لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک)کہنہ مشق صحافی، معروف تجزیہ کار ضیا شاہد نے اپنے ٹی وی پروگرام میں معروف قانون دان اعتزاز احسن سے سوال کیا کہ ایک طرف کہا جا رہا تھا کہ آج نوازشریف کا فیصلہ سنایا جائے گا۔ دوسری طرف سے یہ بات آ گئی ہے۔ انہوں نے درخواست دی ہے کہ میں فی الحال میں نہیں آ سکتا۔ غیر معینہ مدت کی بات کی ہے کہ کوئی ہفتے پندرہ دن کا نہیں کہا بلکہ انہوں نے کہا کہ جب تک میری اہلیہ کی طبیعت علیل ہے۔ کیا قانون میں اس قسم کی پروبن ہوتی ہے کہ جب تک وہ بیمار ہوں تب تک عدالت روک دے۔ تیسرا کل کیا ہو گا۔ جج صاحب نے فیصلہ لکھنے کے لئے 3 دن چھٹی بھی کی ہے فیصلہ لکھنے کے لئے کل وہی درخواست بھی لگ گئی ہے ان کی۔ آپ ہمیشہ گائیڈ کریں کہ ملک کے فاضل ترین قانون دان کی کیا رائے ہے کل کیا ہو گا۔ کل فیصلہ سنایا جائے گا۔ یا کل یہ کہا جائے گا کہ ان کی درخواست منظور کر لی گئی ہے۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ کیا ہوتا ہے یہ تو کہنا مشکل ہے یہ تو جسٹس بشیر صاحب کی صوابدید ہے کہ جس نے درخواست ڈالی ہے وہ قانون کا بڑا لاڈلا اور عدالتوں کا لاڈلا نوازشریف ہے ورنہ تو یہ فوجداری مقدمہ ہے یہ عذر دیا ہی نہیں جا سکتا کہ میری بیگم بیمار ہیں یا میری والدہ بیمار ہے۔ اگر ہماری کسی ساتھی کی والدہ فوت ہو جاتی ہے تو اس کو جنازے میں آنے کی اجازت نہیں ملتی۔ لیکن اب یہ فیصلہ کرنا اختیار تو جسٹس بشیر صاحب کا ہی ہے اب وہ کیا فرماتے ہیں میں اس کے بارے میں قبل از وقت کوئی پیش گوئی نہیں کر سکتا۔ اگر تو قانون سب کے لئے ایک جیسا ہے تو پھر تو اس درخواست کی خاص پذیرائی نہیں ہونی چاہئے لیکن اگر قانون بڑے بڑوں کے لئے اور ہے نوازشریف کے لئے تو یقینا اور ہے کیونکہ وہ ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر بھی نہیں رہا اس کی ضمانت بھی ہوتی رہی دستخط بھی چلتا رہا ہے۔ اس کو گرفتار بھی کسی نے نہیں کیا تو ایک قسم کا امتیاز تو یقینا اب تک ہوتا گیا ہے اور بہت نمایاں امتیاز ہوتا گیا ہے جو مراعات اور رعایتیں کسی اور کو نہیں دی جاتیں وہ رعایتیں نوازشریف اور شریف خاندان کو بڑے کھلے دل سے دی جاتی رہی ہیں اور دی جا رہی ہیں۔ ہو سکتا ہے جج صاحب دو چار دن، 6 دن آگے کر دیں لیکن لامتناہی التوا تو نہیں ہو سکتا۔
ضیا شاہد نے کہا کہ میرا سوال تھا کہ نوازشریف صاحب نے جو درخواست دی ہے میں دیکھ رہا تھا کہ اس میں کیا۔ ہے۔ محترم اس میں ایک ہفتے، دو ہفتے یا دس دن کی نہیں لکھا گیا بلکہ اس میں لکھا گیا کہ جب تک ان کی طبیعت خراب ہے۔ آپ نے ایک جماعت میں رہتے ہوئے بھی ایوانوں اور ایوانوں سے باہر بھی ہمیشہ حق اور سچ کی بات کی ہے اور آپ کی باتوں کو بڑے غور سے سنا جاتا رہا ہے۔ آپ اس سے پہلے بھی یہ کہتے رہے ہیں کہ ہم بھی محسوس کرتے رہے ہیں۔ آپ کی بات سو فیصد درست ہے کہ مسلسل جو رعایت برت رہی ہیں مختلف عدالتیں بھی ہماری نیب بھی اور یوں لگتا ہے کہ باقی حضرات کے لئے قانون اور ہے اور ان حضرات کے لئے دوسرا ہے۔ آپ نے اس کی جانب بڑی دفعہ توجہ بھی دلائی۔ میری ایک معاملے پر مخصوص متعین آپ سے سوال یہ ہے کہ ایک شخص کو گرفتار کیا گیا جو چودھری نثار علی کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہا تھا اس پر شور مچا ہے کہ انتخابات سے پہلے دھاندلی ہے۔ وہ ہے کہ نہیں آپ جو رائے دیں گے ہم اس کو اہمیت دیں گے لیکن پر پر پی ٹی آئی کا یہ کہنا ہے کہ یہ سہولت دینا نیب کی طرف سے کہ 25 تاریخ تک چھٹی دینا کہ چاہے کوئی قتل کر لے کسی کو گرفتار نہیں کیا جائے گا جناب قانون کی نظر میں یہ فیصلہ انصاف سے بعید تر ہے اگر واقعی اس دوران میں کوئی شخص جو الیکشن لڑ رہا ہے وہ بڑا جرم کر لے تو صرف اس بنیاد پر کہ وہ الیکشن میں حصہ لے رہا ہے اس کو گرفتار نہیں ہونا چاہئے۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ قانون کو کبھی معطل نہیں کیا جا سکتا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ قانونن تو ہے مگر 15 دن کے لئے اس پر عملدرآمد نہیں ہو گا۔ یہ نیب کی ذمہ داری ہے کہ وہ گرفتار کرے اس شخص کو خواہ وہ الیکشن لڑ رہا ہو یا نہ لڑ رہا ہے خواہ وہ کسی عہدے پر ہو یا نہ ہو۔ عام شہری ہو یا مراعات یافتہ شہری ہو اس کو گرفتار کرنا چاہئے۔ نیب کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے کہ، کسی ادارے کے پاس سوائے پارلیمان کے کوئی اختیار نہیں ہے کہ کسی قانون کو منعطل کر دے اور یہ معطل کرنا قانون کو غیر موثر کرنے کے مترادف ہے یہ کہنا کہ ہم اپنا فرض 25 جولائی تک ادا نہیں کریں گے۔ قانون میں تو کہیں نہیں لکھا کہ الیکشن ہو گا تو امیدوار کو گرفتار نہیں کیا جائے گا۔ اور شہزادے اور لاڈلے ہیں جن کے لئے یہ سب کیا جاتا ہے۔ ن لیگ اس قدر لاڈلی ہے کہ یہ نہ گرفتار ہوتے ہیں نہ ای سی ایل پر جاتے ہیں کون سا اور ملزم ہے کہ ملک سے باہر آتے جاتے اور فیصلے کے وقت ملک سے باہر چلا جائے اور کل اگر نوازشریف نہیں ہوں گے یہاں تو یہ بات واضح ہے کہ عدالت نے کہا ہے کہ فیصلہ سنائیں گے اس روز نواز شریف موجود نہیں ہوں گے۔ یہ رعایت برصغیر کی تاریخ میں ملکی تاریخ کسی کو نہیں ملی ہو گی۔ یہ نیا ریکارڈ ہو گا کہ ملزم کے کہنے پر فیصلہ موخر کیا جا رہا ہے۔ بہانہ یہ ہے کہ میری اہلیہ بیمار ہے۔ اگر خود بھی باہر ہوں اوپن ہاٹ سرجری ہوئی ہو پھر تو کوئی بات ہے لیکن کسی رشتہ دار کی خواہ کتنی قریبی ہو۔ سب کو بیویاں پیاری ہوتی ہیں، یہ فطری چیز ہے۔ اللہ سب کو اس سے محفوظ رکھے۔ کسی اور کی بیوی بیمار ہو اور وہ کہے کہ جج صاحب آپ فیصلہ نہ سنائیں جب تک وہ صحت مند نہیں ہو جاتی۔ میری بیوی بیمار ہے۔ کسی اور ملزم کی بات عدالت سننے کو بھی تیار نہیں ہو گی۔ ہمارے ساتھی جیلوں میں پڑے رہے والد، بیوی، بچہ فوت ہو گیا، ماں فوت ہو گئی ان کو جیلوں سے نکل کر پولیس کی حراست میں نہیں آنے دیا۔ بشیر صاحب شاید کچھ دنوں کی رعایت دے دیں لیکن ان کو ایک تاریخ مقرر کرنی پڑے گی۔ یہ منی لانڈرنگ کا مقدمہ ہے یعنی خفیہ انداز سے ناجائز کمائی کے اربوں روپے پاکستان سے نکالے جانے کو منی لانڈرنگ کہتے ہیں۔
ضیا شاہد نے کہا کہ مجھے خود شہری کی حیثیت سے بڑی ندامت محسوس ہوئی کہ جب میں نے عدالت میں دیکھا کہ اسحق ڈار کو دیکھا تو میں اس تکلیف سے پوری رات سو نہیں سکا کہ میں نے ایک سین دیکھا کہ اسحق ڈار صاحب ایک ملزم کی حیثیت سے عدالت میں پیش ہو رہے تھے اور جو چھوٹے موٹے ملزم بیچارے غریب غرباءان سب کو حکم دیا گیا اور کیمرے نے یہ مناظر دکھائے کہ سب ملزموں سے کہا گیا کہ وہ دیوار کی طرف منہ کر لیں تا کہ مرکزی ملزم جب گزر کر برآمدے سے عدالت میں جاتا ہے تو ان پر ان کی نظر نہ پڑ سکے۔ ان کے ہاتھ اوپر کرائے گئے تھے دیوار کے ساتھ ان کے ہاتھ رکھے ہوئے تھے۔ اسحق ڈار ان کے پاس سے بڑے کروفر سے گزر کر آگے چلے گئے۔ سوال یہ ہے کہ بڑا ملزم کسی شان سے عدالت آتا ہے اور چھوٹے ملزموں کو کس ذات کے ساتھ دیوار کے ساتھ میرے منہ کر کے لگا دیا جاتا کہ چونکہ بڑے ملزم نے گزرنا ہے کیا دنیا میں کوئی اس طرح زندگی رہ سکتی ہے دنیا میں۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ جس ملزم باپ کے دو بیٹے مفرور ہوں۔ اسحق ڈار سڑکوں پر بھاگتا پھرتا ہے تو وہاں باقی بیماریوں پر شک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔
ضیا شاہد نے مزید کہا کہ نون لیگ اسی بنیاد پر الیکشن لڑ رہی ہے کہ اگر کامیاب ہو کر حکومت بنا لی تو صدر سے نوازشریف کی سزا معاف کرا لیں گے۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ نوازشریف خود ملزم ہیں اور مفرور بیٹوں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ ایسے ملزم کی ضمانت نہیں ہوتی کہ تمہارے 2 بیٹے مفرور ہیں تم بھی بھاگ جاﺅ گے۔ شریف خاندان عدالتوں کا لاڈلا ہے۔ تاریخ گواہ ہے 1993ءمیں کرپشن کے الزامات پر نوازشریف کی حکومت برخاست کی گئی تو سپریم کورٹ نے بحال کر دی۔ اسی الزام میں 1996ءمیں اس وقت کے صدر نے محترمہ کی حکومت کو فارغ کیا تو عدالت عظمیٰ نے اسے درست فیصلہ قرار دیا۔ جسٹس ملک قیوم کو کی جانے والی ٹیلی فون ٹیپ 2001ءمیں سپریم کورٹ میں بھی جس کی وجہ سے 3 اعلیٰ عدالتوں کے جج فارغ ہوئے لیکن نواز، شہباز اور سیف الرحمان کو آنچ نہیں آئی۔ یہ ہمیشہ عدالتی سسٹم کے لاڈلے رہے ہیں۔ ریفرنس دائر ہونے کے بعد بھی نیب نے ان کو گرفتار نہیں کیا، نام ای سی ایل میں نہیں ڈالے گئے، میرا نہیں خیال یہ اب واپس آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف کے کیس میں زیادہ سے زیادہ سزا14 سال بامشقت، جائیداد کی ضبطگی اور جرمانہ ہے، جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں 3 سال اضافی قید ہو گی۔ عدالت سزا میں رعایت کر سکتی ہے لیکن پھر بھی کم سے کم 10 یا 7 سال سزا سنانا پڑے گی۔ نوازشریف جس طرح محترمہ و زرداری کی جائیداد کو ضبط کروا رہے تھے اب اسی طرح ان کی جائیداد ضبط ہونے جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صدر مملکت خود سے سزا معاف نہیں کر سکتے وہ وزیراعظم کی تجویز کے پابند ہیں۔ نگران وزیراعظم کے بارے میں کہا جا سکتا ہے وہ ایسے فیصلے نہیں کریں گے۔اگر عمران خان وزیراعظم بن گئے تو ظاہر ہے وہ ایسا نہیں کریں گے۔اگر شہباز شریف وزیراعظم بن جائیں تو صدر مملکت کو معافی کی سمری بھیج سکتے ہیں۔