تازہ تر ین

ڈینگی بخار اوربچاؤ کی تدابیر

مریم ارشد
آج کل ملک بھر میں ڈینگی مچھر کے حملے شدت سے جاری ہیں۔ میں نے سوچا اس پہ تحقیق کرکے اپنے ہم وطنوں کو چند معلومات بہم پہنچائیں جائیں تاکہ قومی سطح پر اس کا تدراک ہوسکے۔ ڈینگی بخار ایک وبائی مرض ہے جو مچھر سے منتقل ہوتا ہے اس کو ہڈی توڑ بخار بھی کہتے ہیں کیوں کہ یہ جوڑوں اور پٹھوں میں شدید درد کا باعث بن سکتا ہے۔ ڈینگی مادہ ایڈسAdes مچھر سے منتقل ہوتا ہے۔ چونکہ اس کی کوئی ویکسین دستیاب نہیں ہے، احتیاط ہی بہترین علاج ہے۔
ڈینگی بہت سی وائرس سے پھیلنے والی بیماریوں میں سے ایک ہے جس کو مچھر منتقل کرتا ہے۔ عام طور پر بیماری دھما کہ خیز وبائی امراض کی طرح پھوٹتی ہے جو حیران کن تیزی سے پھیلتی ہے۔ جس طرح اس کے پھیلاؤ کو 2011 ء میں لاہور میں دیکھا گیا۔ یہ بیماری دنیا کے تمام گرم حصّوں مثلاً پاکستان، بھارت، سری لنکا، بنگلہ دیش، وسطی افریقا‘ وسطی امریکہ اور چین کو متاثر کر چکی ہے۔ ڈینگی بندروں کی بیماری ہے جو اُن میں جنگلات میں رہنے والے مچھروں سے منتقل ہوئی۔بیسوی صدی کے وسط تک ڈینگی جغرافیائی طور پر محدود تھا۔ یہ نسبتاً ایک چھوٹی موٹی بیماری تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران ایڈس مچھر کے انڈے بحری / ہوائی جہازوں کی کھیپ میں دنیا بھر میں پہنچ گئے اور خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے وائرس کے پھیلاؤ میں انتہائی اہم کردار اادا کیا ہے۔ وائرس سے متاثرہ مچھر کے کاٹنے کے بعد مریض میں مرض کی علامات ظاہر ہونے سے پہلے وائرس کو نشوونما پانے کے لیے چار سے سات دن کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔
چلئے ڈینگی بخار کی مختلف اقسام کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ڈینگی بخار ایسا بخارہے جس کی علامات اچھی طرح قابل شناخت نہ ہوں۔ ایسا بخار جس میں خون آنا شروع ہو جائے۔ایسا بخار جس میں ڈینگی مریض صدمے کی حالت میں جا پہنچے درجہ حرارت 102 فارن ہیٹ سے بڑھ جاتا ہے۔ جس میں متلی اور قے کے ساتھ شدید سر درد، کمر درد، آنکھوں کے پیچھیدرد اور جوڑوں میں درد ہوتا ہے۔ یہ پانچ فیصد سے بھی کم مریضوں کو ہوتا ہے جس میں بخار کے ساتھ سفید خلیوں کی بہت زیادہ سفید رطوبت بھی نکلتی ہے۔ بہت کم مریضوں کے ناک اور مسوڑھوں سے خون نکلنا شروع ہو جاتا ہے جلد پر خون کے دھبے نمودار ہوتے ہیں۔ دل کی دھڑکن میں کمی آسکتی ہے۔ نبض کی رفتار دھیمی ہو سکتی ہے اور بہت زیادہ سردی محسوس ہو سکتی ہے۔ سفید خلیوں اورپلیٹ لیٹس میں تیزی سے کمی آجاتی ہے۔ جب مریض صدمے میں چلا جاتا ہے تو اُسے ڈینگی شاک سنڈ روم ہو جاتا ہے۔