لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ سانحہ ساہیوال کے ذمہ داروں کو اسی طرح ڈیل کرنا چاہئے جس طرح قاتل کو کرتے ہیں۔ جتنی معلومات براہ راست یا بالواسطہ جے آئی ٹی کے ذریعے ملی ہیں یہ سب سے زیادہ دکھ والی بات یہ ہے کہا یہ گیا ہے کہ فائرنگ ایک سے 10 فٹ تک کے فاصلے سے کی گئی۔ اس سے درندگی ظاہر ہوتی ہے کہ 7,5 کے اندر تو نظر آ جاتا ہے کہ گاڑی کے اندر نظر آ جاتا ہے کہ گاڑی میں بچے ہی اور خاتون خانہ ہے۔ تین بچے اور میاں بیوی جو بار بار کہہ رہے ہیں کہ مت مارو گولی اتنی قریب سے گولیاں چلی ہیں ثابت ہوتا ہے کہ بعض فائر وہ دو یا تین بعض 5 فٹ سے ہوئے ہیں۔ کیا وہ پولیس والے اندھے تھے۔دیکھتے ہیں وزیراعلیٰ پنجاب کیا ایکشن لیتے ہیں۔ ابھی تو جو رپورٹ آئی ہے وہ سوائے اس کے کہ ابتدائی پوچھ گچھ کی گئی ہو گی باقی تفصیلی رپورٹ تو بعد میں آئے گی۔ جتنی رپورٹآئی ہے اس میں ان لوگوں کو رہا نہیں کیا جا سکتا۔ اگر مخبری علط بھی ہو گئی اطلاع غلط بھی تھی تو موقع پر انہیں نظر نہیں آیا۔ لگتا ہے اندھے، گونگے ہو گئے تھے انسانیت کے معیار سے گر کر نیچے پلی مخلوق ہے جنہوں نے یہ کیا ہے۔ جس طرح جانوروں کو باڑے میں گھیر کر مارتے ہیں اس طرح انسان کو معصوم بچوں کو، ڈری ہوئی سہمی ماں کو ایک باپ کو جو بار بار کہہر ہا ہے بچوں پر گولی نہ چلاﺅ، خدا کے لئے گولی نہ چلاﺅ۔ جتنے الفاظ ڈکشنری میں درندگی کے، وہ ان لوگوں پر ختم ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی دنیا کا قانون وہ سزائے موت سے کم کوئی سزا دے۔پنجاب حکومت نے عوام کو پورا موقع دے کر مطمئن نہ کیا تو اس کا خوفناک ردعمل ہو گا کہ اس سے حکومت اسے سنبھال نہیں سکے گی یہ کھلی پولیس گردی ہے۔ پولیس نے پیٹی بھائیوں کو بچانے کی کوشش کی تو عوامی غیظ و غضب کا نشانہ بنے گی حکومت۔ کیا 13 سالہ بچی ان کو دہشت گرد دکھائی کیا اس کے ہاتھ گن تھی جو ان بدبخت پولیس والوں پر تانے ہوئی تھی اگر غلط معلومات مل گئی تھی تو ان کی آنکھیں کام نہیں کر رہی تھیں کیا وہ اندھے تھے۔ ذیشان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس کا تعلق واقعی کسی دہشت گرد گروہ سے تھا۔ ہو سکتا ہے کہ ہو، کوئی بھی شخص اپنی گاڑی پر کرائے پر دے سکتا ہے اگر وہ گاڑی چلانے والا کسی سابقہ کارروائی میں یا کسی ایسے برے عمل میں شریک رہا تھا تو اس کا کیا مطلب ہے کہ جہاں جہاں وہ گاڑی لے کر جائے اس کی گاڑی میں باقی سوارییاں بیٹھی ہوں جنہوں نے کرائے پر گاڑی لی تھی اس کا مطلب ہے کہ آئندہ آپ کسی گاڑی پر بٹھا کر لیا کریں کہ اس کے ڈرائیور کا کہیں دہشت گردوں سے تو تعلق نہیں ہے اس کو مارنے کے بہانے آئے اور ہمیں بھی مار جائے۔ اس واقعہ سے تو یہی لگتا ہے پولیس نے شاید حلف اٹھائے ہوئے ہیں کہ کوئی بھی سامنے ہو بغیر سوچے سمجھے فائرنگ نہ کریں گے۔ سانحہ ماڈل ٹاﺅن کا اس سے بڑا تعلق نہیں ہے لیکن اگر آپ کو ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے والے مناظر یاد ہوں کہ طاہر القادری صاحب کے لوگوں پر کس طرح سے گولی چلائی گئی تھی اور کس طرح سے گلو بٹ گاڑیاں توڑتا پھرتا تھا اس وقت بھی ایک خاتون کے منہ میں بندوق رکھ کر گولی چلائی گئی تھی اس کے حلق سے پار ہو گئی۔ کیا پولیس کے بڑے عہدیدار یہ ٹریننگ دیتے ہیں، یہ سہالہ میں ٹریننگ دی جاتی ہے۔ کیا یہ سکھایا جاتا ہے کہ بغیر سوچے سمجھے انسانوں کے ساتھ جانوروں کا سا سلوک کیا جائے۔ سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے ذمہ دار پولیس والوں کو بجائے ترقیاں دینے کے اور ان کو پاکستان کے باہر پوسٹنگ دینے کے اگر ان کو قرار واقعی سزا مل جاتی تو ہو سکتا ہے کہ ساہیوال کے واقعہ کے ذمہ داروں کے کچھ تو ہاتھ کانپتے ہم بھی پکڑے جا سکتے ہیں اس وجہ نے پولیس میں دیدہ دلیری بڑھائی۔ شہباز شریف نے قانون کی موشگافیوں کے ذریعے پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کے چیئرمین بن گئے مبارک ہو آپ کو جناب کوئی اللہ کے ہاں بھی انصاف ہے اور جس وزیراعلیٰ کے دور میں جس طرح سے گولیاں چلائی گئیں اور اگر اس وقت پولیس والوں کو سزا دی جاتی تو پولیس کے ہوش ٹھکانے آ جاتے اور پولیس محسوس کرتی ہے کہ ہم جس کو جی چاہیں گولی مار دیں۔ ہمیں کوئی پوچھنے والا نہیں کیونکہ قانون ہماری پشت پر قانون کا محافظ کھڑا ہے۔ میں تجویز کروں گا کہ قانون میں جو سخت سے سخت سزا ہو سکتی ہے وہ ان لوگوں کو ملنی چاہئے۔ ایک بچے کے قتل کے سلسلے میں، میاں بیوی کے قتل کے الزام میں کم از کم دو چار لاشیں پھڑکتی ہوئی نظر آنی چاہئیں ان کو پھانسی کی سزا ملنی چاہئے تا کہ لوگوں کو پتہ چلے کہ وردی والے کا یہ مطلب نہیں ہے لوگوں کو گولی چلا کر مار دے۔
شہباز شریف کے چیئرمین پی اے سی بننے کے معاملہ پر عدالت نے فیصلہ دے دیا اس پر بات کرنا مناسب نہیں ہو گا۔ تاہم ابھی فیصلہ ہائیکورٹ نے دیا، شیخ رشید یقینا سپریم کورٹ میں اس کے خلاف اپیل دائر کریں گے تمام چھوٹی سے بڑی عدالتوں تک کے ججز صاحبان کے فیصلے کرتے وقت اللہ کی عدالت کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ وہ خود بھی اپنے فیصلوں بارے وہاں جواب دہ ہوں گے۔ جو بھی اللہ کے نظام کو تلپٹ کر کے غلط فیصلے دے گا وہ اس کی پکڑ سے نہیں بچ سکتا۔ نوازشریف اور عام قیدی میں زمین آسمان کا فرق ہے، وہ پی آئی سی میں فروکش ہوں گے اور اسی وارڈ کو سب جیل قرار دے دیا جائے گا اگر میڈیکل رپورٹ میں بیرون ملک علاج کی سفارش کی گئی تو نوازشریف بغیر کسی عذر کے باہر بھی چلے جائیں گے نوازشریف کسی نہ کسی طریقے سے اس قید و بند سے چھٹکارا پا لیں گے کیونکہ قانون تو صرف عام آدمی کیلئے ہے۔ نوازشریف 3 بار وزیراعظم رہے ہیں اربوں روپے کے مالک ہیں، ان کو تو دل کا مرض نکلنا ہی تھا۔ پاکستان میں جاری نظام میں کبھی کسی امیر آدمی کو سزا نہیں ہوئی۔ نوازشریف کو جیل میں بہترین سہولتیں میسر ہیں، پنجاب حکومت کے ڈاکٹرز کیسے ایک سابق وزیراعظم کی مرضی کے خلاف رپورٹ دے سکتے ہیں۔ یہاں ڈاکٹرز اور وکلا کے پاس بھی انصاف بکتا ہے اگر آپ کے پاس پیسے ہیں تو یہ سہولت مل جائے گی۔ میں نے جیل میں وقت گزارا ہے ایک بار کیمپ جیل میں بطور سیاسی قیدی بند تھا وہاں مشہور سونے کے سمگلر کے بندے بھی قید تھے۔ ان کے کمرے فرش سے چھت تک کارپٹڈ تھے رنگین ٹی وی سمیت ہر سہولت میسر تھی، پرل کانٹینینٹل ہوٹل سے 3 وقت بہترین کھانا آتا تھا۔ پاکستان میں پیسہ اور اختیار حاصل ہو تو جیل بھی جنت ہے۔ ہماری جیلوں میں دو قسم کے قیدی ہوتے ہیں ایک عام قیدی جو شودر اور نیچ اس لئے سمجھے جاتے ہیں کہ غریب ہوتے ہیں دوسری قسم شرفا کے قیدیوں کی ہے جنہیں بہترین کھانا واش رومز، اہلخانہ سے ملاقاتوں کی ہر وقت سہولت میسر ہوتی ہے یہ سارا نظام گل سڑ چکا ہے اس سے سڑانڈ اٹھ رہی ہے اس لئے اس نظام کو ااگ لگا دینی چاہئے۔ یہاں تو لوگ پولیس کی چھترول سے بچنے کیلئے گھر بار بیچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ مزنگ میں 9 سالہ طالبہ سے زیادتی کرنے والے ٹیچر کی بجالی کی خبر پر ضیا شاہد نے کہا کہ یہ صرف اس لئے ہوا کہ وہ ایک غریب محنت کش کی بچی تھی کسی امیر گھرانے کی ہوتی تو یہ مجرم کبھی بحال نہ ہوتا۔ ناظرینن سن لیں کہ جو نظام انصاف پاکستان میں رائج ہے اس کے ہوتے اگر آپ غریب ہیں جیب میں پیسے نہیں ہیں تو انصاف کو بھول جائیں صرف دھتکار اور پھٹکار آپ کا مقدر ہو گی۔