لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ نوازشریف کو العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس میں سزا مل گئی پھر تو ان کی سیاست کا بوریا بستر گول ہے ان کی سیاست میں واپسی بظاہر جب تک اس کیس کا جو بھی فیصلہ آئے یہ سپریم کورٹ بھی جائیں گے اور سپریم کورٹ فائنل کرے گی اور یہ طویل پراسس ہو گا اور اس وقت تک نوازشریف کی سیاست لٹک جائے گی سیاست میں یہ کہا جاتا ہے کہ ایک پیسے کی کرپشن نہیں کی یہی بات نوازشریف نے کہا ہے اس سے پہلے شہباز شریف کہتے رہے کہ ایک پائی کی کرپشن ثابت ہو جائے تو سیاست چھوڑ دوں گا۔ حالانکہ ایک اور مقدمہ ان کے خلاف بھی فائل ہو گیا ہے اس کے بارے میں نیب کے چیئرمین نے دستخط کر دیئے ہیں فواد حسنفواد پر اور شہباز شریف پر اور دوسری طرف سانحہ ماڈل ٹاﺅن کی جے آئی ٹی کے قیام کے ساتھ ہی صورتحال تبدیل ہو گئی ہے اور اب کہا جا رہا ہے کہ آئندہ چند روز میں ایک بڑی شخصیت سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے سلسلے میں گرفتار ہونے والی ہے۔ شہباز شریف پہلے ہی گرفتار ہیں سعد رفیق بھی گرفتار ہے ایک ہی شخصیت رہ گئی ہے وہ رانا ثناءاللہ ہیں۔ نوازشریف نے جو بیان دیا ہے کہ اس کو شاعرانہ تعلی کہتے ہیں کہ بڑھا چڑھا کر اپنی بات کو بیان کرنا ورنہ اس میں حقیقت نہیں ہوتی۔ اب 24 کو نوازشریف کا فیصلہ آ رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں میں نے ایک پیسے کی کرپشن نہیں کی۔ انتظار کرنا ہو گا عدالت سے کیا فیصلہ آتا ہے۔ اگر نوازشریف کو سزا ہو گئی تو پاکستان کی سیاست میں خوفناک تبدیلی آئے گا مائنس نوازشریف پیریڈ شروع ہو جائے گا۔
آصف زرداری کا امریکہ میں فلیٹ نکل آیا جو انہوں نے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا اور حکومت ان کے خلاف نااہلی کا ریفرنس دائر کرنے جا رہی ہے۔ ضیا شاہد نے کہا کہ اس میں فیصلہ تو عدالت نے کرنا ہے لیکن یہ سنگین مسئلہ ہے کیونکہ الیکشن کمشن میں اپنی جائیداد کی تفصیل ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے اثاثوں میں چھپایا ہے۔ اگر ثابت ہو گیا کہ واقعی ان کا فلیٹ ہے۔ یہ بات تو کافی دیر سے ثابت تھی کہ سب کو معلوم تھا کہ نیویارک میں کوئی ان کی رہائش گاہ ہے لیکن اس سلسلے میں میری غلطی ایک ہی ہوئی ہے کہ انہوں نے اس کو ڈکلیئر نہیں کیا۔ اگر وہ ڈکلیئر کرتے تو یہ معمول کی بات ہوتی اور زیادہ سے زیادہ ان کو منی ٹریل ثابت کرنا پڑتی اور نوازشریف کی طرح وہ بھی دائیں بائیں چھکے لگاتے لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ان کا بڑا جرم جو بنتا ہے تو کسی ایکسپرٹ سے پوچھنا چاہئے کہ الیکشن کمیشن میں انہی ادھوری معلومات کا سنگین نتیجہ کیا برآمد ہو سکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ منی ٹریل دینے سیاستدانوں کے لئے بڑے مشکل ہوتے ہیں اس لئے کہ سیاستدان بیچارے اکاﺅنٹس کے ماہر ہوتے نہیں وقت آنے پر وہ چھکے لگاتے رہتے ہیں جو کچھ ان سے ہو سکتا ہے۔ بعد میں پوچھا جاتا ہے کہ کاغذ لاﺅ تو لگ سمجھ جاتی ہے۔
کنور دلشاد نے کہا ہے کہ میڈیا پر جو خبریں چل رہی ہیں کہ فواد چودھری نے کہا ہے کہ حکومت جو ہے وہ آصف زرداری کے خلاف ریفرنس کل پیش کر رہی ہے۔ آئینی نقطہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کی نئی انتخابی اصلاحات کے تحت یہ کیس بننے کا مجاز نہیں ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان اس کیس کو لینے کی مکمل اختیارات حاصل ہے کیونکہ آپ کو یاد ہو گا۔ آپ کے اخبار کے ذریعے ہم نے ایک جنگ لڑی تھی کہ کاغذات نامزدگی کا جو پرفارما تھا اس کو تبدیل کر کے بے ضرر کر دیا گیا تھا لیکن سپریم کورٹ کی ہدایت کے تحت لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ آیا تو انہوں نے یہ کہا کہ کاغذات نامزدگی کا پرانا پرفارما ہی قابل عمل ہو گا لیکن اس کے ساتھ یہ شرط لگائی کہ یہ باقاعدہ بیان حلفی ہو گا اور اوتھ کمشنر سے باقاعدہ تصدیق شدہ ہوگا۔ اگر اس کے بعد کوئی حقائق چھپائے گئے تو سپریم کورٹ آف پاکستان کے نوٹس میں لائے گئے تو ہم اس کے خلاف آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت بھی کارروائی کریں گے اور توہین عدالت کے تحت بھی کریں گے۔ کیونکہ آپ نے سپریم کورٹ کے احکام کے تحت حقائق چھپائے ہیں یہ توہین عدالت کے زمرے میں بھی آئیں گے اور آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت ان کے نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔
اومنی گروپ کی منی لانڈرنگ کے حوالے سے جو انکوائری رپورٹ ہے وہ مکمل ہو گئی ہے اور جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق درجنوں ڈبوں میں بھر کر کراچی سے اسلام آباد لائی گئی ہے جس میں بڑے سرکاری افسران کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ ضیا شاہد نے کہاکہ یہ خبر پڑھ کر آدمی پریشان ہو جاتا ہے کہ درجنوں ڈبوں میں اس کا ریکارڈ گیا ہے۔ اس میں کیا کیا بند ہے کھلیں گے تو پتہ چلے گا۔ یہ کافی سنگین معاملہ ہے۔ زرداری صاحب کے لہجے میں جو تیزی اور تندی اور غصہ اور جو انتہا پن آتا ہے اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ ان کو خطرہ ہے کہ کہیں ان کو کہیں سزا نہ ہو جائے۔ ایک بڑے سیاسی مخالف کے خلاف اگر نظر آ رہا ہے کہ کارروائی ہونے والی ہے تو حکومت کے لئے تو آسانیاں پیدا ہوں گی۔ اصل مشکلات زرداری صاحب کے لئے ہیں۔
دوسری طرف بڑا شور مچا تھا کہ شاید فواد حسن فواد وعدہ معاف گواہ بن گئے ہیں لیکن وہ نہیں بنے۔ ان کے نام آشیانہ سکینڈل میں شہباز شریف کیس میں آیا ہے کیونکہ اس وقت فواد حسن فواد پرنسپل سیکرٹری ہوتے تھے یہاں چیف منسٹر پنجاب کے بعد ہی میاں نوازشریف کے پرنسپل سیکرٹری بنے۔
منی بجٹ آنے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ ٹیکسوں میں اضافہ تو اس لئے ہو رہا ہے کہ حکومت کے اخراجات کم ہوئے لیکن جو حکومت کے خلاف بہتبڑا ایک سلسلہ پیچھے سے چلا آ رہا ہے اس کی بنیاد ڈالر مہنگا ہو رہا ہے اس کی وجہ سے مہنگائی بڑھ رہی ہے لیکن میں نہیں سمجھتا کہ عمران خان اب تک ان کی توجہ اس طرف کیوں نہیں ہے انہوں نے برے انقلابی فیصلے کئے ہیں لیکن انہوں نے ایک منٹ کے لئے بھی نہیں سوچا کہ آخر کیا ضرورت ہے کون سی ایسی بڑی ضرورت ہے چھوٹی گاڑی میں کام بن سکتا ہے پہلا کام عمران خان کو یہ کرنا چاہئے کہ 500 سی سی سے اوپر کی بڑی گاڑیوں کی امپورٹ فوراً بند کر دیں کوئی ضرورت نہیں ہے بڑی گاڑی میں وہی 3 بندے زیادہ سے زیادہ پیچھے بیٹھتے ہیں اور آگے دو سیٹیں ہوتی ہیں ایک ڈرائیور بیٹھتا ہے ایک پر دوسرا بندہ بیٹھتا ہے، چھوٹی گاڑیاں ہونی چاہئیں تا کہ پٹرول کم خرچ ہو۔ اسد عمر صاحب کس بات کا انتظار کر رہے ہیں وہ کیوں بڑی گاڑیوں پر پابندی نہیں لگاتے۔ دوسری بڑی بات ہے کہ ایک ہی آئٹم دیتا ہوں میں جب بازار جاتا ہوں سب سے زیادہ جو چیز فضول نظر آتی ہے ایک آرڈر کے ذریعے وہ فوری طور پر پرفیوم کی امپورٹ بند کریں۔ دسہزار سے لے کر لاکھ روپے تک پرفیوم پڑے ہوئے ہیں یہ کوئی جان بچانے والی ادویات تو نہیں یہ پرفیوم ہی ہیں کس بے وقوف نے ان کی امپورٹ کی اجازت دی ہوئی ہے۔ اس کو کان سے پکڑ کر سزا دینی چاہئے۔
ضیا شاہد نے کہا اس وقت پاکستان کا قرضہ 11 ارب ڈالر ہے اگر اتنے اثاثے صرف پاکستانیو ںکے باہر موجود ہیں تو سخت کارروائی ہونی چاہئے، پیسہ واپس آ جائے تو ہمارے قرضے اتر جائیں گے۔ پیسہ واپس لانے میں ابھی بڑی پیچیدگیاں ہیں، دوسرے ملکوں کو مجبور نہیں کر سکتے۔ مسئلہ کا حل یہ ہے کہ جس کا پیسہ باہر پڑا ہوا ہے اسے عام آدمی والا حوالات میں بند کیا جائے اور اس کو مجبور کیا جائے کہ وہ اپنا پیسہ واپس پاکستان لے کر آئے۔ انہوں نے مزید کہا گڑ مہاراجہ میں غیر میاری دودھ پینے سے 4 افراد کی حالت نازک ہونے والے واقعہ انتہائی افسوسناک ہے۔ یہ حکومت کی نااہلی ہے لوکل گورنمنٹ فضول کاموں کے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔ مارکیٹ میں گائے و بھینس کے دودھ کی قیمت 100 روپے فی لٹر سے زیادہ ہے، کھلم کھلا فروخت ہونے والا 60 روپے فی لیٹر دودھ قدرتی نہیں مشینی ہے، لوگ مر رہے ہیں بیمار ہو رہے ہیں لیکن انتظامیہ خاموش ہے۔ سارے کام چھوڑ کر ہر ضلع کی انتظامیہ کو اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی بھی سو رہی ہے۔ ہر گلی و محلے میں گاڑیاں کھڑی ہو جاتی ہیں کہ 2 کے ساتھ ایک لٹر دودھ مفت ہے۔
سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے کہا کہ میڈیا پر خبریں گردش کر رہی ہیں کہ حکومت زرداری کے خلاف الیکشن کمیشن میں ریفرنس پیش کر رہی ہے۔ نئے انتخابی اصلاحات کے تحت الیکشن کمیشن کو زرداری کے اثاثہ جات چھپانے کے خلاف کیس سننے کا کوئی اختیار نہیں۔ سپریم کورٹ کو مکمل احتیار ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب کاغذات نامزدگی کا پرفارما تبدیل کیا گیا تھا تو سپریم کورٹ نے اس شرط پر پرانے پرفارما کو بحال کیا تھا کہ اس کے ساتھ بیان حلفی لگے گا۔ پھر اگر کوئی حقائق چھپائے گئے تو 62 ون ایف کے ساتھ توہین عدالت کے تحت بھی کارروائی ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ اثاثہ چھپانے پر زرداری کو 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار دیا جا سکتا ہے لیکن یہ کیس الیکشن کمیشن نہیںبلکہ سپریم کورٹ سنے گی۔
نمائندہ خبریں گڑ مہاراجہ نوید احمد نے کہا کہ زہریلا دودھ پینے سے ایک ہی خاندان کے 4 افراد کی حالت غیر ہو گئی، جس میں 2خواتین اور 2 مرد شامل تھے۔ ہسپتال لے جایا گیا اب ان کی حالت حطرے سے باہر بتائی جاتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گڑ مہاراجہ پوری تحصیل میں ایسا کوئی محکمہ ہی نہیں جو غیر معیاری کھانے پینے کی چیزوںکو چیک کرتا ہو یا کوئی کارروائی کرتا ہو۔ لوگ دکان دکانوں سے دودھ خرید کر استعمال کرتے ہیں۔ زہریلا دودھ پینے سے 4 افراد کی حالت غیر ہونے پر دکاندار کو گرفتار تو کیا گیا ہے لیکن ابھی تک کوئی مزید کارروائی سامنے نہیں آئی۔
ماہر معاشیات ڈاکٹر سلمان شاہ نے کہا ہے کہ بجٹ میں کوئی تبدیلی درکار ہو تواس کو منی بجٹ کہتے ہیں۔ بدقسمتی سے 15,10 سال سے نظام کو تباہ کیا جاتا رہا، غلط پروجیکٹس لگائے گئے۔ ٹیکسز کا نظام اس وقت اکانومک گروتھ کے لئے نہیں بلکہ آمدن کیلئے ہے۔ اس ساری چیز کو تبدیل کرنا پڑے گا اگر واقعی معیشت کو بہتر کرنا ہے۔ ملک میں روزگار کی ضرورت ہے جو سرمایہ کاری سے آتا ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ پاکستان کا سرمایہ کاری ماحول بہت خراب ہو چکا ہے۔ دنیا کے مقابلے میں ہمارا بزنس بہت کم ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے یہاں ماحول کو بہتر کرنا ہو گا۔ اگر یہ کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پاکستان پر اچھا وقت آ سکتا ہے۔ پھر ساری چیزیں ہمارے ہی ملک میں بنیں گی۔ پاکستان کو دنیا کی بہت بڑی فیکٹری کے طور پر چلایا جا سکتا ہے۔ ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی لانی پڑے گی۔
