تازہ تر ین

آٹا بنیادی ضرورت ،قیمتیں بڑھنے سے غریب دو وقت کی روٹی کیسے پوری کریگا ،ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف سینئر صحافی ضیا شاہد نے کہا ہے کہ فواد چودھری صاحب جب ے وزیراطلاعات کے عہدے سے ہٹے ہیں ان کے پاس سائنس اوار ٹیکنالوجی میں سوائے گوبر گیس کے پلانٹ بنانے کے اور کوئی کام نہیں ہے۔ لہٰذا وہ کبھی چاند نکلنے یا نہ نکلنے کے مسئلے کو لیتے ہیں، کبھی صوبوں کے پیچھے پڑ جاتتے ہیں۔ کبھی سندھ حکومت کی خبر گیری پر لگ جاتے ہیں اب تازہ ترین ان کا جو شاخسانہ ہے وہ پنجاب حکومت ہے کہ جب تک ان کو ان کی پسند کی جاب نہیں ملے گی لگتا یہی ہے کہ وہ لوگوں پر تنقید کرتے رہیں گے۔ پنجاب حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے بہت باتیں کی جا سکتی ہیں ایک بنیادی بات تو یہ ے کہ پچھلی حکومتیں 35 برس تک رہی ہیں جب آصف زرداری کی حکومت تھی تو بھی پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت تھی۔ لہٰذا اس لحاظ سے ان کا اتنا لمبا دورانیہ ہے کہ ان کے تعلقات، ان کے ہاتھوں سے نوازے لوگوں کی تعداد پولیس اور بیورو کریسی اور سرکاری ملازموں میں، تاجروں اور صنعتکاروں سے ان کا میل جول بہت ساری چیزییں ایسی ہیں جو موجودہ حکومت کے لئے مشکلات پیدا کر رہی ہیں یہ بھی ایک بات دیکھ لیں کہ مال روڈ پر جو ہنگامے اور جلسے جلوس روزانہ کرتے تھے اس پر ایک مدت ہو چکی ہے اور لاہور ہائی کورٹ نے حکم بھی دے دیا ہے کہ صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت صاحب کو بھی کہ وہ اس سلسلے میں ایک متعلقہ قانون بنائیں مال روڈ پر جلسے ہو سکتے ہیں یا نہیں ہو سکتے ہیں۔ یا کس قسم کے ہو سکتے ہیں لیکن ان کا قانون بھی سامنے نہیں آیا، لگتا یہی ہے کہ درمیان میں مشکلات کافی ہیں اور صرف اس کے ذمہ دار بزدار صاحب یا عمران خان کی ذات نہیں ہے بلکہ یہ دو نظاموں کی لڑائی ہے ایک نظام پچھلے 35,30 سال سے برسراقتدار ہیں۔ صوبے اضلاع کو فنڈ نہیں دے پا رہے یہ جینوئن مشکلات ہیں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ تعداد جو سابق حکمرانوں کی بہت زیادہ ہے اور وہ حکومت میں بھی ہیں اور حکومت سے باہر بھی ہیں اور آج کل بھی سرکاری محکموں میں بھی ہیں ان کا اثرورسوخ کی وجہ سے موجودہ حکومت کو چلنے نہیں دیا جا رہا۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے اپنی ملاقات کے حوالہ سے بات کرتے ہوئے ضیا شاہد نے بتایا کہ اصل میں وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ وہ تو اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہے ہیں البتہ وہ اس بات سے بخوبی واقف تھے اور انہی مسائل سے پوری آگاہی ہے وہ جانتے ہیں ان مسائل کے پیچھے کون سی مشکلات ہیں۔ ہم نے جس حد تک کہہ سکتے تھے یہی مشورہ دیا کہ مہنگائی اور بیروزگاری ہے اس پر اور نظم و نسق کے عام معاملات پر زیادہ توجہ دینی چاہئے کیونکہ عام لوگ اس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ آج اسحق ڈار کا ٹی وی چینل پر انٹرویو آ رہا تھا اور وہ اس بات کا برملا اظہار کر رہے تھے کہ ان کے دور میں مالی حالات بہت اچھے تھے اگرچہ قرضے لے کر معیشت چلا رہے تھے لیکن ان قرضوں کا لگانا جو تھا وہ اس لحاظ سے تھا کہ چیزیں مہنگی نہیں ہوتی تھی میں سمجھتا ہوں کہ ان کی باتوں پر بھی غور ہونا چاہئے۔ نئی حکومت میں ایسی پالیسیاں اختیار کرے جس سے خرچ ہوں لیکن ان اخراجات سے عام آدمی کی جیب پر زیادہ نہ پڑے۔ ملک میں سیاسی درست حالات ہوں تو بہت کچھ بہتر ہو سکتا ہے۔ پچھلے جو چار مہینے گزرے ہیں لیکن ہاری ہوئی جماعتیں یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ وہ ہار گئی ہیں ان میں سے یہ کہتے ہیں کہ یہ سلیکٹڈ وزیراعظم ہیں الیکٹڈ نہیں بعض نظام کو چلنے نہیں دیتے، بعضالیکشن کمیشن نہیں بننے دیتے۔ مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے حکومت اپنا کام نہیں کر پا رہی، سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی بجائے مل جل کر عوام کی بہتری کے لئے سوچا جائے۔ گزشتہ روز وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے ملاقات ہوئی ہم نے ان سے کہا ہے کہ ہمارے بھی کچھ سوالوں کے جواب دیں ان کا ٹی وی انٹرویو کرنے جا رہے ہیں ان سے یہ باتیں پوچھیں گے جو بات کریں گے وہ عوام تک پہنچائیں گے۔ اگر پولیس کے 4 ہزار کیمرے بند پڑے ہیں اگر یہ کیمرے درست ہو جائیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ شروع دن سے عمران خان صاحب سے کہہ رہے تھے کہ مثالیں دیا کرتے تھے خیبرپختونخوا کی مثال کہ وہاں سیاسی مداخلت نہ ہونے کی وجہ سے وہاں حالات بہت اچھے ہیں۔ اب پچھلے 1½ سال سے پنجاب میں حکومت پی ٹی آئی کی ہے سوال یہ ہے کہ اس وقت کون دخل دے رہا ہے۔ اب و حکومت بھی انہی کی ہے تھانے بھی انہی کے ہیں۔ تو پھر اب ان معاملات پر کیوں قابو نہیں پا سکتے۔ یہ سوال پوچھیں گے ان سے۔ مجھے یقین ہے کہ ہم ان سے حتمی جواب لائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ اگر پی ٹی آئی میں فارورڈ بلاک بننے جا رہا ہے میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اس وقت ہر شحص یہ محسوس کر رہا ہے کہ ڈوب رہا ہے اور ڈوبتے کو تنکے کا سہارا۔ ہر شحص کسی نہ کسی تنکے کے سہارہ لیتے ہوئے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کر رہا ہے مجھے تو لگ رہا ہے کہ سبھی ڈوب رہے اپوزیشن بھی ڈوب رہی ہے جو درمیان میں لوگ ہیں وہ بھی ڈوب رہے ہیں بیورو کریسی بھی ڈوب رہی ہے سب سے بڑھ کر عوام ڈوب رہے ہیں۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain