لاہور (خصوصی ر پو رٹر )سرگودھا یونیورسٹی لاہور کیمپس کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر میاں جاوید کی ہتھکڑی میں انتقال کے معاملے پر حکام ملبہ ایک دوسرے پر ڈالنے لگے، پورسٹمارٹم رپورٹ میں میاں جاوید کی موت ہارٹ اٹیک کے باعث ہوئی، تشدد کے کوئی نشانہ نہیں ہیں۔بتا ےا گےا ہے کہ سرگودھا یونیورسٹی لاہور کیمپس کے سی ای او میاں جاوید کی پوسٹ مارٹم رپورٹ تیار کر لی گئی، پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق میاں جاوید کا انتقال ہارٹ اٹیک کے باعث ہوا، میاں جاوید کے جسم پر کوئی تشدد کا نشانہ موجود نہیں۔میاں جاوید کی ہلاکت پر غفلت کے مرتکب افسران کا تعین نہ ہوسکا، جیل انتظامیہ کے مطابق میاں جاوید کو جیل سے زندہ حالت میں روانہ کیا جبکہ ہسپتال انتظامیہ نے مﺅقف دیا کہ میاں جاوید ریسیو ڈیڈ ملے، میاں جاوید ہتھکڑیوں میں لپٹے رہے متعلقہ پولیس جوڈیشل اہلکاروں کو ڈھونڈتے رہے، میاں جاوید کی وفات کے بعد رشتہ دار ہتھکڑیاں کھولنے کا مطالبہ کرتے رہے، مگر پولیس نے نہ کھولنے دی۔پولیس ذرائع کے مطابق جوڈیشل پولیس کے اہلکاروں کو ڈھونڈ کر لائے تو پھر میاں جاوید کی ہتھکڑیاں کھولی گئیں، جوڈیشل پولیس کی غفلت کے باعث میاں جاوید ہتھکڑیوں میں کافی دیر لپٹے پڑے رہے۔دوسری جا نب نیب ترجمان کے مطابق میاں جاوید کے انتقال میں نیب کا کوئی کردار نہیں، میاں جاوید کو 2 ماہ قبل 23 اکتوبر کو صحت مند حالت میں جیل بھیجوایا، موت جیل کسٹڈی میں سروسز ہسپتال لاہور میں ہوئی۔نیب ترجمان کے مطابق چیئرمین نیب کی سختی سے ہدایت تھی کسی بھی ملزم کو نیب کی طرف سے ہتھکڑی نہیں لگائی جائیگی، جس پر عملدآمد کر رہے ہیں۔دریں اثناء آئی جی جیل خانہ جات لاہور ریجن ملک مبشر نے پروفیسر جاوید اقبال کی ہتھکڑیوں میں موت کے معاملے کی ابتدائی انکوائری رپورٹ جاری کر دی۔ر پو رٹ کے مطابا جیل حکام نے جاوید اقبال کو بغیر ہتھکڑی پولیس کے حوالہ کیا۔ہیڈکانسٹیبل محمد اعظم۔ کانسٹیبل عمران اور کانسٹیبل خلیل نے ہسپتال میں ایمرجنسی میں ہتھکڑیاں لگائیں۔ ڈی آئی جی جیل کا کہنا ہے کہ محمد اعظم ہیڈ کانسٹیبل نے بیان دیا کہ افسران کا حکم ہے اور ایس او پی ہے کہ مجسٹریٹ کے حکم کے بغیر ہتھکڑی نہیں اتاری جائے گی۔جیل حکام نے بغیر ہتھکڑی جاوید اقبال کو پولیس کے حوالہ کیا۔جاوید اقبال کو پولیس کی ہتھکڑیاں لگی ہیں جیل حکام کے پاس ہتھکڑیاں نہیں۔ ر پو رٹ میں بتا ےا گےا ہے کہ ر یسکیونے بھی بیان دیا ہے کہ جیل سے جاوید اقبال کو بغیر ہتھکڑیاں لایا گیا۔
