لاہور‘ اسلام آباد (نمائندگان خبریں) بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ مشرف کو اپیل کا موقع ملے گا، ایک جج نے فیصلے سے اختلاف کیا ہے جس پر سزائے موت نہیں و سکتی۔ اپیل میں وکلا دلائل دے سکتے ہیں کہ صرف مشرف کو سزا کیوں دی گئی۔اعتزاز احسن نے کہا کہ مشرف جواز پیش کرسکتے ہیں کہ شوکت عزیز اور دیگر کو سزا کیوں نہیں دی گئی، اپیل کے فیصلے تک سزائے موت پر عملدرآمد نہیں ہوسکتا۔انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف کے حکم پر تمام ججز کو بے اختیار کردیا گیا تھا، ان کے غیرقانونی اقدام سے انکار نہیں کیا جاسکتا، پرویز مشرف نے ایمرجنسی لگائی اور جمہوری حکومت کا خاتمہ کیا تھا۔اعتزاز احسن نے کہا کہ عدلیہ آئین کے تحت ایک ادارہ ہے اس پر چڑھائی نہیں کی جاسکتی۔ پیپلزپارٹی رہنما نے کہا کہ ہادی النظر میں مشرف کو بیماری کی صورت میں چھوٹ مل سکتی ہے، بیماری کی صورت میں نواز شریف کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اسلام آباد کی خصوصی عدالت کی جانب سے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت کے حکم پر قانونی ماہرین نے کہا ہے کہ سابق صدر کے پاس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا اختیار ہے۔ سندھ ہائیکورٹ کے سابق جج محمود عالم رضوی اور متعدد وکلا کے مطابق پرویز مشرف سنگین غداری کیس میں سنائے گئے سزائے موت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر سکتے ہیں۔سابق جج محمود عالم رضوی نے کہا کہ اگرچہ پرویز مشرف کے پاس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا اختیار ہے لیکن انہیں اپیل دائر کرنے کے لیے واپس ملک آنا پڑے گا۔محمود عالم رضوی کے مطابق ایسے کیسز میں سپریم کورٹ کا حکم موجود ہے جس کے تحت اگر کسی مفرور ملزم کو سزا سنائی جاتی ہے تو اسے واپس آکر اپیل دائر کرنی پڑے گی۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ابھی خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں مختصر فیصلہ سنایا ہے اور تفصیلی فیصلہ آنے سے قبل اس پر مکمل رائے نہیں دی جا سکتی۔سابق جج نے کہا کہ ماضی میں اس کیس میں دائر کی جانے والی درخواستوں میں کہا گیا کہ سنگین غداری کا کیس صرف ایک شخص کے خلاف نہیں بلکہ 2007 کی پوری حکومتی کابینہ پر چلنا چاہیے۔ایک سوال کے جواب میں سابق جج نے واضح کیا کہ اگر پرویز مشرف خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر نہیں کرتے تو یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ خصوصی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کروائے۔ پاکستان بارکونسل کے وائس چئیرمین سید امجد شاہ نے کہا کہ پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کا فیصلہ کوئی انتقامی کارروائی یا کسی ادارے کے خلاف نہیں ہے بلکہ ایک شخص نے آئین شکنی کی اور ملک میں ججوں کو نظر بند کیا ،ملک میں ایمرجنسی لگا کر آئین معطل کردیا اور ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا ،کیس کی طویل سماعت ہوئی اور مشرف کو صفائی کا مکمل موقع دیا گیا تاہم وہ عدالت میں پیش ہونے سے انکار کرتے رہے ،اب عدالت نے ان کو سزا سنائی ہے جس کے خلاف وہ سپریم کورٹ میں اپیل میں جاسکتے ہیں ،اور عدالت انہیں ریلیف بھی دے سکتی ہے جس میں ان کی عدم موجودگی میں دی گئی سزا کو معطل کرتے ہوئے کیس دوبارہ ٹرائل کورٹ کو بھجوا سکتی ہے ،انہیں بری کرسکتی ہے یا سزا میں کمی بھی کرسکتی ہے ،اس لیے یہ فیصلہ حتمی نہیں ہے ،تاہم اس فیصلے سے قانون کی بالادستی ہوئی ہے ،سنیئر قانون دان حشمت حبیب نے کہا کہ پرویز مشرف کو دی گئی خصوصی عدالت کی سزا کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے اور عدالت کیس دوبارہ خصوصی عدالت کو بھجوا سکتی ہے ،سابق صدر اپیل میں مﺅقف اختیار کرسکتے ہیں کہ ان کو سزا ان کی عدم موجودگی میں دی گئی ہے ان کا مﺅقف نہیں سنا گیا جس پر عدالت کیس ٹرائل کورٹ کو ریمانڈ کرسکتی ہے۔ راولپنڈی ہائی کورٹ بار کے سابق صدر شیخ احسن الدین نے کہا کہ خصوصی عدالت کا فیصلہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا اس فیصلے نے ثابت کیا ہے کہ عدالتیں آزاد ہوچکی ہیں اور بغیر کسی دباﺅ کے فیصلے کرسکتی ہیں ،مشرف کے خلاف فیصلے کے دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔
