اسلام آباد (این این آئی‘ مانیٹرنگ ڈیسک) وفاقی وزیراطلاعات ونشریات چوہدری فواد حسین نے شریف خاندان اور زرداری فیملی کو مہنگائی کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ شریف خاندان نے ملک میں کرپشن کی بنیاد رکھی، آصف زرداری نے کرپشن کو جدت بخشی، اسحاق ڈار نے جعلی اکاﺅنٹس بنائے اور منی لانڈرنگ کو متعارف کرایا، زرداری نے سندھ میں جعلی اکاﺅنٹس کا نیٹ ورک بنایا، تحقیقات شروع ہونے کے بعد شہباز شریف کی اہلیہ بچوں سمیت اچانک باہر چلی گئیں، ٹی ٹی سے شہبازشریف نے ڈی ایچ اے اسلام آباد، ماڈل ٹاو¿ن اور ڈی ایچ اے لاہور میں اثاثے بنائے، لندن میں بھی اپنے 2 گھر ڈیکلیئر کئے،کرپشن کے خلاف جنگ پوری قوم کا فرض ہے،کسی سے سیاسی انتقام نہیں لیا جارہا ، شریف خاندان کے خلا ف تحقیقات شفاف انداز میں کی جارہی ہیں،1973ءکا آئین ایک متفقہ آئین ہے، معیشت کی طرح ریاستی اداروں کو بھی ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ اتوار کو یہاں وزیر مملکت حماد اظہر اور وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اطلاعات و نشریات چو ہدری فواد حسین نے کہاکہ 1947سے 2008 تک ملک کا کل قرض 37 ارب ڈالر تھا۔انہوںنے کہاکہ گزشتہ دس سال میں پاکستان کا قرض 60ارب ڈالر بڑھ گیا۔انہوںنے کہاکہ 1992میں اکنامک ریفارم ایکٹ لایا گیا،ایکٹ میں سرمائے کے ذرائع خفیہ رکھنے کی شق شامل کی گئی۔انہوںنے کہاکہ شریف خاندان نے پاکستان میں کرپشن کی بنیاد رکھی۔انہوںنے کہاکہ حدیبیہ پیپر ملز کے حوالے سے تحقیقات میں اہم انکشافات ہوئے۔انہوںنے کہاکہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ملک میں منی لانڈرنگ کو متعارف کرایا۔انہوںنے کہاکہ جعلی اکاو¿نٹس کے ذریعے پیسہ ملک سے باہر بھجوایا جاتا رہا۔انہوںنے کہاکہ اسحاق ڈار میں 2000 میں اپنے جرم کا اعتراف بھی کیا تھا۔انہوںنے کہاکہ مشرف دور میں نوازشریف کواین آر او دیا گیااور تحقیقات آگے نہ بڑھ سکیں ۔ انہوںنے کہاکہ حدیبیہ پیپر ملز کیس کے فیصلے کو کرپشن چھپانے کیلئے رول ماڈل کے طور پر لیاگیا۔انہوںنے کہاکہ اسحاق ڈار نے منی لانڈرنگ کیلئے جعلی اکاو¿نٹس بنوائے۔انہوںنے کہاکہ حدیبیہ کی طرح ہل میٹلز کو بھی منی لانڈرنگ کیلئے استعمال کیا گیا۔انہوں نے الزام لگایا کہ ایکٹ کے متعارف کرانے کے بعد اتھارٹی نے مشکوک اکاو¿نٹس سے رقوم کی بڑے پیمانے پر ترسیل نوٹ کی جس کے پیچے حدیبیہ پیپرز ملز تھی۔وزیر اطلاعات نے کہاکہ حدیبیہ پیپرزملز کے ذریعے 81 کروڑ روپے کی کرپشن کی گئی۔فواد چوہدری نے سوال اٹھایا کہ 9 کروڑروپےمالیت کی حدیبیہ ملزکےاکاو¿نٹ میں اچانک 81کروڑروپے کیسے آئے۔انہوں نے کہا کہ اتنی بڑی رقم کی ترسیل کے نتیجے میں ایک تحقیقات کا آغاز ہوا جس کے نتائج سے معلوم ہوا کہ حدیبیہ پیپرز ملز کے مالک نوازشریف ہیں اور ان کی والدہ شمیم اختر کمپنی کی ڈائریکٹرتھی، میاں عباس شریف، مریم صفدر، صبیحہ عباس، حسین نواز، حمزہ شہباز شریف اور مریم نواز شریف کمپنی کے ڈائریکٹرز تھے۔انہوں نے الزام لگایا کہ ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ میں بھی ایسا ہی ہوا جیسا حدیبیہ پیپرز میں ہوا اور حسین نواز نے مجموعی طورپر 1 ارب 16 کروڑ 56 لاکھ روپے بذریعہ ٹی ٹی نواز شریف کو ارسال کیے۔وزیراطلاعات کے مطابق نواز شریف نے 82 کروڑ روپے مریم نواز کو دیئے جس سے انہوں نے زرعی زمین خریدی۔ انہوںنے کہاکہ زرداری نے سندھ میں جعلی اکاو¿نٹس کا نیٹ ورک بنایا،مالی ، ڈرائیورز اور گارڈزکے نام جعلی اکاو¿نٹس کیلئے استعمال کئے گئے۔انہوںنے کہاکہ ایف آئی اے نے 5ہزار میں 32 اکاو¿نٹس کی نشاندہی کی۔انہوںنے کہاکہ زرداری کے بچوں اور بلاول ہاو¿س کے اخراجات بھی جعلی اکاو¿نٹس سے پورے کئے گئے۔انہوںنے کہاکہ بلاول اور ایان علی کے ٹکٹ اور بختاور کی سالگرہ کا خرچہ بھی انہی اکاو¿نٹس سے کیا گیا۔انہوںنے کہاکہ 2018میں شہبازشریف کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں کی تحقیقات شروع ہوئیں۔انہوںنے کہاکہ تحقیقات شروع ہونے کے بعد شہباز شریف کی اہلیہ بچوں سمیت اچانک باہر چلی گئیں۔انہوںنے کہاکہ ساتھ ہی سرمائے کی منتقلی کے 200 سوئفٹ پیغامات جاری کئے گئے۔انہوںنے کہاکہ شہبازشریف کے خاندان کے نام 2کروڑ 60 لاکھ ڈالر منتقل کئے گئے،اس عرصے کے دوران شہبازشریف کی بطوروزیراعلیٰ تنخواہ کے علاوہ کوئی آمدن نہیں تھی،اسی عرصے کے دوران شہبازشریف نے اپنی اہلیہ تہمینہ درانی کیلئے 3 اپارٹمنٹ خریدے۔انہوںنے کہاکہ ٹی ٹی سے شہبازشریف نے ڈی ایچ اے اسلام آباد ، ماڈل ٹاو¿ن اور ڈی ایچ اے لاہور میں اثاثے بنائے۔انہوںنے کہاکہ پاکستان میں انکے کثیر سرمائے کا مختصر حصہ لایا گیا۔انہوںنے کہاکہ شہبازشریف نے لندن میں بھی اپنے 2 گھر ڈیکلیئر کئے۔انہوں نے کہاکہ 200سوئفٹ پیغامات میں 70لوگوں کی شناخت کی گئی ہے جنہوں نے شہباز شریف خاندان کو پیسے بھیجے۔ پنڈدادن خان کے منظور پاپڑ والے نے ایک ملین ڈالر کی ٹی ٹی لگوائی۔ محبوب علی صادق پلازہ کے سامنے ریڑھی لگاتا ہے اس کی 7 لاکھ کی ٹی ٹی لگوائی گئی۔ اس کے علاوہ رفیق نامی شخص کا شناختی کارڈ بھی استعمال ہوا جو کئی سال پہلے مر چکا ہے۔چوہدری فوادحسین نے کہاکہ شناخت کئے جانے والے لوگوں میں پاپڑ بیچنے والا بھی شامل ہے جس کے نام ایک ملین ڈالر ہے۔ انہوںنے کہاکہ پیسے بھجوانے والوں میں سے 14 ایسے لوگ ہیں جن کا وجود ہی نہیں ہے۔ انہوںنے کہاکہ ایک ارب 26 کروڑ روپے نوازشریف کو ٹی ٹی کے ذریعے بھیجے گئے۔ انہوںنے کہاکہ کرپشن کے خلاف جنگ پوری قوم کا فرض ہے۔اس موقع پر شہزاد اکبر نے کہاکہ پاکستان میں معاشی مسائل کی ساری ذمہ داری انہی کرپٹ عناصر پر عائد ہوتی ہے۔