تازہ تر ین

پورے پنجاب کے اشتہاریوں کوگرفتار کریں

خضر کلاسرا
میری کوشش ہوتی ہے کہ سویرے سویرے جہاں قومی اخبارات کی عرق ریزی کروں، وہاں تھل بالخصوص لیہ، بھکر میانوالی کے مقامی اخبارات کی زیارت بھی کروں۔میرے خیال میں قومی اخبارات میں دوردراز علاقوں کی سکینڈ لز اور دیگر ایشوز پر خبریں نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں اور اگر ہوتی ہیں تو اتنی نمایاں جگہ نہیں ہوتی، یوں پسماندہ علاقوں کے ایشوز دب کر رہ جاتے ہیں۔اس لیے ہمارے جیسے صحافیون مقامی اخبارات کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ابھی کل ہی لیہ کے ایک مقامی اخبار کی اس خبر نے اپنی طرف متوجہ کرلیا کہ میانوالی مظفرگڑھ۔ ایم ایم روڈ۔ مطلب قاتل روڈ، خونی روڈ کی ابتر حالت کی وجہ ٹریفک حادثات کی وجہ سے صرف 6 ماہ کے دوران55افراد جان کی بازی ہارگئے ہیں، مطلب 55خاندانوں کے گھر لاشیں پہنچیں اور ا ن کا نہ ختم ہونے کا غم کا آغازہوگیا۔ماں باپ‘ بہنوں، بیٹیوں کی زندگیاں یکسر تبدیل ہوکر رہ گئیں۔ابھی تک رپورٹر کی تحقیقی خبر کو پڑھ میں جو میں سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ ٹریفک حادثات میں گاجر مولی کی طرح انسانی جانوں کی تعداد اس قاتل روڈ کی ہے جوکہ صرف لیہ سے گزرتاہے، یعنی کہ بلکسر سے میانوالی اور میانوالی سے بھکر تک یاپھر مظفرگڑھ کی حدود میں گزرنے والے قاتل روڈ کی نہیں ہے، اگر مکمل ایم ایم روڈ پر اس سال حادثات کی تعداد میں زندگی کی بازی ہارنے والے کو شامل کرلیاجائے تو وہ کہیں زیادہ ہوگی۔ فرض کریں اس سال کے پہلے چھ ماہ میں پورے قاتل روڈ پر ٹریفک حادثات میں جابحق ہونے والے افراد کی تعداد 55 ہے تب بھی بہت بڑی تعداد ہے، اور حکومت اس روڈ کو تسلسل کیساتھ نظرانداز کرنے کی وجہ سے جوابدہ ہی نہیں قابل گرفت ہے مطلب وقت کے قاضی کو اس بارے میں از خود نوٹس لینا چاہیے۔ ا س کو موٹروے میں تبدیل کرنے میں لعیت ولعل سے کام کیوں لیاجارہاہے؟
قاتل روڈ کے خونی کردار کے بارے میں لکھتے ہوئے میرے سامنے میانوالی کے موٹرسائیکل پر سکول جاتے دو بچوں اور ان کے جوان باپ کی لاشیں آرہی ہیں جوکہ میانوالی میں اسی روڈ کی ابترحالت کی وجہ سے ٹرالر کے نیچے آکر زندگی کی بازی ہارگئے تھے۔ ان معصوم بچوں کی ماں اور دادا دادی سمیت دیگر خاندان کا دکھ کون محسوس کر سکتاہے؟اسی طرح سرائے مہاجر کے قریب ایم ایم روڈ پر ایک بس نے سکول سے آٹھویں اور نو یں کلاس کی سات بچیوں جوکہ سائیکل رکشہ پر سوا رتھیں، کچل دیا۔ اب اندازہ کریں ان خاندانوں پر کیا گزری ہوگی جن کی بچیاں اپنے آخری امتحانی پیپر کے بعد خوشی خوشی گھر جارہی تھیں اورپھرحادثہ کے بعد کفن میں لپیٹ کر ماں باپ کے حوالے کی گئی تھیں۔پنجاب حکومت کی طرف سے اس حادثہ کے بعدکیا گیا۔ وہ ایک اور دکھ بھری کہانی ہے؟ ایم ایم روڈ۔
وزیراعظم عمران خان کے حلقہئ انتخاب اور آبائی شہر میانوالی سے بھی گزرتاہے، وزیراعظم عمران خان، لائیو کال پروگرام۔ وزیراعظم آپ کے ساتھ‘ میں ایک کالر کی میانوالی سے کال پراسی ایم ایم روڈ کی حالت زار کا یوں ذکر کیاتھا کہ وہ خود بھی ایک بار اس خونی روڈ کی بدتر حالت کی وجہ سے ٹریفک حادثہ سے محفوظ رہے تھے لیکن اقتدار میں وزیراعظم عمران خان کو تین سال ہوگئے لیکن اس ایم ایم روڈپر توجہ نہیں دی جو کہ یہاں کی باسیوں کی زندگیاں بچانے کیلئے ضروری تھی بلکہ روف کلاسرا جیسے سنیئر صحافی نے ایم ایم روڈ کی طرف توجہ دلائی تو موصوف ناراض ہوگئے۔ اب اس کے بعد کیاعرض کیاجاسکتاہے؟ وزیراعلی عثمان بزدار نے بھی ایم ایم روڈ کے حوالے سے تھل کے عوام کو مایوس کیا، وہ اسے موٹروے میں تبدیل کرنے کا فیصلہ لینے کی بجائے اس بات کا انتظار کرتے رہے کہ یہ وفاق کرے،یوں تھل کے ضلع بھکر کے رکن قومی اسمبلی ثنااللہ مستی خیل ایوان میں آبدیدہ ہوکر بتارہے تھے کہ میٹرو بس سروس پر جھوٹے لینے والے کیا جانیں؟
ایم ایم روڈ جوکہ قاتل روڈ کانام پاچکاہے، وہاں انسانی زندگیاں موت کے منہ میں جارہی ہیں اور ہمارے کندھے لاشیں اٹھااٹھاکر تھک گئے ہیں لیکن عوام اور مستی خیل کی آہ و زاری کے باوجود رواں سال کے پہلے 6 ماہ میں 55 قیمتی جانیں ٹریفک حادثات میں لقمہئ اجل بن گئی ہیں۔ میں ابھی انسانی زندگیوں کو ٹریفک حادثات میں گاجر مولی کی طرح کٹنے کی افسوسناک تحقیقی خبر سے نکلا ہی تھا کہ آگے لیہ کی ایک اوردہلا دینی والی خبر منتظرتھی۔وہ یوں تھی کہ لیہ کے ڈسٹرکٹ پولیس آفسیر سید علی رضا نے اس بات کا انکشاف کیاتھا کہ لیہ میں صرف ماہ جون کے دوران پولیس نے لیہ سے 150 اشتہاریوں کو گرفتار کیاہے جوکہ سنگین جرائم کے بعد قانون کی گرفت سے دور تھے۔
ادھر پولیس کے اعلی افسراور ان کے ما تحت ایس ایچ اوز، سید علی رضا کی لیہ میں بحیثیت ڈسٹرکٹ پولیس لیہ تعیناتی سے پہلے سفارش کے اثر یا پھر چونچ گیلی ہونے کے سبب ان اشتہاریوں کو پتھاری داری اور بااثر افراد کے ڈیروں پر موجودگی کی اطلاع کے باوجود خاموش تھے؟ یوں اشتہاریوں کا اجڑ جوریاست اور حکومت کی رٹ کو چیلنج کرنے کے بعد لیہ میں موجود تھا، اوروہ عوام کی زندگی کو کس انداز میں تلخ کررہا تھاوہ بھی ایک درد ناک کہانی ہے۔
ادھر میرے ذہن میں بار بار یہ سوال بھی آرہاہے کہ ڈی او پی لیہ سید علی رضا کے مطابق ان کے حکم پر صرف ماہ جون میں 150 اشتہاری لیہ پولیس نے پکڑے ہیں۔اتنی حدتک تو درست ہوگیا لیکن یہ تو اشتہاریوں کی گرفتاریوں کا ایک ماہ کا ڈیٹاہے، اس کے علاوہ لیہ میں ابھی کتنے اشتہاری ہیں جوکہ پولیس کی گرفتاری سے بچ کر قانون کا مذاق اڑا رہے ہیں اور عوام میں خوف کی فضا کا سبب ہیں۔اور پھر ان کے پیچھے کون لوگ ہیں جوکہ خطرناک جرائم میں اشتہاریوں کو پناہ دے رہے ہیں۔
راقم الحروف کو یہاں لاہورکے ایک انگریزی اخبار کے رپورٹر کی وہ خبر بھی یاد آرہی ہے جس کا حاصل یہ تھاکہ مقتدرقوتوں نے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر منڈی بہاؤالدین سیدعلی رضا کاتابعدار نہ ہونے پر تبادلہ کرادیا ہے۔چودھریوں کے سیاسی عزائم اور دیگر ایشوز کے بارے میں کون نہیں جانتاہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ان کے بارے میں وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن میں کہاتھا کہ یہ پنجاب کے بڑے ڈاکو ہیں۔راقم الحروف کے خیال میں سید علی رضا کی بحیثیت ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر لیہ تعیناتی اس لیے لیہ کے عوام کیلئے مفید ہے کہ موصوف اشتہاریوں کو کھلی چھوٹ دے کر عوام کی زندگی اجیرن کرنے کی بجائے ان کو قانون کی گرفت میں لارہے ہیں اور یہ سلسلہ اور بھی تیز ہوگا۔میرے خیال میں شاید ڈی پی او علی رضا کی منڈی بہاؤالدین سے تبدیلی کی وجہ بھی اشتہاریوں پر ہاتھ ڈالنا ہوگی لیکن لیہ میں ایسا نہیں ہوگا؟ یہاں آخر میں میں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور انسپکٹر جنرل پولیس انعام غنی سے بھی کہوں گا کہ اشتہاریوں کا ایشو صرف لیہ تک محدود نہیں ہے بلکہ اطلاعات کے مطابق یہ پورے پنجاب میں بڑے پیمانے پر موجود ہیں، ڈسٹرکٹ پولیس آفیسرز کو ان کی گرفتاری کے حکم کے ساتھ ایسے افسران کی حوصلہ افزائی کریں جوکہ پہلے سے متحرک ہیں،جس کی ایک مثال ڈی پی او سید علی رضا ہے۔ اور ایسے ڈی پی اوز کی کچھائی کریں جوکہ سیاسی اثرروسوخ اور پتھاداروں کے ہاتھوں کھُل کھیل کر اشتہاریوں کے اجڑپالنے میں مصروف ہیں۔
(کالم نگاراسلام آباد کے صحافی اورتجزیہ کار ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain