لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ الیکشن کمشن نے فیصلہ کہا ہے کہ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ فاٹا میں بعد میں الیکشن ہوں گے اس کے راستے میں جورکاوٹیں ہیں وہ یقینی طور پر حلقہ بندیوں سے لے کر نظم و نسق بھی ابھی منتقل نہیںہوا ہے خیبر پختونخوا کی حکومت کو۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ فاٹا کے نوجوانوں کو بھی اور جو وہاں تحریک شروع ہوئی ہے ان کو تھورا صبر کر لینا چاہئے۔ نہ اتنی جلدی وہاں الیکشن کروانے کی پوزیشن میں ہیں اور نہ ہی اس کی وجہ سے سارے الیکشن ملتوی کر سکتے ہیں۔ عبداللہ گل آپ کی تنظیم فاٹا کے لوگوں کی بھرپور طور پر حمایت کر رہی ہے آپ کے پاس کیا دلائل ہیں اورآپ کے پاس اس کا حل کیا ہے۔
تنظیم نوجوانان کے سربراہ عبداللہ گل نے کہا ہے کہ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا فاٹا کے ساتھ ایک ایسا تعلق ہے ایک تو میرے والد حمید گل کی وجہ سے تعلق ہے دوسرا تعلق یہ ہے کہ اس وقت متعدد امیدوار جو ہیں ان کا تعلق فاٹا سے ہے اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ایک ایم این اے کے ساتھ ایم پی اے کے الیکشن لڑتے ہیں یہ پورا پینل بنتا ہے جب انہوں نے میرے ساتھ رابطہ کیا تو متعدد قبائل سے بات کی اور ہم باقاعدہ الیکشن کمیشن کی طرف گئے الیکشن کمیشن سے جب بات کی تو ہم نے ایک درخواست دے دی جس کے بعد انہوں نے ہمارا کوئی جواب نہیں دیا یہ 25 مئی کی بات ہے جب ہم نے ان کو درخواست دی تھی اس کے بعدہم گاہے بگاہے رابطے میں رہے لیکن کوئی مثبت جواب نہ آیا تو ہماری ایک کمیٹی ہے۔ اس میں فیصلہ کیا کہ ہم اسلام آباد میں دھرنا دیں گے پرامن انداز میں۔ یہاں ہمارے ہزاروں جو قبائل کے لوگ، ہماری جو پشتون برادری ہے تنظیم جوانان پاکستان کے لوگ وہ سارے اکٹھے ہوئے اور ہم نے پرامن احتجاج ریکارڈ کرواتے رہے لیکن کوئی شنوائی نہ ہوئی تو دودن کے بعد ڈپٹی کمشنر اور ڈی ایس پی صاحب نے وہ ہمیں لینے کے لئے آئے اور انہوں نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر صاحب سے آپ کی ملاقات ہے۔ بڑی اچھی ملاقات ہوئی اور چیف الیکشن کمشنر صاحب نے ہمارے جو تمام مطالبات تھے ان کو دل سے جائز قرار دیا لیکن کہا کہ یہ آئین کے اندر ہم مجبور ہیں کیونکہ پچھلی حکومت آئین بنا گئی۔ ہمارا ان سے موقف تھا کہ آئین تو پچھلی نے حلف نامے کے اوپر بھی بنایا تھا مگر حکومت نے سپریم کورٹ نے 63,62 کی جو شقیں تھیں وہ اس میں ڈال دی گئی ہیں اگر وہ کام ہو سکتا ہے تو یہ آج جو الیکشن کمشنر نے ہمارے مطالبے کو مسترد کیا تو اس کو طریقے اختیار کریں گے ایک قانونی طریقہ ہے۔ آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ بیرسٹر فروغ نسیم صاحب جو ہیں وہ ایک بہت بڑے لائر ہیں اور انہوں نے ہمارا کیس لیا آخر اس میں کوئی جان تھی تو وہ لیا۔ اب ہمارے پاس سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کا راستہ موجود ہے ہم نے جو متعدد میڈیا ہاﺅسز سے اور بالخصوص میں خبریں گروپ سے یہ درخواست کروں گا کہ چیف جسٹس صاحب تک ہمارا موقف پہنچایا جائے کہ کروڑ لوگوں کا معاملہ ہے اگر ضیا شاہد صاحب خود آپ دیکھیں 12 سیٹوں پر 25 جولائی کو الیکشن ہو رہا ہے لیکن سولہ سیٹیں جمع 5 جو ریزرو سیٹیں ہیں اس کے اوپر وہ کہتے ہیںکہ ایک سال بعد، ایک سال کے اندر کروائیں گے اب ایک سال کے اندر الیکشن کا مطلب یہ ہے کہ جو فاٹا کے لوگ ساری زندگی محرومیوں کا شکار رہے 70 برس سے اب جب ان کو آزادی دے دی گئی ہے اور ایف سی آر اور ایف آئی آر کے قانون میں لاتے ہیں تو باقی پورے پاکستان میں 5 سال کے لئے الیکشن ہو رہے ہیں اور فاٹا کے لوگ 4 سال کے لئے ہوں۔ دوسرا اس کے اندر جو قانونی نقطہ ہے وہ یہ ہے آئین کے اندر تو کہیں موجود نہیں ہے کہ کسی کو 4 سال کے لئے الیکشن کر لیں اس لئے آئین اور جمہوریت کے تقاضوں کے بالکل منافی بات جو الیکشن کمیشن نے کہی اور دوسرا یہ کہ 21 سیٹوں پر آپ جانتے ہیں صوبائی اسمبلی کے اندر حکومت بنائی بھی جا سکتی ہے اور گرائی بھی جا سکتی ہے اس لئے ہمارے جو مطالبات ہیں اس کے منوانے کا پہلا تو قانونی راستہ ہے اور دوسرا راستہ جمہوری طریقہ ہے اس کے لئے ہم نے لاک ڈاﺅن کرنے کا جو باقاعدہ اعلان کیا ہے 24 گھنٹے کا میں نے اپنی ٹیم کے ساتھ مشاورت سے الٹی میٹم دیا ہے الیکشن کمیشن کو اور نگران حکومت کو کہ ہمارے مطالبات کو سنا جائے اور ان پر عمل کیا جائے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو۔
ضیا شاہد نے کہا کہ ہمارے ہاں جب بھی کوئی جھگڑا پیدا ہوتا ہے تو مہذب اقوام میں بجائے اس کے کہ ہم آپس میں بحث و مباحثہ کریں یا ڈنڈے سوٹے سے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں ہم سب کے پاس معقول اور آئینی راستہ ہوتا ہے آپ اس مسئلے کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں لے جاتے۔
عبداللہ گل نے کہا کہ آپ کی بات بجا فرمائی ہے۔ لیکن میں گزارش کروں گا کہ ہم نے یہ راستہ بھی اختیار کرنا ہے لیکن ماضی میں دیکھا گیا کہ سپریم کورٹ بھی انہی کی سنتی ہے جو لوگ اپنے لئے کچھ کرنے کے لئے شور مچاتا ہے ورنہ تو ماں بھی بچے کو دودھ نہیں دیتی بغیر چلائے۔ ہم اپنا احتجاج پرامن رکھتے ہوئے جمہوری انداز کے اندر رہتے ہوئے جو پاکستان کی بنیادی شاہراہیں ہیں ان کے اوپراپنا پرامن دھرنا دیں گے۔ امید کریں گے میں نے کل اپنی پریس کانفرنس میں چیف جسٹس کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ
ضیا شاہد نے کہا کہ اب کم و بیش یہ بات نظر آ رہی ہے کہ نوازشریف اپنی اہلیہ کی علالت کے باعث لندن میں ہیں اور واپس مقررہ تاریخ پر پہنچنا ممکن نظر نہیں آ رہا مریم نواز صاحب نے اس طرف اشارہ کیا ہے اب یہ کم و بیش بات دکھائی دیتی ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے جو ایک مہینہ دیا تھا کہ ایک مہینے کے اندر ان کا فیصلہ آ جائے۔ دوسرے لفظوں میں یہ تھا کہ الیکشن سے پہلے فیصلہ آ جائے، عملاً اگر دیکھا جائے تو اکثر بحث کا حصہ مکمل ہو چکا ہے اور کوئی شاید ہی کوئی بات رہ گئی ہو۔ عدالتوں کا جو اپنا طریقہ کار ہوتا ہے اس میں ظاہر ہے نوازشریف صاحب پیش نہیں ہو سکتے تو کیا ان کے وکلاءکو اجازت ہونی چاہئے کہ وہ ان کی جگہ پر وہ جو سوالات کا جواب دے سکیں۔ بہر حال بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے کہ بیگم کلثوم کو اللہ صحت دے اب تو کہا جا رہا ہے کہ ان کی طبیعت ٹھیک بھی ہونے لگی ہے۔ بڑی اچھی بات ہے میں نے اپنے ہر پروگرام میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر یہ دُعا کی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو صحت عطا فرمائے۔ ایک دوسرے سے سیاسی اختلاف بھی ہو سکتا ہے۔ میرا خیال ہے نظر آ رہا ہے کہ نوازشریف کا معاملہ الیکشن کے بعد حل ہوتا نظر آئے گا۔ نوازشریف کے 25 بیورو کریٹس کے ناموں کی حتمی فہرست تیار کر لی گئی ہے اور ان کا نام بھی ای سی ایل میں ڈالا جانے کا امکان ہے۔ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ مجھے تو امید نہیں ہے کہ ان بیورو کریٹس کے خلاف کوئی کارروائی ہو سکے اس لئے کہ میں نے آج صبح ہی سنا کہ جو ہمارے محترم جو نیب کے سربراہ ہیں ان کے ترجمان سے پوچھا تھا کہ تو غالباً ایک ہفتے کے لئے لاہور میں آئے ہوئے ہیں۔ خیال ہے کہ شہباز شریف ان کی عدالت میں پیش ہوں گے مگر پتہ چلا ہے کہ وہ پیش نہیں ہوئے اب تو نظر آ رہا ہے کہ شہباز شریف کا معاملہ بھی جسٹس (ر) جاوید اقبال صاحب جو ہیں اس کو بھی الیکشن سے پہلے نہیں نپٹا سکتے۔ پتلا چلا ہے کہ ان کو دھمکی بھی ملی ہے میں نے تو اس سے بھی بہت زیادہ آگے جا کر باتیں کی ہیں۔ میں نے کہا تھا کہ نیب کے چیئرمین جناب ریٹائرڈ جسٹس جاوید اقبال کو ایک مرحلہ پر کہا گیا تھا بعض سیاسی عناصر کی طرف سے کہ آپ مہربانی کریں استعفیٰ دے دیں یا بیماری کے بہانے رخصت پر چلے جائیں۔ پریس نے یہ خبر بھی دی تھی کہ ان کو آفر کی گئی ہے کہ خانہ کعبہ کے سامنے ان کا ایک نمائندہ اور جس پارٹی کا میں ذکر کر رہا ہوں ایک جگہ بیٹھ کر حلف اٹھائیں کہ اگر جاوید اقبال صاحب چھٹی پر چلے جائیںگویا یہ معاملہ کھوہ کھاتے پڑ جائے تو پھر اس کی پاداش میں، انعام کے طور پر آفر کی گئی تھی کہ اگر اگلی حکومت میں جب جناب نوازشریف صاحب کی پارٹی کامیاب ہو کر حکومت بنائے گی تو ان کو صدر ممنون کی جگہ صدر بنا دیا جائے۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ جناب جسٹس صاحب نے اس سے معذرت کر لی تھی۔ ادھر نیب میں صاف پانی سکینڈل میں پیش نہ ہونے اور کراچی کے عوام کو حکومت میں آ کر صاف پانی فراہم کرنے کے شہباز شریف کے بیان پر ضیا شاہد نے کہا کہ اس کا جواب تو وہ خود ہی دے سکتے ہیں مگر اس بیان کو بھی ان کے باقی وعدہ کی طرح ہی لینا چاہئے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ اگرچہ بہت سارے لوگ مجھ سے خفا ہیں اور آج کل تومجھ پر بڑی یلغار ہے۔اخبار اور چینل ۵ کا ریکارڈ گواہ ہے کہ میں نے سب سے پہلے قصور میں بچیوں کے ساتھ زیادتی اور اس سے پہلے لڑکوں سے زیادتی کے سلسلے میں آواز اٹھائی۔ میں واحد ایڈیٹر تھا جو 3 مرتبہ قصور گیا۔ سرگودھا میں جب 600 بچوں کی ویڈیو بنا کر ناروے کے ٹیلی ویژن کو 100 یورو فی ویڈیو کے حساب سے فروخت کی گئی میں واحد بندہ تھا جس نے اس مسئلے کو سب سے زیادہ اٹھایا۔ میں نے اس کو سزا دلوانے تک پرسو کیا اور میں اس بات سے اتنی شدید نفرت کرتا ہوں کہ بچیوں پر مجرمانہ حملے کئے جائیں۔ اس وقت ساری دنیا جانتی ہے، ہمارے اخبار میں دو خبریں بھی چھپی ہیں کب سے یہ شروع ہوا، ہر تیسرا بندہ جو اداکار، صدا کار ہے وہ کسی کی بھی آواز میں ایسی کاپی کرتا ہے کہ اس کو وہ ہی نہیں پہچان سکتا کہ یہ میری آواز ہے یا اس کی آواز ہے۔ اس کی میں مثال دوں گا اور میاں غفار صاحب بھی جو اس کیس پر کام کر رہے تھے، یہ ایک کیس ہے، 15 دن سے پہلے اس کے پیچھے لگے ہوئے تھے۔ ایف آئی اے کی ٹیم بھی تیار کی جا چکی ہے جس کے ذریعے ہم نے ملزموں پر چھاپہ مارنا تھا۔ کسی وجہ سے یہ بات لیگ ہو گئی کہ اخبار والوں کو پتا چل گیا لہٰذا وہ شو نہیں ہو سکا۔ اب اس کا سارا ملبہ مجھ پر ڈال دیا گیا۔ دوسری بات کہ عائشہ گلا لئی صاحب نے جب عمران خان پر یہ الزام لگایا کہ اس نے مجھے میسج کئے ہیں تو بہت سے لوگوں نے مجھے پاکستان سے باہر سے بھی فون کیا کہ یہ ٹیکنالوجی موجود ہے کہ آپ کے ٹیلی فون سے جو بھی چاہے کسی کو بھیج سکتے ہیں۔ بول ٹیلی ویژن پر ایک صاحب نے اس کا ڈیمو بھی دیا۔ اس کے بعد مجھے بتایا اور میرے دوست عبداللہ غالب صاحب اس کو ٹریس کرے۔ ہمارے پروگرام میں اس کی ویڈیو موجود ہے کہ انہوں نے کہا آپ جو نام مجھے دیں میں اسی نام سے میسج کروں گا۔ یہ ایک الزام مجھ پر لگا میں اس کے خلاف جو قانونی کارروائی ہو سکتی ہے۔ پروگرام میں ریذیڈنٹ ایڈیٹر روزنامہ خبریں ملتان میاں غفار نے ٹیلی فونک گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک گینگ ہے اس میں سکول ٹیچر اور کچھ لوگ ملتان میں ہیں۔ سکول ٹیچر بچیوں کو ورغلا کر ان کی ساﺅنڈ بائیٹس لیتی ہے اور تصاویر اپلوڈ کرتی ہے۔ اس نے مخصوص لوگ رکھے ہوئے ہیں جنہیں یہ بیچتی ہے ۔ اس کا تعلق ملتان سے ہے۔ ہم اس تک پہنچ چکے تھے۔اس بندے کو جسے ہم نے پورے پلان میں شامل کیا ہوا تھا کہیں سے پتا چل گیا کہ یہ میڈیا والے ہیں اور اس کی وجہ سے ہمارا پلان چوپٹ ہوا۔
پروگرام میں آئی ٹی ایکسپرٹ ولید نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ آج کل ٹیکنالوجی بہت ایڈوانس ہو چکی ہے۔ میسج ہی نہیں ویڈیو اور آواز کسی بھی چیز کو بدل سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ بہت ہائی اینڈ رانزک رپورٹ ہی اس کو نیٹ کر کے بنا سکتی ہے۔ ملکی ادارے یا بڑی آرگنائزیشن ہی ٹیسٹ کر کے بتا سکتی ہیں کہ یہ نقلی ہے۔ ٹیکنالوجی اتنی ایڈوانس ہو چکی ہے کہ میں چاہوں تو آپ کی وائس فریکوینسی کو میچ کر کے آپ کی آواز اتنی ایکوریٹ کر سکتا ہے کہ آپ خود ہی نہیں تو کہیں کہ یہ میری آواز ہے۔ ٹیکنا لوجی سے کسی کو بھی بلیک میل کیا جا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ آپ کے نمبر سے آپ کو ہی کال کی جا سکتی ہے۔ سوچل میڈیا کے ذریعے عام یوزر کسی کو بھی بلیک میل کر سکتا ہے، جو سب فیک ہے۔ وائس ریکارڈنگ پر مختلف سافٹویئر اس کی جانچ کرتے ہیں کہ یہ وائس ریکارڈنگ ہے یا کمپیوٹرائزڈ طور پر کچھ ہے۔ ٹیکنالوجی اتنی جدید ہے کہ میں آپ کی آواز ریکارڈ کر کے آپ کی آواز میں یہی بات کر سکتا ہوں۔ اگر مجھے آپ کا نمبر پتا ہے تو میں آپ کو ضیا شاہد صاحب کے نمبر سے کال کروں گا اور لکھا آئے گا کہ ضیا شاہد صاحب کالنگ۔ اس کاٹ کے پیچھے وائس جنریٹنگ کا سسٹم لگا کر آواز اس انداز سے جائیگی کہ فرق پتا ہی نہیں چلے گا۔