لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ آغا سراج درانی وہ محض سپیکر اسمبلی نہیں جوڑی والے تھے ایک زمانے میں آصف زرداری جب جیل میں بند تھے تو اس وقت ان کے جوڑی وال تھے وہ ایک ہی کمرے میں بند تھے۔ یہ سندھ کا ایک معروف خاندان ہے میرے بھی اس خاندان سے اچھے تعلقات ہیں انکے خاندان سے، میرے والد محترم کے بہت تعلقات تھے آغا صدر الدین درانی جو ان کے والد ہیں سراج درانی کے اور جو ان کے تایا تھے آغا بدرالدین درانی ان کی ان سے بہت دوستی تھی میں گڑھی یاسین شہر میں پیدا ہوا ہوں ہم جس گھر میں رہتے تھے وہ گھر بھی آغا صدر الدین صاحب کا دلوایا ہوا تھا کیونکہ سرکاری گھر ابھی خالی نہیں ہوا تھا۔ والد صاحب چونکہ تحصیلدار تھے ان کو وقتی طور پر آغا صاحب نے گھر دیا ہوا تھا۔ جب میں نے سکھر سے اخبار نکالا تو والد صاحب اور آغا بدرالدین اور آغا صدر الدین بھی انتقال کر چکے تھے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ آغا سراج درانی نے سرکاری طور پر جو ڈسٹرکٹ کونسل تھا شکار پور کا اس سے منظوری لے کر جس سڑک پر میرا گھر تھا اس کا نام ضیا شاہد روڈ رکھا تو 300 لوگوں کو مہمان کے طور پر بلایا اور مجھے دعوت دی کہ میں سکھر سے چل کر ان کے پاس جاﺅں چنانچہ میں گیا۔ میں اس فیملی کو پرانا جانتا ہوں۔ سکھر کی ایک بڑی مضبوط فیملی ہے ان کے والد قومی اسمبلی کے سپیکر تھے اور ان کے جو تایا تھے وہ سندھ کی صوبائی اسملی کے سپیکر تھے۔ یہ آصف زرداری صاحب کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ البتہ ان کے بارے میں مالی بدعنوانی کے معاملات پرویز مشرف کے دور میں بھی اٹھے تھے اصل میں یہ تو سندھ کا ایک کلچر ہے۔ بہت کم لوگ اس کلچر سے بچے ہوئے ہوں گے۔ یہ صحیح ہے یا غلط یہ عدالت میں مقدمہ جائے گا تو پتہ چلے گا ان کے وسائل سے زیادہ اثاثہ جات ہیں یا نہیں ہیں۔ لیکن معلوم ہے یہ ہوتا ہے سپیکر کی گرفتاری کو آصف زرداری کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لیں گے۔ اس کے بعد جس زوروشور سے ان کا دفاع کیا ہے اور جس طرح سے یہ دھمکیاں لگائی ہیں کہ آپ ان کو گرفتار نہیں کر سکتے۔ پچھلے دنوں ایک لسٹ بتائی جاتی رہی ہے کہ 38 یا 40 لوگ ہیں جن کی گرفتاریاں متوقع ہیں۔ یہ جو آغا سراج درانی ہیں اس لسٹ میں نمبر ون تھے یہ معاملہ صرف انہی کی گرفتاری تک محدود نہیں رہے گا بلکہ جس طرح سے ایک فہرست ہمارے پاس آ بھی چکی ہے۔ میری میز پر بھی آ چکی ہے اور ان کی تفصیلات بھیجی ہیں ہمارے کراچی کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر میاں طارق نے دفتر کے لئے غالباً یہ وہی لسٹ ہے جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ان لوگوں کی گرفتاریاں ہوتی ہیں اور بالآخر ان کی گرفتاریاں شروع کر دی گئی ہیں۔
ضیا شاہد نے کہا ہے کہ آصف زرداری کی سیاسی جدوجہد ہے وہ کوئی مسلح آدمی تو ہے نہیں کہ وہ اپنے لوگوں کو چھڑانے کے لئے میدان میں نکل آئیں یہ سیاسی اپنادفاع کریں گے اسمبلی میں بات ہو گی۔ سندھ اسمبلی میں شور مچے گا پھر سینٹ اور قومی اسمبلی میں مسئلہ اٹھے گا بہرحال لگتا ہے کہ اب اس کا وقت آ گیا ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ اب زرداری کی باری ہے۔ اپنی کوشش ہر پارٹی کرتی ہے ان کی سندھ میں حکومت ہے وزارت اعلیٰ ہے لیکن جہاں تک حکومتی مشینری کا تعلقہے اس کے مقابلے میں لڑنا آسان کام نہیں ہوتا۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دورہ بھارت کے حوالہ سے بات کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ شروع میں جو خبریں آئی تھیں کہ شاید وہ ایک اربڈالر سرمایہ کاری کے طور پر دیں گی۔ لیکن پھر کوئی اعلان کئے بغیر اور کوئی ایم او یو سائن کئے بغیر واپس چلے گئے لگتا ہے کہ وہ انڈین حکومت سے خوش نہیں ہیں لگتا ہے کہ دورہ بھارتی نقطہ نظر سے ناکام ہو گیا اور یہ جو کشمیریوں پر ظلم ہو رہا ہے کشمیری لوگوں کے بارے میں بھارتی مظالم کو پسند نہیں کیا گیا۔ پلوامہ حملے کے بارے اقوام متحدہ مداخلت کرتی ہے اور ان کو لازماً کرنی چاہئے انہوں نے جو آفر کی ہے اسے ہمیں قبول کرنا چاہئے بہر حال اقوام متحدہ ایک ایسا مقتدر ادارہ ہے جس کو غیر جانبدار سمجھا جاتا ہے اگر اس کے تحت انکوائری ہو تو اس کی حیثیت جانبدارانہ نہیں ہو گی۔
پاکستان نے دہشتگردی کیخلاف جھنگ میں جس طرح کردار اداکیا، افغانستان میں امن عمل کو بڑھایا، افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کی راہیں ہموار کیں، امریکہ اب پاکستان کے مثبت اقدامات کو مان گیا ہے صدر ٹرمپ نے پاکستان کی جتنی مخالفت کرنا تھی کر چکے اب وہ بغیر سوچے سمجھے پاکستان کے خلاف بات کرتے نظر نہیں آتے۔ پاکستان کی مثبت خارجہ پالیسی اور بڑھکیں لگانے کے بجائے مدبرانہ انداز میں اپنا نکتہ نظر پیش کرنے سے امریکہ پر بڑا اثر کیا ہے اب وہ بلاوجہ پاکستان کے خلاف بات نہیں کر سکتے۔ نوازشریف کو ضمانت ملنا مشکل نظر ااتا ہے کیونکہ اس کے بعد تو یہ سزا یافتہ قیدی کہے گا کہ اس کا علاج بیرون ملک کرایا جائے۔ قانون کے مطابق میڈیکل بورڈ کے فیصلے کو مانا جائے گا۔ شریف برادران کا علاج شوکت خانم میں بھی ہو سکتا ہے تاہم وہ غالباً وہاں علاج کرانے کو پسند نہیں کریں گے۔ بدقسمتی ہے کہ حالات اس نہج تک آ چکے ہیں کہ کسی کو مخالف کے ہسپتال، ڈاکٹر پر یقین نہیں ہے۔ ادارے سبھی کیلئے ہوتے ہیں اورسب کو اداروں پر اعتماد کرنا چاہئے۔
![](https://dailykhabrain.com.pk/wp-content/uploads/2019/02/zsks-4.jpg)