ڈاکٹر شاہد رشیدبٹ
پاکستان تیزی سے بیلنس آف پیمنٹ کے بحران کی طرف بڑھ رہا ہے حکومت کو اس حوالے سے تیزی سے اور سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے بصورت دیگر ایک مرتبہ پھر عالمی اداروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پڑیں گے۔پاکستان کو اپنی برآمدات میں ہنگامی بنیادوں پر تیز رفتار اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔اور برآمدات بڑھانے کے لیے پاکستان کو اپنی مینو فیکچرنگ بڑھانے کی ضرورت ہے۔پاکستان کی ہمیشہ یہی کوشش ہو تی ہے کہ امریکہ اور یورپ کو اپنی برآمدات میں اضافہ کیا جائے لیکن امریکہ اور یور پ امیر اور ترقی یافتہ ہیں۔ان ممالک کی معیشتیں اب ایک حد سے زیادہ آگے نہیں بڑھ سکتی ہیں جبکہ افریقا کے 52ممالک ایسے ہیں جو کہ ابھی ترقی کی منازل سے گزر رہے ہیں۔اور ان کی معیشتوں کو درآمدات کی ضروت ہے اگر پاکستان ان 52افریقی ممالک کو اپنی برآمدات بڑھانے پر توجہ دے تو پاکستان کو بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔
پاکستان کو اپنی برآمدات بڑھانے کے لیے انفراسٹرکچر بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔خاص طور پر توانا ئی کی قیمتیں کم کرنا پڑیں گی اگر پاکستان کی صنعت کو توانا ئی کم قیمت پرملے تو پاکستان کی انڈسٹری چین اور ہندوستان کا مقابلہ کر سکے گی۔اس حوالے سے حکومت کو بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ملک میں جاری پن بجلی اور ڈیم کے منصوبے جو کہ سستی بجلی کی پیدا وار کا باعث بنتے ہیں ان کی جلد از جلد تکمیل کے لیے تمام وسائل بروے کار لانے کی ضرورت ہے۔اس وقت دنیا میں چین کی مصنوعات اس لیے چھائی ہوئیں ہیں کہ برطانیہ جیسے ملک میں بھی جو چیز برطانیہ کی بنی ہو ئی 50پونڈ میں ملتی ہے وہی چیز چین کی بنی ہوئی 5پونڈ میں دستیاب ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ چین میں توانا ئی کی قیمتیں سب سے کم ہیں۔ موجود حکومت نے لک افریقا کے نام سے اچھا منصوبہ شروع کیا تھا جس کے تحت افریقا میں پاکستان کے سفارت خانوں اور قونصلیٹ کی تعداد بڑھائی جانی تھی سفار ت خانوں میں کمرشل اتاشی لگائے جانے تھے اس کے علاوہ افر یقا کے ساتھ تجارت بڑھانے کے لیے دیگر اقدامات ہونے تھے لیکن ابھی تک اس حوالے سے کچھ بھی نہیں ہو سکا۔
افریقا میں اب تک کوئی نیا سفارت خانہ نہیں بنا۔ حکومت کو چاہیے کہ اس اہم منصوبے کو کا غذوں میں سے نکال کر عملی اقدامات کیے جا ئیں۔یہ منصوبہ پاکستا ن کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ دنیا کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے،اگلے سال یہ 8ارب سے تجاوز کر جائے گی۔ہمارے ہاں زرعی زمین کے اوپر تعمیرات کی جا رہی ہیں۔زرعی زمین جس نے آبادی کوخوراک دینا ہے اس کی کمی بہت بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔اس حوالے سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان سمیت دنیا میں آنے والے سالوں میں خوراک کی کمی بڑا مسئلہ ہو گا۔برطانیہ میں کسی بھی شخص کو ایک انچ زمین پر بھی بغیر اجازت تعمیرات کرنے کی اجازت نہیں ہے اگر کوئی کر لے تو اس کو 1000پونڈ جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں بھی اس حوالے سے سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے۔ میں مانتا ہوں کہ دنیا بھر میں اجناس کی قیمتیں بہت بڑھ گئیں ہیں،لیکن پاکستان میں مہنگائی پرحکومت کا موثر کنٹرول نہ ہونے کے باعث بھی ہے،حکومت کومقامی سطح پر بھی مہنگائی کے عوامل پر بھی توجہ دینی چاہیے۔حکومت کو ہر علاقے کے لیے الگ سے پرائس مجسٹریٹ مقرر کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی ریاست کے چار بنیادی اصول ہوا کرتے ہیں جن پر وہ ریاست کھڑی ہو تی ہے۔اور ان اصولوں میں علاقہ،آبادی،حکومت اور آزادی شامل ہیں جن ریاستوں کے یہ چار بنیادی عوا مل میں سے کوئی بھی کمزور ہو وہ ایک ناکام ریاست تصور ہو تی ہے۔پاکستان کو ہر صورت میں اپنے غیر پیدا واری اخراجات میں فوری کمی لانے کی ضرورت ہے کیونکہ ان کے بغیر حکومت چل نہیں سکتی ہے۔ملک ترقی نہیں کر سکتا ہے حکومت کو تمام تر وسائل کا رخ ملک کی پیدا وار بڑھانے پر موڑ دینا چاہیے یہی ایک طریقہ ہے جس سے پاکستان ترقی کر سکتا ہے اور معیشت مضبوط ہوسکتی ہے۔ سی پیک پاکستان کی معیشت کے لیے نہایت ہی اہم منصوبہ ہے حکومت کو اس منصوبے کی جلد از جلد تکمیل کے حوالے سے توجہ دینی چاہیے،یہ منصوبہ پاکستان کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے،میں یہاں پر یہ خصوصی طور پر کہنا چاہوں گا کہ سی پیک کے تحت بنائے جانے والے خصوصی اقتصادی زونز پر جلد از جلد کام مکمل ہونا چاہیے تاکہ پاکستان کی برآمدات کو بڑھایا جاسکے۔
ایف بی آر سمیت دیگر اہم اداروں میں اصلاحات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔اصلاحات سے ہی پا ئیدار بنیادوں پر پاکستان کی معیشت میں استحکام ممکن ہے۔ عالمی ما لیاتی اداروں کی سخت شرائط پوری کرنے کے لیے عوام پر بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اور ٹیکسوں کا مزید بوجھ ڈالنا کسی صورت دانش مندی نہیں ہے۔حکومت عوام کے ووٹ سے منتخب ہو تی ہے اس کی ذمہ داری صرف عالمی اداروں کی شرائط ماننا ہی نہیں بلکہ اپنے عوام کے مفادات کا تحفظ بھی شامل ہے۔حکومت کو اس طرف توجہ دینا ہو گی پاکستان کے عوام ابھی تک کرونا وائرس اور روپے کی گرتی ہو ئی قدر کے جھٹکے سے پوری طرح سنبھل نہیں سکے ہیں اور مہنگائی یہ نیا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہے۔ملک کی معاشی خود مختاری کا تحفظ کیا جانا چاہیے، ورنہ مہنگائی کا ایک نیا طوفان عوام کا منتظر ہے۔
آرڈننس کے ذریعے قوانین کا اطلاق کوئی اچھی روایت نہیں ہے اور خاص طور پر ایسے قوانین جن کے ملکی معیشت پر دور رس نتائج مرتب ہو سکتے ہیں،ایسے بڑے قومی مسائل پر حکومت کو تمام جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیے،اور پارلیمان سے مشترکہ طور پر قانون سازی کی جانی چاہیے،اگر اسٹیٹ بینک کو مکمل طورپر خود مختیار بنانا ملکی مفاد میں ہے تو آرڈیننس منظور کروانے کی بجائے پارلیمان کو اس حوالے سے اعتماد میں لیا جائے۔ حکومت کی جانب سے تعمیراتی شعبے کو دی جانے والی مرا عات اور ریلیف پیکج بہت خوش آ ئند ہے تعمیراتی شعبے کو دیے جانے والے ریلیف پیکج کے ملکی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہو ئے ہیں۔لیکن متعلقہ اداروں کی جانب سے اس پیکج میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں جو کہ وزیر اعظم کے ویژن کے سراسر بر عکس ہیں،اور اداروں کے اس رویے کے باعث ملکی اور غیر ملکی سرمایہ دار مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں،اس صو رتحال کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کی جانب سے دیے جانے والے کنسٹریکشن پیکج سے معیشت کو فائدہ ہوا ہے لیکن اتنا فائدہ نہیں ہوا جتنا کہ ہونا چاہیے تھا۔اسلام آباد شہر کی بات کی جائے تو اسلام آباد شہر کے مضافاتی علاقوں میں کافی نئی تعمیرات ہوئی ہیں۔لیکن اس حوالے سے یہ بھی کہوں گا کہ کافی لوگوں نے اس پیکج کو اپنا بلیک منی وائٹ کرنے کے لیے بھی استعمال کیا ہے۔
(سابق صدر اسلام آباد چیمبر آف کامرس ہیں)
٭……٭……٭