DHF اور DSS کے مریضوں کو ہسپتال کی کڑی مانیٹرنگ اور انتہائی نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ خون کا مکمل تخمینہ بنیادی تشخیصی ٹیسٹ ہوتا ہے جو خون کے فی یونٹ حجم میں خون کے سرخ خلیوں سفید خلیوں اور پلیٹ لیٹس کی تعداد کو ظاہر کرتا ہے۔ ایڈس مچھرسے ڈینگی وائرس پھیلتاہے یہ سیاہ رنگ کا ہوتا ہے(سائز10 ملی میٹر تک) اس کے جسم اور ٹانگوں پر سفید دھبے ہوتے ہیں اور اس کے پَر چمکدار ہوتے ہیں۔ دونوں نراور مادہ پودوں کے شیریں سیال پر پلتے ہیں لیکن صرف مادہ مچھرہی انسان کو کاٹ سکتا ہے کیوں کہ اس کے مُنہ کی بناوٹ میں خون چوسنے کے لیے نوکیلا آلہ بنا ہوتا ہے۔ مادہ کو انڈے دینے کے لیے خون چوسنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایڈس مچھر صاف پانی میں پرورش پاتے ہیں جو قدرتیطور پر اور مختلف برتنوں میں جمع ہو سکتا ہے۔ قدرتی کنٹیز میں درختوں کے سوراخ، بانس کی اندرونی گانٹھیں اور پتے شامل ہیں جبکہ مصنوعی کنٹیز میں پھینکی ہوئی بوتلیں، خوراک کے ڈبّے، آئس کریم کپ، برتن وغیرہ شامل ہیں۔ ناکارہ آلات (گھریلو استعمال کی مشینیں وغیرہ)، ردّی ٹائر، ناکارہ کاریں، کشتیاں، برتن، آلات، بالٹیاں، روم کولر، روغن کے ڈبّے ٹوٹی ہوئی باڑوں میں سوراخ، چھتیں، فرش، پانی جمع کرنے کے ٹینک، نالیاں، مرتبان پراتیں اور بالٹیاں مچھروں کی موافق پرورش پانے کی جگہیں ہیں۔ المختصر ہمیں پانی کے اکٹھا ہونے کے ہر امکان کو کم کر دینا چاہیے۔
اس مرض کی روک تھام کے لیے مختلف احتیاطی تدابیر مختلف سطحوں پر اختیار کی جائیں۔ لوگ وہ کپڑے پہن کر جو اُن کی جلد کو پوری طرح ڈھانپتے ہوں مچھر کے کاٹنے کو روک سکتے ہیں۔گرما میں مچھر دانیاں استعمال کریں جن پر جراثیم کش ادویات کا چھڑکاؤ ہوا ہو۔ مچھر بھگاؤ لوشن استعمال کریں۔گھر کے ہر حصّے، فرنیچر کے نیچے، پردوں کے پیچھے، تاریک کونوں، سٹور میں ضمنی اثرات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے سپرے کرنا چاہیے، تاکہ مچھروں کی آرام گاہیں ختم ہو سکیں۔گھر کے گردو نواح کو صاف رکھنا چاہیے۔ کوڑے یا ٹھوس ردّی چیزوں کو کسی جگہ پر جمع نہیں ہونے دینا چاہیے۔لاروے مار ادویات کا سپرے عمل میں لانا چاہیے۔ ڈینگی بخار کے بارے میں آگاہی میں اضافہ کر کے وبائی امراض کو روکا جا سکتا ہے۔ کمیونٹی کی مربوط عمدہ کوششوں سے اس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔آگاہی کا پیغام عوام النّاس کو پرنٹ الیکٹرونک میڈیا، ریڈیو، ٹی۔ وی، اخبارات وغیرہ کے ذریعہ دیا جا سکتا ہے۔ مساجد کے خطیبوں کو اپنی تقاریر کے ذریعے اس پیغام کو عوام تک پہنچانا چاہیے۔
(کالم نگارقومی وسماجی ایشوزپرلکھتی ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain