امریکی صدر جوبائیڈن اور اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے مابین ٹیلی فونک گفتگو کے بعد کشیدگی سے متعلق تمام افواہیں دم توڑ گئیں۔
غیرملکی خبررساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق امریکی صدر نے صدارتی منصب سنبھالنے کے بعد متعدد ممالک کے حکمرانوں سے ٹیلی فونک گفتگو کی لیکن اسرائیلی وزیراعظم کو کال نہیں کی گئی تھی۔
جس کے بعد قیاس آرائیاں جنم لینے لگیں کہ دونوں رہنماؤں کے مابین کشیدگی جاری ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو غیرملکی رہنماؤں میں سب سے آخری رہے جنہیں جوبائیڈن نے کال کی۔
ٹیلی فونک گفتگو کے دوران دونوں فریقوں نے قریبی تعلقات پر زور دیا جس کے بارے میں جوبائیڈن نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ ایک ‘اچھی گفتگو’ رہی۔
اس ضمن میں وائٹ ہاؤس نے کہا کہ جوبائیڈن نے سابق امریکی صڈر ڈونلڈ ٹرمپ کے اسرائیل اور عرب اور مسلم ممالک کے مابین تعلقات معمول پر لانے کے سلسلے میں کئی معاہدوں کی ‘حمایت’ برقار رکھی۔
وائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں کہا کہ جوبائیڈن نے ‘اسرائیل کی سلامتی اور امریکا-اسرائیل پارٹنرشپ کے تمام پہلوؤں کو مستحکم کرنے کے لیے اپنے ارادے کا اظہار کیا جس میں مضبوط دفاعی تعاون بھی شامل ہے’۔
ایک بیان میں اسرائیلی وزیر اعظم کے میڈیا مشیر نے دونوں رہنماؤں کے مابین گفتگو کو ‘بہت ہی سود مند اور دوستانہ’ قرار دیا۔
انہوں نے بتایا کہ گفتگو ایک گھنٹہ تک جاری رہی۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ‘دونوں رہنماؤں نے اپنے دیرینہ ذاتی تعلقات پر زور دیا اور اتحاد کو مضبوط بنانے پر اتفاق کیا’۔
بینجمن نیتن یاہو اور امریکی صدر نے ‘امن معاہدوں کی آئندہ پیشرفت، ایرانی خطرہ اور علاقائی چیلنجوں پر تبادلہ خیال کیا اور بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا’۔
اس سے قبل امریکی صدر جوبائیڈن کی جانب سے اقتدار سنبھالنے کے دو ہفتے بعد ترکی کے صدر طیب اردوان اور امریکی صدر کے اعلیٰ مشیروں کے مابین پہلا باضابطہ رابطہ ہوا تھا۔
طیب اردوان کے مشیر برائے چیف خارجہ پالیسی ابراہیم کلن اور امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے شام، لیبیا، مشرقی بحیرہ روم، قبرص اور ناگورنو کاراباخ سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا تھا۔
فروری میں ہی میں امریکی صدر جوبائیڈن نے چین میں اپنے ہم منصب سے ٹیلی فونک گفتگو کی تھی، جس میں ہانگ کانگ میں جمہوریت نواز کارکنوں کے خلاف بیجنگ کے کریک ڈاؤن اور انسانی حقوق سے متعلق امور پر اپنے خدشات کا اظہار کیا گیا تھا۔
جبکہ جنوری میں امریکی صدر جوبائیڈن نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے دیگر مسائل پر تبادلہ خیال کرنے کے علاوہ زیر حراست روسی اپوزیشن لیڈر کا معاملہ اٹھا دیا تھا۔