اسلام آباد (نامہ نگار خصوصی) وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا ہے کہ وسط مدتی اقتصادی فریم ورک پر عملدرآمد کے نتیجہ میں 2022ءاور 2023ءمیں اقتصادی ترقی کی شرح گذشتہ 15 سالوں کی بلند ترین سطح پر ہوگی، پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آنے والے انتخابات کے تناظر میں نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے مستقبل کو مدنظر رکھ کر اقتصادی فیصلے کر رہی ہے، اقتصادی فریم ورک پر عملدرآمد کے نتیجہ میں شرح تبادلہ کا پائیدار نظام قائم ہوگا، غربت اور قرضوں میں کمی آئے گی جبکہ 40 ارب ڈالر کی تجارت کا ہدف بھی حاصل کیا جائے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو یہاں وسط مدتی اقتصادی فریم ورک کے افتتاح کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر وزارت خزانہ اور ذیلی و منسلک اداروں کے اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔ وزیر خزانہ نے وسط مدتی اقتصادی فریم ورک دستاویز کی تیاری میں سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا، وزارت خزانہ اور ذیلی و منسلک اداروں کے اہلکاروں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اس کی تیاری میں عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور اقتصادی ماہرین سے بھرپور طریقہ سے مشاورت کی گئی ہے اور ان سے فیڈ بیک حاصل کیا گیا ہے۔ اس دستاویز میں اس بات کا احاطہ کیا گیا ہے کہ آئندہ چار، پانچ سالوں میں ہم نے ملکی معیشت کو کس طرح آگے لے کر جانا ہے، فی الوقت اس فریم ورک میں اعداد و شمار نہیں دیئے گئے کیونکہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہماری بات چیت آخری مراحل میں ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ تمام تر تفصیلات طے ہونے کے بعد اعداد و شمار بھی جاری کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ پارلیمان ہی اقتصادی اور دیگر فیصلوں کا مرکز ہونا چاہئے، اس مقصد کیلئے اس دستاویز کو قومی اسمبلی اور سینٹ کی متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کو بھی ارسال کیا جا رہا ہے تاکہ ان سے بات چیت اور مشاورت ہو اور ان کی ان پٹ کے بعد اس کو حتمی شکل دی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ملکی معیشت کے فیصلے آنے والے انتخابات نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے مستقبل کو دیکھتے ہوئے کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وسط مدتی اقتصادی فریم ورک میں روزگار کی فراہمی، مہنگائی میں کمی، برآمدات میں اضافہ، بچتوں کے فروغ اور اس کے نتیجہ میں سرمایہ کاری میں اضافہ اور خسارہ میں کمی پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، اگست میں جب ہم نے حکومت سنبھالی تو ہمیں فوری اور سخت فیصلوں کی ضرورت تھی کیونکہ اس وقت ملکی معیشت آئی سی یو میں تھی اور ہم نے آپریشن کرکے اسے معمول کی حالت میں لانا تھا، وہ فیصلے کر لئے گئے جس کے نتیجہ میں بحران ختم ہوا اور ملکی معیشت استحکام کی طرف جا رہی ہے، زرمبادلہ جس تیزی سے باہر جا رہا تھا اس پر قابو پا لیا گیا ہے، انشاءاﷲ آنے والے 2 سالوں میں پاکستان اقتصادی استحکام کی منزل حاصل کر لے گا۔ انہوں نے کہا کہ وسط مدتی اقتصادی فریم ورک کی ضرورت اس لئے بھی محسوس کی گئی کیونکہ پاکستان 1960ءکے عشرہ میں ترقی کا ایک ماڈل تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہم تنزلی کا شکار ہوگئے اور ہم سے پیچھے رہ جانے والے ممالک ہم سے آگے نکل گئے، یہ افسوسناک صورتحال ہے کہ ہم سود کی ادائیگی کیلئے قرضے لے رہے ہیں، 800 ارب روپے سے زائد کے قرضے سود کی ادائیگی کیلئے لئے گئے ہیں، درآمدات اور برآمدات میں بھی گہری خلیج ہے، گزشتہ سال برآمدات ملکی معیشت کی شرح سے 8 فیصد تھی، چند سال قبل یہ ساڑھے 13 فیصد کی شرح سے تھی، ہم ترقی کی بجائے تنزلی کی طرف جا رہے ہیں، اس وقت بنگلہ دیش، بھارت اور ترکی کی برآمدات ملکی معیشت کے حساب سے 15، 19 اور 25 فیصد کی شرح سے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ بچتیں نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں سرمایہ کاری کو فروغ حاصل نہیں ہوسکا، بھارت اور چین نے تیزی سے اقتصادی ترقی اسی لئے کی کیونکہ وہاں بچتوں کی شرح 30 سے لے کر 45 فیصد تک تھی، پاکستان میں گزشتہ سال یہ شرح15 فیصد رہی، جب تک ہم ان مسائل کو حل نہیں کریں گے ہم بار بار آئی ایم ایف کی طرف جاتے رہیں گے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ٹیکس اصلاحات کے ضمن میں جامع اقدامات کئے جا رہے ہیں، ایف بی آر میں انتظامیہ اور پالیسی کے درمیان فرق ضروری ہے، معیشت ترقی کرے گی تو اس سے ریونیو بڑھے گا، ٹیکس پالیسی یونٹ الگ سے بن رہا ہے، ٹیکنالوجی کے ضمن میں بھی اصلاحات اور قوانین متعارف کرائے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ عملدرآمد کی استعداد کار میں اضافہ کیلئے طریقہ کار بھی مرتب کرنے پر توجہ دی جا رہی ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ریونیو میں اضافہ کیلئے ٹیکس کے نظام کو سہل اور آسان بنانا ہوگا، آنے والے بجٹ میں ٹیکس کا سادہ ترین نظام دیں گے جس سے لوگوں کو آسانیاں ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ خسارہ پر قابو پانے کیلئے وسط مدتی اقتصادی فریم ورک مکمل مالیاتی ڈسلپن کا ایک نظام ہے، ہم پبلک فنانس مینجمنٹ کا نیا قانون لانا چاہتے ہیں، ضمنی گرانٹ کا سلسلہ ختم کرنا ہوگا اور ضمنی گرانٹ کے اختیارات پارلیمنٹ کے پاس ہونے چاہئیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ایکسچینج ریٹ ملکی ترقی کا پیمانہ نہیں ہے، ایک زمانہ میں پاکستان کی کرنسی کی قدر جاپانی کرنسی سے زیادہ تھی لیکن جاپان کی فی کس آمدنی پاکستان سے کہیں زیادہ تھی، ماضی میں مصنوعی طریقہ سے روپے کی قدر برقرار رکھی گئی جس سے مسائل پیدا ہوتے گئے، وسط مدتی اقتصادی فریم ورک کے نتیجہ میں شرح تبادلہ کا ایک جامع اور پائیدار نظام مرتب ہوگا اور قیاس آرائیاں اسے متاثر نہیں کر سکیں گی۔ انہوں نے کہا کہ فریم ورک کے تحت برآمدی صنعت کو پہلے کی طرح سہولیات دینی ہیں، بجلی، گیس اور ریفنڈ کے ضمن میں پہلے سے اقدامات کئے گئے ہیں، لیکوئیڈیٹی کی بحالی کے ساتھ ساتھ کاروبار میں آسانیاں پیدا کی جا رہی ہیں، جو اہداف مقرر کئے گئے ہیں وہ حاصل کئے جائیں گے، پاکستان ویلیو چین کے عالمیگر نظام سے کٹ گیا ہے، ہم اس کو دوبارہ بحال کر رہے ہیں اور اس کو عالمی نظام کے ساتھ مربوط بنایا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان خطہ کے ممالک کے ساتھ تجارت کے فروغ پر اپنی توجہ مرکوز کرے گا، ترکی، ایران، چین، افغانستان اور وسطی ایشیاءکے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعلقات کو ترجیح دی جائے گی، آر سی ڈی شاہراہ کی استعداد کار سے استفادہ کرنے پر توجہ دی جا رہی ہے، ہم بھارت کے ساتھ بھی تجارت کو فروغ دینا چاہتے ہیں لیکن بھارتی حکومت پاکستان دشمنی کی بنیاد پر سیاست کرتی ہے، بھارت میں بے تحاشا غربت ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ برصغیر میں غربت کے خاتمہ کیلئے تمام تصفیہ طلب مسائل کے حل کیلئے جامع مذاکرات ہونے چاہئیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ برآمدات کے فروغ کیلئے زرعی پیداوار میں اضافہ کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ گذشتہ 20، 25 سالوں میں مارکیٹ تک رسائی اور تحقیق پر توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے زرعی پیداوار میں کمی آئی، وسط مدتی فریم ورک میں زراعت کی ترقی کیلئے جامع اقدامات تجویز کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بچتوں اور سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے بھی وسط مدتی فریم ورک کے تحت جامع منصوبہ بندی کی گئی ہے، اس کے تحت اسلامک بینکنگ اور اس سے منسلک خدمات میں اضافہ کیا جائے گا، ڈیجیٹل فنانس کو فروغ دینے کیلئے اقدامات کئے جائیں گے، ایس ای سی پی، سٹیٹ بینک اور دیگر ادارے پہلے سے کام کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بنیادی ڈھانچہ اور سماجی شعبہ کی ترقی کیلئے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ میںاضافہ پر توجہ دی جائے گی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کے منشور کی بنیاد معاشرہ کے کمزور طبقات اور لوگوں کو بہتر زندگی کی فراہمی پر رکھی گئی ہے، اس مقصد کیلئے ”احساس“ سمیت کئی پروگرام شروع کئے گئے ہیں، حکومت معاشرہ کے کمزور اور غریب طبقات کی بہتری کیلئے وسائل میں اضافہ کرے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ گورننس کے نظام میں بہتری لائی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر عشرت حسین کی قیادت میں ادارہ جاتی اصلاحات پر کام ہو رہا ہے اور فیصلے کئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وسط مدتی اقتصادی فریم ورک کے اطلاق اور عملدرآمد کے نتیجہ میں 2022ءاور 2023ءمیں اقتصادی ترقی کی شرح گذشتہ 15 سال کی بلند ترین سطح پر ہو گی، روزگار کے زیادہ مواقع پیدا ہوں گے، ہاﺅسنگ اور ٹورازم کی صنعت کو فروغ حاصل ہو گا، افراط زر اور غربت میں کمی آ جائے گی جبکہ 40 ارب ڈالر برآمدات کا ہدف بھی حاصل ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری شعبہ میں چلنے والے اداروں کی نجکاری کا عمل جاری رہے گا تاہم سٹرٹیجک نوعیت کے حامل اداروں کی نجکاری نہیں ہو گی، انشاءاﷲ پانچ سال بعد جب نیا وزیر خزانہ یہاں پر خطاب کرے گا تو اسے یہ نہیں کہنا پڑے گا کہ گذشتہ حکومتوں کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا ہے کہ حکومت اثاثوں کی ڈیکلیئریشن کیلئے ایمنسٹی سکیم متعارف کرا رہی ہے جس کا مقصد اثاثے ظاہرنہ کرنے والے لوگوں کو ایک موقع فراہم کرنا ہے، ایف بی آر کی استعداد کار بہت بہتر ہو گئی ہے اور مجوزہ سکیم سے استفادہ نہ کرنے والے لوگوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ پیر کو یہاں بی آئی ایس پی ہیڈکوارٹرز کے آڈیٹوریم میں وسط مدتی اقتصادی فریم ورک کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ اثاثوں کو ظاہر کرنے کیلئے حکومت رعایتی سکیم کے خدوخال کو حتمی شکل دے رہی ہے، آنے والے ہفتہ میں اس کی تمام تر تفصیلات فراہم کی جائیں گی، ہمیں بیرون ممالک سے پاکستانیوں کے اکاﺅنٹس اور اثاثوں کے بارے میں معلومات مل رہی ہیں، بے نامی لین دین کے حوالہ سے بھی قوانین بن رہے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ڈیجیٹل فنانس کے تحت اداروں کی استعداد کار بہتر بنائی جا رہی ہے، ایف بی آر کی استعداد کار بہت بہتر ہوگئی ہے، ان کے پاس معلومات بھی آ رہی ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ جن لوگوں نے اپنے اثاثے ظاہر نہیں کئے ہیں وہ انہیں آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ جب سکیم کا اعلان ہو تو وہ فوری طور پر اپنے اثاثے ظاہر کریں کیونکہ اگر اثاثے ظاہر نہ کئے گئے تو ایف بی آر اور معاون اداروں کے پاس موجود ڈیٹا کو بروئے کار لاتے ہوئے اثاثے ظاہر نہ کرنے والے افراد کے خلاف کارروائی ہوگی۔