تازہ تر ین

مشکوک مقابلہ، وزیراعلیٰ ساہیوال پہنچ گئے، زخمی بچوں سے ملاقات ، عیادت

لاہور، ساہیوال، بوریوالہ (نمائندگان خبریں) وزیر اعلیٰ پنجاب نے ساہیوال مشکوک مقابلے میں ملوث سی ٹی ڈی اہلکاروں کی گرفتاری کا حکم دے دیا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے ترجمان ڈاکٹر شہباز گل نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ ساہیوال واقعے پر وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کی بات ہوئی ہے جس کے بعد فیصلہ کیا گیا ہے کہ مشکوک مقابلے میں ملوث سی ٹی ڈی اہلکاروں کو فوری گرفتار کیا جائے گا اور ان کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔ ڈاکٹر شہباز گل نے کہا کہ متعلقہ ضلعی انتظامیہ ہسپتال پہنچ چکی ہے جبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب میانوالی سے فوری طور پر ساہیوال پہنچ چکے ہیں جہاں وہ لواحقین اور زخمی بچوں سے بھی ملاقات کریں گے۔ وعدہ کرتے ہیں کہ جو بھی ذمہ دار ہوگا اس کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ ہم کسی ایسے رویے کو برداشت نہیں کریں گے جس میں عام شہری کے حقوق متاثر ہوں، ہم سے جو ممکن امداد ہوسکی وہ کریں گے۔ ڈپٹی کمشنر ساہیوال کے موقف کے بعد معاملہ مزید متنازع ہو گیا ہے انکا کہنا تھا کہ لاشیں پوسٹمارٹم کیلئے اسپتال منتقل کی جا رہی ہے۔ جی ٹی روڈ پر اڈا قادر کے قریب سی ٹی ڈی کی کارروائی میں 4 افراد کی ہلاکت معمہ بن گئی جب کہ وزیراعظم کی جانب سے واقعے کا نوٹس لیے جانے کے بعد تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔ ڈپٹی کمشنر ساہیوال کا کہنا ہے کہ کارسواروں نے کوئی مزاحمت نہیں، لاشیں پوسٹ مارٹم کے لیے منتقل کی جارہی ہیں۔ پنجاب پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کی فائرنگ سے ماں بیٹی سمیت 4 افراد جاں بحق اور 3 بچے زخمی ہو گئے۔ ساہیوال واقعہ پر سی ٹی ڈی حکام کے بدلتے بیانات نے معاملہ مشکوک بنا دیا، کئی سوالات اٹھ گئے۔ ساہیوال کے مشکوک پولیس مقابلے میں دہشتگردوں کے خلاف لڑنے والی فورس کی اپنی ٹریننگ پر سوالیہ نشان لگ گیا، سب سے اہم سوال یہ ہے کہ سی ٹی ڈی نے گاڑی روکنے کے بجائے فائرنگ کیوں کی؟ جبکہ اگر گاڑی رک گئی تھی تو اندھا دھند گولیاں کیوں برسائی گئیں؟ بڑی کارروائی کا دعویٰ تو کیا جا رہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اہلکار لاشیں چھوڑ کر کیوں چلے گئے؟ کیا سی ٹی ڈی اہلکاروں نے کرائم سین کو محفوظ کیا؟ اہم سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا سی ٹی ڈی نے مارے جانے والے افراد سے متعلق مکمل معلومات لی تھیں؟ کیا مقصد صرف کار سواروں کی جان لینا تھا؟ گاڑی میں موجود معصوم بچوں اور خواتین کا خیال کیوں نہ کیا گیا؟ کیا جاں بحق ہونے والی تیرہ سالہ اریبہ بھی دہشتگرد تھی؟ زخمی بچی کے مطابق اس کا والد زندگی کی بھیک مانگتا رہا، سوال یہ ہے کہ سی ٹی ڈی اہلکاروں نے کار سواروں کو حراست میں کیوں نہ لیا؟۔ ساہیوال واقعہ میں مارے جانے والے افراد کے رشتہ دار جو کہ 293 ای بی میں مقیم ہیں انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ فائرنگ سے مارے جانے والے خلیل احمد سکنہ لاہور اور اس کے اہل خانہ کا دہشت گردی سمیت کسی بھی قسم کے جرائم سے تعلق نہیں ہے خلیل۔نبیلہ۔اریبہ اور ڈرائیور کو ناحق قتل کیا گیا پولیس مبینہ طور پر اب اپنی نا اہلی چھپانے کے لئے انہیں دہشت گرد قرار دےدیا گیا رضوان سکنہ 293 ای بی کا کہنا تھا کہ خلیل اپنے اہل خانہ کے ہمراہ میری شادی میں شرکت کے لئے آرہا تھا اس کا کسی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں تھا اہلیان دیہہ نے احتجاج کرتے ہوئے اعلی حکام سے فائرنگ میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف کاروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے مظاہرین کا پولیس کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئےطالبہ تھا کہ پولیس اہلکاروں کو گرفتار کر کے سزا دی جائے اور ہمیں انصاف فراہم کیا جائے مظاہرین کا کہنا تھا کہ اگر ہمیں انصاف نہ ملا تو احتجاج کا دائرہ کار پورے پنجاب تک بڑھا دیا جائے گا ذرائع کے مطابق فائرنگ میں مارے جا نے والے افراد کی تدفین ان کے آ بائی گاﺅں 293ای بی میں ہی متوقع ہے ۔
.


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain