لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے پروگرام ”نیوز ایٹ سیون“ میں گفتگو کرتے ہوئے دفاعی تجزیہ کار جنرل (ر)اعجاز اعوان نے کہا ہے کہ وزیراعظم کا دورہ ایران بہترین وقت پر دونوں ممالک کے بین الاقوامی تعلقات کو بہتری کی طر ف لانے کے لیے اہم سنگ میل ہے۔ پاک ایران تاریخی تعلقات میں سردمہری اور تضادات کو دور کرنے لیے وزیراعظم کا ایران کی دعوت پر دورہ دورس نتائج کا حامل ہوگا۔ دونوں ملکوں میں دہشتگردی کے حوالے سے شکوک، سرحد پر باڑ لگانے اور باہمی تجارت پر مذاکرات کیے گئے ہیں۔پاکستان اور ایران ایک سمت میں دیکھیں تو امریکا کے افغانستان سے انخلا کے بعد امن کے لیے مذاکرات میں خوش آئند پیشرفت ہوگی۔ عمران خان کو کہتے ہیں اس پر عمل یقینی بناتے ہیں، وہ دلیر انسان ہیں اور چاہتے ہیں کہ پاکستان کی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہ ہو۔ سعودی عرب کا ایران میں سیلاب متاثرین کے لیے امداد بھیجنا تعلقات کی بہتری کے لیے اہم قدم ہے، پاکستان بھی تنازعات حل کرنے میں کردار ادا کرے گا۔ افغانستان میں امن کے بعد روس اگر سی پیک میں شامل ہوا تو خطے کے ممالک کے درمیان تحفظات دور ہوسکیں گے۔ پاکستان کے داخلی مسائل اتنے نہیں ہیں جتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے۔ موجودہ حکومت اگر قرضے لیکر ریلیف دیتی رہی تو ہم قرض کے بوجھ سے نہیں نکل سکتے۔ قرض کی افیون سے نکلنے کے لیے سخت فیصلے لازم ہیں تاکہ ہم باوقار قوم کی حیثیت سے رہ سکیں۔ سینئر تجزیہ کار حسن عسکری نے کہاکہ وزیراعظم کے دورہ ایران میں دہشتگردی سمیت اہم ایشوز پر بات ہوئی۔ ماضی میں ایران نے دہشتگردی کے واقعات پر پاکستان پر الزام لگایا جسکی وجہ سے وزیراعظم کو کہنا پڑا کہ پاک سرزمین کو کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ دورے سے ایک روز قبل پاکستان میں دہشتگردی کے واقعے کا ذمہ دار ایرانی دہشتگردوں کو ٹہرایا گیا۔ غلط وقت پر ایسے بیان کا اثر وزیراعظم کے دورہ پر ہوتا مگر پاکستان نے یقین دہانی کروائی کہ ایران کو کبھی نقصان نہیں پہنچنے دیں گے۔ سابق الیکشن کمشنر کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ اصولی طور پر چوہدری نثار پاکستان کے صف اول کے رہنما ہیں۔ آئین و قانون انہیں حلف اٹھانے کا پابند نہیں بناتاتاہم انہیں اپنی سیاسی حکمت عملی اچھے طریقے سے طے کرنا ہوگی۔آرٹیکل 91کے تحت وزیراعظم پاکستان صرف 5ایڈوائزرز کا تقرر کر سکتے ہیں۔ حیرانگی ہے کہ موجودہ سسٹم میں 18کے لگ بھگ ایڈوائزر اور معاون خصوصی شامل ہیں۔ جو آئین کی خلاف ورزی ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیراعلیٰ کے پی کے کیوجہ سے وزیراعظم وفاق میں بیٹھ کردونوں صوبوں پر حکومت کر رہے ہیں۔عمران خان کو بجٹ اجلاس سے پہلے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو تبدیل کرنا پڑے گا وگرنہ پنجاب اسمبلی ان حالات میں بجٹ پاس نہیں کر سکے گی۔عثمان بزدار تبدیل ہو جائیں گے۔ چوہدری پرویز الہیٰ نے بھی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا ہے کہ پاکستان کی حکومت کیا ٹیکنوکریٹس ہی چلائیں گے ، عوامی نمائندوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا؟گورنر پنجاب نے بھی وزیراعظم کو واضح پیغام دیدیا ہے کہ انکی حیثیت کے لیے لو پروفائل پر نہ جایا جائے۔ عہدے چوہدی سرور کے پیچھے بھاگتے ہیں ، وہ اپنے مستقبل کی حکمت عملی طے کر رہے ہیں۔ کے پی کے حکومت میں ایک وزیراعلیٰ محمود خان قانونی اورانکے وزراءاور ترجمان میں 9ڈیفیکٹو وزیراعلیٰ ہیں۔ عمران خان کو بڑا قدم اٹھانا پڑے گا۔ چیف ایڈیٹر خبریں میڈیا گرو پ ضیا شاہد نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے بارے میں دو سے تین مرتبہ عمران خان سے سوال ہوا اور انہوں نے کہاکہ اسمیں کیا خرابی ہے ، بزداردیانتدار آدمی ہے اور اس پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں ہے۔ اسمیں شبہ نہیں کہ پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ پنجاب میں وزیراعلیٰ کے لیے جتنی متحرک شخصیت کی ضرورت ہے ، عثمان بزدار میں وقت کیساتھ ہو سکتا ہے کہ یہ صلاحیت پیدا ہو جائے لیکن سرِدس وہ سست ہیں۔ پنجاب میں ان سے زیادہ مستعد شخص کی ضرورت ہے۔چوہدری نثار کے بارے میںمسلسل اس قسم کے ہذیان چلتے رہتے ہیں ، کبھی کہاجاتا ہے کہ وہ تحریک انصاف میں شامل ہورہے ہیں اور کبھی کہا جاتا ہے کہ وہ لندن جارہے ہیں جہاں انکی شہباز شریف سے ملاقات میں پنجاب کے معاملات انکے سپرد کیے جائیں گے۔ تاہم ابھی تک کچھ واضح نہیں ہے۔ آج پاکستان کے صف اول کے اخبار کے اسلام آباد میں متعین ریذیڈنٹ ایڈیٹر نے اپنے نام سے یہ خبر دی ہے کہ دور دراز تک موقع نہیں ہے کہ چوہدری نثار اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں اور شاید ان باتوں میں کوئی صداقت نہ ہو۔ لیکن کچھ کہا نہیں جاسکتا ، پاکستانی سیاست میں ڈرامائی تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ ایک موجود شخص کے ادرگرد ڈرامائی صورتحال رہتی ہے، کبھی کہا جاتا ہے کہ تحریک انصاف انہیںپنجاب کی وزارت اعلیٰ دے رہی ہے ۔ مگر کوئی بھی بات قطعا حتمی نہیں ہے۔ اس وقت لندن کانفرنس کے بارے میں جو ہذیان اور ملاقاتوں کی افواہیں چل رہی ہیں ، اس میں چوہدری شجاعت نے انکار کیا ہے کہ انکی کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ اس سے قبل جہانگیر ترین اس ڈر سے کہ انکی شہباز شریف سے ملاقات کی خبر نہ آجائے انکے پہنچنے کے دن ہی انہوں نے پاکستان کا رخ کیا اور کہہ دیا کہ میں پاکستان آچکا ہوں اور میرے تعلقات کی ایسی نوعیت ہی نہیں کہ شہباز شریف سے ملاقات ہو۔ عمران خان نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ کو الٹی میٹم دے دیا ہے کہ اپنی ٹیموں کی چھان بین کریں اور انکی کارکردگی بارے رپورٹ دیں۔ لگتا ہے کہ دونوں جگہوں پر 5سے 6وزراءتبدیل ہوں گے۔ پنجاب میں غیر تسلی بخش وزراءکی تعداد 7بتائی جارہی ہے جنہیں غالباً تبدیل کر دیا جائے گا۔ پروگرام میں ماہر معاشیات ڈاکٹر سلمان شا ہ نے کہا کہ اسد عمر کو درپیش تمام مسائل کا سامنا نئے وزیر خزانہ کو کرنا پڑے گا۔ آئی ایم ایف پروگرام سمیت تمام ایشوز پر سب کی نظر وزیر خزانہ پر ہے۔ خدا کرے انہیں کامیابی ہو کہ پاکستان کی کامیابی انکی کامیابی سے منسلک ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری سے زیادہ ضروری علاقائی سرمایہ کاری ہے ۔ نئے کاروبار بنانااور روزگار کے مواقع پیداکرنا پاکستان کے اپنے سرمایہ کاروں پر منحصر ہے مگر وہ ایف بی آر اور نیب کے نوٹسز پر پریشان ہیںعلاقائی معاشی صورتحال بہت خراب ہے۔ نئے وزیر خزانہ کو بزنس کمیونٹی ، ٹیکس دہندگان اور عوامی نمائندوں سے ملنا چاہیئے اور انہیں مثبت اچھی امید کا پیغام دینا چاہیے۔انہیں چاہیے کہ سوچ سمجھ کر پالیسی بنائیں اور میڈیا کے ذریعے واضح پیغام دیں کہ ہم مثبت سمت میں جارہے ہیں۔ نظام ٹھیک کرنے کے لیے اداروں میں اصلاحات کرنا ناگزیر ہے۔ نئے وزیر خزانہ سے اچھی امید رکھنی چاہیے اور انہیں عوامی سطح پر مکمل حمایت کیساتھ ایک موقع دینا چاہیے۔