لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ زعیم قادری کافی پرانے سیاسی ورکر ہیں۔ ان کے والد جسٹس شمیم قادری تھے۔ بڑی اچھی پولیٹیکل فیملی ہے۔ انہوں نے بڑی بھاگ دوڑ کی ہے مسلم لیگ ن کے لئے۔ حیرت ہے ان لوگوں کو اتنی دیر بعد کیوں یاد آ رہا ہے کہ ادھر کوئی جوتے پالش کرنے پڑتے ہیں۔ ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا۔ میری اطلاع کے مطابق اگلے میں زعیم قادری پہلے آم نہیں ہیں جو اُوپر سے ٹپکے ہیں۔ میری معلومات کے مطابق 3 سے 4 آدمی اگلے 10 دنوں میں مسلم لیگ کے درخت سے ٹوٹنے والے ہیں۔ وہ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز انکشافات کریں گے۔ زعیم قادری بہت مہذب انسان ہیں ان کو کبھی ایگریسو سٹائل سے کسی سے بات کرتے نہیں دیکھا۔ بعض چیزیں تبدیل نہیں ہو سکتیں۔ جو جملہ انہوں نے آج فرمایا یہی جملہ بہت برس پہلے میرے گھر پر آئے ”میرے دوست محمد نوازشریف“ کی قسطیں لکھ رہا ہوں اس میں لکھا ہے کہ میاں اظہر جب میرے پاس آئے تو یہی الفاظ ان کے تھے کہ میں ان کا مالشیہ نہیں ہوں میں ان کے جوتے نہیں پالش کر سکتا۔ یہ بدقسمتی سے مسلم لیگ ن میں جو سب سے زیادہ قبل اعتماد، سب سے زیادہ محنتی لوگ رہے ہیں نوازشریف فیملی کا پرابلم رہا ہے ایک ایک کر کے ایک صاحب تو مجھ سے بحث کر رہے تھے کہ آپ پنسل کاعذ لے لیں میں آپ کو لکھواتا جاتا ہوں کہ جو پہلے 10,5 چہرے نظر آ رہے تھے نوازشریف کے دائیں بائیں جب یہ پہلی دفعہ وزیر بنے کیا وہ وزیراعلیٰ بنے تو نظر آئے اور جب وزیراعلیٰ تھے تو وہ جب وزیراعظم بنے تو اس وقت نظر آئے۔ میاں صاحب کے انداز تکلم، انداز گفتگو پریہی جملے آپ ذوالفقار کھوسہ سے سنیں گے۔ ان کے بیٹے کو اتنا قابل اعتماد سمجھا جاتا تھا کہ شہباز شریف کی جگہ اس کو وزیراعلیٰ بنایا گیا۔ میاں غفار نے کل کے پروگرام میں کہا تھا کہ آپ شہباز شریف کی بات کر رہے ہیں آخری پانچ سال تو ایس ایس پیز کے انٹرویو تو حمزہ شہباز کرتے ہیں۔ حمزہ بطور ایم این اے قومی اسمبلی جاتے نہیں تھے۔ وہ تو ڈپٹی وزیراعلیٰ کے طور پر تقرریاں، تبدیلیاں وہ کرتا تھا۔ ایس ایس پی اور ڈی سی او حضرات کے انٹرویو وہ لیتا تھا نوازشریف فیملی میں برابلم رہا ہے کہ بادشاہوں کا ایک خاندان ہے مغل شہزادوں کا مزاج رکھتے ہیں۔ کاش میرا دوست نوازشریف اداروں کو مضبوط کرتے اور نظام کو مضبوط کرتے، میں نے اپنی زندگی میں بہت قریب سے دیکھا ہے کبھی مسلم لیگ ن میں کبھی کوئی سسٹم اور سٹرکچر نہیں دیکھا۔ ریاض پیرزادہ والی بات ہے اس سے پہلے خلیل رمدے کے بھائی کا بڑا مسئلہ تھا۔ کیوں زعیم قادری کو 10 سال خیال نہ آیا۔ نوازشریف کے گرد بڑے شاطر لوگ تھے۔ یہی اصل وجہ ہے۔زعیم قادری نے کہا ہے کہ بیس سال کا قصہ ہے مجھے روز پیچھے اس لئے دھکیلا جاتا تھا کہ میں یہ کام نہیں کر سکتا۔ میں بار بار اس بات کا عندیہ قیادت کی خدمت میں رکھتا رہا کہ قیادت نے اس پر کان نہیں دھرے، قیادت نے سب کچھ حمزہ کو سونپے رکھا۔ میری برداشت سے باہر ہو گیا اور میں نے چھوڑ دیا۔ میں اپنے حلقے سے الیکشن لڑوں گا اور آزاد حیثیت سے الیکشن لڑوں گا۔ ضیا شاہد نے کہا کہ حمزہ شہباز ایم این اے تھے ان کا کام نہیں تھا کہ وہ صوبے میں سرکاری افسروں کے انٹرویو کرتے۔ آپ جیسے سمجھدار باعزت لوگ اب آپ کو الیکشن کے موقع پر یاد آیا۔ کیا 5 سال نہیں دیکھ رہے تھے کہ ساری نوکریاں حمزہ شہباز دے رہے ہیں۔ سارے انٹرویو وہ کرتے ہیں۔ ضلع کے افسر وہ لگاتے ہیں اس وقت آپ لوگ کس خوشی میں خاموش تھے اور جب کوئی سیاسی ٹرننگ ہوتی ہے تو اس وقت آپ کو یاد آتا ہے کہ یہ تو مالشیوں کو پسند کرتے ہیں۔ آپ باصلاحیت انسان ہیں۔ ن لیگ کا ورکر تو جائے گا۔ یہ فرد کی لڑائی نہیں ہے آپ سسٹم کی طرف توجہ دلا رہے ہیں۔ ضیا شاہد نے کہا کہ بات یہ ہے مسلم لیگ سارے افسر، سارے ایس ایس پی ان کے ہیں۔ گنتی کروا دیتا ہوں۔ گورنر ہاﺅس ن لییگ کے میڈیا سیل بنے ہوئے ہیں اور آج دن بھر گورنر ہاﺅس لاہور میں کون کون لوگ آتے رہے اور کتنے لوگ وہ تھے جن کی تقرری ضلعوں میں ہو چکی ہے وہ سلام کرنے آ رہے تھے جناب۔ ڈالی لے کر گئے تھے وہ سلام کرنے گئے تھے کہ ہم آپ کے خدمت گزار ہیں۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر مسلم لیگ ن نے جو 2013ءکی طرح یہ کوشش کی کہ الیکشن کو اپنے طریقے سے جیتنے کی تو الیکشن نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کوشش کی کہ ہر قیمت پر جائز ناجائز جیتیں اور دوبارہ پنجاب میں اور وفاق میں ان کی حکومت آ جائے تو الیکشن نہیں ہوں گے۔ سابق سیکرٹری الیکشن کمشن کنور دلشاد نے کل بتایا تھا کہ میں نے 2008ءکے الیکشن میں خود دستخط کئے تھے کہ فلاں مرکز کے تحت جو میئر اور چیئرمین ہیں اور ضلع کونسل کے ارکان ہیں ان کو ہم معطل کر دیا تھا الیکشن کے انعقاد کے عرصے میں۔ میرا سوال ہے کہ اگر 2008ءمیں لوکل گورنمنٹ کو معطل کر دیا تھا تو اس بار کیوں معطل نہیں کیا۔ چونکہ گورنر سیاسی ہیں کتنے ہی وہ ایمانداری کریں کس طرح سے ہو سکتا ہے۔ گورنر صوبے کا آئینی سربراہ ہوتا ہے لاہور میں سب سے بڑا گھر گورنر ہاﺅس ہے ہر صوبے میں سب سے بڑا گھر کراچی، پشاور، کوئٹہ میں سب سے بڑا گھر ان کا ہے۔ پٹواری بھی اپنے گھر میں شیر ہوتا ہے آپ اتنے بڑے عہدے کی بات کر رہے ہیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے بیگم صاحبہ آئیں تو چراغ بجھا دیا کہ اس میں سرکاری تیل جل رہا ہے۔ تم مجھ سے ذاتی بات کر رہی ہو۔ اگر آپ کا خیال ہے کہ اچکزئی صاحب حضرت عمر بن عبدالعزیز ثانی ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ مجھے بہت فون آئے، کہا جاتا ہے کہ بیورو کریسی کے تبادلے ضلعوں کے درمیان ہوتے ہیں۔ نگران وزیراعلیٰ نے اس کی منظوری دی۔ ملتان جیسے شہر میں جہاں تحریک ختم نبوت کا ہیڈ آفس ہے وہاں ملک اللہ بخش کو بھیج دیا گیا ہے جو قادیانی ہے۔ اس حوالے سے ختم نبوت کے اجلاس بھی ہو رہے ہیں۔ ملک اللہ بخش پر قادیانی ہونے کا الزام ہے، شہباز شریف کی ناک کا بال شمار ہوتے ہیں۔ ضلعوں کے درمیان ادلیٰ بدلی کوئی تبدیلی نہیں، حسن عسکری صاحب ان الیکشن کو کوئی نہیں مانے گا اور آپ کے خلاف بڑی تحریک شروع ہو گی۔ شوکت جاوید کے خلاف تو باقاعدہ تحریک شروع ہو چکی ہے کہ وہ اپنے فرائض میں دلچسپی نہیں لے رہے۔ پولیس تبادلوں کے خلاف لوگوں نے آسمان سر پر اٹھایا ہوا ہے۔
خبریں لاہور کے چیف رپورٹر احسان ناز نے کہا ہے گورنر ہاﺅس لاہور مسلم لیگ ن کا الیکشن سیل ہے اور ان کے بیٹے بھی ملتان سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ وہاں آنے والے لوگوں میں زیادہ تر بیوروکریٹ ہیں جن کو نیا نیا پوائنٹ کیا گیا ہے اور کچھ لوگ وہ ہیں جو سیاسی ہیں جو ملتان اور دیگر حلقوں سے آتے ہیں وہ آتے ہیں۔ بعض صحافی بھی وہاں سے ڈکٹیشن وغیرہ لے رہے ہیں کہ مسلم لیگ ن کی جو الیکشن کی پالیسی ہے ان کو آگے بڑھایا جائے۔ میں نے دیکھا کہ پہلے وہاں آنے جانے والوں کی تلاشی ہوتی تھی اور ان کے لسٹوں پر نام لکھے جاتے تھے۔ جب میں نے وہاں یہ محسوس کیا کہ وہاں نام بھی نہیں پوچھا جاتا ان کے لئے راستے کھول دیئے جاتے ہیں۔ اور ان کی گاڑیاں ڈائریکٹ اندرجاتی ہیں۔ دوسری جماعتوں کے بندنوں کے لئے تو جیسے نوگوایریا ہے۔
میاں غفار صاحب نے کہا مسلم لیگ ن میں اگر کسی نے عزت سے وقت گزارا ہے اور نوازشریف اور شہباز شریف کو صاف بات کہہ دیتا تھا وہ ایک ہی آدمی تھا میاں اظہر۔ موجودہ گورنر رفیق رجوانہ صاحب ملتان میں مکمل کنٹرول بیورو کریسی، پولیس پر ان کا تھا۔ یونیورسٹی میں پوسٹنگ ہو حتیٰ کہ پٹواری کی ٹرانسفر بھی ان کے بیٹے، ان کے حکم پر ہوتی تھی۔ ڈی سی کے پاس کوئی اختیار نہیں تھا۔ گورنر ہاﺅس یا رجوانہ ہاﺅس سے ٹیلی فون جاتا تھا۔ ایسے حالات رہے ہوں کہ تو ہم کیسے سمجھ سکتے ہیں کہ اب الیکشن ہو رہا ہے تو پیچھے ہٹیں گے ساری سرکاری ذرائع استعمال ہوں گے۔ ہو رہے ہیں ان کے ڈیرے پر۔ انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن کا جھکاﺅ اس وقت نون لیگ کی طرف ہے۔ بلدیاتی ادارے معطل ہونے چاہئیں۔ لوکل گورنمنٹ سندھ میں پیپلزپارٹی اور پنجاب میں نون لیگ کو سپورٹ کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی کی طرف سے ابھی تک کوئی منظم احتجاج نظر نہیں آیا۔ رہنما عوامی تحریک خرم نواز گنڈا پور نے کہا ہے کہ الیکشن کسی صورت شفاف نہیں ہوں گے، چیف جسٹس و چیف الیکشن کمشنر سارا تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ 26جولائی کو ساری پارٹیز دھاندلی کا الزام لگائیں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ مریم نواز کہتی تھی کہ لندن میں تو کیا پاکستان میں ان کی کوئی جائیداد نہیں، 2 سال میں 85 کروڑ روپے کی جائیداد نکل آئی۔ عمران خان کی ڈھائی ارب روپے کی جائیداد نکل آئی ہے۔ بلاول سمیت دیگر اعلیٰ شخصیات کے اثاثوں کی تفصیلات حیرت انگیز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پانی کا مسئلہ، سی پیک سمیت دیگر ملکی ایشو ہیں، لوٹے ادھر سے ادھر چلے گئے یہ ایشو نہیں ہے۔ جب تک اشرافیہ کا ہولڈ نہیں ٹوٹے گا،جمہوریت کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے۔ چیف رپورٹر خبریں طلال اشتیاق نے کہا ہے کہ حالیہ پولیس تبادلوں میں حیرانگی ہوتی کہ الیکشن کمیشن نے آئی جی پنجاب و چیف سیکرٹری کو اس کی اجازت کیسے دے دی۔ سیاسی وابستگیوں کی وجہ سے اس طرح سے تبادلے ہوتے ہیں۔ ان کو صوبہ بدر کرنا چاہئے تھا۔ اسی طرح بیورو کریسی الیکشن پر اثر انداز ہو گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پولیس میں تبادلوں کی لسٹ آئی جی پنجاب اور ڈپٹی کمشنرز و کمشنر کی لسٹ وزیراعلیٰ نے بنائی ہے۔ یہ دونوں خود متنازعہ ہو گئے۔ زعیم قادری نے کہا ہے کہ اپنے حلقے سے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑوں گا۔ قیادت کو بار بار شکایات کیں لیکن انہوں نے کان نہیں دھرے، میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ یہ قصہ آج کا نہیں 20 سال کا ہے۔ نگران وزیر داخلہ پنجاب شوکت جاوید نے کہا ہے کہ ان لوگوں کو فیلڈ میں لائے ہیں جو پہلے سٹاف ڈیوٹیوں پر لگے ہوئے تھے۔ ایسے بہت کم لوگ ہیں جو پہلے بھی فیلڈ میں تھے اور انہی کو دوبارہ لگا دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر تبادلوں میں صوبہ بندر کر دیا جائے تو پنجاب اتنا بڑا ہے کہ یہاں کے تمام افسران تینوں صوبوں اور وہاں سے تمام پنجاب میں لے آئیں تو بھی پورا نہیں پڑتا۔ الیکشن میں پولیس کا کام صرف لاءاینڈ آرڈر کو برقرار رکھنا ہے، پولنگ سکیم میں تعلیم سمیت دیگر محکموں کے لوگ ہوں گے۔ وزیراعلیٰ سے درخواست کی ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کو درخواست کریں کہ جو پولنگ سکیم بیورو کریسی نے ان کو بھیجی ہے، اس کو انتخابات سے قبل کمپیوٹر میں ڈال کر شفل کر دیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میئر شپ اور بلدیاتی اداروں کو معطل کرنے کے حوالے سے کچھ حلقوں سے آوازیں ابھرنا شروع ہو گئی ہیں۔ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ انتخابات سے پہلے لوکل باڈی کو عارضی طور پر معطل کر دیا جاتا ہے لیکن یہ کام وزارت داخلہ کا نہیں، میں صرف اپنی رائے دے سکتا ہوں۔ اب بھی یہ کام ہونا چاہئے۔