اسلام آباد: اسد عمر نے کہا ہے کہ کورونا کے باوجود پاکستان کی لارج اسکیل مینو فیکچرنگ میں اضافہ ہوا، کراچی کے ساتھ نا انصافی ہورہی ہے، معاشی ترقی کی شرح میں 4 فیصد بڑھوتری ہوئی۔
ان خیالات کا اظہار پاکستان تحریک انصاف کے راہنما اسدعمر نے قومی اسمبلی میں بجٹ اجلاس سے خطاب میں کیا۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ اس سال بیرونی خسارہ نہیں بلکہ سرپلس ہوگا، یہ عمران خان ہی تھا جو کورونا کے دوران بھی غریب کو بھوک او ر افلاس سے بچانے کی بات کر رہا تھا، کورونا میں ہمارے کیے گئے اقدامات کی دنیا بھر نے تعریف کی۔ ورلڈ اکنامک فورم نے وبا کے دوران حکومت پاکستان کے اقدامات کی تعریف کی، بل گیٹس،عالمی ادارہ صحت نے کورونا میں پاکستان کے اقدامات کی تعریف کی، اپوزیشن لیڈر نے کورونا کے دوران حکومتی اقدامات کا ذکر کیا۔
این سی او سی کی نے شبانہ روز محنت پر انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں، کووڈ کی وجہ سے پاکستان اور بھارت میں اموات ہوئی، اگر بھارت میں فی کس وہی اموات ہوتی جو پاکستان میں ہوئی تو بھارت میں 2 لاکھ 35 ہزار اموات کم ہوئی ہوتی، وبا کے دوران 9 کروڑ پاکستانیوں کو 2 سو ارب روپے کے قریب کی امداد پہنچائی گئی۔
اسد عمرکا کہنا تھا کہ کراچی سب سے زیادہ ریونیو دینے والا شہر ہے، اور اسی کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے، شہر کی گلیاں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ عمران خان نے ایک سا ل میں چار مربوط ترقیاتی پیکجز کا حکم دیا، یہ چار پیکج 1 ہزار 739 ارب کے ہیں، جنوبی بلوچستان اور گلگت پر ہم نے پیکج دیا۔ آزاد کشمیر میں آج بھی ن لیگ اور سندھ میں پی پی کی حکومت ہے، ضم اضلا ع کے لیے 24 ارب سے ایلوکیشن بڑھا کر ہم 54 ارب پر لے گئے، ان کو ہم سڑکیں بنا کر دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم مفت کی ویکسین دے رہے ہیں، پنجاب کی نسبت سندھ میں ہم نے زیادہ ویکسین فراہم کی۔ وفاق اب تک 46 ارب روپے کی ویکسین خرید چکا ہے، لیکن اپوزیشن لیڈر کہہ کر گئے کہ ابھی تک ویکسین نہیں خریدی، شاید اپوزیشن لیڈر اپنی کشمیر کی حکومت کو کہنا چاہ رہے ہوں، ن لیگ بتائے کہ کشمیر کی عوام کے لیے ان کی حکومت نے کتنی ویکسین خریدیں؟، سندھ کی عوام کے لیے کتنی ویکسین خریدی گئی؟ کہاں ہے آپکی ویکسین جو آپ نےخریدی ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان اللہ کی مخلوق کی خدمت کے لیے سیاست کرتا ہے، اگلے سال احسا س پروگرام کے لیے مجموعی طور پر 260 ارب مختص کیے جا رہے ہیں، ماؤں اور چھوٹے بچوں کی صحت کے لیے تاریخ کا سب سے بڑا پروگرام لایا جا رہا یے، صحت سہولت پروگرام ایک انقلاب ہے، صحت سہولت پروگرام وفاق میں پھیلا دیا، پنجاب میں اس پروگرام کے لیے 80 ارب لگانے جا رہے ہیں، جو صحت کارڈ میری جیب ہوگا وہی کارڈ ریب ترین پاکستانی کی جیب میں بھی ہو گا۔
ہم نے بجلی کے بلوں میں کورونا ریلیف دیا، 435 ارب روپے کے سود سے پاک قرضے دیے گئے، اسٹیٹ بنک کی روزگار اسکیم کے تحت 238 ارب روپے دیے گئے، غریبوں کو چھت فراہم کرنے کے لیے بینکوں کے ذریعے قرضے دیے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ بڑی صنعتیں تیس سے چالیس صنعتوں سے منسلک ہوتی ہیں، کورونا کے باوجود لارج اسکیل مینوفیکچرنگ میں 12.8 اعشاریہ 8فیصد اضافہ ہوا، بجلی کی کھپت میں جولائی سے مارچ تک 9 فیصد اضافہ ہوا۔ اس سال اب تک ہماری ایکسپورٹ میں 14 فیصد اور جولائی سے مئی تک ترسیلات زر میں 29 اعشاریہ 4فیصد اضافہ ہوا ہے، اپوزیشن زور لگا رہی ہے کہ بیرون ملک پاکستا نیوں سے پیسہ تو لیتے رہو لیکن انہیں ووٹ نہیں ڈالنے دو۔
ان کا کہناتھا کہ وہ مافیا جو حکومتوں کی فیصلہ سازی پر اثر انداز ہوتے تھے عمران خان نے اس سے ٹکر لی اور کسان کو حق دلایا، کسان کو اس کی محنت کا جائز حق ملنا چاہیئے۔ اس ملک میں زراعت ریڑھ کی ہڈی ہے، پاکستان کی تاریخ میں پانی کے تین بڑے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے، متعدد ڈیموں کے نئے منصوبے اس سال کے پی ایس ڈی پی میں رکھے ہیں۔ کینالز کے منصوبے ہیں یہ پانی ہم نے کسان تک پہنچانا ہے، 2013 میں ن لیگ کی حکومت نے فی 40 کلو گرام گندم کی قیمت 1200 روپے متعین کی، پانچ سال میں یہ 12 سو سے 13 سو تک پہنچے، تحریک انصاف کی حکومت میں یہ گندم کی قیمت 18 سو کر دی گئی، تین سال میں 5 سو اضافہ ہوا۔ اسی طرح گنے کی قیمت 225 سے ڈھائی سو اس سال ملی۔
انہوں نے کہا کہ سندھ بھی پاکستان کا حصہ ہے سندھ کی عوام کی خدمت کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے، سال میں دو مرتبہ ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ ہر کسان کو فصل کی کاشت کی ضروریات کے لیے قرضہ دیں گے، مشینری کے لیے 2 لاکھ کسانوں کو قرض دیں گے، اپنا گھر بنانے کے لیے 20 لاکھ تک بلاسود قرض فراہم کریں گے، ہر خاندان کا لاکھوں روپے سالانہ صحت کا خرچ حکومت اٹھائے گی۔ر
مسلم لیگ کی حکومت ختم ہونے میں چند ہفتے باقی تھے جب میں نے اسی ایوان مین تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ زرمبادلہ کے ذخائر گر رہے ہیں، ٹائی ٹینک کی مثال دی تھی کہ ہماری معیشت برفاتی تودے سے ٹکرانے والی ہے، اس وقت مفتاع اسماعیل نے بھی میری بات کی تائید کی تھی۔
ہماری حکومت آنے کے آخری تین ماہ میں 2 ارب ڈالر کا ماہانہ بیرونی خسارہ تھا، راجہ پرویز اشرف نے ڈھائی سو ارب کا بیرونی خسارہ چھوڑا تھا، پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 10 اعشاریہ 2ارب ڈالر تھےاور ساڑھے 3 ارب ڈالر کا نیٹ ریزرو ہمارے پاس تھا، وزیر اعظم عمران خان نے معیشت کی بحالی کے لیے مشکل فیصلے کیے کیوں کہ وہ لیڈر ہے۔
ہم نےاعلی تعلیم کا ترقیاتی بجٹ بڑھایا دیا ہے، ماحولیات کے لیے پی ایس ڈی پی میں 16 گنا اضافہ کیا ہے، کام یاب جوان پروگرام کے تحت دس ارب روپے کم سود والے قرضے دیے ییں، اسکلز فار آل کے نام سے تربیتی پروگرام شروع کیا ہے۔
خیبرپختونخوا میں پرویز خٹک کی حکومت نے تاریخی کارگردگی دکھائی، خیبرپختونخوا میں کارگردگی نہ دکھاؤ تو عوام اٹھا کر باہر پھینک دیتے ہیں، ن لیگ کی بھی خیبرپختونواہ میں حکومت رہی ہے، خیبرپختونخوا کے عوام آزاد فیصلے کرنے والے عوام ہیں۔
انہوں نے مسلم لیگ ن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایکسپورٹ مسلم لیگ ن نے جتنی زیادہ کی اس سے کم 2018 میں چھوڑ کر گئے، یہ سب کچھ کر گئے تھے مگر اس کے بعد جو یہ درس دیتے ہیں تو دکھ ہوتا ہے، ا
آپ ایک شخص کے ضمانتی تھے اس کو لانے کیلئے فکرمند کیوں نہیں، آپ کو وزیراعظم کے پارلیمنٹ میں نہ آنے کی فکر ہے، شہباز شریف نے وزیراعظم کے ایوان میں نہ آنے کی بات، کاش میاں صاحب نے ایک ہسپتال ایسا بنایا ہوتا جس میں وہ علاج کروا سکتے،عمران خان نے 1983 سے اپنی جائیداد کا حساب دیا، ان کی جائیدادوں کے بارے پوچھنے سے جمہوریت خطرے میں آجاتی ہے، لندن کے فلیٹس، بیرون ملک جائیدادیں کہاں سے آئیں، قوم کا پیسہ قوم کی امانت ہوتا ہے، پوری پاکستانی قوم ان قرضوں کی ادائیگی کرتی تھی۔