لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف سینئر صحافی ضیا شاہد نے کہا ہے کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میں اس سے دو تین دن پہلے یہ سن چکا ہوں کہ عدالت نے منع کر دیا تھا کہ جب تک پرویز مشرف کو صفائی کا موقع نہ مل جائے اس وقت تک فیصلہ نہ دیا جائے۔ ایک طرف ایک ہی شخص کے بارے میں فیصلہ دیا جا رہا ہے کہ جب تک ان کو سن نہ لیا جائے اس وقت تک فیصلہ نہ دیا جائے اور فیصلہ روکا جا رہا ہے۔ دوسری طرف سے خصوصی عدالت ان کا فیصلہ سنا رہی ہے اس فیصلے میں بھی پرویز مشرف کو صفائی کا موقع نہیں دیا گیا اور فیصلہ بھی سزائے موت کا فیصلہ ہے یہ کوئی چھوٹی موٹی سزا نہیں ہے اتنا بڑا فیصلہ بغیر سنے دیا جانا جو ہے یہ کوئی زیادہ چھی بات نہیں ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کے اس بیان پر پرویز مشرف غدار نہیں ہو سکتے۔ عدالتی فیصلہ پر فوج میں غم و غصہ اور اضطراب پایا جا رہا ہے۔ اس سے اداروں میں تصادم کا خطرہ تو نہیں پیدا ہو گا۔ ضیا شاہد نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ اس سے اداروں میں کوئی تصادم کا خطرہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ فوج کا ادارہ اتنا ری ایکٹ نہیں کرے گا جتنا ری ایکشن کرنا تھا انہوں نے اپنے جذبات کا اظہار کر دیا۔ البتہ میں سمجھتا ہوں کہ آخری عدالت نہیں ہے اپیل کا حق ہے۔ خصوصی عدالت کے فیصلے کو آپ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے پرویز مشرف کی طرف سے بھی اس فیصلے کو چیلنج کیا جائے گا اور ہو سکتا ہے کہ آرمی خود بھی اپنے وکیل کے ذریعے اس کو چیلنج کرے کیونکہ آرمی کے لئے اصل میں یہ بڑا مشکل ہے کہ ایک شخص جیسے کہ خود ڈی جی آی ایس پی آر نے کہا 40 سال تک فوج کی خدمت کرتا ہے پھر جب حکومت میں آتا ہے اور منتخب حکومت کا تختہ الٹتا ہے تو بھی یہی عدالتیں جو اس ے اس ایکٹ کو درست قرار دیتی ہیں اور اس کی حکومت کو آئینی تسلیم کرتی ہیں اب اس کے ایک ایکٹ کو جو کہ اس نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو برطرف کیا اس کو بنیاد بنا کر سزائے موت دی جائے تو ظاہر بہت سے حلقوں میں اس کو پسند نہیں کیا جائے گا۔ یہ قانونی نقطہ ہے کہ انہوں نے جو اقدام کیا وہ ملک کو توڑنے کے لئے یا ملک سنبھالنے کے لئے کیا۔ شاید سپریم کورٹ اس فیصلے کو تبدیل بھی کر دے۔ فوج کے لئے ایک طریقے سے اس فیصلے کو ہضم کرنا بڑا مشکل ہے۔ اس لئے کہ پرویز مشرف کی شکل میں اس کے جو دوسرے نظم و نسق ہیں اس کی بھی تعریف کی جاتی ہے دیکھئے پرویز مشرف کے فیصلے پر حیرت ہوئی ہے کہ خاص طور پر انہی دنوں اس ہفتے میں یہ فیصلہ بھی آیا تھا کہ یکطرفہ طور پر ان کو سزا نہ دی جائے اور جو بھی فیصلہ آیا ہے اس کو نہ سنایا جائے۔ عام طور پر پاک فوج کی فیصلے پر ردعمل نہیں دیتی۔ لیکن جس طریقے سے پاک فوج نے اس پر ری ایکٹ کیا ہے جس طرح سے پرویز مشرفکا دفاع کیا ہے اس پر آپ کیا کہتے ہیں۔ کیا یہ زیادہ بہتر ہوتا کہ اس معاملے میں بھی پرویز مشرف نے چونکہ پیروی نہیں کی اور ان کو سنا نہیں گیا تو کیا اس طرز عمل کو عدالتیں جو تھیں وہ ہر ایک طریقے سے ان میں ایک ری ایکشن پیدا ہوتا ہے کہ یہ شخص تو ہمارے سامنے پیش ہی نہیں ہوتا تو پھر وہ زیادہ سے زیادہ جو سزا ہوتی ہے اس کی طرف آتی ہیں۔کیا آپ پرویز مشرف کے مسلسل پیش نہ ہونے کو اس کی وجہ نہیں سمجھتے۔
حامد سعید اختر صاحب!! بعض اوقات ملک میں ایسی ایمرجنسی عائد ہو جاتی ہے جیسا کہ اس وقت ہوئی تھی جب بے نظیر بھٹو کے خلاف فوج نے پیسے تقسیم کئے تھے آپ بھی اس کام میں شامل تھے اگرچہ سرکاری ڈیوٹی کے طور پر شامل تھے لیکن آپ نے اس وقت جسٹی فائی کیا تھا کہ جو کچھ ہم نے کیا تھا درست تھا اور بعض دفعہ ملکی سالمیت زیادہ اہم ہوتی ہے بہ نسبت اس کے کہ نچلی سطح پر آئین اور قانون کہتا ہے۔ کوئی چیزیں آئین سے بھی بالاتر ہوتی ہیں۔ یہی فلاسفی تھی جو آپ نے دی تھی۔ کیا پرویز مشرف نے جو ایمرجنسی لگائی تھی وہ بھی کیا ان چیزوں سے بالاتر کسی ضرورت کے تحت نہیں تھی۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاک فوج نے اتنا ری ایکشن شو نہیں کیا کسی کورٹ کے فیصلے پر جبکہ عام طور پر پاک فوج اپنے جذبات کا اظہار نہیں کرتی۔ آپ ڈی جی کی اس ٹویٹ کو کیا سٹیٹس دیتے ہیں کیا آپ کے خیال میں فوج کو اپنے ری ایکشن کا اظہار کرنا چاہئے تھا۔ خاص طور پر ان معنوں میں کہ اس فیصلے پر انڈیاں میں خوشیاں منائی جا رہی ہیں۔ یہ معمول سے ہٹ کر فوج نے اپنے ری ایکشن کا اظہارا کیوں کیا۔ کیا سپریم کورٹ کا جو فیصلہ کیا جس میں سپریم کورٹ نے کہا کہ جو مروجہ طریق کار تھا اور جو روایت چل رہی تھی کہ وزیراعظم سمری بھیج کر تین سال کے لئے توسیع دے سکتا ہے کورٹ نے اس کو ان ویلڈ قرار دیا اور کورٹ نے یہ ان کی آرمی چیف کی تقرری کو بھی پارلیمنٹ کے تابع کر دیا اور ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ اگر ہم نے چھ ماہ دیئے ہیں لیکن اگر 6 ماہ میں متبادل قانون نہ بنا تو ہم اس کو یہ سمجھیں گے کہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ ہو گئی ہے۔ حامد سعید اختر آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اس فیصلے کا غم و غصہ بھی آرمی میں موجود تھا جو اب جو دوسری بات سامنے آئی تو اس پر ری ایکشن کا اظہار کیا گیا ہے کیا آپ اس پر بھی اضطراب کو محسوس کرتے ہیں۔ عدالتی فیصلے پر آرمی کا جو ری ایکشن سامنے آیا ہے اس میں کیا فوج اور عدلیہ کو آمنے سامنے نہیں لا کھڑا کیا ہے۔ ملک میں بحث شروع ہو گئی ہے یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ آرمی نے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ سزائے موت کے فیصلے پر اس لئے ردعمل کا اظہار کیا ہے کہ پرویز مشرف ہیرو ہے جس نے کارگل کی جنگ لڑی تھی اور سیاست وطن ہیں جنہوں نے جنگ کے خلاف معاہدہ کیا۔ چنانچہ کی نظر میں کارگل کی جنگ کے ہیرو کو سزائے موت دینا ظاہر ہے ایسا عمل ہے جس کو آرمی نے شاید برداشت نہیں کر سکی۔ کیا یہ حقیقت یہ نہیں ہے کہ ہم جس آئین کی بات کرنا یا فوج کا اقتدار میں آنا ناپسندیدہ فعل ہے لیکن ایک حقیقت ہے کہ حکومت عدلیہ کی بہتری کے لئے ہونی چاہئے تو مارشل ادوار میں عوام کی اکثریت مارشل لا سے خوش تھی۔ ایوب خان کی اصلاحات سے، معاشی ترقی سے مطمئن تھی۔ ضیاءالحق کو ایک بڑی اکثریت مردمومن، مرد حق قرار دیتی ہے اور ان کا جب حادثہ ہوا پاکستان میں ان کا جنازہ ایک ریکارڈ اکثریت کے ساتھ پڑھا گیا۔ یہی کیفیت پرویز مشرف دور کی تھی جس کے دور میں سمجھا جاتا ہے کہ صحافت کی آزادی جمہوری حکومتوں سے زیادہ تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب ہم پرویز مشرف کے ساتھ آگرہ گئے۔ پرویز مشرف نے کہا کہ یہاں اتنے لوگ اپنے اپنے کیمرے لے کر آئے ہوئے ہیں آپ لوگ وہاں فیئر اینڈ فری ڈس کشن کیوں نہیں کرتے آپس میں۔ ان کو بتایا گیا کہ ہمارے ہاں تو ایک ہی پی ٹی وی ہے وہ سرکاری کنٹرول میں ہے۔ یہ ان کے الفاظ تھے سیکرٹری اطلاعات انور محمود سے کہا کہ آپ پرائیویٹ چینلز کو اجازت دیں کہ وہ آئیں چنانچہ پرائیویٹ چینلز جو بنے ہیں پاکستان میں وہ پرویز مشرف کی آزادی صحافت کی صلاحیت کو جاتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اکثریت لوگوں کی سوائے ایک جماعت کے جس کو متاثر کیا تھا پرویز مشرف نے وہ مسلم لیگ ن ہے باقی لوگ، سیاسی عناصر بھی اس فیصلے کو اس طرح سے قبول نہ کریں۔ ضیا شاہد نے کہا ہے کہ کیا اس سے پہلے آرمی چیف کی مدت ملازمت کے کیس کے سلسلے میں سپریم کورٹ جو فیصلہ ہے ابھی اس کے اثرات بھی موجود تھے پھر وہی ایک دوسرا بڑا فیصلہ آ گیا کہ ایک شخص جو سپریم کمانڈر بھی تھا، اور پاکستان کا صدر بھی تھا جس کو عدالتوں نے ویلیڈٹ بھی کیا تھا اس کی سزائے موت کا فیصلہ آ گیا۔ کیا پاکستان ایک طریقے سے عدلیہ جو ہے وہ پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کی بجائے متوازی چلنے کی بجائے سامنے آ کر کھڑی نہیں ہو گئی۔ آئین اس کی اجازت نہیں دیتا ہے کہ اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے۔ حکومت اس کو واپس بھی لے سکتی ہے۔