لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ آئین، قانون اور عدلیہ کی عزت برقرار رہنی چاہئے۔ جس نے عدلیہ کے خلاف بات کی بھگتے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ توہین عدالت لگانی ہے تو صرف ن لیگ پر نہیں سب پر لگائی جائے کیونکہ عمران خان سے لے کر ہر شخص عدالتی کارروائی پر کمنٹ کرتا رہا ہے۔ چینل ۵ کے پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا جو بات پارلیمنٹ میں نہیں ہو سکتی وہ سڑک پر کیسے ہو سکتی ہے۔ ضیا شاہد کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا عدالتی فیصلے کے تحت بھٹو کو پھانسی دے دی گئی مگر انہیں عوام کے دلوں سے نہیں نکالا جا سکا۔ نوازشریف اگرچہ اگلی حکومت کا حصہ نہیں ہوں گے تاہم سیاست کا محور آج بھی وہی ہیں۔ وہ کامیاب ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ 25 جولائی کو عوام کریں گے۔ انہوں نے کہا میں نے قطر سے ایل این جی کی درآمد کا سستا ترین سودا کیا۔ ہم نے بھارت اور جاپان سے بھی کم نرخوں پر گیس حاصل کی۔ یہ ہماری سب سے کامیاب ڈیل تھی جو چاہے مجھ سے مناظر کر لیں۔ انہوں نے کہا نوازشریف کی پی آئی اے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس کا اب کوئی خریدار نہیں اس کی کوئی ویلیو نہیں۔ نجکاری کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ آپ سالانہ چالیس پچاس ارب روپے اس میں جھونک سکتے ہیں تو ٹھیک ہے اور آج تو کوئی اس کو خریدنے کے لئے بھی تیار نہیں انہوں نے کہا نوازشریف نے کبھی پانچ ججوں کو کٹہرے میں لانے کی بات نہیں کی۔ انہوں نے سوال کیا کہ اگر جج غلط فیصلہ کرتا ہے تو اسے کون پوچھے گا۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا میری کابینہ کے اجلاسوں میں کبھی عدلیہ پر بات نہیں۔ جس نے بات کی باہر جا کر کی۔ انہوں نے کہا پارٹی میں کوئی انتشار نہیں البتہ اختلاف رائے ہوتا ہے۔ ن لیگ واحد جماعت ہے جس میں کوئی کسی کو اختلاف رائے سے نہیں روکتا۔ یہ جمہوریت کا حصہ ہے اور اس سے جمہوریت آگے بڑھتی ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ اب سرکاری افسر کوئی فیصلہ نہیں کرتے کیونکہ انہیں نیب اور عدلیہ کاخوف رہتا ہے جس کی وجہ سے کام نہیں ہو پا رہا۔ انہوں نے کہا میں دس ماہ وزیراعظم رہا اس دوران کسی کام کے سلسلے میں مجھے نوازشریف کا ایک بار بھی فون نہیں آیا۔
ضیا شاہد: بہت مشکل حالات میں آپ کو وزیراعظم کی ذمہ داری ملی۔ جب ایک طرف آپ کی پارٹی کے قائدنوازشریف عدالت سے نااہل ہو چکے تھے اور بعد میں پارٹی قیادت کے لئے بھی عدالت نے ان کے خلاف فیصلہ دے دیا۔ ایک طرف وزارت عظمیٰ تھی تو دوسری طرف آپ کی پارٹی تھی کیونکہ آپ نوازشریف کو ہی اپنا سیاسی قائد کہتے ہیں۔ ان دو حیثیتوں میں کام کرنا پڑا۔ کیونکہ اس دوران آپ کے قائد کا عدلیہ اور فوج کے بارے تنقید کرنے کا رویہ تھا۔ دوسری طرف آپ کو بحیثیت وزیراعظم ان دو اداروں کے ساتھ مل کر بھی چلنا تھا۔ آپ نے بڑی ہوشمندی سے ذمہ داری پوری کی۔ یہ فرمایئے کہ آپ نے یہ مشکل کام کیسے انجام دیا۔