انہوںنے کہاکہ کرپشن کرنے والے عناصر سے قانونی پوچھ گچھ نیب کی ذمہ داری ہے،نیب تحقیقات کرکے اپنے فرائض انجام دے رہی ہے۔معاون خصوصی نے کہاکہ دبئی میں پیسہ منتقل کرنے کیلئے جعلی کمپنیاں بنائیں گئیں۔انہوںنے کہاکہ شریف فیملی کے لوگ نیب تحقیقات میں کسی ایک سوال کا جواب بھی نہیں دے پائے۔ انہوںنے کہاکہ وضاحت کردوں کہ رقوم کی منتقلی کی ٹی ٹیز 2008 تک کی گئیں۔انہوںنے کہاکہ جائز ترسیلات زر میں جیتے جاگتے جبکہ جعلی ٹی ٹیز میں گھوسٹ افراد استعمال ہوئے۔انہوںنے کہاکہ کرپشن کے خلاف جنگ کی ذمہ داری صرف عمران خان کی نہیں پوری قوم کی ہے۔انہوںنے کہاکہ مائیں بہنیں سب کیلئے قابل احترام ہوتی ہیں ، بدعنوانی کی تحقیقات بھی قومی فریضہ ہے۔ وزیر اطلاعا ت چوہدری فواد حسین نے کہاکہ وزیراعظم کی قیادت میں موجودہ حکومت نے کرپشن کے خاتمے کا واضح موقف اختیار کیا۔انہوںنے کہاکہ شریف خاندان کے خلا ف تحقیقات شفاف انداز میں کی جارہی ہیں۔فواد چوہدری نے کہاکہ کسی سے سیاسی انتقام نہیں لیا جارہا ۔ شہزاد اکبر نے کہاکہ ن لیگ کی بھی کوئی ایان علی سامنے آ جائےگی،حکومت نیب کوفنڈ فراہم کرسکتی ہے ، نیب پراسیکیوشن بہتر ہونی چاہیے۔انہوںنے کہاکہ قوم کے لوٹے ہوئے پیسے واپس لانے کیلئے پرعزم ہیں۔اس موقع پر وزیر مملکت حماد اظہر نے کہاکہ کسی بھی اقتصادی ماہر نے اسحاق ڈار کی پالیسیوں کی تائید نہیں کی۔ ایک سوال پر وزیراطلاعات نے کہاکہ 1973کا آئین ایک متفقہ آئین ہے، معیشت کی طرح ریاستی اداروں کو بھی ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔موجودہ صورتحال کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اطلاعات نے کہاکہ جو ملک میں مہنگائی اور ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے تو اس کی وجہ یہی خاندان ہیں۔ فواد چوہدری نے کہا کہ 1947 ءسے 2008 ءتک پاکستان کا قرضہ 37 بلین ڈالرز تھا، 2008 ءسے 2018 ءتک یہ قرضہ 97 بلین ڈالرز تک پہنچ گیا، 10 سال میں قرضہ 60 بلین ڈالرز بڑھ گیا، اس دوران پاکستان میں دو خاندان حکمرانی کرتے رہے۔ انھوں نے کہا کہ شریف فیملی سرکاری وسائل اور سرکاری پیسے کھاتی رہی، شریف فیملی کے پاس اتنا پیسہ جمع ہو گیا کہ 92 میں اکنامی ریفارم ایکٹ لایا گیا، اس ایکٹ میں تھا کہ پیسہ باہر سے آ رہا ہے تو ادارے نہیں پوچھ سکتے، 96 سے 98 میں اداروں نے نوٹ کیا کہ بہت مشکوک ٹرانزکشنز ہوئی ہیں، حدیبیہ پیپرز مل کو اچانک 87 ارب روپے بیرون ملک سے آئے تھے، تحقیقات میں پتا چلا میاں شریف اس کے مالک ہیں، شریف فیملی کے دیگر ممبران بھی حدیبیہ پیپر مل کا حصہ تھے۔ اسحاق ڈار نے منی لانڈرنگ کے لیے جعلی اکاﺅنٹس کا نیا طریقہ لانچ کیا، پاکستان سے پیسے جعلی اکانٹس کے ذریعے باہر بھیجے گئے، شریف فیملی کے 40 لوگوں کے نام پر وہ پیسہ بذریعہ ٹی ٹی واپس لایا گیا، بعد میں شریف فیملی کو این آر او مل گیا انھوں نے معافی مانگ لی، ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ میں بھی حدیبیہ پیپر مل طرز پر کرپشن کی گئی۔ حسین نواز نے 1 ارب 16 کروڑ 56 لاکھ بذریعہ ٹی ٹی نواز شریف کو بھیجے، 82 کروڑ روپے نواز شریف نے مریم نواز کو دیے، مریم نواز نے پھر ان پیسوں سے ایگری کلچر کا کام کیا، اسی طرح باقی پیسے بھی شریف خاندان کے دیگر افراد کو بھیجے گئے۔ شریف خاندان کے طرز پر آصف زرداری نے بھی کرپشن کی، انھوں نے کرپشن کے لیے بینک ہی خرید لیا، اور گارڈز، ڈرائیورز اور دیگر کے جعلی اکانٹس بنوائے، آصف زرداری کے جعلی اکانٹس کے ذریعے پیسا آتا تھا اور یوں پورا نیٹ ورک بنایا گیا، منی لانڈرنگ کے لیے اکنامک ہٹ مین اسحاق ڈار کو لایا گیا۔ کرپشن کے اس پورے نیٹ ورک میں اومنی گروپ اور سندھ کے ٹھیکے دار بھی ملوث ہیں، سندھ کا تمام پیسا زرداری اینڈ کمپنی نے ہڑپ کیا، اکتوبر 2018 میں شہباز شریف کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں کی تفتیش شروع ہوئی، نومبر 2018 میں پتا چلا کہ شہباز شریف کی فیملی باہر جانا شروع ہوگئی ہے، اداروں نے نوٹ کیا 200 بار رقم ٹی ٹی کے ذریعے منتقل کی گئی۔ تفتیش میں پتا چلا ان کی تمام رقم ٹی ٹی کے ذریعے آتی ہے، شہباز فیملی پاکستان میں کوئی پیسا نہیں کماتی تھی، شہباز شریف تمام معاملے کے اصل بینفشری تھے، انھوں نے مارگلہ ہلز کے پاس تہمینہ درانی کے لیے 3 اپارٹمنٹس خریدے، اپارٹمنٹس کے لیے نصرت بی بی کے اکانٹس میں ٹی ٹی کے ذریعے پیسا آیا، ڈیفنس لاہور میں بھی تہمینہ درانی کے لیے گھر خریدا گیا اور رقم ٹی ٹی سے آئی۔ بیرون ملک سے پیسا تب آتا تھا جب شہباز فیملی کو ضرورت ہوتی تھی، اس کا مطلب ہے شہباز فیملی کا جو پیسا پاکستان آ رہا ہے وہ فیکشن آف منی ہے، پاکستان آنے والا پیسا بالکل اسی طرح ہے جیسے چونگی کے پیسے ہوں، شہباز فیملی کا پیسا بیرون ملک میں پڑا ہے، یہ صرف چونگی کا پیسا آتا ہے۔ ٹی ٹی کے ذریعے رقم بھیجنے والے 70 کے قریب لوگوں کی نشان دہی ہوئی، پاپر بیچنے والا منظور، محبوب، رفیق نامی شخص نے ٹی ٹی بھجوائی، رفیق کے شناختی کارڈ سے پتا چلتا ہے وہ ٹرانزکشن سے کئی سال پہلے مر چکا تھا، ٹی ٹی سے رقم بھیجنے والے 14 لوگ ایسے ہیں جو پیسا بھیجنے کی حیثیت نہیں رکھتے۔ فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ کرپشن حدیبیہ سے ہل میٹل، زرداری کے اکاﺅنٹس اور پھر شہباز شریف تک پہنچی، یہ پاکستان کا پیسا تھا، مہنگائی کی وجہ بھی یہی تین خاندان ہیں، ڈالر مہنگا ہو رہا ہے، بیرون ملک پاکستان کے مسائل کی وجہ بھی یہی لوگ ہیں، ان کے خلاف کسی قسم کی انتقامی کارروائی نہیں ہو رہی، مقدمات شفاف ہیں، کرپشن کی اس داستان کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