2019 میں پاکستان میں سب سے زیادہ سرچ کی جانے والی شخصیات

دنیا کی سب سے بڑی انٹرنیٹ سرچ انجن ’گوگل‘ نے ہر سال کی طرح سال 2019 کی بھی دنیا بھر میں سرچ کی جانے والی شخصیات، فلموں، اسپورٹس اور چیزوں کی فہرست جاری کردی۔گوگل نے پاکستان کے علاوہ دنیا کے متعدد ممالک کی فہرست جاری کرنے سمیت گلوبل فہرست بھی جاری کی ہے۔یہ ویڈیوز دیکھیں: 2019 میں یوٹیوب پر پاکستان میں سب سے زیادہ دیکھے جانے والے 10 گانےگوگل سال کے اختتام پر ہر سال دسمبر کے دوسرے ہفتے کے آٓغاز میں ہی یہ فہرست جاری کرتا ہے۔اس بار گوگل نے پاکستان کے حوالے سے ’سب سے زیادہ سرچ کی جانے والی چیزیں‘ اور ’سب سے زیادہ سرچ کی جانے والی شخصیات‘ سمیت ’سب سے زیادہ سرچ کی جانے والی فلموں‘ کی فہرست جاری کی ہے۔10 – مدیحہ نقویس سال پاکستان میں سب سے زیادہ سرچ کی جانے والی شخصیات میں ٹی وی میزبان مدیحہ نقوی 10 ویں نمر پر رہیں جس کی وجہ شاید ان کی پاکستان متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایک) پاکستان کے رہنما فیصل سبزواری سے شادی تھی۔

راولپنڈی ٹیسٹ: سری لنکا کی پاکستان کیخلاف بیٹنگ

راولپنڈی: دو میچوں کی سیریز کے پہلے ٹیسٹ میں سری لنکا کی پاکستان کے خلاف ٹاس جیت کر بیٹنگ جاری ہے۔راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں کھیلے جا رہے میچ میں سری لنکن کپتان ڈیموتھ کرونا رتنے کا ٹاس جیت کر کہنا تھا وکٹ بیٹنگ کے لیے سازگار ہے اس لیے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔کرونا رتنے کا کہنا تھا ہمارے پلیئرز  ایسی کنڈیشنز میں کھیلنے کے عادی ہیں اور اسکور بورڈ پر بڑا ٹوٹل سجانے کی کوشش کریں گے۔قومی ٹیم کے کپتان اظہر علی کا کہنا تھا کہ ہم نے بہت عرصے سے پاکستان میں کرکٹ نہیں کھیلی، عابد علی اور عثمان شنواری ٹیسٹ ڈیبیو کررہے ہیں۔  قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ مصباح الحق نے عابد علی اور بولنگ کوچ وقار یونس نے عثمان شنواری کو ٹیسٹ کیپ پہنائی۔اظہر علی کا کہنا تھا وکٹ کو دیکھ کر چار فاسٹ بولرز کو کھلانے کا فیصلہ کیا ہے، یاسر شاہ کو ٹیسٹ اسکواڈ سے ڈراپ کرنا مشکل فیصلہ تھا۔پاکستان کے تمام 11 پاکستانی کھلاڑی سری لنکا کے خلاف ہوم گراؤنڈ پر پہلا ٹیسٹ کھیل رہے ہیں۔اظہر علی 75 اور اسد شفیق 71 ٹیسٹ کھیل چکے ہیں لیکن دونوں نے سری لنکا کے خلاف کوئی ٹیسٹ پاکستان میں نہیں کھیل

فوج کی نگرانی میں انتخابات کے باوجود الزام لگتا ہے کہ دھاندلی ہوئی،ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف سینئر صحافی ضیا شاہد نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کیا ہے
باقی صفحہ 5بقیہ نمبر 1اور اس کی تشکیل کیسے ہوتی ہے اب جھگڑا کیوں پڑا ہوا ہے کہ ممبر بھی پورے نہیں ہوتے الیکشن کمیشن کے سربراہ ان کی مدت 5 دسمبر کو ختم ہو چکی ہے۔ نیا سربراہ بھی چاہئے اور دو صوبوں کے ممبر بھی چاہئیں۔ اس وقت الیکشن موجود ہی نہیں ہے۔ ہم نے کنور دلشاد صاحب کو دعوت دی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ سابق سیکرٹری الیکشن کمشن کے ان کو اس حوالے سے بہت معلومات ہیں۔
ضیا شاہد: کنور دلشاد صاحب! اس وقت کا مسئلہ کیا ہے اور یہ پرابلم کیوں پیدا ہوا؟
کنور دلشاد: الیکشن کمیشن آف پاکستان اس کا جو ڈھانچہ بنتا آ رہا ہے پاکستان میں جب بھی الیکشن ہوا ہے پاکستان میں ہارنے والی جماعتوں سے ہمیشہ عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ اگر ہم 1951ءسے لے کر 2018ءکے تمام الیکشنز کا جائزہ لیں تو جو سیاسی پارٹی الیکشن ہاری اس نے اس رزلٹ کو تسلیم نہیں کیا۔ جب ہمارے ہمسایہ ممالک میں جب بھی الیکشن ہوتے ہیں اس میں کبھی کسی نے اعتراض نہہیں کیا۔ موجودہ الیکشن کمیشن میں سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج بھی چیف الیکشن کمشنر لگائے گئے۔ ریٹرننگ آفیسر بھی تمام عدلیہ سے لئے گئے۔ اسی طرح تمام انتظامی مشینری میں عدلیہ کی خدمات حاصل کیں اور لاءاینڈ آرڈر کے لئے افواج پاکستان کی خدمات حاصل کیں پولنگ سٹیشنز کے اندر اور باہر تا کہ صحیح معنوں میں انتخابات میں کوئی رکاوٹ نہ ہو کوئی ٹمپرنگ نہ ہو۔ بیلٹ پیپرز میں ہیرا پھیری نہ ہو لیکن سارے نتائج پر ہارنے والی جماعتیں اس پر عدم اعتماد کرتی ہیں اس کا کوئی طریقہ کار سوچنا چاہئے اس بارے کوئی ایسی رائے ہو۔ اور سٹیک ہولڈر کے ساتھ بات کی جائے کہ آپ بتائیں کہ کون سا طریقہ کار ہو کہ آپ الیکشن کو صاف شفاف تسلیم کر لیں۔ موجودہ حالات میں لیڈر آف اپوزیشن کی حیثیت سے شہباز شریف نے اور لیڈر آف دی ہاﺅس نے جو نام بھیجے ہیں چیف الیکشن کمشنر کے لئے اس میں کسی سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے ججز کا ذکر تک نہیں کیا۔ انہوں نے بیوروکریٹس کے نام لکھے ہیں۔ ہماری ساری سول سوسائٹی اور انٹرنیشنل میڈیا بھی کہتا ہے کہ پاکستان میں جتنے بھی انتخابات ہو رہے ہیں یا الیکشن کمشن کی جو مشینری ہے اس پر جوڈیشری کو مقرر کیا گیا ہے اب چاہ رہے تھے کہ بیورو کریٹ آ جائے۔ انڈیا میں جو الیکشن کمشنر یا ممبر الیکشن کمیشن لگایا جاتا ہے اس کا دس سال کا ریکارڈ چیک کیا جاتا ہے اس آﺅٹ سٹینڈنگ بیورو کریٹ کو بھارتی صدر چیف الیکشن کمشنر اور ممبر الیکشن کمشن تعینات کرتا ہے۔ ہمارے نہیں معلوم ان کا بیک گراﺅنڈ تو ہے کہ وہ بیورو کریٹ ہیں لیکن ہمارے ریکارڈ نہیں پتہ۔ اب جو ہماری پارلیمانی کمیٹی ہے اس کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ بیورو کریسی کے نام آتے ہیں ان کا آپ کم از کم دس سال کا ریکارڈ چیک کر لیں اگر دس سال تک ان کی آﺅٹ سٹینڈنگ رپورٹ ہے تو کنسٹرر کر لیں پر کسی نے دھیان نہیں دیا۔ چیف الیکشن کمیشن کی بہت بڑی رپورٹ ہے پہلی مرتبہ پاکستان میں بیورو کریٹ کو چیف الیکشن کمشنر لایا جا رہا ہے ہمیں ان کا پورا بیک گراﺅنڈ تو معلوم ہونا چاہئے۔ ان کی آﺅٹ سٹینڈنگ رپورٹ دیکھنی چاہئے کہ وہ واقعی الیکشن کمیشن کے بارے میں ادراک ہے انہیں کیا معلوم ہے الیکشن کیسے ہوتے ہیں مشینری کو کنٹرول کیسے کیا جاتا ہے۔ یہ ہمارے لیڈر آف دی ہاﺅس، لیڈر آف دی ہاﺅس نے اس غور پر نہیں کیا۔ نام آ گئے ہم بھی پڑھ رہے ہیں۔ ہماری نظر میں اچھے نام ہیں ہم ان کی عزت کرتے ہیں ہمیں جو اپنی زندگی میں تجربہ ہوا ہے اپنی زندگی میں ہمیں کوئی شک و شبہ نہیں ہے لیکن حکومت کا کام یہ ہے کہ ان کا پورا ریکارڈ چیک کریں گے کہ کیا ان کو جوڈیشری کا تجربہ، کیا اگر وہ ڈی ایم جی گروپ کے ہیں تو انہوں نے کوئی جوڈیشری کے فیصلے دیکھے ہیں۔ وہ ساری چیزیں دیکھنی پڑتی ہیں جیسا کہ انڈیا میں دیکھا جاتا ہے۔ انڈیا کا چیف الیکشن کمشنر سپریم کورٹ کے جج کے برابر ہوتا ہے لیکن اس کے پاس پورا تجربہ ہوتا ہے۔
سوال: یہ بتایئے کہ ہمارے ہاں یہ ٹرینڈنسی کیوں قائم ہوئی اور کس طرح سے مسلسل برسوں چلتی رہی کہ ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے جو ریٹائرڈ جج صاحبان ہیں ان کو ہی ممبر بنایا جائے ایک بحث شروع ہو گئی کہ انڈیا میں تو بیوروکریٹ بنتے ہیں اور وہ زیادہ بہتر ہوتے ہیں انڈیا کے تو کسی الیکشن میں اتنے الیکشن ہوئے کبھی کوئی بڑے پیمانے پر دھاندلی کا شور نہیں مچا اس کے برعکس پاکستان میں کوئی ایسا ہوا ہی نہیں جس کے بارے میں سب نے کہا ہو کہ جناب کسی قسم کی کوئی بدعنوانی نہیں ہوئی۔ ذرا انڈیا کے الیکشن کمیشن اور پاکستان کے الیکشن کمیشن کے فرق کو واضح کریں۔ بتائیں کہ انڈیا میں کیا سیف گارڈز لئے جاتے ہیں۔
جواب: سب سے بڑی بات یہ ہے ضیا شاہد صاحب انڈیا کی ہم مثال دیتے ہیں انڈین الیکشن کمیشن بھارتی صدر کے سامنے جواب دہ ہے اور باقاعدہ دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں وہ کسی سیاسی جماعت کے انڈر نہیں ہوتے ان کا صدر بھی جب منتخب ہوجاتا ہے اس کا کوئی نام بھی نہیں جانتا لیکن بہرحال اس کا ایک کنٹرول ہوتا ہے وہ الیکشن کمیشن کے بارے میں تمام چیزوں کو چیک کرتا ہے لیکن ایک اور اہم بات ہے بدقسمتی سے ہماری بیورو کریسی عوام کا اعتماد کھو چکی ہے اور یہ بدقسمتی 1985ءمیں شروع ہوئی۔ 1985ءمیں جب نوازشریف وزیراعلیٰ پنجاب بنے تو سعید مہدی صاحب اور گورنر جیلانی نے کہا کہ آپ اپنی بیورو کریسی کا ایک گروپ تیار کریں تا کہ آپ کے ساتھ کام کر سکے وہ جو 1985ءمیں ہماری بیورو کریسی سیاست دانوں کے ہاتھوں میں کھیل گئی اس کے جراثیم اور اس کے سارے اثرات ابھی تک ختم نہیں ہوئے اور ہماری بیورو کریسی تو کسی نہ کسی جماعت کے ساتھ وابستہ ہے اور وہ باقاعدہ اس کے وفادار ہیں۔ پولیس بھی سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں میں کھیلتی ہے بیورو کریسی بھی کھیلتی ہے۔ اس وقت ہماری بیوروکریسی میں کوئی آﺅٹ سٹینڈنگ بیورو کریٹ نہیں ہے۔آغا شاہی کی طرح وزارت خارجہ کے جن پر پوری قوم کو اعتماد تھا اب محسوس یہ ہوتا ہے کہ ہماری بیورو کریسی کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے پنجاب میں‘ سندھ‘ بلوچستان‘ خیبرپختونخوا میں بیورو کریسی سیاسی جماعتوں میں گھری ہوئی ہے ان حالات میں جب الیکشن کروائیں گے تو ظاہر ہے ان کی وفا داریاں کسی نہ کسی پارٹی کے ساتھ ہوتی ہیں۔ اسی طرح ہم نے جوڈیشری سے ریٹرننگ آفیسر لئے ہیں یہ تجربہ بھی ناکام ہوا کہ ان کی وابستگیاں بھی خاص ہوتی ہیں۔ الیکشن کمیشن جب فیصلہ کرتا ہے کسی کرپٹ پریکٹس کے بارے میں تو اس کے اندر کوئی ایسی کمزوری رہ جاتی ہے کہ ہماری ہائی کورٹس کو اس کو ریلیف دینا پڑ جاتا ہے اور وہ پھر ایسا ریلیف دیتی ہے کہ چار چار سال پانچ پانچ سال گزر جاتے ہیں الیکشن نئے آ جاتے ہیں لیکن سٹے آرڈر چلتا رہتا ہے۔ یہ معاملہ بھی دیکھنا پڑے گا۔ انڈیا میں یہ ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن کے فیصلوں انڈیا کی کوئی کورٹ فیصلہ نہیں دیتی۔ جو الیکشن کمیشن نے کہہ دیا ہے اس پر عملدرآمد کروا دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں ہر فیصلے کے لئے عدلیہ میں جانا پڑتا ہے اور عدلیہ ان کو ریلیف دے دیتی ہے اس طرح الیکشن کمیشن کی طاقت کمزور ہو جاتی ہے۔
سوال: آپ کے خیال میں پاکستان کے آئین میں الیکشن کمیشن کو جو حقوق دئیے گئے ہیں جو ان کو اختیارات دئیے گئے ہیںکیا آپ کے خیال میں وہ کم ہیں۔
جواب: ول پاور نہیں ہے۔ فیصلہ کرنے میں وہ دائیں بائیں جماعتوں کو دیکھتے ہیں۔ جہاں سے ان کی تقریری ہوئی ہے۔ اب موجودہ سسٹم میں دیکھیں کہ کتنا بڑا عجیب و غریب سسٹم ہے کہ پارلیمانی پارٹی جو ہے وہ الیکشن کمیشن اور الیکشن کمشنر کی کر رہی ہے اس میں 12ممبر ہیں 6گورنمنٹ کے 6اپوزیشن کے اب وہ جو بھی الیکشن کمشنر آئے گا یا ممبر الیکشن کمشن آئیں گے وہ ممنون احسان ہوں گے کہ اس نے مجھے نامزد کیا اس نے مجھے پوائنٹ کیا۔ یہ 18ویں ترمیم کے بعد بڑی کمزوری ہے کہ اس میں ہمارے الیکشن کمشن خود غیرجانبداری کی حیثیت کھو بیٹھے ہیں۔ یہ سسٹم تبدیل کرنا پڑے گا۔
سوال: پارلیمانی کمیٹی پر آپ کی تسلی نہیں پھر کون مقرر کرے۔
جواب: پہلے سسٹم میں تھوڑی ترمیم کر لیں۔ پہلے سسٹم میں یہ تھا کہ چیف الیکشن کمشنر صدر پاکستان مقرر کرتا تھا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی مشاورت سے۔ باقاعدہ روایت رہی اور ممبران کو وہ ہائی کورٹس کے حاضر سروس جج ہوتے تھے۔ وہ متعلقہ چیف جسٹس کی سفارش پر پوائنٹ کیا جاتا تھا۔ اس کو ڈر ہوتا تھا کہ میرے فیصلے میں اگر کوئی غلطی ہو گئی تو میرا کیرئر تباہ ہو جائیگا اور چیف جسٹس بھی دیکھ رہا ہے اب جو ممبران الیکشن کمشن آ رہے ہیں 10-10لاکھ تنخواہ لے رہے ہیں کوئی آﺅٹ پٹ نہیں ہے جب عدلیہ سے آئے تھے تو ان کو کوئی تنخواہ نہیں ملتی تھی۔
سوال: کبھی کوئی بیورو کریسی سے ممبر الیکشن کمشن بنا ہے۔
جواب: دو ممبروں کا تقرر چند ہفتوں تک ہو جائیگا۔
سوال: کتنے ممبر ہوتے ہیں۔
جواب: مشرف کے دور میں جب ترمیم کی گئی چار ممبر رکھے گئے اس سے پہلے الیکشن کمیشن کے دور ممبر ہوتے تھے۔ حیرانگی کی بات ہے جب ملک میں مارشل لاءلگتا ہے تو ممبر چار ہوتے تھے۔ انڈیا کی 1½ارب کی آبادی میں 35صوبوں میں ایک ممبر الیکشن ہوتا ہے اور ایک چیف الیکشن کمشنر ہیں اب انہوں نے 2002ءمیں ایک اور بڑا اضافہ کر دیا اب انڈیا میں 2ممبر ہے اور چیف الیکشن کمشنر ہے۔ ہمارے ہاں چار ممبر‘ یہ چار ممبروں کا معاملہ سمجھ نہیں آ رہا۔ بنگلہ دیش میں 2ممبر۔
سوال: ہر صوبے سے ایک کمیشن کا ایک ممبر ہو گا۔ کیا یہ آئین کا حصہ ہے۔ یا یہ روایت ہے۔
جواب: یہ روایت ہے۔ آئین کا 20آرٹیکل 217‘ 213اس میں لکھا ہے کہ چار ممبروں پر مشتمل الیکشن کمشن ہو گا۔
سوال: انتخابات پر عدم اعتماد کا اظہار تواتر سے ہوتا ہے کوئی ایسی جماعت نہیں جس نے الیکشن میں دھاندلی کی شکایت نہ کی۔ انتخابی قوانین ایسے ہونے چاہئیں جس پر تمام سیاسی جماعتوں کو اتفاق ہو۔
جواب: اب چونکہ عدلیہ سے الیکشن کمشن نہیں آ رہا تو ممکن ہے جو آئندہ الیکشن ہوں گے ہمارے جو چیف جسٹس ہیں عدلیہ جو ہے وہ الیکشن کمشن کی معاونت سے انکار کر دیں۔ تب ڈپٹی کمشنر ہی الیکشن کروائے گا وہی صورتحال پیدا ہو جائے گی جو 2018ءتک الیکشن کو انہوں نے متنازعہ قرار دیا ہوا ہے۔ کوئی ایسا راستہ نظر نہیں آ رہا کہ ہماری پارلیمنٹ میں پارٹیاں بیٹھی ہیں وہ سب بیٹھ کر سوچیں کہ کیا راستہ اختیار کیا جائے کہ الیکشن صاف شفاف ہو جائیں۔ ایک الیکشن 2008ءمیں ایسا ہوا کسی جماعت نے اس پر عدم اعتماد نہیں کیا تقریباً الیکشن ٹربیونل میں بھی بہت کم درخواستیں گئیں۔ انٹرنیشنل میڈیا نے مبصرین نے اس کو بہتر قرار دیا جیسے پاکستان کے حالات تھے۔ 2018ءمیں الیکشن ٹھیک ہوئے لیکن الیکشن کمیشن سے تھوڑی بہت غلطی ہوئی ہے کہ آر ٹی ایس کا نظام بیٹھ گیا اس میں انکوائری نہیں کی برطرف نہیں کیا۔ بھئی کس کی غلطی ہے۔ افواج پاکستان پولنگ سٹیشن کے اندر اور باہر اس لئے ہوتی ہے کہ انڈر ٹمپرنگ نہ ہو۔

19افراد سے 7ارب ڈالر کی ریکوری کا امکان فروری مارچ کے وسط تک یورپ خصوصاسوئٹرز لینڈ سے بھی بڑی رقم آنے کا امکان،

لا ہور/لندن (رپورٹ :ایڈیٹر امتنان شاہد)جنوری فروری 2020ءمیں یورپ بالخصوص برطانیہ سوئٹرزلینڈ، بیلجیم سے پاکستان کے قومی خزانے میں قریباً 7 ارب ڈالر کی ریکوری یعنی Recovered amont. آنے کی توقع ہے۔ باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ حکومت پاکستان کے ادارے FIA اور برطانیہ کے ادارے نیشنل کرائم ایجنسی (NCA) کے اشتراک سے برطانیہ میں 19 پاکستانیوں کی ایسی جائیدادوں کی نشاندہی ہوئی جن کی خریداری میں منی لانڈرنگ کی رقم استعمال کی گئی ان 19 پاکستانی شخصیات میں سے 10 کا تعلق پاکستانی سیاست جبکہ 9شخصیات کا تعلق دیگر شعبہ جات سے ہے۔ اور یہ رقم حکومت اور ان شخصیات کے درمیان پلی بارگیننگ کے تحت ریکورہوگی۔ اس سلسلے میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کا اعلیٰ وفد بھی کئی روز سے اسلام آباد میں موجود ہے۔ غیر قانونی طریقے سے خریدی گئی یہ پراپرٹیز برطانیہ کے مختلف شہروں میں پھیلی ہیں جبکہ ان میں سے زیادہ تر لندن میں موجود ہیں۔ واضح رہے کہ یہ پراپرٹیز حکومت پاکستان کے ساتھ پلی بارگیننگ کے سلسلے میں واپس پاکستان کو دی جائیں گی اور متوقع طور پر یہ رقوم جنوری اور فروری کے وسط میں پاکستان کو ملیں گی۔ عمران خان کی حکومت کی کوششوں کی اگلی کڑی کے سلسلے میں سوئٹرزلینڈ (SwitzerLand) اور یورپ کے دیگر ممالک سے بھی کافی رقم کی ریکوری فروری مارچ کے وسط تک پاکستان کے خزانے میں آنے کا امکان ہے۔

31دسمبر سے پرانے سمارٹ فونز پر واٹس ایپ بند کرنیکا فیصلہ

لندن (مانیٹرنگ ڈیسک) سماجی رابطوں کے حوالے سے معروف واٹسایپ اس مہینے کے آخر تک دنیا بھر میں لاکھوں موبائل فونز پر اپنی سروس بند کر دے گی۔ واٹس ایپ ان تمام پرانے موبائل فونز پر دستیاب نہیں ہوگی جو اپنی معیاد پوری کر چکے ہوں۔ زیادہ پرانے موبائل فون رکھنے والے صارفین 31 دسمبر سے اس سروس سے محروم ہو جائیں گے۔ کمپنی کے اعلامیہ کے مطابق کوئی بھی آئی فون جو آئی او ایس سیون (iOS7) سے پرانا ہو گا اس پر 31 دسمبر 2019 سے واٹس ایپ سروس دستیاب نہیں ہوگی۔ معروف موبائل فون کمپنی آئی فون نے آئی فون 5 ایس اور 5 سی سن 2013 میں متعارف کرائے تھے۔ 31 دسمبر کے بعد یہ موبائل فونز بھی اس سے محروم ہو جائیں گے۔ اسی طرح اینڈرائیڈ ڈیوائس 2.3.7، جوعام طور پر جنجر بریڈ کے نام سے معروف ہے، پر بھی اس سال کے آخر سے واٹس ایپ سروس دستیاب نہیں ہوگی۔ معروف ایپ کی انتظامیہ نے اعلان کیا ہے کہ کوئی بھی صارف جو ان پرانے فونز کا استعمال کر رہا ہے وہ اب نئے اکانٹ نہیں بنا سکتا اور نہ ہی موجودہ اکانٹ دوبارہ بحال کر سکتا ہے کیونکہ موبائل فون بنانے والی کمپنیوں نے ایسے فونز کے لیے فیچرز بنانا بند کر دیا ہے۔ اعلامیہ کے مطابق واٹس ایپ 31 دسمبر سے نوکیا سمبیان ایس 60 (Nokia Symbian S60)، بلیک بیری او ایس اور بلیک بیری (BlackBerry OS and BlackBerry) ، نوکیا ایس 40 (Nokia S40) پر بھی سروس دینا بند کر دیگا۔ اعلان کے مطابق ونڈوز موبائل آئی او ایس 7 اور اینڈرائیڈ 2.3.7 پر واٹس ایپ سروس یکم فروری 2020 سے دستیاب نہیں ہوگی۔ واٹس ایپ ہر سال باقاعدگی سے پرانے آلات پر سروس دینا بند کر دیتا ہے، جس سے صارفین نئے موبائل فون رکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

جج ویڈیو اسکینڈل: سپریم کورٹ نےنواز شریف کی نظر ثانی کی درخواست نمٹا دی

احتساب عدالت کے جج  ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل میں سپریم کورٹ نے نواز شریف کی نظر ثانی کی اپیل نمٹا دی۔یاد رہے کہ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے جج ویڈیو اسکینڈل میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف 7 اکتوبر کو نظرثانی درخواست دائر کی تھی جس میں نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث کی جانب سے دائر نظر ثانی درخواست میں جج ارشد ملک اور دیگر کو فریق بنایا گیا تھا۔اس اپیل میں کہا گیا کہ عدالت عظمی نے اس معاملے میں اُنھیں نوٹس جاری کیے بغیر اور ان کا مؤقف سنے بغیر نہ صرف فیصلہ سنا دیا بلکہ ان (نواز شریف) کے بارے میں حدود قیود بھی طے کردیں۔نواز شریف کی طرف سے دائر کردہ اپیل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عدالت عظمی کی طرف سے ویڈیو سکینڈل میں جو فیصلہ دیا گیا ہے اس سے ان کا حق متاثر ہوا ہے لہذا اُن کا موقف سنکر عدالت اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے۔ اس درخواست میں سپریم کورٹ سے جج ویڈیو سکینڈل کی سماعت سے متعلق میاں نواز شریف سے متعلق ججز کے مشاہدے پر بھی نظرثانی کی استدعا کی گئی ہے۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے نواز شریف کی نظر ثانی اپیل کی سماعت  کی۔اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے کہا ہائیکورٹ کے پاس اختیار فیصلہ کرنے کا اختیار ہے، اپنے فیصلے میں ہم نے کوئی حکم نہیں دیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ تاثرغلط ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے ہائیکورٹ کا شکنجہ سخت کردیا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ فیصلے میں لکھا گیا تھا  کہ اسلام آباد ہائیکورٹ اپنا طریقہ کار اپنائے جب کہ اس فیصلے میں لکھا  ہے کہ بہت سی چیزیں تفتیش طلب ہیں، ویڈیو کے بارے میں قانون کی بات کی گئی اور قانون کی بات کر کے ہی درخواستیں مسترد کردی تھیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے  نظرثانی میں جو باتیں کیں وہ عدالت پہلے مان چکی ہے لیکن  تبصرے شروع ہوگئے کہ ہائیکورٹ کے ہاتھ باندھ دیے گئے  ہیں، یہ بات تب ہوتی ہے جب فیصلہ پڑھے بغیر تبصرے شروع ہوجاتے ہیں۔

اس دوران خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ عدالت کے سامنے کسی مقصد کے لیے آیا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے پھر کہا کہ عدالت سے جو آپ مانگ رہے ہیں ہم پہلے ہی دے چکے ہیں اگر کسی نقصان کا احتمال ہے تو پھر پوزیشن کو کلیئر کر دیتے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ ویڈیو اسکینڈل پر اپنا فیصلہ کرنے میں مکمل آزاد ہے، ہائیکورٹ اپنا راستہ خود تلاش کرے کیونکہ ججز کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں کرتے، جو فیصلہ بھی ہوگا میرٹ پر ہوگا، ہم ججز ہیں کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونے دیں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم تفصیلی فیصلے میں لکھ دیں گے کہ ہائیکورٹ عدالتی آبزرویشن سے متاثر ہوئے بغیر فیصلہ کرے۔

اس پر نواز شریف کے درخواست گزار وکیل  اکرام چوہدری کا کہنا تھا کہ ہم بھی عدالتی فیصلے پر نظرثانی چاہتے ہیں۔

بعدازاں عدالت نے درخواست گزاز اشتیاق مرزا، سہیل اختر اور طارق اسد کی درخواستیں خارج کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی نظر ثانی درخواست نمٹا دی۔

جج ارشد ملک کے ویڈیو اسکینڈل کا پس منظر

6 جولائی 2019 کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نے پریس کانفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ایک ویڈیو جاری کی جس میں مبینہ طور پر یہ بتایا گیا کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو نواز شریف کو سزا سنانے کے لیے بلیک میل کیا گیا۔ اس بنیاد پر مریم نواز نے یہ مطالبہ کیا کہ چونکہ جج نے خود اعتراف کرلیا ہے لہٰذا نواز شریف کو سنائی جانے والی سزا کو کالعدم قرار دے کر انہیں رہا کیا جائے۔

تاہم جج ارشد ملک نے ویڈیو جاری ہونے کے بعد اگلے روز ایک پریس ریلیز کے ذریعے اپنے اوپرعائد الزامات کی تردید کی اور مریم نواز کی جانب سے دکھائی جانے والی ویڈیو کو جعلی۔ فرضی اور جھوٹی قرار دیا۔

اس معاملے پر کابینہ اجلاس کے دوران وزیراعظم عمران خان نے مؤقف اپنایا کہ اعلیٰ عدلیہ کو اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے۔ وزیراعظم کے بیان کے بعد جج ارشد ملک کی اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم قام چیف جسٹس عامر فاروق سے ملاقات ہوئی، اس کے بعد قائمقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ سے ملاقات کی۔

ان اہم ملاقاتوں کے بعد 12 جولائی 2019 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائمقام چیف جسٹس عامر فاروق نے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا جس کے بعد وزرات قانون نے ان کو مزید کام سے روکتے ہوئے ان کی خدمات لاہور ہائیکورٹ کو واپس کردیں۔

اس دوران جج ارشد ملک کا ایک بیان حلفی بھی منظر عام پر آیا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ نوازشریف کے صاحبزادے حسین نواز نے انہیں رشوت کی پیشکش کی۔

جج ارشد ملک نے بیان حلفی میں بتایا کہ وہ مئی 2019 کو خاندان کے ساتھ عمرے پر گئے، یکم جون کو ناصر بٹ سے مسجد نبویؐ کے باہر ملاقات ہوئی، ناصر بٹ نے وڈیو کا حوالہ دے کر بلیک میل کیا۔

بیان حلفی کے مطابق انہیں (ارشد ملک) کو حسین نواز سے ملاقات کرنے پر اصرار کیا گیا جس پر انہوں نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا، حسین نواز نے 50 کروڑ روپے رشوت کی پیشکش کی، پورے خاندان کو یوکے، کینیڈا یا مرضی کے کسی اور ملک میں سیٹل کرانے کا کہا گیا، بچوں کیلئے ملازمت اور انہیں منافع بخش کاروبار کرانے کی بھی پیشکش کی گئی۔

خیال رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نمبر2 کے جج ارشد ملک اہم کیسز کی سماعت کررہے تھے جن میں سابق صدر آصف زرداری کے خلاف جعلی اکاؤنٹس کیس، سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور کیس اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے خلاف ریفرنس بھی شامل ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نوازشریف کو جج ارشد ملک نے ہی العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی جب کہ فلیگ شپ ریفرنس میں بری کیا تھا۔

فیس بک نے جماعت اسلامی کراچی کا آفیشل پیج بلاک کردیا

دنیا کے سب سے بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بُک نے جماعت اسلامی کراچی کا آفیشل پیج بند کردیا۔5 لاکھ سے زیادہ فالوورز والے مذکورہ فیس بُک پیج کے حوالے سے ترجمان کراچی کے جماعت اسلامی صہیب نے دعویٰ کیا ہے کہ فیس بُک پیج کشمیریوں کی حمایت پر بند ہوا۔امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے والے ہزاروں ذاتی اکاؤنٹ اور پیجز کو بند کردیا گیا ہے جسمیں جماعت اسلامی کراچی کا پیج بھی شامل ہے۔

 نعیم الرحمٰن نے حکومت پاکستان سے اپیل کی کہ فیس بک کی ا س کھلم کھلا جانبداری و بھارت نوازی کا نوٹس لے اور فوری طور پر ان اکاؤنٹ اور پیجز کو بحال کیا جائے، ایسا نہ کرنے پر فیس بک کو پاکستان میں اپنے کاروبار سے روک دیا جائے۔

افظ نعیم الرحمٰن نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں مزید کہا ہے کہ فیس بک پاکستانی مارکیٹ سے اربوں ڈالر کما رہا ہے ،فیس بک کا ریجنل آفس بھارت کے شہر دہلی میں قائم ہے جہاں سے انڈین لابی کی حمایت جاری رکھتے ہوئے ان پاکستانیوں اور کشمیریوں کے اکاؤنٹ کو بند کیا جارہا ہے جو مظلوم کشمیریوں کی حمایت کررہے ہیں

انسانی حقو ق کاعالمی دن،دنیابھرمیں کشمیریوں کا آج یوم سیاہ

دنیا بھر میں مقیم کشمیری  آج انسانی حقوق کے عالمی دن کو یوم سیاہ کے طور پر منا رہے ہیں۔ انسانی حقوق کے عالمی دن کو یوم سیاہ کے طورپر منانے کا مقصد عالمی برداری کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی جانب مبذول کرانا ہے ۔یوم سیاہ منانے کی اپیل گزشتہ روز کُل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی گیلانی نے کی تھی۔ اس  موقع پر آج مقبوضہ کشمیرمیں بھارت کی طرف سے بڑے پیمانے پر جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی مذمت کے لیے مکمل ہڑتال ہے۔ سید علی گیلانی نے اپنے ایک بیان میں عالمی برادری سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم بند کرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیریوں کے انسانی حقوق کی پامالیوں کا سنجیدگی سے نوٹس لیا جائے۔کُل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ کشمیریوں کےحق خود ارادیت سے مسلسل انکار انسانی حقوق کی سب سے بڑی خلاف ورزی ہے، بھارت کی ہٹ دھرمی کشمیر تنازع کے پرامن حل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔سید علی گیلانی نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں مظالم پر بھارت سے اس کے جرائم کا حساب مانگے۔ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کی آزادی اور حق خودارادیت کے لیے جدوجہد ہر صورت جاری رہے گی

وسیم اکرم پی سی بی کرکٹ کمیٹی کے چیئرمین بننے کے مضبوط امیدوار

لاہور(آئی این پی) سابق کپتان وسیم اکرم کو پی سی بی کرکٹ کمیٹی کا چیئرمین بنائے جانے کا امکان ہے۔ وسیم اکرم اس وقت کرکٹ میٹی کے رکن ہیں اور چیف ایگزیکٹو وسیم خان کے کرکٹ کمیٹی کی چیئرمین شپ سے دستبردار ہونے کے بعد یہ عہدہ خالی ہوا ہے۔بورڈ ذرائع کے مطابق وسیم اکرم کرکٹ کمیٹی کی سربراہی کے لیے مضبوط امیدوار ہیں، بورڈ نے اس حوالے سے سابق کپتان سے ابتدائی بات چیت کی ہے اورجلد اس معاملے کو حتمی شکل دی جاسکتی ہے۔ وسیم اکرم کی رضامندی کی تصدیق کے بعد چند روز میں باقاعدہ اعلان کیا جاے گا۔پی سی بی نے کرکٹ کمیٹی کو مکمل با اختیار بنانے کا فیصلہ کیا ہے اب کرکٹرز ہی اس کمیٹی کا حصہ ہوں گے۔

میٹرو ٹرین کی آزمائشی سروس کا آج افتتاح ،ن لیگ کا ایک روز پہلے جشن

لاہور( این این آئی)پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پنجاب حکومت کی جانب سے اورنج لائن میٹرو ٹرین کیآزمائشی سروس کے افتتاح سے ایک روز قبل بھرپور جشن مناتے ہوئے منصوبے کا علامتی افتتاح کر دیا ، آج (منگل) کے روز بھی میٹرو ٹرین کے مختلف اسٹیشنز کے باہر جشن منایا جائے گا ،لیگی رہنماﺅں اور کارکنوںنے اورنج لائن میٹرو ٹرین کو نواز شریف اور شہباز شریف کا منصوبہ قرار دیتے ہوئے ان سے اظہارتشکر کیا او رڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالتے ہوئے حق میں نعرے لگائے ، مال روڈ سمیت مختلف شاہراہوں پرمنصوبے اورقیادت کے حق میں بینرز بھی آویزاں کئے گئے ۔ تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی کال پر لیگی اراکین اسمبلی ،رہنماﺅں اورکارکنوں کی بڑی تعداد میٹرو ٹرین منصوبے پر قیادت سے اظہارتشکر کے لئے جی پی او چوک میں جمع ہوئے اور بھرپو رجشن منایا۔ اس موقع پر مرکزی و صوبائی رہنما ،مرد و خواتین کارکنان اپنی قیادت کے حق میں او رحکومت کے خلاف نعرے لگاتے رہے ۔ کارکنوں نے ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالے جبکہ اس موقع پر گھوڑوں کا رقص بھی پیش کیا گیا اورجلیبیوں کے سٹالز بھی لگائے گئے۔ اظہار تشکر او ر جشن منانے کی تقریب میں مسلم لیگ (ن) لاہو رکے صدر پرویز ملک، رانا مشہود احمد خان،ملک ریاض، کرنل (ر) مبشر جاوید،عطا اللہ تارڑ، خواجہ احمد حسان سمیت دیگر نے شرکت کی ۔ اس موقع مسلم لیگ (ن) کے قائدمحمد نواز شریف اورلاہور کے جنرل سیکرٹری خواجہ عمران نذیر کی صحتیابی کے لئے دعابھی کی گئی ۔ لیگی رہنماﺅںنے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف نے عدالت میں جا کر اس منصوبے کو جان بوجھ کر تاخیر کا شکار کیا ۔تاخیر کی وجہ سے چین کے انجینئر زناراض ہو چکے ہیں ،کام ابھی مکمل نہیں ہوا اور حکومت افتتاح کرنے جارہی ہے جو ان کے جھوٹ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انہوںنے کہا کہ عمران خان اور ان کے حواری سن لیں ہمارے قائدین گھبرانے والے نہیں آپ کا مقابلہ کریں گے ،تکبرو غرور کو خاک میں ملائیں گے۔ لیگی رہنماﺅںنے الزام عائد کیا کہ خواجہ عمران نذیر پر حملہ کیاگیا ، ان کی گاڑی کو سرکاری گاڑی ٹکر ماری ،حکومت چوبیس گھنٹوں میں ایکشن لے ،ہم کسی کی بدمعاشی نہیں چلنے دیں گے ،حکومت گرانے کا وقت آ گیاہے اورپرجوش طریقے سے حکومت گرائیں گے ۔ انہوںنے کہا کہ اورنج لائن بڑا منصوبہ ہے ،لاہوریوں کی جانب سے نوازشریف اور شہبازشریف کا شکریہ ادا کرتے ہیں ،چین نے اورنج لائن میٹرو ٹروین کی صورت میں جو دوستی کا ثبوت د یا ہے اس پر چینی قیادت کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں ۔انہوںنے کہا کہ عمران خان پشاور میں میٹر و بس منصوبہ مکمل نہیں کر سکے لیکن یہاںاپنے نام کی تختیاںلگا رہے ہیں۔