شاہد خاقان عباسی: بنیادی بات یہ ہے کہ میں وزیراعظم کے عہدے پر اکیلا نہیں ایک جماعت میرے ساتھ تھی اور عام طور پر یہ توقع تھی کہ جب نوازشریف وزیراعظم نہیں رہے۔ جماعت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے اور جماعت نے سیاسی پختگی کا ثبوت دیا اور کوئی شخص کہیں ٹوٹ کر نہیں گیا اور یہ بھی توقع تھی کہ حکومت اپنی مدت پوری نہیں کرے گی میں نے پہلے دن ہی کہا تھا حکومت اپنی مدت پوری کرے گی اور جو بھی مشکلات ہوں گی اس کا مقابلہ کریں گے اور جو بھی ہمارا مینڈیٹ ہے جو منشور ہے جو سلسلہ نوازشریف صاحب نے شروع کیا تھا اس پر عمل کریں گے نوازشریف کو صرف میں نہیں لیڈر نہیں کہتا بلکہ پاکستان کے ووٹرز کی اکثریت ان کو لیڈر مانتی ہے۔ آج بھی جب ان کے پاس کوئی سرکاری عہدہ ہے اور نہ جماعت کا عہدہ ہے لیکن پاکستان کی سیاست جو ہے وہ انہی کے گرد گھومتی ہے۔ میں دعوے سے کہہ رہا ہوں کہ پچھلے 10 ماہ میں مجھے ان کا کوئی ٹیلی فون نہیں آیا۔ کہ فلاں کام اس طرح کرنا ہے یا ایسے کرنا ہے۔ انہوں نے اور جماعت نے مجھ پر اعتماد کرتے ہوئے مجھے آزادی دی میں اپنے فیصلے خود کروں۔ کبھی بھی مجھے اس معاملے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ ملک سب سے پہلے ہوتا ہے اور جماعت اس کے بعد ہوتی ہے اور الحمدللہ مسلم لیگ ن نے ہمیشہ سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے اور ملکی مفاد کو سامنے رکھا اور ہم نے یہ میڈیا میں یہ تاثر قائم کیا جاتا ہے کہ اداروں سے کوئی اختلاف کیا۔ ایسی قطعاً کوئی بات نہیں ہے۔ ہم نے ہمیشہ آئین، قانون کی پاسداری کی کیونکہ ملک نے آئین کے مطابق چلنا ہے ہم آج بھی یہی بات کر رہے ہیں کہ ملک کو آئین کے مطابق چلنے دیں کیونکہ اگر جو منتخب حکومت ہے اس کے پاس اختیارات نہیں ہوں گے وہ کام نہیں کر سکے گی تو نقصان ملک کا ہوتا ہے۔ یہ بات آج عوام پر واضح ہے میں حلقے میں جہاں بھی جاتا ہوں ہر شخص یہی کہتا ہے کہ آج اولین ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک شفاف اور غیر متنازعہ الیکشن ہوں اور جو حکومت کل وجود میں آئے وہ عوام کا کام کر سکے معیشت مضبوط کر سکے اور ملک کو مضبوط کر سکے۔ یہاں کوئی دو سائڈ ذہن ہیں یہ بدقسمتی سے تاثر ہوتا ہے کہ جوڈیشری ایک سائڈ ہے فوج دوسری سائڈ ہے۔ انٹیلی جنس کے ادارے تیسری سائڈ اور میڈیا چوتھی سائڈ ہے یہا ںکوئی سائڈ نہیں سب نے مل کر اس ملک کے مفاد کے لئے کام کرنا ہے تا کہ معیشت، فوج اور ملک مضبوط ہو اور پاکستان ترقی کر سکے اوراس کے عوام فائدہ اٹھا سکیں۔ یہ بنیادی مقصد سب پر عیاں ہو گا تو پھر کوئی مشکل نہیں ہے مسلم لیگ ن بڑی وضاحت سے بیان کر چکی ہے کہ ہم اقتدار کے بھوکے نہیں ہیں۔ ہم نے پاکستان کے لئے کام کیا۔ اس کی مشکلات کے حل کے لئے کام کیا اور آج ہم یہی کارکردگی لے کر پاکستانی عوام کے پاس جا رہے ہیں۔
ضیا شاہد: جیسا کہ آپ نے کہا اس کے باوجود میں ہی نہیں پاکستان کے بے شمار لوگ سمجھتے ہیں کہ ہماری بیٹی محترمہ مریم نواز صاحبہ خلائی مخلوق کہتی تھیں وہ ایک پراسرار تصور کرتی تھیں اس مخلوق کے بارے میں آپ نیشنل سکیورٹی کونسل میں فوج کے سربراہوں کے ساتھ بھی بیٹھتے تھے اور خود اس کانفرنس کی صدارت کرتے تھے وہاں ایک فیصلہ بھی ہوتا تھا اور تاریخ نے دیکھا کہ اس فیصلے کے آدھے گھنٹے بعد آپ نے پنجاب ہاﺅس میں محترم جناب نوازشریف سے ملاقات کی اور یہ بھی کہا کہ جس طرح پرانے زمانے میں مشہور ہے کہ کسی نے پوچھا کہ میرانیس اور میر دبیر میں سے کون سا مرثیہ گو شاعر اچھا ہے تو سیانے لوگ تھے انہوں نے کہا کہ دونوں اچھے تھے ایک آہ ہے اور دوسرا واہ ہے۔ اس طرح سے آپ نے نیشنل سکیورٹی کونسل کی میٹنگ میں اپنے سارے ساتھیوں کو جن میں فوجی سربراہ بھی شامل تھے ان کو بھی مطمئن کر دیا اور پونے گھنٹہ کے بعد اپنی پارٹی کے لیڈر جناب نوازشریف کا بھی جو موقف تھا اس کی بھی تائید کی۔ یہ آگ اور پانی کا ملاپ آپ نے کیسے ممکن کر دیا۔
شاہد خاقان عباسی: ضیا شاہد صاحب! یہ بہت غلط تاثر ہے ایک ایشو پیدا ہوا تھا میاں صاحب نے انٹرویو دیا اور انہوں نے کوئی ایسی بات نہیں کی جو نئی تھی لیکن بدقسمتی سے اس کو انڈین میڈیا نے سب سے پہلے، انٹرنیشنل میڈیا اور ایک دن بعد پاکستانی میڈیا نے یہ تاثر دیا کہ شاید میاں صاحب کے انٹرویو سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ہم نے جان بوجھ کر یہاں سے لوگ بھیجے جنہوں نے ممبئی کا حملہ کیا۔ یہ تاثر قائم کیا گیا میڈیا کے اندر، اس کو زائل کرنا ضروری تھا اس کے لئے میٹنگ بلائی گئی نیشنل سکیورٹی کونسل کی اور اس نے اس بیان کو اور جو الزامات لگائے گئے تھے میڈیا میں اس کی بھرپور مذمت کی اور اس کو رد کیا۔ میاں نوازشریف سوات جا رہے تھے میری ان سے میٹنگ ہوئی ہم نے کوئی بھی نیشنل سکیورٹی کونسل کا وہاں پر ڈسکس نہیں کیا بلکہ وہ میٹنگ زیربحث بھی نہیں آئی۔ میری اس انٹرویو بارے ان سے بات ہوئی نوازشریف صاحب نے بھی یہی کہا کہ ایک ذمہ دار آدمی ہوں یہ تاثر کہ میرے بیان سے اخذ کیا جائے کہ پاکستان نے جان بوجھ کر لوگ بھیجے جنہوں نے جا کر ممبئی کا حملہ کیا یہ تاثر بالکل غلط ہے اور اس کو رد کرنے کی ضرورت ہے جس پر میں نے پریس کانفرنس کی اور اس کو بیان بھی کیا اور پریس کانفرنس کی میڈیا سے کوریج اس لئے نہیں کروائی گئی کہ جو اوپنین میکر تھے وہ سوال کرتے تو اور ابہام پیدا ہوتا کہ بات کیا ہے۔ ہم نے وہاں سب کو کھل کر بات کرنے کا موقع دیا کہ سوال کر سکیں میں نے جواب بھی دیئے۔ کچھ لوگ جواب سے مطمئن ہوئے کچھ نہیں ہوئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں تھی صرف ایک مقصد تھا کہ جو میڈیا میں یہ تاثر پیدا کیا اور انڈیا نے کیا اس کو بدقسمتی سے ہم نے بھی اچھالنا شروع کیا کہ پاکستان نے جان بوجھ کر یہاں سے لوگ بھیجے جنہوں نے ممبئی کا حملہ کیا۔ قطعاً پاکستان کی پالیسی رہی ہے نہ اس سے پہلے تھی نہ آج ہے نہ اس کے بعد ہو گی۔ ہم نے کبھی سرحد کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی۔ یہ جو چیز تھی جو میری ذمہ داری تھی۔ ایک وزیراعظم کے طور پر کہ اس اثر کو زائل کیا جائے۔ اس کی وجہ سے نیشنل سکیورٹی کونسل کی میٹنگ بلائی گئی تھی۔
ضیا شاہد: یہ حقیقت ہے کہ بطور وزیراعظم انتہائی مہارت سے آئین کے تقاضوں کے پیش نظر اپنی ذمہ داری نبھائی۔ اس پر آپ کو سراہا بھی گیا۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا کہ آپ کی کابینہ میں خاص طور پر نوجوان ایم این اے حضرات اور پہلے سے موجود کابینہ کے ممبران نے عدلیہ کے بارے میں اتنی تیز اور تند گفتگو کی کہ آج اس کے نتائج سامنے آ رہے ہیں اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب آپ کا کوئی ساتھی کولیگ کوئی سابق وزیر سابق ایم این اے 5 سال کے لئے نااہل نہ قرار پاتا ہو۔ دانیال عزیز ہوں، قصور کے ایم این اے ہوں۔ آپ کے مزاج میں شائستگی ہے تو آئینی قدروں کا احترام ہے آپ نے تو کبھی کوئی لوز ٹاک نہیں کی جو کسی بھی قانون کے دائرے میں آتی ہو لیکن آپ کی کابینہ کے ارکان کو ان غیر قانونی حرکتوں پر روک نہیں سکے۔ بلکہ جو سب سے زیادہ بڑبولا تھا آپ نے چن کر اپنا وزیر بنایا یہ تضاد آپ کی طبیعت میں کیسے آیا آپ تو مزاجاً اس قسم کے آدمی نہیں اور آپ کی خاندانی روایات بھی انتہائی تہذیب کے اندر رہ کر بات کرنے کی ہیں۔
شاہد خاقان عباسی: کابینہ میں کبھی عدلیہ کا معاملہ ڈسکس نہیں ہوا۔ کابینہ ممبران نے یقینا باہر جا کر بات کی ہے وہ آزاد ہیں میں ان کو پابند نہیں کر سکتا تھا۔ وہ اپنے حلقے کی نمائندگی بھی کرتے ہیں اور عوام کی نمائندگی بھی کرتے ہیں جو بات ان کے ذہن میں ہوتی ہے اس پر وہ کمنٹ کرتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ آئین میں قانون اور آئین میں عدلیہ کی ایک عزت ہے جو برقرار رہنی چاہئے اگر کسی نے اس حد تک تجاوز کیا اس کو اس کی سزا ملنی چاہئے۔ میں اس پر کوئی دو رائے نہیں رکھتا۔ لیکن میں یہ بات ضرور کروں گا کہ ان حدود کا تعین ہونا بڑا ضروری ہے یہ ساری خرابی میری نظر میں اس لئے پیدا ہوئی کہ ایک کیس سپریم کورٹ کے اندر چل رہا تھا جس کی تقریباً ہر روز سماعت ہوتی تھی جو عدالت کے اندر ہوا میں اس بارے کمنٹ نہیں کروں گا لیکن جب وہ کیس ختم ہوتا تھا تو پھر عمران سے لے کر ان کے ایم این اے تک ہر شخص سپریم کورٹ کے باہر جا کر الزامات کی بوچھاڑ ایک فحش گفتگو کی جاتی تھی جو اس دن عدالت میں باتیں ہوتی تھیں اس پر پوری کمنٹری ہوتی تھی یقینا ہم بھی ایک سیاسی جماعت ہیں اقتدار میں ضرور ہوں گے لیکن جب عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہوں اور کوئی باہر نکل کر ہم پر الزام لگائے اور کمنٹری کرے ہمیں بھی حق پہنچتا ہے کہ ہم اس کا جواب دیں۔ اس کا جواب بہت سے افراد نے دیا۔ اور بات یہیں ختم نہیں ہوتی تھی ہر روز ہر ٹی وی چینل پر سینکڑوں پروگرام ہوتے تھے جن میں اس دن کی سپریم کورٹ کی پروسیڈنگ پر بحث ہوتی تھی۔ ہر بات کو ٹٹولا جاتا تھا الزامات لگائے جاتے تھے نتیجے اخذ کئے جاتے تھے یہ وہ چیز تھی جس کی حدود کا تعین ضروری ہے اور مجھے بڑی خوشی ہوتی اگر سپریم کورٹ ایک رولنگ پاس کر دیتی کہ جو بات پارلیمنٹ میں ڈسکس نہیں ہو سکتی آئین اور قانون کے مطابق وہ سڑک پر لائیو کیسے ڈسکس ہو رہی ہے وہ ٹی وی پروگراموں میں کیسے ڈسکس ہو رہی ہے ان حدود کا تعین بڑا ضروری ہے ورنہ آج جو قانون ہے جو یہ کہتا ہے کہ سپریم کورٹ کی پروسیڈنگ کو اسمبلی میں ڈسکس نہیں کر سکتے جو چیز عوام کے نمائندہ ادارے میں زیربحث کیسے ہو سکتی وہ سڑک پرکیسے ڈسکس ہوتی ہے۔ اگر توہین عدالت لگانا ہے ساری ریکارڈنگز موجود ہیں کسی شخص نے کیا کیا کہا کیسے کہا کس کے بارے میں کہا سب موجود ہے سب پر توہین عدالت لگائیں سب کو فارغ کریں۔ یہ یکطرفہ احتساب مسلم لیگ ن کا۔ ہم تو ان الزامات کا، ان باتوں کا جواب دیتے تھے جو دوسرے ہم پر لگاتے تھے میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں حدود کا تعین کرنا بڑا ضروری ہے اور یہ سپریم کورٹ کا ہے کہ وہ کہہ دے کہ جو معاملہ کورٹس میں چل رہا ہو زیر سماعت ہو اس پر میڈیا پر کمنٹری نہیں ہو سکتی۔ پوری دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے وہ بدقسمتی سے ان حدود کا تعین نہیں ہو رہا اور سزا مسلم لیگ ن کو مل رہی ہے۔
ضیا شاہد: جناب نوازشریف صاحب کے دور میں شاید ان کی شخصیت کا اثر تھا یا ان کی سیاست میں سنیارٹی کا تھا کہ ان کے دور میں بھی آپ کی کابینہ کے ارکان میں چھوٹے موٹے اختلافات چلتے رہتے ہیں۔ یہ جمہوریت کا ایک تقاضا ہے۔ یہ صاف گوئی کا، آزادی اظہار کا ایک شاخسانہ ہوتا ہے کہ اس میں کوئی ایسی بات نہیں۔ بڑی پارٹیوں میں ہمیشہ ایک دورے کے مخالف اور متضاد نظریات چلتے رہتے ہیں اور اس کو جمہوریت کا حسن سمجھا جاتا ہے یہ عجیب بات نہیں کہ آپ کی وزارت عظمیٰ کے دور میں پہلی مرتبہ مسلم لیگ ن کی کابینہ کے ارکان میں اختلافات کھل کر سامنے آنے لگے، جیسے چودھری نثار بمقابلہ پرویز رشید اور خواجہ ااصف، ڈان لیکس کا مسئلہ، فواد حسن فواد پرسنپل سیکرٹری جو سابق تھے ان کے اور چودھری نثار کے درمیان اختلافات اور پھر یوں یہ تضادات بڑھتے چلے گئے اور آپ کی حکومت کے اختتام تک بڑے واضح طور پر مختلف گروپ سامنے دکھائی دینے لگے۔ پہلے کم از کم یہ تضادات منافرت کی حد تک اور کھلم کھلا ایک دوسرے کی مخالفت کی حد تک نہیں پہنچے تھے۔ بطور کپتان کیونکہ وزیراعظم آپ تھے۔ کیا وجہ تھی کہ آپ ان متضاد اور مختلف الخیال افراد کے درمیان بھی اپنی پارٹی کو انتشار سے بچانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔
شاہد خاقان عباسی: پارٹی میں کوئی انتشار نہیں ہے۔ جس کمرے میں 60,50 لوگ بیٹھے ہوں جو مختلف رائے رکھتے ہوں یقینا اختلافات ہو جاتے ہیں وہ اختلاف رائے کمرے میں رہتا ہے اس کے باہر جانے کی گنجائش نہیں ہوتی ہے۔ گھر کا اختلاف گھر کے اندر رہے نہ ہی پرویز رشید ہی میری کابینہ میں تھے نہ چودھری نثار۔ یہ اختلافات اخبارات کی زینت بنے بدقسمتی سے ٹی وی کی زینت بنے یہ بات درست نہیں ہے اگر آپ جماعت میں ہیں اختلاف رائے ہوتا ہے مسلم لیگ ن واحد جماعت ہے جس میں کوئی اختلاف رائے کو روکتا نہیں ہے۔ میں قطعاً اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ میں کس کو منع کروں تم کیا بات کرو یا کیا بات نہ کرو۔ ہم نے کوشش کی۔ کم اختلافات بدقسمتی سے قائم ہیں۔ یہ بہت بڑی جماعت ہے۔
ضیا شاہد: ایک زمانے میں آپ کو پی آئی اے کا سربراہ بنایا گیا۔ نور خان اور اصغر خان اس کے سربراہ رہے۔ پی آئی اے کو دنیا کی بہترین فضائی کمپنیوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ 20 سال سے تو سنا جا رہا ہے ہر حکومت اندر کھاتے یہ طے کر کے بیٹھی ہوئی ہے اسے اور نقصان سے دوچار کرایا جائے اور پھر اونے پونے اسے خرید لیا جائے سب جانتے ہیں کہ کون اس پی آئی اے کو خریدنا چاہتا ہے اور کون سے بینکر نے پیسے لگانے تھے۔ اب سپریم کورٹ نے بھی کہا ہے کہ اسے چلایا جائے مگر پتہ چلایا جائے کہ اسے کس نے لوٹا ہے۔ یہ ہماری کمپنی کیسے تباہ ہوئی۔
شاہد خاقان عباسی: حکومت کاروبار نہیں کرتی۔ اگر حکومت مل نہیں چلا سکتی ایئرلائن دنیا کا سب سے بڑا مشکل کام ہے۔ میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ میں نے پچھلے 5 سال میں پی آئی اے کے معاملات میں کوئی دخل اندازی نہیں کی۔ دخل اندازی نہ کرنے کے باوجود الزام لگتا رہا۔ میں نے مشرف کے دور میں ایئربلیو بنائی دوستوں کے ساتھ مل کر کامیاب ہوئی۔ وہ پبلک لمیٹڈ کمپنی ہے میری ذاتی ملکیت نہیں ہے۔ دنیا بدل گئی اور پی آئی اے نہیں بدلی۔ اس میں آزادی چاہئے ہوتی ہے وہ پبلک سیکٹر میں ممکن نہیں ہے جس منیجر کو عدالتوں کا سامنا رہے وہ کیا کام کرے گا۔ پی آئی اے پرائیویٹ سیکٹر میں چل سکتی ہے گورنمنٹ سیکٹر میں نہیں چل سکتی۔ 12 اکتوبر 1999ءکو میں پی آئی اے نے حکومت کا کوئی پیسہ ادا نہیں کرنا تھا۔ پی آئی اے اب قومی خسارہ ادارہ نہیں ہے۔
ضیا شاہد: اگر گھاٹے کا سودا ہے تو آپ نے خود کیوں فضائی کمپنی بنائی اور کیا یہ بات درست ہے کہ نوازشریف کسی تھرڈ مین کے ذریعے پی آئی اے کو خریدنا چاہتے تھے۔
شاہد خاقان عباسی: ہم نے تو سندھ حکومت اور کے پی کے کو کہا کہ پی آئی اے کو آپ لے لو اس کو ایک روپے میں۔ نوازشریف کو کبھی کسی ایئرلائن کا شوق نہیں ہوا۔ مجھے بچپن سے شوق، جہاز اڑاتا بھی رہا ہوں۔ اس حالات میں پی آئی اے کو کوئی نہیں خریدے گا جو خریدے گا اس پر الزام لگیں گے۔ اس کو نیب پوچھے گی، اس کو اندر کرے گی۔ مجھے کوئی ایک ارب دے اور پی آئی اے بھی دے تو میں نہیں لوں گا۔
ضیا شاہد: الزام لگا کہ آپ نے بغیر سرٹیفکیٹ کے پائلٹ بھرتی کئے۔
شاہد خاقان عباسی: جہاز کو بغیر تجربے کے ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ کوئی ایئرلائن بھی یہ کام نہیں کر سکتی۔
ضیا شاہد: شیخ رشید کہتے کہتے تھک گئے ان کا کیس تھا کہ قطر سے ایل این جی ملائیشیا اور بھارت نے سستے داموں خریدی۔ ہم نے مہنگے داموں سودا کیا اور کسی نہ کسی نے پیسے کھائے ہوں گے۔
شاہد خاقان عباسی: میں ذمہ دار ہوں ملک میں ایل این جی لانے کا، اسمبلی، سینٹ کا ریکارڈ دیکھ لیں مجھ سے سوال نہ کرے جس نے مجھ سے مناظرہ کرنا ہے کر لے۔ سب سے سستے ریٹ پر ایٹ این جی لائی گئی۔ جس سے انرجی بحران حل ہو سکے۔ سب سے زیادہ شور چور ہی مچاتے ہیں۔
ضیا شاہد: نوازشریف نے کہا ہے کہ چونکہ ان کو لوگوں نے ووٹ دیئے ہیں ہم جب حکومت میں آئیں گے تو 5 ججوں کو کٹہرے میں لائیں گے جنہوں نے ان کو نااہل کیا ہے اگر آپ کی پارٹی دوبارہ برسراقتدار آئی تو کیا 5 ججوں کو کٹہرے میں لائیں گے کیا یہ آپ کی پارٹی کا آفیشل بیانیہ ہے۔
شاہد خاقان عباسی: ایسی بات نوازشریف نے کبھی نہیں کہی یہ غلط بیانی ہے۔ پاکستان کے عوام نااہلی کے فیصلے کو قبول نہیں کرتے۔ جیسے بھٹو کا فیصلہ ہوا پھانسی بھی ہو گئی لیکن پاکستانی عوام نے قبول کیا نہ تاریخ نے قبول کیا۔ اگر جج غلطی کریں گے تو انہیں کون پوچھے گا۔ یہ سوال ہے جو پاکستانی قوم پوچھ رہی ہے سب اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر ملکی مفاد کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ نوازشریف اور ن لیگ 13 سال کے بعد اقتدار میں آئے تھے ہم نے جو 5 سال میں کیا وہ پاکستان کے 70 سال میں نہیں ہوا۔
ضیا شاہد: اگر آپ کی حکومت کامیاب ہوتی ہے۔ تو نوازشریف کو سیاست میں واپس لانے کا کیا طریقہ کیا ہے۔
شاہد خاقان عباسی: نوازشریف الیکشن نہیں لڑ رہے بے شک حکومت میں نہ ہوں لیکن سیاست کا محور آج بھی نوازشریف ہیں۔ سیاسی شخص عدالتی فیصلوں سے ختم نہیں ہوتا۔ نہ مارشل لا حکومتیں ختم کر سکی ہیں۔ نوازشریف کامیاب ہیں۔ یا نہیں اس کا فیصلہ عوام نے 25 جولائی کو کرنا ہے۔