تازہ تر ین

اچھے دن آئے ہیں

افضل عاجز
ہمارے وزیراعظم کی آنکھوں میں کچھ خواب ہیں مگر وہ یہ خواب جاگتی آنکھوں سے دیکھتے ہیں حالانکہ خواب دیکھنے کیلئے سونا بہت ضروری ہے اور پھر اچھے اور سچے خواب کی نشانی یہ ہے کہ وہ صبح کی اذان سے پہلے آئے تو اس کی تعبیر بھی جلد سامنے آتی ہے۔
وزیراعظم کے ارد گرد کے لوگ بھی خواب کم اور وزیراعظم کا چہرہ زیادہ دیکھتے ہیں اور پھر وزیراعظم کے چہرے کے تاثرات کے مطابق اپنا خواب بدل لیتے ہیں۔ حکومت کی تین سالہ کارکردگی کی تقریب میں جب عطا اللہ عیسیٰ خیلوی نے اپنی کانپتی ہوئی آواز اور لرزتے ہوئے ہاتھوں کے
”اچھے دن آئے ہیں“
گنگنایا تو وزیراعظم کا چہرہ خوشی سے سرخ ہو گیا۔ ہال تالیوں سے گونج اٹھا بعض سیٹوں سے اُٹھ کر بھنگڑے ڈالنے لگے اور یوں وزیراعظم کو کسی نے کانوں کان خبر بھی نہ ہونے دی کہ.اچھے دن آئے ہیں. کو سن کے سکرینوں کے سامنے بیٹھے لوگ کس طرح اپنا سینہ پیٹ کے سوال کر رہے ہیں کہ یہ اچھے دن کہاں آے ہیں….
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے عوام کیلئے ماضی میں بھی بہت برے دن آتے رہے ہیں مگراب کے کسی ایک حوالے سے بھی کہیں کوئی مثبت تبدیلی نظر نہیں آتی روز مرہ اشیائے ضرورت کی چیزوں میں مہنگائی کا طوفان آیا ہوا ہے۔ بجلی گیس پٹرول کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ نے ایک عام آدمی کو برباد کر کے رکھ دیا ہے وزیراعظم جس عام آدمی حالات بہتر بنانے کی بات کرتے ہیں حکومتی اقدامات سے سب سے زیادہ تکلیف بھی اسی عام آدمی کوہے۔ کسی بھی حکومتی ادارے میں کہیں بھی بہتری نظر نہیں آتی آپ جس ادارے میں بھی چلے جائیں رشوت کے ریٹ دگنے ہو چکے ہیں پہلے تو اداروں کے لوگ چھپا کے رشوت لیتے تھے مگر اب کھلے بندوں وصول کرتے ہوئے مزید کا تقاضا کرتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر گزشتہ ایک سال سے بیگم کے علاج کیلئے مختلف سرکاری اور نجی ہسپتالوں کے چکر لگا رہا ہوں ہسپتالوں میں جانے کے بعد معلوم ہوا کہ سرکاری ہسپتالوں میں میڈیسن تو دور کی بات کسی ڈاکٹر کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ مرض کی تشخیص کیلئے کچھ سنجیدگی دکھائے میری بیگم کو ابتدا میں گلے کی تکلیف ہوتی تو میں اسے ایک دوست ملک کے بادشاہ کے نام سے منسوب ہسپتال میں لے گیا چھ ماہ تک علاج کرنے کے باوجود وہ یہ نہ بتا سکے کہ مریض کو کیا تکلیف ہے حالانکہ وہ اس دوران درجنوں ٹیسٹ لکھ لکھ کے دیتے رہے مگر مرض کو نہ پہچان سکے یہ تو بھلا ہو ایک دوست کا جس کی مدد سے بائیو آپسی کروائی تو معلوم ہوا مریض کو گلے کا کینسر ہے سو علاج کیلئے شوکت خانم کا رخ کیا ذہن میں تھا کہ یہ ایک ایسا ادارہ ہے جہاں کسی سفارش کی ضرورت نہیں ہوتی اور یہاں غریب لوگوں کا علاج مفت ہوتا ہے مگر وہاں جا کے معلوم ہوا کہ میرا شمار ملک کے امرامیں ہوتا ہے اور پھر مجھے بتایا گیا کہ آپ کا مریض آخری سانسوں پر ہیں اسے گھر لے جاؤ اور محلے کہ کسی ڈاکٹر کے پاس لے جاؤیہاں علاج ممکن نہیں ہے۔ حیرت ہوئی اتنے بڑے اعلیٰ ہسپتال کے ڈاکٹر کسی مریض کو ایسا کیسے کہہ سکتے ہیں۔حالانکہ یہ خیراتی ادارہ ہے مگر میں سوچتا ہوں وزیراعظم جن کی والدہ محترمہ کینسر میں مبتلا ہوئیں تو انہوں نے ماں کے دکھ کو دل پہ لیتے ہوئے شوکت خانم ہسپتال کی بنیاد رکھی ان کے اس فیصلے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا اور عوام خواص نے بڑھ چڑھ کے اپنا حصہ ڈالا اور تو اور نواز شریف خاندان نے اسے ادارے کے قیام میں عمران خان کی بہت مدد کی۔ خود میں نے عمران خان کے ساتھ چندہ مہم میں حصہ لیا اور عام لوگوں کے ہاتھوں سے پیسے پکڑ پکڑ کے عمران خان کے ہاتھوں میں پکڑائے مگر مجھ سمیت ہر شخص نے یہ سب کچھ خالص انسانی خدمت کے جذبے کے تحت کیا اور ہسپتال مکمل ہوگیا۔
پچھلے دور حکومت میں کسی بھی سرکاری ہسپتال میں چلے جاتے علاج کیلئے ہر طرح کی سہولیات میسر تھیں ایمرجنسی میں درجنوں ڈاکٹر ہر وقت موجود ہوتے تھے جو چوبیس گھنٹے مریضوں کی دیکھ بھال کرتے نظر آتے علاج معالجے کی ہر سہولت میسر تھی ہسپتال داخلے کیلئے پرچی کی فیس تک نہ ہونے کے برابر تھی اکا دکا شکایت کے باوجود مجموعی طور پر اچھا ماحول تھا مگر اب صورتحال یہ ہے کہ پینا ڈول اور اسپرین تک آپ کو باہر سے خرید کے لانا پڑتی ہیں جب کہ امید تھی کہ عمران خان کے دور میں اور کچھ نہیں تو صحت کے شعبے میں بہت ترقی نظر آئے گی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا
گزشتہ دنوں میانوالی جو وزیراعظم کا آبائی ضلع اور حلقہ ہے وہاں میرے جاننے والے خاندان کی ایک خاتون کو آنکھ کے نیچے پھنسی نکل آئی جس کی وجہ سے ان کی ایک آنکھ بند ہوگئی انہوں نے میانوالی کے بڑے سرکاری ہسپتال سے رجوع کیا انہوں نے مریض کو چیک کرنے کے بعد فرمایا مریض کا یہاں علاج نا ممکن ہے لہذا اسے پنڈی یا پھر لاہور لے جاؤ اور جتنی جلدی لے جا سکتے ہو لے جاؤ یہ سن کے وہ لوگ جیسے تیسے کر کے یہاں لاہور لے آئے اورمحلے کے ایک ڈاکٹر کے علاج سے مریض تیسرے دن چنگا بھلا ہوگیااب سوال یہ ہے کہ ان ہسپتالوں کی حالت کون درست کرے گا۔
اب آخر میں کرونا ویکسین کے حوالے سے بھی دیکھ لیجیے۔پنجاب کے دیہی علاقوں میں کیا لاہور جیسے بڑے شہر میں پنجاب حکومت کی ناک کے نیچے لوگ جعلی سرٹیفکیٹ بنوا رہے ہیں عملہ پیسے لے کرنام درج کر رہا ہے اور ہزاروں لوگ عملے کی ملی بھگت اور رشوت دے کرویکسین لگوائے بغیر نام لکھوا رہے ہیں۔ان حالات کو دیکھتے ہوئے کوئی کیسے کہہ سکتا ہے
اچھے دن آئے ہیں. ….
(کالم نگارمعروف شاعر اورادیب ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain