تازہ تر ین

بھارت کا اچانک پانی چھوڑنا آبی جارحیت ، سارا سال ایک بوند پاکستان نہیں آنے دیتا : ضیا شاہد ، زرداری ، نواز شریف سے تعزیت کیلئے رائیونڈ گئے ، کوئی سیاسی گفتگو نہیں ہوئی : شیری رحمن ، بھارت پاکستان میں دہشتگردی کرانیکی کوشش کریگا ، بارڈر پر چھیڑ خانی کر سکتا ہے : عبداللہ گل کی چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ کسی صوبے سے صرف نظر کر کے وفاق بھی نہیں چل سکتا جب عمران خان کراچی گئے تھے تو میں نے تعریف کی تھی کہ انہوں نے جاتے ہی وزیراعلیٰ سندھ سے ملاقات کی اور ہر اجلاس میں ان کوساتھ رکھا۔ انہوں نے یہ تاثر نہیں دیا کہ صوبے میں کسی دوسری پارٹی کی حکومت ہے۔ پاکستان کو مل کر چلانا اور وفات کو صوبوں کے ساتھ مل کر چلنا چاہئے۔ مجھے اُمید ہے کہ عمران خان کی حکومت ایک دو بڑی تبدیلیاں نظر آتی ہوں گی۔ ایک تو اس حکومت نے بجائے اس کے لاہور، پشاور اور کراچی اور پھر کوئٹہ سے لینے کی بجائے ہمیشہ انہیبڑے شہروں تک حکومت محدود رہتی تھی اور وزراءاعلیٰ بھی عام طور پر انہی شہروں سے لئے جاتے تھے پنجاب کے وزیراعلیٰ جس علاقے سے ہیں۔ ضیا شاہد نے شہبازشریف کے اسمبلی میں خطاب کے بارے میں کہا کہ لیڈر آف اپوزیشن کی بات سننی چاہئے۔ اگر یہ دیکھا کہ لاہور کی میٹرو کے کرایوں کو دیکھ لیں سب جانتے تھے کہ میٹرو کا کرایہ 20 روپے ہے اور یہ بھی جانتے تھے کہ یہ 20 روپے اس لئے ہے کہ اتنے ارب روپے کی سبسڈی دی جا رہی ہے صرف لاہور میں بس کو چلانے کے لئے۔ وہی رقم انہوں نے ختم کر دی اور اب 20 کی بجائے 40 روپے کر دیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ زیادہ بہتر ہے کہ بہ نسبت اس کے کہ بعض مختلف پروجیکٹس بنائیں جس کو چلائے رکھنے کے لئے سبسڈی دیں یہ غلط طریقہ کار تھا۔ پینے کے پانی کی کمپنیاں بنی تھیں اس میں جتنی دھاندلی تھی اس پر تفصیلات سامنے آئی ہیں اور حیرت ہوتی ہے کہ کام دھیلے کا نہیں ہوا اور ایک گیلن پانی کا پروڈویس نہیں ہوا اور اتنے پیسے لوگ گھروں میں بیٹھ کر کھا گئے اور بڑے بڑے لوگوں بڑی بڑی نوکریاں مل گئیں۔ اس پر بھی شہباز شریف کو کچھ غور فرمانا چاہئے۔خدارا اس کا بھی جواب دے دیں۔ یہ حیرت انگیز بات ہے کہ روزانہ خبریں آتی ہیں کہ ان کی حکومت نے یہ یہ کیا۔ مجال ہے کہ وہ ایک بھی الزام کا جواب دیں۔ ضیا شاہد نے کہا کہ آج کی سب سے بڑی خبر تو یہ ہے انڈیا کے آرمی چیف نے یہ کہا ہے کہ ہم سرجیکل سٹرائیک کریں گے پاکستان کے خلاف، میرے خیال میں پاکستان نے ایک ہی غلطی کی ہے کہ آتے ہی خط لکھ دیا اور شاہ محمود قریشی نے اپنی طرف سے ہولا ہاتھ رکھا اور کہا کہ آئیں جی بات کر لیں بھائی اتنے سیانے آدمی ہیں شاہ محمود صاحب کوشش کر لیں انہیں کیسے پتہ چلا کہ بات چیت کے لئے تیار ہیں اور انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ ملاقات کے لئے تیار ہیں۔ ہمارے وزیردفاع کی طرف سے کوئی جواب بھی نہیں آیا۔ مکمل طور پر خاموش ہیں۔
عبداللہ گل صاحب! پاکستان اور بھارت کے تعلقات کے سلسلے میں جو گھٹتی بڑھتی نفرتیں، ناپسندگی آپ کے والد حمید گل بہت بڑا نام تھے پاکستان میں۔ انہوں نے ہمیشہ ایسے معاملات میں بڑی کھل کر رائے دی اور بہت مضبوط طریقے سے پاکستان کا کیس بیان کیا۔ پچھلے چند دنوں سے انڈیا، آرمی چیف روز بروز بڑھتا جا رہا ہے اور آج انہوں نے ایک بیان داغ دیا ہے کہ پاکستان کو سرجیکل سٹرائیک کا نشانہ بنائیں گے آپ کیا سمجھتے ہیں۔ ہم سمجھتے تھے کہ نئی حکومت نے ان کو مذاکرات کی دعوت دی ہے اور شاید بات چیت شروع ہوئی لیکن وہ روزانہ پاکستان کو بڑی بڑی دھمکیاں دے رہے ہیں اس کی وجہ کیا ہے۔ کیا بیک گراﺅنڈ ہے اس کا۔
عبداللہ گل نے کہا ہے کہ بھارتی دھمکیوں کا بیک گراﺅنڈ یہ ہے کہ پاکستان کی حکومت نے جلد بازی میں ان کو خط لکھ دیا۔ انہوں نے پہلے تو ہمیں گرین سگنل دیا لیکن بعد میں ان کے ترجمان نے بتا دیا کہ سائڈلائن پر کوئی ملاقات نہیں ہو گی۔ جو ملاقات بھی ہو گی اس میں کوئی موضوع ڈسکس نہیں ہو گا کسی قسم کا اہم موضوع ڈسکس نہیں ہو گا۔ اور نتیجہ خیز نہیں ہو گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ بھارت میں الیکشن کا بھی بڑا ایشو بنا ہوا ہے اور چور وزیراعظم کے نعرے لگ رہے ہیں کیونکہ 670 کروڑ کا جو ان رائفل جیٹ فائٹر کی جو ڈیل تھی وہ بعد میں 1607 کروڑ کے اوپر جا پہنچی۔ 11 سو کھرب کا ان کا خسارہ موجود ہے۔ آگے الیکشن کا سال ہے وہ ابھی تک آپ نے بھارت کے لئے کیا ہے اور انہوں نے ماضی میں جتنے بھی الیکشن لڑے ہیں وہ پاکستان دشمنی اور پاکستان نفرت میں لڑے ہیں۔ دوسری جانب یہ ہے کہ ماضی میں راجیو گاندھی کا بھی کرپشن کا سکینڈل سامنے آیا تھا۔ پھر بھارتی فوج کے اندر بھارتی نیوی کے اندر خریداریوں میں بہت سارے گھپلے پائے جاتے ہیں۔ فوج کے اندر لوگ جو ہیں وہ کہہ رہے ہیں خودکشیاں کر رہے ہیں بھارت کے اندر سب سے زیادہ بھارتی فوج جو ہے کشمیر سے بھگوڑی ہے یہ سارے معاملات ہیں جن پر جنرل راوت پریشان ہے اور ساتھ ساتھ ان کی جو پولیٹیکل انتظامیہ ہے وہ بھی بہت زیادہ پریشان ہے۔ دو دفعہ ان کا بیان آنا کہ ہم کچھ کر سکتے ہیں اور کچھ ہم نے سنبھال کے رکھا ہوا ہے ہم طریقہ نہیں بتائیں گے کہ ہم کیا کریں گے۔ ہم طریقہ نہیں بتائیں گے یہ بڑا خطرناک ہے میں سمجھتا ہوں کہ وہ دہشت گردی کا جو ایک بازار ہے اس کو گرم کر سکتے ہیں پاکستان میں وہ ایک بارڈر پر ہلکی چھیڑ خانی کر سکتے ہیں، جس کو لمیٹڈ وار کہا جاتا ہے لیکن جب جنگ ہو جایا کرتی ہے تو وہ لمیٹڈ وغیرہ نہیں ہوتی۔ پہلا مکہ تو مار دیتے ہیں پھر اب کون سا ہتھیار استعمال ہو گا اس کے لئے ان کو تیار رہنا چاہئے موسم اب ایسا آ رہا ہے جس میں بارشیں نہیں ہوں گی اور ساتھ ساتھ آپ نے دیکھا کہ حالیہ جو نارووال میں آرمی جارحیت کا مظاہرہ کر ڈالا۔ یہ جو تمام عوامل ہیں یہ جارحیت کے زمرے میں آتے ہیں یہ جارحانہ موڈ ہے پر آرٹیکل 36 کلاز 2 کے تحت وہ یہ بھی چاہ رہے ہیں کہ ان کو کلبھوشن تک رسائی دی جائے اور معاملہ کسی طرح سے ٹل جائے۔ بھارت ہمارے لئے بڑی مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ دوسری طرف سے امریکہ جو ہے ان کا مائیک پومپیو کا دورہ اور ان کے جوائنٹ چیف جنرل جوزف ڈن فورڈ کا ہوا جس کے اندر وہ سمجھ رہے ہیں امریکہ ہماری پشت پناہی کر رہا ہے اور وہ سی پیک کے مخاصمت میں پاکستان کو درمیان میں رگڑا لگانا چاہتے ہیں اور بھارت کے ساتھ کاﺅنٹر بیلنس کرنا چاہتے ہیں تا کہ چین کو روکنے کا کوئی طریقہ کار بنن سکے۔ بھارت کا چین کے سیاچن پر ایک بڑا تنازع بھی ہے اور کشمیر چونکہ سی پیک کا ابتدائی جوائنٹ ہے اس لئے کشمیر کو وہ آگ لگائے رکھیں گے تا کہ کسی صورت سی پیک کا معاملہ جو ہے اتنی آسانی سے پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکے۔ جسے بلوچستان میں انہوں نے جو شورش بپا کی ہے اور جس طرح سے پی پی ایم کے پوسٹر لگائے جنیوا کے اندر۔ اس سے پہلے آزاد بلوچستان کے وہ پوسٹر لگوا چکے ہیں امریکہ کی پشت پناہی موجود ہے اور تیسری طرف ایک اور معاملہ بھی ہے کہ بھارت کی 7 چھوٹی ریاستیں ہیں ان میں سیاسی جنگ بھی ہار چکے ہیں۔ بھارت ہمیں اندر سے کھوکھلا کرنے کی کوشش کریں گے۔ حکومت جوائنٹ سیشن بلائے اور تمام اپوزیشن سے مل کر اکٹھے ہو کر بھارت کو واضح واشگاف پیغام دیں۔
ضیا شاہد نے کہا کہ آبی جارحیت کا یہ بھی ایک طریقہ ہے کہ پورا سال تو وہ پانی کی ایک بوند بھی پاکستان کو نہیں دیتے اور پاکستان میں جو تینوں دریا ہیں بالکل خشک چلتے ہیں اگر یہ لنک کینالوں کے ذریعے پانی لا کر بیچ میں ڈالا جائے تو سرے سے پانی ایک بوند بھی نہ ہو۔ دوسری طرف سے جب ان پر مصیبت آتی ہے یعنی جب سیلابی پانی آتا ہے جو کہ دریاﺅں میں کھلا پانی آتا ہے اور برساتی پانی آتا ہے اور پانی کی اچانک آمد ہوتی ہے تو دو کام وہ کرتے ہیں ایک تو یہ کرتے ہیں کہ ہر جگہوں پر میٹر لگے ہوئے ہیں اور ہر ڈیم اور ہر اہم ناکے پر پانی کی پیمائش ہوتی ہے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ نیک نیتی سے ایک ہی فریب ہے جو ہم کھا جاتے ہیں انڈیا سے کہ ہمارے لوگ بڑی سنجیدگی سے سمجھتے ہیں کہ شاید اب انڈیا بات چیت کے لئے تیار ہو گیا ہے۔ حالانکہ عملی صورت حال یہ ہے کہ حالات اچھے بھی نظر آ رہے ہوں تو پھر انڈیا کوئی نہ کوئی ایشو ضرور تلاش کر لیتا ہے کہ تعلقات خراب ہوں جیسے اب اس نے ایک افسانہ گڑا ہے کہ ہمارے ایک فوجی کی توہین ہو گئی ہے۔ یہ جو بھارت غیر فوجیو ںکے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں بچوں، عورتوں کے ساتھ انڈین آرمی کر رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ جو سلوک وہ مسلسل بارڈر پر پاکستان کے علاقوں میں عام شہریوں، کھیتوں میں کام کرنے والے مرد و عورتوں کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنا رہے ہیں اس پر انڈیا بات ہی نہیں کرتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ انڈیا کی کسی بات پر اعتماد کرنے سے پہلے سو بار سوچنا چاہئے۔ کیونکہ وہ کہتا کچھ اور کرتا کچھ ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بڑی خبر یہ ہے کہ ملتان میں بہاﺅالدین ذکریا یونیورسٹی میں پہلے تو سرائیکی ڈیپارٹمنٹ کا حشر بہت بُرا تھا کل 6 طالب علم ہیں خواتین سمیت اور اس میں کسی طرح سے ایک خاتون سے بے حرمتی ہوئی کلاس روم کے اندر اور پھر اس شخص کو گرفتار کیا گیا اور وہ اب تک جیل میں ہے اور دوسری طرف 21 بندے ملازم ہیں اور 6 سٹوڈنٹس ہیں۔ جو ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ تھے وہ اس کیس میں شریک تھے کہ وہ بدکاری یا بیہودگی ان کے گھر پر ہوئی تھی اور ہوتی تھی۔
شیری رحمان صاحبہ میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں۔ بڑی حیرت ہو رہی ہے کہ ایسا کون سا مسئلہ ہے کہ موجودہ حکومت نے آتے ہی یکطرفہ طور پر ایک خط لکھ کر یہ سمجھا کہ بھارت سے بات چیت شروع ہو گئی ہے اس بات چیت کے غبارے سے تو ہوا نکل ہی گئی۔ لیکن پچھلے چار یا پانچ دن سے مسلسل اس قدر بے تحاشا دھمکیاں دے رہے ہیں اور انہوں نے آج بھی فرمایا ہے کہ پاکستان میں وہ سرجیکل سٹرائیک کرنے جا رہے ہیں۔ ایسی کون سی وجہ ہوئی ہے کہ وہ ان دھمکیوں پر اتر آیا ہے اور سرجیکل سٹرائیکس اور یہاں مختلف حملوں کی دھمکیاں دے رہا ہے اس کا کیا پس منظر ہے۔
پروگرام میں شریک گفتگو پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمان سے ضیا شاہد نے پوچھا کہ بھارت پاکستان کے خلاف اتناجارحانہ کیوں ہو رہا ہے؟
شیری رحمان کا کہنا تھا کہ بجا فرمایا کہ بھارت جارحانہ ہو رہا ہے ۔ اسمیں کوئی دو رائے نہیں کہ خطے میں امن کی سخت ضرورت ہے ، بھارت کہتا ہے کہ ہم سے دہشتگردی پر بات کریں اور اب اس سے بھی پیچھے ہٹ چکا ہے اور جان چھڑا کر بھاگ رہا ہے۔ بھارتی جارحیت کی وجوحات میں ایک گزشتہ ایک ماہ سے یو این میں دی گئی رپورٹ ہے جسمیں مقبوضہ بھارتی مسلح افرادجو کشمیر کی عوام کو اپنے ظلم کا نشانہ اور ہدف بنا رہے ہیں۔ اس پر بھارت میں بوکھلاہٹ اور پریشانی کی کیفیت ہے جسکی انہیں عادت نہیں ہے۔ بھارت کا عالمی بیانیہ بڑا مضبوط ہوتا ہے او ر بڑی اقتصادی قوت ہونے پر ہی کام چل جاتا ہے مگر اس بارکشمیر میں خاصی نسل کشی ہوئی ہے اور اقوام متحدہ نے ہیومن رائیٹس کے حوالے سے نوٹس لیا ہے۔ بھارت نہیں چاہتا کہ یہ معاملہ پاکستان یا کوئی اور اٹھائے اور یہ معاملہ پاکستان کے علاوہ اور کوئی نہیں اٹھائے گا۔ ضیا شاہد نے پوچھا کہ آصف علی زرداری کے حوالے سے نواز شریف کیساتھ سیاسی مذاکرات اور الگ ملاقات کی خبر رہی ، آج اس ملاقات کی تردید آئی اور ساتھ یہ بھی کہ نواز شریف سے ملکر آصف زرداری موجودہ حکومت کیخلاف کمپین کرنا چاہتے ہیں۔ ان افواہوں میں کس حد تک صداقت ہے؟
شیری رحمان نے کہا کہ ان افواہوں میں قطعاً کوئی صداقت نہیں اور میری اطلاع میں ایسی کوئی ملاقات نہیں ۔ واحد ملاقات رائیونڈ میں پیپلزپارٹی کے وفد کی چیئر مین بلاول بھٹو کی قیادت میں تعزیت کے موقع پر ہوئی۔ اس ملاقات میں زرداری صاحب بھی تھی۔ اسکے علاوہ میری اطلاع میں کوئی ملاقات نہیں ہے اور نہ کوئی اس طرح کی منصوبہ بندی ہے۔ میں اس میٹنگ میں موجود تھی۔ ضیا ءشاہد نے پوچھا کیا اس ملاقات میں پاکستانی سیاست کے بارے میں کوئی بحث مباحثہ ہوا تھا؟ شیری رحمان نے کہا کہ نہیں، ایسی کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔
ضیا شاہد نے پروگرام میں مزید گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ ن کی جانب سے پیپلز پارٹی سے رابطہ یکطرفہ ہو سکتا ہے، یکطرفہ رابطہ پر انکار تھوڑی کیا جا سکتا ہے۔
پروگرام میں احسان ناز نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کی جانب سے آصف علی زرداری سے ملاقات کی خواہش کی خبر میں نے بریک کی تھی۔ جو کہ دو دن پہلے خبریں اخبار میں چھپی تھی۔ اسی حوالے سے راجہ ظفر الحق اتوار کے روز نیر بخاری سے ملے تھے۔ آج بلاول ہاﺅس میں پیپلز پارٹی کے مختلف لوگوں سے میری جو گفتگو ہوئی اسکے تنازر میں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ آصف علی زرداری نواز شریف سے نہ تو ملاقات کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی وہ کسی قسم کی سیاسی ڈیل انکے ساتھ کرنا چاہتے ہیں۔ جبکہ مسلم لیگ ن کی جانب سے بہت سی ایسی باتیں کی گئی ہیں کہ ہم مل کر عمران خان کی حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی نے حکومت چلانی ہے اور فوج کیساتھ معاملات میں انہوں نے اپنے راستے کو صاف کیا ہے ۔ اب وہ کسی طریقے سے میاں نواز شریف کے ابہام میں نہیں پھنسیں گے۔ انہوں نے ٹکے سا جواب دیا ہے کہ ہم کبھی بھی ان سے ملاقات نہیں کریں گے۔ پیپلز پارٹی کے جنرل سیکرٹری چوہدری منظور نے کہا ہے کہ نہ ہم کسی گرینڈ اپوزیشن میں جانا چاہتے ہیں اور نہ کوئی اتحاد بنانا چاہتے ہیں تاہم ایشوز پر بات ہوگی۔
ضیا شاہد نے بہاﺅالدین ذکریہ یونیورسٹی کے واقعے پر مزید کہا کہ یونیورسٹی کے سرائیکی ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈکو وقتی طور پر معطل بھی کیا گیا تھا۔ وہ مانتے ہیں کہ انکے گھر لڑکا لڑکی کو لیکر جاتا رہا اور اس لڑکی کیساتھ ایک اور خاتون کی بھی بیہودہ فلمیں بناتا رہا۔ اس تمام معاملے میں یونیوسٹی ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ بھی شامل تھے اور اس لڑکی کو کہتے تھے کہ مجھ سے بھی تعلقات قائم کر لیں۔ ان شاہکار کارناموں کے باوجود یونیورسٹی کے وائس چانسلر کر خدا کا خوف نہیں آتا ، یا انکے بچے نہیں ہیں یا وہ سمجھتے ہیں کہ بدمعاشی کھلے عام ہونی چاہئے۔ کسی نے مجھے بتا یا کہ یہ جمیعت میں تھے ، جمیعت کے لوگ تو شریف ہوتے ہیں ایسے تو نہیں ہوتے۔ ایک دن اچانک یہ خبر بھی آئی کی خود وائس چانسلر نے بہت ساری گولیاں کھائیں اور خودکشی کر نے کی کوشش کی ، جسکے بعد ہسپتال میں انکا معدہ واش کیا گیا۔ خود کو بچانے کے لیے انہوں نے بیان دیا کہ غلطی سے انہوں نے گولیاں کھا لیں۔ اب پتا نہیں اتنی ساری غلطی انہوںنے کیوں کی کہ اتنی ساری گولیاں کھالیں کہ وہ مرنے لگے تھے۔
روزنامہ خبریں ملتان کے ریزیڈینٹ ایڈیٹر ملتان میاں غفار سے ضیا شاہد نے سوال کیا کہ سرائیکی ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ کا کیا نام ہے جسے دوبارہ بحال کر دیا گیا ہے،یہ اسی ڈیپارٹمنٹ میںدوبارہ کیسے بحال ہوا،جو یہ مانا کہ اسکے گھر پر لڑکی کیساتھ یہ معاملہ ہوا، جسکے لیے لڑکی نے اپنے اعترافی بیان میں کہا کہ وہ استاد بھی اسے مجبور کرتا رہا۔ یہ کس طرح کی یونیورسٹی اور وائس چانسلر ہے۔ اس معاملے پر میں نے گورنر پنجاب چوہدری سرور سے بات کی ہے اور انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ میں تازہ ترین معلومات لے لوں۔ کیونکہ میں نے انہیں یہ بھی کہا کہ وہاں نواز شریف زرعی یونیورسٹی اور ایک اور یونیورسٹی سے بھاری مقدارمیں اسلحہ پکڑا گیا ہے ۔ یہ ملتان کی یونیورسٹیوں میں جو ہو رہا ہے ان خرافات کا سابق گورنر رجوانہ صاحب نے بھی راستہ نہیں روکا۔ اس لیے پیشگی طور پر چوہدری محمد سرور سے کہا ہے اور انہوں نے ایک دن میں خود رابطہ کر کے صورتحال واضح کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
میاں غفار نے کہا کہ یہ پروفیسر اجمل مہار ہے جو بہاولپور سے تعلق رکھتا ہے اور انکے کردار پر بہاولپور میں بھی شکایات تھیں، جب وہ خود بہاولپور میں پڑھتے تھے تب بھی ان پر غیر اخلاقی نوعیت کے الزامات لگتے تھے۔ موجودہ صورتحال میں انکی 89 دنوں کے لیے یونیورسٹی سے معطلی ہوئی تھی اور معطلی میں توسیع ہونی چاہئے تھی مگر اسلامی جمیعت علما کے پروفیسر حضرات نے انکے معطلی میں توسیع نہیں ہونے دی اور وہ بحال ہوگئے۔اب وہ یونیورسٹی آتے ہیں اور حاضری لگا کر چلے جاتے ہیں۔مگر ایسے کردار کا یونیورسٹی آنا بھی سوالیہ نشان ہے۔ واقعے کا مرکزی ملزم علی رضا قریشی جیل میں ہے، اور انکے والد جو یونین کونسل کے چیئرمین تھے وہ ہائی کورٹ کے فیصلے پر نا اہل ہو چکے ہیں۔
ضیا ءشاہد نے پوچھا کہ کیا اجمل مہار، بے مہار کے بارے میںیہ بات درست ہے جو لڑکی نے اعترافی بیان میں کہا کہ یہ مجھ سے تعلقات قائم کرنے کی بات کرتے تھے۔
میاں غفار نے بتایا کہ یہ بات درست ہے۔
ضیا شاہد نے مزید کہا کہ اس بندے کی دو فلمیں کچھ فلمیں میں نے بھی ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے بشیر صاحب کو دی تھیں اور کہا تھا کہ اسکا پتا کروائیں۔ وہ اس لڑکی علاوہ دو اور لڑکیوں کی ویڈیوز تھیں جن کے بارے میں اب تک نہ ایف آئی اے اور نہ پولیس معلوم کروا سکی ہے ۔نہ وہ لڑکیاں گرفتار ہوئیں اور نہ اس بندے پر ان دو ویڈیوز کا مقدمہ چلایا گیا۔ آپ وہاں کس قسم کا اخبار نکالتے ہیں، آپ اس قسم کا کام کرتے ہیں کہ کچھ بھی ہوتا رہے ملتان میں۔آج اس سے بڑی خبر دی آپ نے کہ دو یونیورسٹیوں سے اسلحہ برآمد ہوا ہے۔ ملتان کا تو اللہ حافظ نظر آتا ہے۔ ویسے بڑا شور مچتا ہے کہ سرائیکی ڈیپارٹمنٹ کی ترقی ہونی چاہئے ، 6 بندے وہاں پڑھتے ہیں۔ اس ڈیپارٹمنٹ کو ختم کر دینا چاہئے۔
میاں غفار نے کہا کہ جیسے آپ نے ایف آئی اے کو ویڈیوز دیں ، میں نے سرکٹ ہاﺅس میں سابق گورنر رفیق رجوانہ کو ویڈیوز دیں اور انہوں نے دیکھی اور توبہ توبہ کرنے لگے۔ اس کیس میں رکاوٹ بننے والے اور کیس خراب کرنے والے سابق گورنرپنجاب رفیق رجوانہ خود ہیں۔
ضیا شاہد نے کہا کہ وہ توبڑے پڑھے لکھے ، خود سینیٹر بھی تھے اور ہائی کورٹ میںپریکٹس کرتے تھے، قانون کے بھی ماہر تھے۔ وہ ایسی بات کیسے کر سکتے ہیں۔
میاں غفار نے کہا کہ سابق گورنر کو میں نے ریکارڈ دیا اس پر کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔
ضیا شاہد نے کہا کہ یہ بات تو درست ہے میں نے دو مزید ویڈیوز جو ڈائریکٹر ایف آئی اے کو دیں وہ ملتان کے مختلف کالجوں کی تھیں۔ انکی تصاویر اسی نوجوان کے ساتھ موجود ہیں جو آجکل بھی گرفتارہے۔ ملتان کی پولیس اسے جھٹکا دیکر پوچھے کہ یہ دو اور لڑکیاں کون ہیں۔ملتان کی پولیس کس سے پیسہ کھاتی ہے کس سے رشوت لیتی ہے۔ اگر پولیس رشوت لیتی ہے تو آپ وہاں کس قسم کا اخبار نکالتے ہیں؟ انہیں ایکسپوز کیوں نہیں کرتے کہ انہوں نے ان دو بچیوں کے معاملے کو کیوں چھوڑا ہوا ہے جنکی ویڈیوز اس نے پورے پاکستان میں پھیلائی ہوئی ہیں۔ نہ ان دو بچیوں کا کچھ پتا ہے اور نہ ان دو بچیوں کے کیسز اس ملزم پر ڈالے گئے ہیں۔و


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain