امریکی کمیشن بین الاقوامی مذہبی آزادی نے بھارت کو بلیک لسٹ کرنے کی سفارش کردی

ملتان ( جنرل رپورٹر ) امریکی کمیشن برائے بین الا قوامی مذہبی آزادی یونائٹیڈ سٹیٹس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیسس فریڈم / یو ایس سی آئی ایف نے بھارت کو بلیک لسٹ ممالک کی فہرست میں رکھنے کی سفارش کی ہے کیونکہ وہاں دوسرے مذاہب کے لوگوں کو آزادی حاصل نہیں ہے اور وہ خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں۔ کمیشن نے اپنی سالانہ رپورٹ 2021ءمیں امریکی صدر اور امریکی کانگریس کو سفارش کی ہے کہ بھارت کو دوسرے سال بھی بلیک لسٹ کیا جائے کیونکہ وہاں مذہبی آزادی کی مسلسل خلاف ورزی کی جا رہی ہے جس پر دنیا بھر میں
تشویش پائی جاتی ہے۔ رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ امریکن سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکسن بھارتی حکومتی اداروں اور افسران و اہلکاروں پر پابندی عائد کریں کیونکہ بھارت میں مذہبی آزادی کی سنگین خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں۔ کمیشن نے تجویز دی ہے کہ مذہبی انتہا پسند جو مسلمانوں سمیت مختلف مذاہب کے لوگوں کی آزادی سلب کرنے کا سبب ہیں ان پر امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کی جائے اور ان کے اثاثے منجمد کئے جائیں۔ جب سے بھارت میں نریندر مودی کی حکومت آئی ہے ہندو قوم پرستوں نے دوسرے مذاہب کے لوگوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ہے اور ان کی مذہبی آزادی کو سلب کر لیا ہے۔ کمیشن کی چیئرپرسن ندائن مینز ( Nadine Maenza ) نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ بھارت میں مذہبی آزادی کے حوالے سے صورتحال دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے۔ مسلمانوں سمیت دوسری اقلیتوں پر حملے کئے جا رہے ہیں ۔ گزشتہ دنوں تری پورہ میں مسلمانوں کو نماز جمعہ ادا نہیں کرنے دی گئی۔

این سی او سی کا 60 فیصد ویکسی نیشن والے شہروں سے پابندیاں اٹھانے کا فیصلہ

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی)نے کورونا ویکسی نیشن میں کارکردگی دکھانے والے شہروں میں معاملات زندگی درجہ بدرجہ معمول پر لانے کا فیصلہ کر لیا جس کے تحت 60فیصد ویکسی نیشن والے شہروں سے پابندیاں اٹھانے کا اعلان کیا گیا ہے، تفصیلات کے مطابق ہفتہ کو این سی او سی کے سربراہ اسد عمر کی سربراہی میں اجلاس ہوا جس میں ملک میں کورونا اور شہروں میں ویکسی نیشن کی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا گیا،این سی او سی کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق ویکسی نیشن میں کارکردگی دکھانے والے شہرں میں معاملات زندگی درجہ بدرجہ معمول پر لانے کا فیصلہ کیا گیا ،اعلامیے کے مطابق اسلام آباد، منڈی بہاﺅالدین، گلگت اور میرپور 60فیصد آبادی کو ویکسین لگانے پر بہترین شہر قرار دیا گیا جب کہ 40سے 60 فیصد آبادی کوویکسین لگانے پر راولپنڈی، اسکردو، ہنزہ، باغ، بھمبر، جہلم، پشاور، غذر اور کھرمنگ کو بھی ویکسین شدہ شہر قرار دیا گیا ،اس کے علاوہ دیگر شہروں میں 40 فیصد آبادی کی کم ویکسی نیشن کے باعث ویکسین کی شرح کم قرار دی گئی ، بہترین ویکسین شدہ شہروں میں اجتماعات اور شادی بیاہ میں نافذ پابندیاں ہٹادی گئیں جب کہ ان شہروں میں اسپورٹس گراونڈز، تجارت، ان ڈور ڈائننگ اور کاروبار سے بھی پابندیاں اٹھالی گئیں،این سی او سی کے مطابق بہترین ویکسین شدہ شہروں میں اندرون، بین الاضلاعی سفر میں مسافروں کی تعداد 100فیصد کردی گئی جب کہ کم ویکسین شدہ شہروں میں مسافروں کی تعداد کو 80فیصد تک رکھا گیا ہے ، کم ویکسین شدہ شہروں میں اجتماعات، شادی بیاہ اور اسپورٹس گراﺅنڈز میں پابندیاں 15نومبر تک رہیں گی، ان شہروں میں تجارت،کاروبار، ان ڈورڈائننگ، سنیما،جم، مزارات اور ٹرانسپورٹ سیکٹر میں پابندیاں رہیں گے،کم ویکسین شدہ شہروں میں عوامی اجتماعات بالترتیب 500،300تک برقراررکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جب کہ تمام سہولیات کا تسلسل مکمل ویکسین لگوانے اور ماسک کے لازمی استعمال سے مشروط ہے،این سی او سی کا کہنا تھا کہ 12نومبر کو ہونے والے اجلاس میں فیصلوں پر نظر ثانی کی جائے گی۔

40 ہزار کلو سرکاری سستی چینی برآمد، گودام سیل غریب کے لئے سستی کی گئی چینی مل مالکان لے اڑے ایس ایم فوڈز کے سپلائر ،یوٹیلیٹی اسٹورز، اعلیٰ افسران کیخلاف شکنجہ تیار

ملتان (خبر نگار خصوصی) گیس چوری سے لیکرغریبوں کیلئے ملنے والی چینی اور ویجیٹیبل گھی اور کوکنگ آئل استعمال کر کے مختصر عرصے میں ارب پتی بننے والے ایس ایم فوڈ کے مالک چوہدری ذوالفقار انجم حالیہ چوری پکڑی گئی۔ڈ پٹی کمشنر ملتان عامر کریم خان کی ہدایت پر ضلعی انتظامیہ نے عوام کے لئے امپورٹ کی گئی سستی چینی کی ایک بڑی کھیپ اس کی فیکٹری میں اتارتے ہوئے پکڑ لی اور ایک ملزم کو موقع پر گرفتار کر لیا گیا۔ یہ چھاپا اسسٹنٹ کمشنر سٹی خواجہ عمیر محمود کی سرکردگی میں میں نیو سینٹرل جیل ملتان کے قریب واقع ایسایم فوڈ کی بسکٹ فیکٹری مارا گیا اور40ہزار کلوسرکاری امپورٹیڈ چینی برآمد کر لی گئی جس کے بارے میں فیکٹری کا عملا تسلی بخش جواب نہ دے سکا ۔ضلعی انتظامیہ کے مطابق اس امپورٹیڈ چینی کی مالیت 35 لاکھ روپے بتائی جاتی ہے۔ بعد ازاں ڈپٹی کمشنر ملتان کے حکم پر پر چینی مافیا کی سپلائی چین کو ٹریس کرنے کے لئے اے سی سٹی نے فوری کارروائی کرتے ہوئے گلہ منڈی میںبھی چھاپہ مار اور بسکٹ فیکٹری کو چینی سپلائی کرنے والے ڈیلر کا گودام بھی سر بمہر کر دیا گیا ہے تاہم کاروائی کے دوران ڈیلرمیاں محمد شکیل موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تاہم ضلعی انتظامیہ نے حاجی خورشید اینڈ سنز کے نام سے قائم میاں شکیل کی آڑھت کو بھیسیل کر کے قانونی کاروائی کا آغاز کردیا کیا ہے اس موقع پر اسسٹنٹ کمشنرسٹی خواجہ عمیر محمود نے بتایا کہ ڈیلر میاں محمدشکیل جو چودھری ذوالفقارانجم کا دست راست بتایا جاتا ہے نے غیر قانونی طور پر پر ایس ایم فوڈ کو 725 بوری چینی فراہم کی۔بعد ازاں ڈپٹی کمشنرعامر کریم خان نے کہا کہ حکومت نے غریبوں کے لئے لئے جوچینی درآمدکی ہے تاکہ انہیں ریلیف مل سکے ۔ اس کا ایک ایک دانہ مستحقین تک پہنچایا جائے گا۔ اعوام کے حق پر ڈاکہ ڈالنے والے جے اور اپنی تجوریاں بھرنے کے لئے غریبوں پر شب خون مارنے والے اب سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔ان نے خلاف فوجداری مقدمات درج کرائے جارہے ہیں انہوں نے کہا کہ اس گینگ میں شامل تمام با اثر افراد کے خلافکاروائی کی جائے گی۔

سچے لوگوں کی تلاش

ڈاکٹرعبدالقادر مشتاق
قرآن کریم کہتا ہے کہ خدا سے ڈرو، تقویٰ اختیار کرو اور سچے لوگوں کے ساتھ مل جاو۔ کائنات کا مالک اور اقتدار کا مرکز و محور خدا کی ذات ہے۔ اس کو مالک ماننا اور اس کے آگے سربسجود ہو کر گناہوں پر معافی کا طلبگار ہونا اور اس کی نعمتوں پر اس کا شکرگزار ہونا ہی اصل میں مذہب ربانی ہے۔ دل میں خوف خدا کو بیدار رکھنا اور گناہوں سے بچنا ہی تقویٰ ہے۔ انا وہ بیماری ہے جو براہ راست دل پر حملہ کرتی ہے۔ دنیاوی بودوباش اور واہ واہ کا کلچر اس بیماری کی آبیاری کرتا ہے۔ جس سے دل کمزور ہوتا جاتا ہے اور بیماری جڑ پکڑتی جاتی ہے۔ اس بیماری کا علاج ڈاکٹر کے پاس نہیں ہوتا۔ کیونکہ اس بیماری کا تعلق باطن سے ہوتا ہے ظاہر سے نہیں۔ ایم بی بی ایس ڈاکٹر ظاہر سے تعلق رکھنے والی بیماریوں کا علاج کر سکتا ہے۔ اس سے یہ واضح ہوا کہ انسان کے پاس دو جہاں ہیں ایک اس کے باہر کا اور ایک اس کے اندر کا۔ جن کو باہر کے جہاں کی فکر ہوتی ہے ان کو اہل ظاہر کہا جاتا ہے۔ جو اپنے اندر کی دنیا آباد کرنے کے چکر میں ہوتے ہیں ان کو اہل باطن کہا جاتا ہے۔ اہل ظاہر اگر سب نیک کام بھی کرتے ہوں اور ان نیکیوں کا اثر باطن پر نہ ہو تو وہ نیکیاں ریاکاری میں آ جاتی ہیں۔ اب ظاہر کے ساتھ ساتھ باطن کی صفائی ستھرائی بھی ضروری ہے۔ باطن کو لگنے والی بیماری کے علاج کے لئے ضروری ہے کہ سچے لوگوں کے ساتھ رہا جائے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ سچے لوگ کون ہوتے ہیں؟
میرے خیال میں سچے لوگ وہ نہیں ہوتے جو سچے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ بلکہ وہ ہوتے ہیں جو اپنی ذات کی نفی کرتے ہیں۔ ان کے پاس علم کا سمندر ہوتا ہے لیکن وہ پھر بھی اپنے آپ کو طالب علم سمجھتے ہیں، ان کے پاس خدا کی عطا کی ہوئی طاقت ہوتی ہے لیکن وہ طاقت کے نشے میں اندھے نہیں ہوتے، وہ عارف ہوتے ہیں علم کا سمندر پی جاتے ہیں لیکن چھلکتے نہیں۔ لوگ ان کو اذیتیں دیتے ہیں لیکن وہ خدا سے ان کے لئے ہدایت کے طالب ہوتے ہیں۔ یہ خدا کے برگزیدہ لوگ ہوتے ہیں جو خدا کی رضا اور خوشنودی میں اپنی خوشیاں تلاش کرتے ہیں۔ ایسے خدا کے نبی ہوتے ہیں، خدا کے نبی کے ساتھی ہوتے ہیں، اولیا اللہ ہوتے ہیں۔ قرآن کریم نے ان لوگوں کو سچا کہا ہے۔ یہ لوگ باطن کی بیماریوں کے ڈاکٹر ہوتے ہیں۔ جن لوگوں کا یہ علاج کرتے ہیں وہ وقت کے قطب اور ابدال بن جاتے ہیں۔ جن سے نکلنے والی روشنی سے بہت سے اور لوگوں کے دلوں کا آپریشن ہوتا ہے۔ یہ شعاعیں دل میں انا اور میں کے پتھروں کو ریزہ ریزہ کر دیتی ہیں۔ جس سے انسان کے دل میں بہت خوبصورت پودے اگتے ہیں۔ ان میں پہلا پودا خدا کی محبت کے پھلوں سے بھر جاتا ہے۔ دوسرا پودا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق سے سرشار ہوتا ہے۔ تیسرا پودا خدا کی مخلوق کی خدمت کے جذبے سے اپنے پتوں کو جھکا چکا ہوتا ہے۔ اس دنیا میں محبت، عشق اور خدمت کے پودے ہوتے ہیں اور جو ان کے پھل کھا لیتے ہیں وہ پھر ساری عمر نعرہ لگاتے ہیں کہ میں ناہیں سب توں۔ کوئی ان سے اس زندگی کا راز پوچھتا ہے تو وہ کہتے ہیں
میں نوں مار کے منج کر، نکی کر کے کٹ
بھرے خزانے رب دے، جو بھاویں سو لٹ
بابا فرید جیسا بزرگ پکار اٹھتا ہے کہ
اٹھ فریدا ستیا تو جھاڑو دے مسیت
تو ستا رب جاگدا تیری ڈاھڈے نال پریت
پریت لگ جائے تو پھر آنکھ نہیں لگتی۔ کوئی اللہ والا پکار پکار کہتا ہے کہ
لگی والیاں دی اکھ نہیں لگدی
تیری نی کیویں اکھ لگ گئی
امیر خسرو کی ساری کی ساری شاعری ہی اسی فلسفے کے گرد گھومتی ہے۔ ان کا فارسی میں کلام ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ “میں اس کے چہرے کا غلام ہوں، اسکی خوشبو کا اسیر ہوں، اس کے کوچے کا غبار ہوں، اور میں نہیں جانتا کہ کہاں جا رہا ہوں “۔ عشق ومستی کی کیا خوب کیفیت ہے امیر خسرو کے ہاں۔ کہتے ہیں کہ
خدا خود میر مجلس بود، اندر لامکاں خسرو
محمد شمع محفل بود، شب جائے کہ من بودم
بابا بلھے شاہ جب اس منزل پر پہنچتے ہیں تو کہہ اٹھتے ہیں کہ
رانجھا رانجھا کر دی نیں میں آپے رانجھا ہوئی
سدو نیں مینوں دیدو رانجھا ہیر نہ آکھو کوئی
اللہ کے سچے لوگوں کی باتیں بھی عشق ومستی والی ہوتی ہیں اور عشق ومستی نام ہے کیفیت کا۔ یہ کیفیت تقویٰ سے آگے کی منزل ہے جس میں خوف نہیں ہے۔ محبت خوف سے بالاتر ہے۔ اس محبت کو پانے کے لئے سچے لوگوں کی تلاش ضروری ہے۔ مریض ڈاکٹر کے پاس چل کر جاتا ہے ڈاکٹر مریض کے پاس نہیں۔ اگر اس پر اعتراض کرنے والے میرے کالم کو پڑھ کر یہ کہیں کہ یہ کیسی تحریر جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تو ان کو پھر صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ تو نے حقیقت کو سمجھا ہی نہیں، تو نے حقیقت کو جانا ہی نہیں۔ دوسرا اعتراض یہ ہو گا کہ کیا آج کے دور میں ایسے عشق ومستی والے لوگ ملتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مریض کو بیماری لگ چکی ہے لیکن وہ بے چینی میں مبتلا ہے کیونکہ اس کی اصل بیماری کی تشخیص نہیں ہو پا رہی۔ وہ جن ڈاکٹروں سے علاج کرواتا ہے وہ اس بیماری کے ڈاکٹر ہی نہیں۔ اب بیماری کے لئے اصل ڈاکٹر کی تلاش تو کرنی پڑے گی۔ جب تک تلاش نہیں کرو گے اس وقت تک کچھ حاصل نہیں ہونے والا۔ کیونکہ تلاش میں ہی سب کچھ ہے۔ خدا کہتا ہے کہ میری عبادت کرو اور روزی کی تلاش میں نکل پڑو۔ رزق کا تو خدا نے وعدہ کیا ہوا ہے پھر تلاش کیوں؟ اس نے رزق بھی کسی کے وسیلے سے آپ تک پہنچانا ہے۔ خدا ہمارے لئے آسانیاں پیدا کرے اور ہمیں دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کی توفیق دے۔
(کالم نگار جی سی یونیورسٹی فیصل آبادکے
شعبہ ہسٹری کے چیئرمین ہیں)
٭……٭……٭

در کھل جائے

محمد صغیر قمر
دل کی دنیا زیر و زبر ہے۔کچھ برس یوں ہی گزر گئے آج مکہ المکرمہ یاد آیا اور بے پناہ یاد آیا۔میرے اور مکہ المکرمہ کے درمیان کئی برس ہوئے ”حاضری“ کا پروانہ کھڑا ہے۔جب بھی مکہ المکرمہ گیا اس کی سنگلاخ زمینوں میں انجان راہوں پر بچھڑے لمحے تلاش کرتا،اپنے زخموں کو کریدتا اور تازہ کرتا۔آخری بار میں مکہ شہر سے باہر وہ گھاٹی تلاش کرتا رہا۔ جہاں آل یاسر کی مصیبتوں نے چشم فلک کو نم ناک کر دیا تھا۔ دعوت اسلامی کے وہی پر آشوب دن تھے جب مکہ کی فضا میں ہر جانب ستم گر مٹھی بھر اسلام پرستوں کو مٹانے کو نکل آئے تھے۔آل یاسر یمن سے نکلے تھے حضرت یاسر ؓ کے ایک بھائی کہیں کھو گئے تھے۔ انہیں تلاش کرتے وہ مکہ مکرمہ آئے گئے۔ تب ان کے ہمراہ دو بھائی بھی آئے تھے۔ جو جلد ہی واپس یمن چلے گئے۔ انہوں نے یہاں مکہ میں ہی شادی کر لی۔ ان کے بیٹے عمار اسلام کے اولین فدائیوں میں شامل ہو گئے۔ مکہ میں ان کا کوئی اور رشتہ دارنہیں تھا اس لیے قریش نے اکیلا جان کر انہیں خوب اذیت دی دکھ محض یہ تھا کہ ان کے جھوٹے خداؤں کا مستقبل خطرے میں تھا۔ قریش انہیں شدید تشدد کا نشانہ بناتے‘ جلتی تپتی ریت پر لٹاتے یہاں تک کہ وہ بے ہوش ہو جاتے۔ ان کے والد حضرت یاسر ؓ اور والدہ حضرت سمیہ ؓ پر بھی ایسی ہی طبع آزمائی کی جاتی۔ اسی مشق ستم کے دوران حضرت سمیہؓ کو انتہائی وحشیانہ طریقے کے ساتھ ابو جہل نے سینے میں برچھی ماری اور وہ شہید ہو گئیں۔تب حضرت عمارؓ بھی قریش کی اذیت کا شکار تھے ان کی والدہ کو اسلام کی پہلی شہیدہ ہونے کا تا ابد اعزاز مل گیا۔
عمارؓ کو غلام بنا لیا گیا تھا لیکن وہ غلاموں کی نسل سے ہر گز تعلق نہیں رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سربلند کر کے نام نہاد آقاؤں کو دیکھتے تو ان کے سینوں پر سانپ لوٹنے لگتے تھے۔ یہ کیسے آقا تھے جن کو ایک غلام نظر بھر کر دیکھتا تو انہیں اپنے قدموں کے نیچے سے زمین سرکتی ہوئی محسوس ہوتی۔ ایک بار یہ آقا انہیں گرفتار کر کے لائے اور دیوار کے ساتھ کھڑکر دیا۔ ابو سفیان چیخا۔
”محمدؐ تمہیں کیا سکھاتے ہیں؟“
”وہ فرماتے ہیں اللہ کے نزدیک سب انسان مساوی ہیں۔ ایسے جسے کنگھے کے دندانے“عمارؓ کا جواب بھی ویسا دبنگ تھا۔
امیہ‘ ابو سفیان اور بڑے بڑے سردار جو وہاں موجود تھے حضرت عمارؓ کا یہ جواب سن کر لال پیلا ہو گئے۔ اس ایک جواب نے ان کی صدیوں سے قائم سرداری کی عمارت کو بنیادوں تک ہلا دیا تھا۔ امیہ نے سرخ چہرے اور ابلتی آنکھوں سے ان پر جھپٹنے کی کوشش کی عمار اسی طرح استقامت سے کھڑے تھے۔ وہ بولے۔
”محمدؐ ہمیں یہ بھی سکھاتے ہیں کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔“
ابو سفیان کی نرم خوئی جاتی رہی اس کے چہرے پر سفاکی اور رعونت در آئی۔ چیخ کر بولا۔
”یہ کیسے ممکن ہے؟ محمد ؐ کو احساس نہیں کہ ہم مکے میں خداؤں کو گھر دیتے ہیں‘یہاں ہرقبیلے کا الگ خدا ہے۔ہم ان قبیلوں کو سہولت دیتے ہیں۔ یہی ”خدا“ ہمارے معبود اور کمائی کا ذریعہ بھی ہیں۔“ یہ کہہ کر وہ پھر عمار ؓ سے مخاطب ہوا۔
”کیا ہم غریبوں اور کمزوروں کی سر پرستی نہیں کرتے۔“
ابو سفیان کو عمارؓ کی بات سمجھ نہیں آ رہی تھی وہ بڑبڑایا۔
”اگر تم تین سو ساٹھ خداؤں کو نہیں مانو گے‘ صرف ایک خدا کو ماننے لگو گے جو تمہارے خیال میں ہر جگہ موجود ہے‘ تو پھر بتاؤ یہاں مکہ میں کون اور کیوں آ ئے گا؟ جب اسے طائف میں یروشلم میں ہرجگہ خدا میسر آ جائے گا تو پھر مکہ کی اہمیت کیا رہے گی؟“مکہ کے سرداروں کو بس فکر تھی تو یہ کہ محمدؐ جو بات کہتے ہیں وہ لوگوں کو اپیل کرتی ہے جس کی وجہ سے مکہ کا جما جمایا سرداری نظام زمین بوس ہو رہا تھا۔ خدشہ تھا کہ کمائی اور روز گار کے تمام ذرائع ختم ہو کر رہ جائیں گے۔
عمارؓ کی باتیں ان کے نزدیک بغاوت تھیں چنانچہ امیہ اور ابو سفیان دانت پیستے ہوئے آگے بڑھے۔امیہ نے چیخ کر کہا۔
”تم کہتے کہ تمام انسان برابر ہیں۔“ ”ہاں“ عمارؓ نے جرات سے کہا۔
امیہ آگے بڑھا اور اپنے غلام بلال ؓ کے پاس کھڑے ہو کر پوچھا۔
”پھر یہ سیاہ فام بلال جسے میں نے قیمتاً خریداہے کیا میرے برابر ہے“
امیہ اور ابو سفیان کا خیال تھا کہ وہ بہت وزنی دلائل دے رہے ہیں وہ بزعم خود بڑے فلسفی تھے۔ اس سوال کے بعد وہ یقین رکھتے تھے کہ عمارؓ کے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا لیکن عمار ؓ ایک لمحے کے لیے بھی ڈگمگائے بغیر بولے۔
”ہاں! محمدؐ تو کہتے ہیں کہ اللہ کے نزدیک تمام انسان برابر ہیں خواہ وہ کسی رنگ یا نسل کے ہوں۔“
یہ مسافر چشم تصور سے دیکھ رہا ہے۔ مکہ کی کسی گھاٹی کا وہ منظر …… جہاں بلال ؓ کی غلامی کا آخری دن طلوع ہو چکا تھا۔ امیہ کی آنکھوں سے شرارے نکل رہے تھے اس کا چہرہ سرخ تھا اور ہاتھ میں کوڑا لہراتے ہوئے آگے بڑھا اس نے کوڑا بلال ؓ کو تھمایا اور حکم دیا۔
”اس کو مار مار کر سبق سکھا دو۔ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ مکہ کے ایک سردار اور غلام میں کیا فرق ہوتا ہے؟“
لمحے تھم گئے۔ مکہ کی سرزمین پرایک غلام بغاوت کے لیے ڈٹ گیا۔ امیہ نے کوڑا بلال ؓ کو تھمایا تھا انہوں نے چند ثانیے عمارؓ کو دیکھا تب ان کے اندر کی دنیا بدل گئی تھی۔ امیہ کی غلامی سے آزاد ہو کر وہ اللہ کے غلام بن گئے تھے۔ انہوں نے کوڑا عمارؓ کو مارنے کے بجائے زور سے زمین پر دے مارا۔ اس لمحے انہیں عمارؓ کی آواز آئی تھی۔
”بلال ؓ یہ جو کہتے ہیں وہ کرو‘ ورنہ یہ تمہیں ماردیں گے۔“
امیہ کا چہرہ زرد پڑ گیا۔ اس کی سانسیں ٹھہر گئی تھیں۔ اس کے گمان میں بھی یہ بات کب تھی کہ ایک غلام وہ بھی سیاہ فام،بغاوت پر اتر آئے گا۔ اس کے خیال میں سیاہ فام تو پیدا ہی غلامی کے لیے ہوئے تھے۔ وہ چیخا۔
”بلال ؓ اگر تمہیں یہ گمان ہے کہ تم بھی کوئی انسان ہو اورتمہیں بھی خدا کو ماننے کا حق حاصل ہے تو کان کھول کر سن لو جو ہمارا خدا ہے وہی تمہارا سبھی کا خدا ہوگا۔کوئی نیا خدا ہر گز ہر گز نہیں ہوگا۔“
اٹھائیس برس غلامی میں گزارنے کے بعد اس روز بلال ؓ آزاد ہو گئے تھے۔ میں مکہ کی سرزمین پروہ جگہ تلاشتا ہوں جہاں بلال ؓ ریت پر لٹائے تڑپائے اور ستائے گئے …… ریت کے ان ذروں نے جہنوں نے بلالؓ اور عمار ؓکے جسم کو چھوا تھا۔ جہاں بلالؓ اور عمارؓکے قدم پڑے تھے وہاں اپنی آنکھیں رکھ دینا چاہتا تھا۔ ان ریت کے ذروں کو چھونا چاہتاہوں۔ وہ دن واپس چاہتا ہوں جب دوغلاموں نے ایکا کر کے انسانی خدائی کو مات دے ڈالی تھی۔ لیکن وہ ذرے کہاں گئے۔ وہ قریہ زمین کیا ہوا؟ وہ زمانہ کہاں گیا؟۔ کہاں گئے عمارؓ کہاں گئیں سمیہ ؓ……؟ آج انسانی خدائی کے علمبردار وں نے پھر سے انسان کو غلامی کی غاروں میں اتار دیا ہے۔جبر اور ظلم کو قانون کے نام سے پکارا جانے لگا ہے۔عمار و بلالؓ کے نا م لیوا غلامی کے سامنے ڈگیں ڈال چکے۔رب کی زمین پر رب کے دشمن ننگا ناچ ناچ رہے ہیں۔ وہ لمحے تھم جاتے۔اے کاش میں ان لمحوں میں موجود ہوتا۔
(متعدد کتابوں کے مصنف‘شعبہ تعلیم
سے وابستہ اورسماجی کارکن ہیں)
٭……٭……٭

غیرپیداواری اخراجات کم کریں

ڈاکٹر شاہد رشیدبٹ
پاکستان تیزی سے بیلنس آف پیمنٹ کے بحران کی طرف بڑھ رہا ہے حکومت کو اس حوالے سے تیزی سے اور سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے بصورت دیگر ایک مرتبہ پھر عالمی اداروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پڑیں گے۔پاکستان کو اپنی برآمدات میں ہنگامی بنیادوں پر تیز رفتار اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔اور برآمدات بڑھانے کے لیے پاکستان کو اپنی مینو فیکچرنگ بڑھانے کی ضرورت ہے۔پاکستان کی ہمیشہ یہی کوشش ہو تی ہے کہ امریکہ اور یورپ کو اپنی برآمدات میں اضافہ کیا جائے لیکن امریکہ اور یور پ امیر اور ترقی یافتہ ہیں۔ان ممالک کی معیشتیں اب ایک حد سے زیادہ آگے نہیں بڑھ سکتی ہیں جبکہ افریقا کے 52ممالک ایسے ہیں جو کہ ابھی ترقی کی منازل سے گزر رہے ہیں۔اور ان کی معیشتوں کو درآمدات کی ضروت ہے اگر پاکستان ان 52افریقی ممالک کو اپنی برآمدات بڑھانے پر توجہ دے تو پاکستان کو بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔
پاکستان کو اپنی برآمدات بڑھانے کے لیے انفراسٹرکچر بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔خاص طور پر توانا ئی کی قیمتیں کم کرنا پڑیں گی اگر پاکستان کی صنعت کو توانا ئی کم قیمت پرملے تو پاکستان کی انڈسٹری چین اور ہندوستان کا مقابلہ کر سکے گی۔اس حوالے سے حکومت کو بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ملک میں جاری پن بجلی اور ڈیم کے منصوبے جو کہ سستی بجلی کی پیدا وار کا باعث بنتے ہیں ان کی جلد از جلد تکمیل کے لیے تمام وسائل بروے کار لانے کی ضرورت ہے۔اس وقت دنیا میں چین کی مصنوعات اس لیے چھائی ہوئیں ہیں کہ برطانیہ جیسے ملک میں بھی جو چیز برطانیہ کی بنی ہو ئی 50پونڈ میں ملتی ہے وہی چیز چین کی بنی ہوئی 5پونڈ میں دستیاب ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ چین میں توانا ئی کی قیمتیں سب سے کم ہیں۔ موجود حکومت نے لک افریقا کے نام سے اچھا منصوبہ شروع کیا تھا جس کے تحت افریقا میں پاکستان کے سفارت خانوں اور قونصلیٹ کی تعداد بڑھائی جانی تھی سفار ت خانوں میں کمرشل اتاشی لگائے جانے تھے اس کے علاوہ افر یقا کے ساتھ تجارت بڑھانے کے لیے دیگر اقدامات ہونے تھے لیکن ابھی تک اس حوالے سے کچھ بھی نہیں ہو سکا۔
افریقا میں اب تک کوئی نیا سفارت خانہ نہیں بنا۔ حکومت کو چاہیے کہ اس اہم منصوبے کو کا غذوں میں سے نکال کر عملی اقدامات کیے جا ئیں۔یہ منصوبہ پاکستا ن کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ دنیا کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے،اگلے سال یہ 8ارب سے تجاوز کر جائے گی۔ہمارے ہاں زرعی زمین کے اوپر تعمیرات کی جا رہی ہیں۔زرعی زمین جس نے آبادی کوخوراک دینا ہے اس کی کمی بہت بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔اس حوالے سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان سمیت دنیا میں آنے والے سالوں میں خوراک کی کمی بڑا مسئلہ ہو گا۔برطانیہ میں کسی بھی شخص کو ایک انچ زمین پر بھی بغیر اجازت تعمیرات کرنے کی اجازت نہیں ہے اگر کوئی کر لے تو اس کو 1000پونڈ جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں بھی اس حوالے سے سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے۔ میں مانتا ہوں کہ دنیا بھر میں اجناس کی قیمتیں بہت بڑھ گئیں ہیں،لیکن پاکستان میں مہنگائی پرحکومت کا موثر کنٹرول نہ ہونے کے باعث بھی ہے،حکومت کومقامی سطح پر بھی مہنگائی کے عوامل پر بھی توجہ دینی چاہیے۔حکومت کو ہر علاقے کے لیے الگ سے پرائس مجسٹریٹ مقرر کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی ریاست کے چار بنیادی اصول ہوا کرتے ہیں جن پر وہ ریاست کھڑی ہو تی ہے۔اور ان اصولوں میں علاقہ،آبادی،حکومت اور آزادی شامل ہیں جن ریاستوں کے یہ چار بنیادی عوا مل میں سے کوئی بھی کمزور ہو وہ ایک ناکام ریاست تصور ہو تی ہے۔پاکستان کو ہر صورت میں اپنے غیر پیدا واری اخراجات میں فوری کمی لانے کی ضرورت ہے کیونکہ ان کے بغیر حکومت چل نہیں سکتی ہے۔ملک ترقی نہیں کر سکتا ہے حکومت کو تمام تر وسائل کا رخ ملک کی پیدا وار بڑھانے پر موڑ دینا چاہیے یہی ایک طریقہ ہے جس سے پاکستان ترقی کر سکتا ہے اور معیشت مضبوط ہوسکتی ہے۔ سی پیک پاکستان کی معیشت کے لیے نہایت ہی اہم منصوبہ ہے حکومت کو اس منصوبے کی جلد از جلد تکمیل کے حوالے سے توجہ دینی چاہیے،یہ منصوبہ پاکستان کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے،میں یہاں پر یہ خصوصی طور پر کہنا چاہوں گا کہ سی پیک کے تحت بنائے جانے والے خصوصی اقتصادی زونز پر جلد از جلد کام مکمل ہونا چاہیے تاکہ پاکستان کی برآمدات کو بڑھایا جاسکے۔
ایف بی آر سمیت دیگر اہم اداروں میں اصلاحات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔اصلاحات سے ہی پا ئیدار بنیادوں پر پاکستان کی معیشت میں استحکام ممکن ہے۔ عالمی ما لیاتی اداروں کی سخت شرائط پوری کرنے کے لیے عوام پر بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اور ٹیکسوں کا مزید بوجھ ڈالنا کسی صورت دانش مندی نہیں ہے۔حکومت عوام کے ووٹ سے منتخب ہو تی ہے اس کی ذمہ داری صرف عالمی اداروں کی شرائط ماننا ہی نہیں بلکہ اپنے عوام کے مفادات کا تحفظ بھی شامل ہے۔حکومت کو اس طرف توجہ دینا ہو گی پاکستان کے عوام ابھی تک کرونا وائرس اور روپے کی گرتی ہو ئی قدر کے جھٹکے سے پوری طرح سنبھل نہیں سکے ہیں اور مہنگائی یہ نیا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہے۔ملک کی معاشی خود مختاری کا تحفظ کیا جانا چاہیے، ورنہ مہنگائی کا ایک نیا طوفان عوام کا منتظر ہے۔
آرڈننس کے ذریعے قوانین کا اطلاق کوئی اچھی روایت نہیں ہے اور خاص طور پر ایسے قوانین جن کے ملکی معیشت پر دور رس نتائج مرتب ہو سکتے ہیں،ایسے بڑے قومی مسائل پر حکومت کو تمام جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیے،اور پارلیمان سے مشترکہ طور پر قانون سازی کی جانی چاہیے،اگر اسٹیٹ بینک کو مکمل طورپر خود مختیار بنانا ملکی مفاد میں ہے تو آرڈیننس منظور کروانے کی بجائے پارلیمان کو اس حوالے سے اعتماد میں لیا جائے۔ حکومت کی جانب سے تعمیراتی شعبے کو دی جانے والی مرا عات اور ریلیف پیکج بہت خوش آ ئند ہے تعمیراتی شعبے کو دیے جانے والے ریلیف پیکج کے ملکی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہو ئے ہیں۔لیکن متعلقہ اداروں کی جانب سے اس پیکج میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں جو کہ وزیر اعظم کے ویژن کے سراسر بر عکس ہیں،اور اداروں کے اس رویے کے باعث ملکی اور غیر ملکی سرمایہ دار مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں،اس صو رتحال کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کی جانب سے دیے جانے والے کنسٹریکشن پیکج سے معیشت کو فائدہ ہوا ہے لیکن اتنا فائدہ نہیں ہوا جتنا کہ ہونا چاہیے تھا۔اسلام آباد شہر کی بات کی جائے تو اسلام آباد شہر کے مضافاتی علاقوں میں کافی نئی تعمیرات ہوئی ہیں۔لیکن اس حوالے سے یہ بھی کہوں گا کہ کافی لوگوں نے اس پیکج کو اپنا بلیک منی وائٹ کرنے کے لیے بھی استعمال کیا ہے۔
(سابق صدر اسلام آباد چیمبر آف کامرس ہیں)
٭……٭……٭

جذبات سے نہیں‘سوچ سمجھ کرفیصلے کریں

وزیر احمد جوگیزئی
ہمیں قائد اعظم کا پاکستان چاہیے اور قائد اعظم کا پاکستان قائد اعظم کی زندگی کے اختتام کے ساتھ ہی بھلا دیا گیا۔اور اس کے بعد ہم نے ہر قسم کے نعرے بلند کیے ہر قسم کی آ وازیں اٹھیں گوکہ ان آوازوں میں دم تھا لیکن آوازیں بلند کرنے والے شاید بے دم ہو گئے،میں یہاں پر ہر نعرے کی تفصیل میں تو نہیں جاؤ ں گا لیکن،بس یہ ہی کہوں گا کہ ہر نعرہ بس نعرہ رہ گیا۔اور پھر ہمیں سمجھ ہی نہیں آئی اور پاکستان ایسی افرا تفری میں دو لخت ہو گیا۔اور جو لوگ ہم سے الگ ہوئے انھیں صدر ایوب خان کے دور میں ہی الگ ہونے کا کہا گیا تھا۔مگر بنگال والوں کی عقل کو سلام کہ انھوں نے کہا کہ ہم یہاں پر اکثریت میں ہیں اور ہم ہی پاکستان ہیں تم جانو اور تمہارا کام جانے اور اس بات پر نہ تو کوئی اصرار ہوا اور نہ ہی کوئی تکرار لیکن اس کے بعد مسلسل جمہوری اقدار کو پا مال کرتے گئے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ لوگ جنگ و جدل کے بعد ہم سے الگ ہو گئے اور آج اگر دونوں ممالک کا مواذنہ کیا جائے تو وہ ہم سے بہتر حالت میں ہیں۔ان کی آبادی کنٹرو ل میں ہے،ان کا تعلیم کا نظام صحیح طریقے سے چل رہا ہے اور ان کے ملک میں عدل قائم ہے،ان کی معیشت مضبوط ہے اور وہ ایک خوشحال معاشرے کی طرح ترقی کی منازل طے کررہے ہیں اور ایک طرف ہم ہیں جو کہ ابھی تک اسی مخمصے کا شکار ہیں کہ کس طرح سے جمہوریت کو فروغ دینا ہے اور سوچ رہے ہیں کہ جو بھی کام کرنے ہیں ان کو کس طریقے سے کیا جائے۔
ہماری ایک بھی اکائی ایسی نہیں ہے جو کہ درست طریقے سے اپنا کام سر انجام دے رہی ہو ہمارے موجودہ وزیر اعظم نے 22سال تک اقتدار میں آنے کے لیے جد و جہد کی،نوجوانوں اور تعلیم یافتہ طبقے سمیت ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے ان کی حمایت کی ان کا ساتھ دیا اور 22سالہ جدوجہد کے بعد یہ جماعت بر سر اقتدار آئی لیکن اقتدار حاصل کرنا اور اس کے بعد حکمرانی کرنا دو الگ چیزیں ہیں،لیڈر شپ کا اصل امتحان حکومت میں آنے کے بعد ہی شروع ہوتا ہے،ملک کو درپیش مسائل جو کہ بہت ہی زیادہ ہیں،ان سے ملک اور قوم کو نجات کیسے دلانی ہے اس کام کی پلاننگ ہی اصل اہمیت کی حامل ہو ا کرتی ہے۔کن کن طریقوں سے اہداف کے حصول میں مدد مل سکتی ہے یہ بات اہم ہو ا کرتی ہے۔ ہمارے ملک کے سامنے یہ تین اہداف ہیں۔آبادی کا کنٹرول،تعلیم کا نظام درست کرنا اور عدل کے نظام کو ٹھیک کرنا۔ اگر یہ تین اہداف حاصل کر لئے جا ئیں تو پھر قوم تیزی سے ترقی کرتی ہے لیکن ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی ہے۔ہمیں چاہیے کہ کسی بھی کامیاب ملک کا نظام تعلیم میرا مطلب ہے کہ جس ملک میں کامیاب نظام تعلیم ہو،اس کی تقلید کرنی چاہیے،او ر وہ نظام یہاں پر لا کر نافذ کر دینا چاہیے۔ہم اپنی غلط پالیسوں سے تعلیم کو عام کرنے میں اور با مقصد بنانے میں ناکام رہے ہیں اور ہمیں اس حوالے سے اپنی ناکامی قبول کر لینی چاہیے اور یہی عقل مندی کا تقاضا بھی ہے اور اسی طریقے سے ہم اپنی معیشت کو بھی مضبوط کر سکتے ہیں۔
ہماری معیشت جو کہ کبھی کسی زمانے میں ترقی پذیر ممالک کے لیے قابل تقلید ہوا کرتی تھی وہ آج تباہ حا ل ہے۔ بہت سارے ممالک نے پاکستان کی معاشی پلاننگ کی نقل کی اور وہ ترقی کی منازل طے کر گئے اور آج دنیا میں ترقی یافتہ ممالک کی حیثیت سے موجودہ ہیں اور اس حوالے سے بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں،لیکن ہم اپنی ہی پلاننگ پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہے ہیں۔تعلیم کے میدان میں ناکام ہیں،صحت کے میدان میں ناکام ہیں اور ترقی کرنے میں بھی ناکام ہیں۔اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں غربت کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے اور وسائل مسلسل کم ہو تے جا رہے ہیں اور یہ صروتحال ہمارے ملک کے لیے بہت خطرناک ہے۔
ایک دور تھا جب پاکستان میں سوشلسٹ تھیوری بہت مضبوط ہو رہی تھی اور بہت عمدہ تھی اور اس کے ساتھ ہی پاکستان میں جو انسانی حقوق کے لیے جدو جہد شروع ہو ئی تھی وہ آج بھی جاری ہے،اور یہ جدو جہد آج بھی بہت سارے ملکوں میں سرے سے وجود ہی نہیں رکھتی ہے۔آزادی اظہار رائے اور کھل کر اپنی بات کرنے کے حوالے سے پاکستان کسی بھی دوسرے ملک سے پیچھے نہیں ہے لیکن یہ بڑی بد قسمتی کی بات ہے کہ ہمارے ملک کو آج تک بہتر قیادت نصیب نہیں ہوسکی ہے،پاکستان کی قوم نے لیڈر شپ چننے میں جذباتی فیصلہ کیا ہے،اور اس حوالے سے ہماری قوم نے سیاسی پختگی کا مظاہرہ نہیں کیا اگر جذبات سے ہٹ کر فیصلے کیے جا ئیں تو اتنی بڑی آبادی میں کیا ہمیں لیڈر شپ دستیاب نہیں ہے۔لیڈشپ موجود ہے لیکن ان کو سامنے لانا مشکل کام ہے۔اور مشکل یوں ہے کہ ہماری عوام ابھی تک جذباتی فیصلوں سے نکل نہیں سکے ہیں اور جذباتی نعروں سے نکل نہیں سکے ہیں۔
ہمارے عوام کو تعلیم کی حد سے زیادہ ضرورت ہے۔اگر ہم درست لیڈرشپ کا انتخاب کر لیں تو ہمارے ملک میں کسی بھی چیز کی کمی نہیں ہے۔ہمیں صرف بطور قوم اپنی ترجیحات طے کرنے کی ضرورت ہے۔ہمیں ایک قوم بننے کی ضرورت ہے جو کہ کبھی بھی ہمارے حکمرانوں کی ترجیح نہیں رہی ہے۔ہمیں ایسے افراد سامنے لانے ہوں گے جو کہ نظام عدل میں اصلاحات لا سکیں۔اور ہمیں جذبات سے بالا تر ہو کر ایک نظام تعلیم نافذ کرنا ہو گا۔ہمارے ملک میں جس بے ہنگم طریقے سے مذہب کا استعما ل کرکے جو کچھ کیا جا رہا ہے وہ نہایت ہی افسوس ناک ہے،اس عمل کی مذمت کی جانی چاہیے،اس حوالے سے میں بس اتنا ہی کہنا چاہوں گا کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی صورت بھی ملک اور قوم کے مفاد میں نہیں ہے اور قومی مفادات کے سراسر منافی ہے۔اللہ کرے کہ ہمیں اس تمام صورتحال کا کوئی بڑا خمیازہ نہ بھگتنا پڑے۔
(کالم نگار سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی ہیں)
٭……٭……٭

سدابہاراورمضبوط تعلقات

ملک منظور احمد
کہاجاتاہے کہ جومشکل وقت میں مددکرے وہی انسان کاسچادوست ہواکرتاہے، اچھے وقتوں میں توسب ہی ساتھ ہواکرتے ہیں۔ ویسے تویہ مثال انسانوں کے آپس کے تعلقات کے حوالے سے دی جاتی ہے لیکن کچھ قوموں کے درمیان بھی ایسے ہی تعلقات پائے جاتے ہیں کہ ان پربھی یہ کہاوت بالکل فٹ آتی ہے۔ پاکستان اورسعودی عرب کے درمیان پاکستان بننے سے لیکرآج تک پاکستان اور سعودی عرب دونوں ممالک کے درمیان ایک خاص رشتہ پایاجاتا ہے۔ دونوں ممالک نے ہمیشہ مشکل وقت میں ایک دوسرے کی مددکی ہے اور کبھی ایک دوسرے کوتنہانہیں چھوڑا۔ سعودی عرب نے قدرتی آفات زلزلے،سیلابوں اور مشکل معاشی حالات میں پاکستان کی مددکی ہے اور پاکستان بھی سعودی عرب کی سکیورٹی کو اپنی سیکورٹی سمجھ کر سعودی عرب کی حفاظت کے فرائض سرانجام دیتا رہاہے۔ پاکستان کی مسلح افواج نے سعودی افواج کوٹرینڈ کرنے کے حوالے سے کلیدی کرداراداکیاہے اور ایک مخصوص تعدادمیں پاکستانی فوجی جوان سعودی عرب کی حفاظت کیلئے سعودی عرب میں تعینات ہیں۔
کہاجاتا ہے کہ اسلامی دنیامیں پاکستان سعودی عرب کاقریبی اتحادی ہے اور پاکستان بھی سعودی عر ب کیساتھ اپنے تعلقات کو خصوصی اہمیت دیتا ہے اوریہی وجہ ہے کہ بدلتے ہوئے عالمی حالات اور واقعات کبھی بھی دونوں ممالک کے تعلقات کے آڑے نہیں آئے ہیں اور گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ دونو ں ممالک کی دوستی مزید مضبوط ہوتی رہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعددونوں ممالک کی دوستی نے ایک نیاکروٹ لیا اور وزیراعظم عمرا ن خان اور سعودی عرب کے نوجوان ولی عہدمحمدبن سلمان کی قیادت میں دونوں ممالک کے تعلقات نے ایک نئی کروٹ لی اور دونوں ممالک کے تعلقات کونئی بلندیاں حاصل ہوئیں۔ سعودی ولی عہد نے پاکستان کادورہ کیا اور پاکستان آمد کے موقع پروزیراعظم عمران خان خود ذاتی طورپران کی گاڑی کوچلاتے ہوئے ان کووزیراعظم ہاؤس تک لے کرآئے۔ دورے کے دوران سعودی ولی عہد نے پاکستان کیلئے10 ارب ڈالر کے پیکج کااعلان کیا اور اس پیکج کے باعث مشکلات میں گھری ہوئی پاکستان کی معیشت کو سہارا ملا اوریوں سعودی عرب سمیت پاکستان کے دیگرقریبی دوستوں نے پاکستان کودیوالیہ ہونے سے بچالیا اوراب ایک بار پھرسعودی عرب کی جانب سے وزیراعظم عمران کے حالیہ دورہ سعودی عرب کے دوران پاکستان کی مدد کیلئے 4.2ارب ڈالر کے پیکج کااعلان کیاگیاہے جس میں سے 3ارب ڈالر سعودی عرب نقدسٹیٹ بینک آف پاکستان میں رکھوائے گا جبکہ1.2 ارب ڈالرکاادھارتیل بھی اس پیکج کے تحت پاکستان کو دیاجائیگا اوریقینامشکل معاشی صورتحال پریہ پیکج پاکستان کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ حکومت نے پاکستان کی معیشت کواستحکام دینے بلندوبانگ دعوے کیے معیشت کی بہتری کی داستانیں عوام کوصبح شام سنائیں گے لیکن اب سواتین سال کی حکومت کرنے کے بعدہمیں پتہ چلاہے کہ معیشت کے حالات اس حدتک خراب ہوچکے ہیں کہ پاکستان کومدد کیلئے ایک بارپھرقریبی دوست سعودی عرب سے مددمانگناپڑی ہے اورسعودی عرب کی یہ فراخ دلی ہے کہ انہوں نے پاکستان کاسچادوست ہونے کاثبوت دیتے ہوئے مشکل حالات میں پاکستان کی ایک بارپھر مددکی ہے۔
پاکستان نے بھی ہمیشہ ہی جس انداز میں بھی ہوسکاہے سعودی عرب کی معاونت کی ہرممکن کوشش کی ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات اچھے نہیں رہے ہیں لیکن پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ ساتھ ایران کیساتھ بھی ہمسایہ اورمسلمان ممالک ہونے کے ناطے اچھے تعلقات رہے ہیں اور پاکستان کی سیاسی اورعسکری قیادت نے ہمیشہ یہی کوشش کی ہے دونوں اہم ترین مسلمان ممالک کے درمیان بہترتعلقات استوارکرنے میں مددکی جائے اور اب حالیہ دنوں میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان مذاکرات اور ان مذاکرات میں مثبت پیشرفت کی خبریں سامنے آتی رہی ہیں اور اس حوالے سے پاکستان کے مثبت کردارکوکسی صورت نظر اندازنہیں کیا جا سکتا ہے۔سعودی عرب نے پاکستان کے نئے ابھرتے ہوئے شہرگوادرمیں بھاری سرمایہ کاری اورسی پیک منصوبے میں شمولیت کابھی اعلان کررکھاہے اور امید کی جارہی ہے کہ اس سلسلے میں بھی پیشرفت نظرآئے گی اور خاص طورپر 10ار ب امریکی ڈالر کی لاگت سے گوادرمیں ایک آئل ریفائنری کاقیام کے حوالے سے جلدہی کام شروع ہوجائیگا۔
میں یہاں پر پاکستان میں تعینات سعودی عرب کے سفیر سعیدنواف سعید المالکی کابھی خصوصی طورپر ذکرکرنا چاہوں گاکہ انہوں نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان موجود مضبوط باہمی تعلقات کو مزید تقویت دینے کیلئے کلیدی کردار ادا کیاہے اور ان کی اس حوالے سے خدمات قابل تحسین ہیں۔ نواف سعیدالمالکی کا ایک جہاندیدہ اورتجربہ کا سفارت کار ہیں اورحساس معاملات کو بہتراندازمیں ڈیل کرنے کافن بخوبی جانتے ہیں۔ پاکستان میں وہ سیاست دانوں، کاروباری شخصیات اور پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کے ساتھ ہمہ وقت رابطے میں رہتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان قریبی تعلقات کی مزیدمضبوطی ان کامشن ہے۔ پاکستان خوش قسمت ہے کہ اسے سعودی عرب اور چین جیسے مخلص دوست میسر ہیں۔
بہرحال اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بیرونی امداد سے ہٹ کرحکومت کواپنے بل بوتے پر بھی پاکستان کی معیشت کی بہتری کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر پاکستان کی معیشت کودیرپااستحکام نصیب نہیں ہوسکتا ہے۔ سعودی عرب جیسے عظیم دوست نے ایک بارپھر پاکستان کی معیشت کوسہاراتودے دیاہے لیکن حکومت خداراصرف باتوں اور دعوؤں سے نکل کرعملی طورپر بھی پاکستان کی معیشت کوبہتر کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے اور عوام کومہنگائی کے اس بڑھتے ہوئے طوفان سے نمٹنے کیلئے ریلیف کے اقدامات کیے جائیں۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭

انڈیا میں ہر گھنٹے تقریبا 17 افراد خودکشی کر رہے ہیں، یومیہ اجرت والے سب سے زیادہ

تاریخ میں جب جب سنہ 2020 کا ذکر آئے گا تو کورونا کی وبا کا ذکر بھی ضرور آئے گا۔

کورونا کا ذکر آتے ہی انڈیا میں آنکھوں کے سامنے علاج کے لیے تڑپتے لوگوں، ایمبولینسز کے شور، شمشان گھاٹوں سے اٹھتے دھویں، آکسیجن سلنڈروں کے لیے بھاگ دوڑ اور ایک شہر سے دوسرے شہر پیدل جانے والے مزدوروں کی تصویریں ابھرتی ہیں۔

مزدوروں کو بھوک کے ساتھ ساتھ بیماری کے دوہرے عذاب کا بھی سامنا تھا۔

اب نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) نے سنہ 2020 کی ‘حادثاتی اموات اور خودکشی’ کی رپورٹ جاری کی ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ سنہ 2020 میں سب سے زیادہ یومیہ اجرت والے مزدوروں نے خودکشی کی ہے۔

مزدوروں پر کورونا کے اثرات؟

این سی آر بی کے اعداد و شمار کے مطابق انڈیا میں گذشتہ سال تقریباً 1 لاکھ 53 ہزار لوگوں نے خودکشی کی، جن میں سے تقریباً 37 ہزار یومیہ اجرت والے مزدور تھے۔ خودکشی کرنے والوں میں تمل ناڈو کے سب سے زیادہ مزدور تھے۔ اس کے بعد مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، تلنگانہ اور گجرات کے مزدوروں کی تعداد ہے۔

تاہم اس رپورٹ میں محنت کشوں کی خودکشی کی وجوہات کے ذیل میں کورونا کی وبا کا ذکر نہیں ہے۔

لیکن مارچ کے آخر میں انڈیا میں مکمل لاک ڈاؤن کے بعد، ہر کسی نے مزدوروں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور ہجرت کی تصویریں دیکھی تھیں۔

نہ جانے کتنے ہی بھوکے پیاسے لوگ پیدل اپنے گاؤں کے لیے روانہ ہوئے تھے۔

کچھ ریاستی حکومتوں نے دوسری ریاستوں میں کام کرنے والے اپنے لوگوں کے لیے ٹرینوں اور بسوں کا بھی انتظام کیا تھا۔ مرکزی حکومت نے غریبوں میں مفت راشن تقسیم کرنے کا بھی اعلان کیا تھا۔ لیکن محنت کشوں کے مصائب، پریشانی اور فاقہ کشی کے وسیع مسائل کے سامنے یہ کوششیں ناکافی تھیں۔

انڈیا میں سنہ 2017 سے ہر سال خودکشی کے واقعات میں اضافہ دیکھا جا آرہا ہے۔ سنہ 2020 میں گذشتہ سال سنہ 2019 کے مقابلے میں 10 فیصد زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

خودکشی کے واقعات میں اسکولی طلبہ کی تعداد میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔

سعودی عرب نے لبنان کے سفیر کو ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا

سعودی عرب نے لبنان سے تمام اشیاء کی درآمد پر پابندی کرتے ہوئے سفیر کو بھی ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق سعودی عرب نے رواں ہفتے لبنان کے وزیر اطلاعات کی اس ویڈیو پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے جس میں لبنانی وزیر نے یمن کے معاملے پر سعودی عرب کی سربراہی میں قائم اتحاد پر تنقید کی۔

میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہےکہ سعودی عرب نے لبنان کی تمام درآمدی اشیاء پر پابندی عائد کردی ہے اور ساتھ ہی سعودی عرب میں لبنانی سفیر کو 48 گھنٹوں میں ملک چھوڑنے کا بھی حکم دیا ہے۔

اس کےعلاوہ سعودی حکومت نے لبنان سے شہریوں کی ملک میں آمد پر بھی پابندی عائد کردی اور لبنان سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا ہے۔

سعودی عرب کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہےکہ حکومت کو لبنانی حکام کی جانب سے حقائق کو نظرانداز کرنے اور درست اقدامات لینے میں مسلسل ناکامی کی وجہ سے لبنان کے ساتھ تعلقات میں برآمد ہونے والے نتائج پرافسوس ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق سعودی عرب کے بعد بحرین نے بھی اسی معاملے پر دو روز میں لبنانی سفیر کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے جس کی تصدیق بحرین کی وزارت خارجہ کی جانب سے کی گئی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق لبنانی وزیر اطلاعات نے یمن جنگ میں سعودی اتحاد پرتنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ یمن میں حوثی غیر ملکی جارحیت کے خلاف اپنا دفاع کررہے ہیں۔

دوسری جانب لبنانی وزیر اطلاعات کا کہنا ہےکہ ان کا یہ بیان ذاتی نوعیت کا ہے جو وزارت میں آنے سے پہلے کا ہے۔

علاوہ ازیں لبنان کے وزیراعظم نجیب میکاتی نے سعودی اقدام پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم سعودی رہنماؤں سے اپیل کرتے ہیں کہ بحران پر قابو پانے میں ہماری مدد کریں۔