہوا ہے کہ شاید وہ اتنی بیمار نہیں ہیں ‘ یا بیمار ہی نہیں ہیں یا انہیں بیماری کیا ہے اس کا کسی کو نہیں پتا۔ 14 تاریخ سے جب نوازشریف اور مریم نواز کو جہاز میں اطلاع دی گئی کہ کلثوم نوازکومہ میں چلی گئی ہیں تمام ابہام شریف خاندان نے خود پھیلایا ہوا ہے۔ لندن میں بڑے لوگ ہسپتال میں داخل ہو یا ان کی حالت تشویش ناک ہوتی ہے تو معالج لواحقین کے ساتھ ہسپتال کے باہر آجاتا ہے اور میڈیا سے گفتگو کرتا ہے۔ میڈیا ڈاکٹر اورلواحقین سے سوالات کرتا ہے اور ڈاکٹر جواب دیتا ہے کہ انہیں کیا مرض ہے اورکب تک ٹھیک ہوگا ابہام کی صورتحال اس لئے ہے کہ یہ ایک چھوٹا کلینک ہے مگرجدید اور مہنگنا ترین ہے۔ نوازشریف اوران کی فیملی کے لوگ آتے ہیں اوراندر چلے جاتے ہیں کلینک کے باہراور اندر سکیورٹی ہے یا تو شریف خاندان کی باتوں پر من و عن یقین کیا جائے یا میڈیا انویسٹی گیشن کرے۔ یا ڈاکٹر میڈیا سے گفتگو کرے یا شریف خاندان کلثوم نواز کی صحت بارے معلومات دینے کے لئے ترجمان مقرر کرے۔ ورنہ ابہام مزید بڑھے گا۔ کلثوم نواز نے حالت بارے معلومات وہی ہیں جو پاکستانی میڈیا بتا رہا ہے۔ ضیاشاہد نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن کے لئے ضروری نہیں ہے مریم نواز خطاب کریں‘ میرا خیال ہے کہ ہمدردی کا بھی ووٹ ہوتا ہے پروگرام میں …. تجزیہ نگار شمع جونیجو سے ٹیلی فونک گفتگو میں ضیاشاہد نے پوچھا کہ آپ پہلے پیپلزپارٹی کی جیالی ہوتی تھیں پھر پچھلے ایک سال سے اچانک رخ بدلا اور نوازشریف کی مظلومیت کے بارے بہت گفتگو کی اور قاننی طور پران کی بہت حمایت بھی کرتی ہیں‘ آپ کو حق حاصل ہے اور آپ قانون ہم سے بہتر جانتی ہیں۔ یہ فرمایئے کہ زیادہ بہتر ہوتا نوازشریف کسی ایک شخص کو خاندان میں سے یا ڈاکٹر کو ترجمان مقرر کردیتے۔ سارے پاکستان کی نظریں اس بات پر ہیں ایسا کوئی بندہ نہیں دیکھا ان کے حامی ‘ مخالف سب کی دعا ہے کہ کلثوم نواز کو اللہ صحت دے۔ لیکن کوئی سچی کھری بات کا پتہ ہی نہیں چلتا کبھی آجاتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب 6 بجے بتائیں گے‘ کبھی انہیں وینٹی لیٹر سے اٹھانا ہے یا نہیںاورکبھی پتا چلتا ہے کہ ابھی فیصلہ نہیں ہوا جھگڑا کیا ہے کیوں ذمہ دار شخص کو ترجمان مقرر نہیں کرتے کہ تازہ ترین معلومات ملیں جس پر شمع جونیجو نے کہا کہ ضیا صاحب ایک بات بھول گئے تو میں نے ضرب عضب کی بھی بہت حمایت کی تھی اور آپ اپنے پروگرام میں کہتے تھے کہ میں شاید پنڈی کی طرف ٹلٹ ہوگئی ہوں جو بات صحیح ہو اس کا ہمیں عبادہ کرنا پڑتا ہے۔ کلثوم نوازکی طبیعت کے حوالے سے پاکستانی میڈیا نے حوا بنایا ہوا ہے‘ یہاں پر پرائیویسی کاحق بہت زیادہ ہونے پر یہ جرم بھی سمجھا جاتا ہے نوازشریف کی فیملی اور مریم نواز نے خود کہا کہ ان کی والدہ بے ہوش ہیں اور وہ بات نہیں کرسکتیں۔ جب آپ وینٹی لیٹر پر ہوتے ہیں تواس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ کی زندگی کے کوئی مواقع نہیں ہیں۔ عام انسان کی طرح سانس نہیں لے سکتے اس لئے وینٹی لیٹر پر ڈالتے ہیں تو ہوسکتا ہے کوئی معجزہ ہوجائے شریف خاندان کل رات سے بہت پریشان اور خاموش ہیں کل تک بتایا جارہا تھاکہ طبیعت خراب ہے معجزے کی دعا کریں پورا پاکستان دعا کررہاہے۔ ہم بھی دعا کررہے ہیں کیونکہ یہ بہت تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے گھرکی سربراہ عورت کا اس حال میں ہونا تکلیف دہ ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس حوالے سے گند بہت تکلیف دہ ہے۔ کل ایک صاحب وہاں اس لئے ڈاکٹر بن کر چلے گئے کہ دیکھیں کہ وہ وینٹی لیٹر پر ہیں یا نہیں یو کے میں جھوٹ بولنے کی بہت بڑی سزا ہے اور نہیں سمجھتی کہ کلثوم نواز ٹھیک ہوں اتنا بڑا جھوٹ کوئی نہیں بول سکتا تاہم نوازشریف خاندان کی اپنی مرضی ہے کہ بتائیں یا نہ بتائیں شریف خاندان کو ہسپتال جانے میں بہت مشکل ہوتی ہے میڈیا ان کے سر پر کھڑا ہوتا ہے۔ پروگرام میں چودھری نثار علی خاں کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ضیاشاہد نے کہا کہ میں تو چودھری نثار کا بڑا مداح تھا مگر سچی بات ہے کہ ان کی ہچل مچل سے میں نے ان کے بارے میں بات کرنی چھوڑ دی ہے۔ چودھری نثار اس بات کو سمجھ ہی نہیں رہے کہ جس شخص نے کھل کر پہلی مرتبہ یہ کہا کہ پاکستان کی سکیورٹی کو اس وقت جن آدمیوں سے خطرہ ہے وہ اس وقت وزیرداخلہ تھے اور ان میں سے دو آدمی فوجی وردی میں ہیں اور ایک آدمی سوویلین۔ آپ ہم سب برادر پاکستان کے شہری ہیں کیا ہمیں اتنا بھی حق حاصل نہیں؟ یہ شخص اس قدر ظالم آدمی‘ میں اس کو صرف کہتا ہوں‘ مجھے ملے تو میں اس سے لڑ پڑا بھائی! چھوڑیں سیاست کو‘ دفعہ کریں آپ کو ٹکٹ ملتا ہے‘ آپ کا مسئلہ ہے‘ نہیں ملتا تو مجھے کیا دلچسپی کہ آپ پلنگ کے ٹکٹ پر لڑتے ہیں یا شیر پر لڑتے ہیں یا لوٹے پر لڑتے ہیں اور نہیں لڑتے تو نہ لڑیں‘ لڑیں تو لڑیں لیکن یہ شخص ڈان لیکس پر چپ رہا۔ اتنا بڑا ایشو تھا پاکستان کا کیا واقعی کوئی گڑ بڑ ہوئی تھی‘ کیاواقعی پاکستان کی فوج کی مدعون کیا گیا تھا‘ کیا واقعی ‘ حضرت صاحب اس میں بھی شریک تھے اور انکوائری کے انچارج تھے۔ وہ سمجھتے ہیں تو وہ کوئی آسمان سے اتری ہوئی مخلوق ہیں وہ بتانا چاہتے تو بھئی کیوں نہیں بتاتے میں سیاست میں انٹرسٹڈ نہیں ہوں میں اپنے ملک کی سلامتی میں انٹرسٹڈ ہوں میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا کسی نے کوئی سازش کی تھی ‘ کس لئے جب ہیں‘ چودھری نثار‘ کس کو جواب دہ ہیں‘ کیا وہ نریندر مودی کو جوابدہ ہیں‘ کیا وہ یو این او کو جوابدہ ہیں‘کیا وہ کسی عورت کو بتائے گا جو اسرائیل میںبیٹھی ہوئی ہے اس کو بتائے گا‘ کونسا حجاب ہے‘ کوئی حجاب نہیں‘ پہلے یہ کوشش کرتے رہے‘ شہبازشریف کے پاﺅں چاٹتے رہے ‘ اچھا ہوا نوازشریف صاحب نے ان کے منہ پر چپت دی‘ نہیں دینا ٹکٹ۔ مریم نواز نے اس کی وہ بے عزتی کی ‘ پتا نہیں وہ کس امید میں ہے۔ یہ کیوں نہیں بات کرتاکہ اس ملک کی سکیورٹی کاکیا مسئلہ ہے یہ کیوں نہیں بات کرتا کہ ڈان لیکس کا اصل کیا ہے‘ کیوں نہیں بات کرتا کہ نوازشریف کے اس بیانئے میں کتنی حقیقت ہے ‘ کتنا جھوٹ ہے یہ کیوں بیان نہیں کرتا کہ کونسے تین آدمی تھے۔ پرائیویٹ مجلسوں میں یہ کہتا رہاہے کہ پاکستان پر حملے کا خطرہ ہے۔ خدا کا خوف کرو چودھری نثار‘ اسی ملک میں رہتے ہو‘ یہیں کا پانی پیتے ہو‘ یہیں کی ہوا میں سانس لیتے ہو اور اسی کیساتھ مخلص نہیں ہو۔ انہوں نے کہا کہ میں تو بھٹو صاحب کے سارے دور میں یا تو دو اخبار بند کرائے‘ 11 دفعہ جیل میں گیا‘ 7 مہینے لانگبٹ پیریڈ رہا‘ شاہی قلعے میں مار کھائی۔ میں تو کبھی ان کا پسندیدہ نہیں تھا۔ لیکن یہ وہی جھوٹ ہے جو ذوالفقار علی بھٹو نے بولا۔ کب سے اس نے یہ کہا کہ میں آپ کو تاشقند کے راز بتاﺅںگا۔ چلا گیا وہ اس دنیا سے پھانسی لگ گیا۔ ایک بات پر جب رہا کہ کونسا راز‘ اگر نہیں تھا تو جھوٹ نہیں بولا۔اور اگر تھا تو بتایا کیوں نہیں۔ یہ بات نثارعلی کررہا ہے۔ میں بتاﺅں گا! تو کس وقت بتائے گا‘ نہ بتا‘ جھوٹ بولتا ہے یہ جھوٹا آدمی۔ جب یہ بتا دے گا تو میں اس کے بارے میں حقائق بتاﺅں گا کہ یہ کیسا آدمی ہے۔ تحریک انصاف کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹ کرنے کی چودھری نثار کی امید پر ضیاشاہد نے کہا کہ اس کا خیال ہے کہ لوگ مرے جارہے ہیں۔ چودھری نثار کسی کو کیا دلچسپی ہے کہ تو ایک سیٹ پر لڑتا ہے کہ دو پر لڑتا ہے کہ کس نشان پر یہ شخص اس قدر اپنے اوپرعاشق یہ نفسیاتی مرض ہے اسے نورسیزم کہتے ہیں اردو میں اس کا ترجمہ چودھری نثار فرگیٹ تھے جو اپنے اوپر عاشق ہوتے ہیں یوں کرکے بال بنا کر بیٹھتا ہے اور سمجھتا ہے ساری دنیا کو صرف‘ روٹی میں کسی کو دلچسپی نہ پانی میں دلچسپی۔ ایک چیز میں دلچسپی کہ یار چودھری نثار کس کی پارٹی پر ٹکٹ لڑے گا‘ کس کو ٹکٹ مل جائیگا یا اس کو ٹکٹ کیا سمجھتا ہے یہ شخص کیا ہے ‘ کیا حیثیت ہے اس کی میں آپ کو بتاﺅں گا کہ اس کے علاقے کے لوگ کیا کہتے ہیں اور سب سے بڑی بات کہ حاجی نواز کھوکھر کا بھائی‘ میں جیل میں تاجی کھوکھر سے ملنے گیا۔ اس نے مجھے یوں ہاتھ جوڑے‘ اس نے کہا میں ساری عمر رہا نہیں ہوسکتا۔میں نے کہا کیوں تو کہتاہے زمینوں کے قبضے میں میری چودھری نثارعلی سے لڑائی ہے۔ میں نے کہا وہ تو بڑاشریف آدمی ہے۔ کہتا ہے اللہ معاف کرے! وہ شریف آدمی ہے؟ میں نے کہا کہ مجھے تیرے بارے میں بھی کہتا ہے تو بھی غیر شریف آدمی ہے۔ ملک ریاض کے لئے زمینوں کا قبضہ کرتا ہے۔اس نے کہا کہ میں اس وقت رہا ہوں گا جب نثار علی وزارت سے اتر جائے اور وہ رہا ہوگیا اور میرے گھر پر اس نے انوائیٹ کیا‘ کہا ضیاصاحب میں نے کہا تھا میں رہا ہوجاﺅں گا جب نثار علی وزیر نہیں رہے گا۔ اس نے مجھے جیل میں بھجوایا تھا۔ تاجی نے کہا تھا کہ آپ کسی وقت میرے ساتھ چلیں ‘ میں ان لوگوں کو آپ کے سامنے لاﺅں گا جن کی زمینوں پراس نے قبضے کروائے تھے۔