تازہ تر ین

امن کیلئے امن کانفرنس…… ایک نئی تجویز

سردارآصف احمدعلی
حال ہی میں، اسلام آباد میں ایک افغانستان امن کانفرنس بلائی جو بعد میں ملتوی بھی کر دی گئی اور اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ اشرف غنی صاحب نے اس کو ملتوی کرنے کی درخواست کی ہے اور اس کانفرنس میں طالبان کو بھی نہیں بلایا گیا۔ مجھے اس مرحلے پر یہ محسوس ہو رہا ہے کہ اس کانفرنس کے بارے میں نہ تو کوئی گہری سوچ کارفرما نظر آئی اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی مناسب تیاری دکھائی دی جبکہ قطر میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات جاری ہیں تو یہاں کانفرنس بلانے کا مقصد سمجھ سے باہر ہے۔ اب اس ضمن میں، میں تو یہی عرض کروں گا کہ کانفرنس اگر بلائی ہے تو پھر اس کے لیے مناسب کام بھی کیا جائے اور اس کی تیاری کی جائے۔ میں اس بات کو دہرانا چاہتا ہوں کہ امن کانفرنس اور افغانستان کی تعمیرنو دونوں کام ہی لازم و ملزوم ہیں اور انہیں الگ الگ اور علیحدہ علیحدہ دیکھنا مناسب نہیں ہوگا اور ایک سگنل دینا چاہیے۔ افغان حکومت اور افغان اپوزیشن کو کہ جب تک امن نہیں لاتے، اس وقت تک افغانستان کی تعمیر نو ممکن نہیں ہو سکتی۔ اس لیے چند دن پہلے میں نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ یہ دونوں موضوع بیک وقت زیر بحث آنے چاہئیں۔
جہاں تک امن کانفرنس کے انعقاد کا تعلق ہے تو افغانستان کے ہر ہمسایہ ملک کو دعوت دینی چاہئے جس میں چین، تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان، ایران اور پاکستان کا ہونا لازمی ہے۔ اس کے علاوہ جن کا براہ راست افغانستان سے تعلق ہے یا رہا ہے، انہیں بھی کانفرنس میں مدعو کرنا ضروری ہے۔ اس میں روس سرفہرست ہے اور نیٹو کی نمائندگی بھی اہم ہے اور سعودی عرب کا ہونا بھی ضروری ہے اور افغانستان کے اندر سے اشرف غنی کی حکومت کے نمائندے، طالبان کے نمائندے اور ہزارہ قوم کے جو لیڈر صبا خلیلی ہیں اور جنرل دوستم جو افغانی ترکوں کے راہنما ہیں اور جناب عبداللہ عبداللہ جو کہ حکومت کا بھی حصہ ہیں اور تاجک قوم کے بھی وہ لیڈر ہیں۔ جو بڑے بڑے دھڑے افغانستان کے ہیں، ان کا بھی کانفرنس میں موجود ہونا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کانفرنس کو قیام امن کے سلسلے میں ہونا چاہئے۔ علاوہ ازیں افغانستان کی تعمیر بھی ساتھ ساتھ چلنا ضروری ہے اور تعمیر نو کے حوالے سے کانفرنس جو ہے اس میں جی نائن کے ممالک کی نمائندگی بھی ہونی چاہئے بلکہ لازمی ہے اور اس میں امریکہ کی شرکت بھی لازمی ہے اور روس کا ہونا بھی ضروری، چین کا ہونا بھی ضروری ہے اور اس میں سعودی عریبیہ، یو اے ای کا ہونا بھی لازمی اور ورلڈ بنک، ایشیائی ڈویلپمنٹ بنک، آئی ایم ایف، اور اسلامک ڈویلپمنٹ بنک کی شرکت بھی لازمی ہونی چاہیے۔ یہ دونوں کانفرنسیں بیک وقت سائیڈ بائی سائیڈ چلنی چاہئیں اور جو ری کنسٹرکشن کانفرنس ہے اسے چاہئے کہ وہ افغانستان کی تعمیر نو کے لیے ایک رقم کا اعلان کرے جو کہ آئندہ دس سال میں افغانستان کی تعمیرنو پر خرچ کی جائے۔ اس میں جی آر آئی اور سی پیک بھی ہونا چاہیے اور جو ری کنسٹرکشن کانفرنس ہے اس کو ایک کمٹ منٹ کرنی چاہیے کہ اس قدر رقم ہم آئندہ دس سالوں میں خرچ کریں گے اور اس کی شرائط یہ ہوں گی۔
-1 اشرف غنی اور طالبان دونوں ایک سیاسی امن معاہدے پر دستخط کریں۔
-2 سارے افغانستان میں سب دھڑے سیزفائر کریں۔
-3 سارے دھڑے جنگی قیدیوں کو رہا کریں۔
-4 ایک ٹرانزیشن گورنمنٹ بنائی جائے جس میں سب دھڑوں کی نمائندگی ہو اور یہ نمائندگی زمینی حقائق کے مطابق ہو۔
-5 ٹرانزیشن گورنمنٹ کی قیادت ایسے شخص کے سپرد کی جائے جو سارے افغان دھڑوں کے لیے قابل قبول ہو۔
-6 ٹرانزیشن گورنمنٹ ایک جرگے کا اہتمام بھی کرے جس میں آئندہ طرز حکومت کے بارے میں فیصلے ہو سکیں۔ لوئی جرگہ کے فیصلوں کے مطابق ٹرانزیشن گورنمنٹ عملدرآمد کرے اور اس میں اگر الیکشن ہوتا ہے جو کہ لوئی جرگہ کا فیصلہ ہے کہ الیکشن ہونا چاہئے تو پھر ٹرانزیشن گورنمنٹ اس الیکشن کا انتظام کرے اور ایک ایسا الیکشن کرایا جائے جو افغان عوام کو قابل قبول ہو۔ ایسی شفافیت ہو جو دنیا کے لیے بھی قابل قبول ہو۔
یہ شرائط جو میں نے پیش کی ہیں یہ دونوں کانفرنسوں میں پہلو بہ پہلو چلنی چاہئیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت سب سے بڑی رکاوٹ افغانستان میں قیام امن کے لیے اشرف غنی کی حکومت ہے اور وہ پاکستان کو ہر چیز کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں اور ایسے ایسے الزامات عائد کر رہے ہیں جو حیران کن ہیں۔ لگتا ہے کہ اشرف غنی امن نہیں چاہتا اور خانہ جنگی چاہتا ہے کیونکہ اس کا فائدہ صرف خانہ جنگی میں ہے جو کہ ہندوستان بھی یہی چاہتا ہے۔ اگر اشرف غنی نے اپنے ملک کے ساتھ دشمنی کرنی ہے تو پھر وہ اس پالیسی پر ضرور کاربند رہیں اور اگر وہ اپنے ملک میں قیام امن چاہتے ہیں تو ان کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ استعفے دے دیں ورنہ ان کا حشر بھی نجیب اللہ جیسا ہوگا۔
(کالم نگار سابق وزیرخارجہ اورممتاز ماہرمعیشت ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain