شعیب اختر کا تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے انکار

شعیب اختر اور ڈاکٹر نعمان نیاز کے ایشو پر پی ٹی وی تحقیقاتی کمیٹی کی ابتدائی رپورٹ نے ڈاکٹر نعمان نیاز کو قصور وار قرار دیدیا ہے۔

ذرائع کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹرنعمان نےبغیرکسی ٹھوس وجہ شعیب اخترسےنامناسب رویہ اختیارکیا۔ کمیٹی نےشعیب اختر،ڈاکٹرنعمان سےان کامؤقف جاننےکےبعدفیصلہ کیا۔

دوسری جانب پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق فاسٹ بولر شعیب اختر نے پی ٹی وی اسپورٹس کی بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے انکار کردیا، وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی ہدایت پر قائم کی گئی تحقیقاتی کمیٹی نے شعیب اختر کو میزبان نعمان نیاز کی جانب سے بدتمیزی کے واقعے کے بعد پیش ہونے کا کہا تھا۔

بی بی سی اردو سے گفتگو میں شعیب اختر نے کہا کہ کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے انکار کر دیا ہے، واقعے کی پوری ویڈیو موجود ہے جسے دیکھ کر آسانی سے فیصلہ کیا جا سکتا ہے،شعیب اختر نے مزید کہا کہ کہا جارہاہے کہ وہ پی ٹی وی سے کنٹریکٹ کے باوجود دوسرے ٹی وی چینلز پر بھی بیٹھ کر تبصرے کرتے رہے، لیکن یہ بالکل علیحدہ معاملہ ہے جس کا اس واقعے سے دور دور تک تعلق نہیں۔

ذرائع کے مطابق ڈاکٹر نعمان نیاز آج وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری سے ملاقات کریں گے،پی ٹی وی کی جانب سے گزشتہ روز واقعے کا نوٹس لیا گیا تھا، شعیب اختر کے ساتھ کی جانے والی بدتمیزی کے بعد چار رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے جس کے سربراہ پاکستان ٹیلی وژن کے منیجنگ ڈائریکٹر ہیں اور اس میں ڈائریکٹر نیوز، ڈائریکٹر پروگرامز اور چیف ہیومن رسورس آفیسر شامل ہیں۔

پاک نیوزی لینڈ میچ کے دوران دو روز قبل پی ٹی وی اسپورٹس پر سابق فاسٹ بالر شعیب اختر اور پروگرام کے میزبان ڈاکٹر نعمان نیاز کے درمیان تبصرے تلخ کلامی میں بدل گئے تھے،میزبان نے مہمان نوازی کے آداب بھلائے شعیب اختر کو پروگرام سے جانے کا کہا تھا، جس کے بعد شعیب اختر نے لائیو شو کے دوران ہی استعفیٰ دے کر چلے گئے تھے۔

حکومت اور کالعدم تنظیم میں ہونے والے مذاکرات پھر بلانتیجہ ختم ہوگئے

حکومت اور مذہبی جماعت میں ہونے  والے مذاکرات پھر بلانتیجہ ختم ہوگئے۔ٹی ایل پی واپس جائے گی تو ہی آپ کی بات سنی جائے گی حکومت کا موقف
ذرائع کے مطابق حکومت نے مذاکرات میں موقف اختیار کیا کہ  مذہبی تنظیم کے سربراہ سعد رضوی کی رہائی اور دیگر قانونی معاملات پر اس وقت بات ہو گی جب حکومت کی رٹ کو چیلنج نہیں کیا جائے گا۔ دوسری طرف لانگ مارچ کے شرکا  کو وزیر آباد کے مقام پر سختی سے روکنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیرآباد سے آگے کالعدم تنظیم کے کارکنوں کو کسی صورت  نہیں جانے دیاجائے گا ۔متعلقہ اداروں کو اس ضمن میں ہدایات جاری کردی گئیں جبکہ  فور سز کو الرٹ رہنے کا حکم  دیا گیا ہے

کالعدم ٹی ایل پی اور بھارت کا گٹھ جوڑ ہے، وزیراطلاعات

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہا ہے کہ کالعدم ٹی ایل پی کے ساتھ بھارتی گٹھ جوڑ پاکستان کو غیر مستحکم کر رہا ہے۔

انہوں نے ٹویٹ کیا کہ پنجاب حکومت کو کالعدم جماعت اور بھارتی گٹھ جوڑ سے آگاہ کردیا ہے۔

دوسری جانب حکومت پنجاب نے اپنی ایک رپورٹ میں چونکا دینے والے انکشافات کیے ہیں کہ ایک حساس ادارے کو کچھ مصدقہ اطلاعات ملی ہیں کہ کالعدم تنظیم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کا بھارتی گٹھ جوڑ ہے۔

 خبرکے مطابق حکومت پنجاب نے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کے منٹس جمع کرائے، جس میں لکھا گیا کہ ٹی ایل پی کے سیکریٹری خزانہ کے بھائی کے بینک اکاؤنٹ کی نشاندہی کی گئی ہے۔

لاہور کے ایک نجی بینک میں کھولے گئےاس اکاؤنٹ میں گزشتہ تین مہینوں میں غیر معمولی غیرملکی رقم کی ترسیل ہوئی۔

اس اکاؤنٹ میں غیر ملکی ترسیلات بھیجی جا رہی ہیں اور 5 جولائی 2021 کو ایک ٹرانزیکشن راجیش ہمت لال اور مکیش ہمت لال (دونوں ہندوستانی شہری) کی طرف سے آئی اوروہ خود اس وقت دبئی میں رہتے ہیں۔

پنجاب حکومت نے عدالت عظمیٰ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ بینک اکاؤنٹ میں یہ ٹرانزیکشن پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے کالعدم ٹی ایل پی کے ساتھ بھارتی گٹھ جوڑ کی نشاندہی کرتی ہے۔

پنجاب کے 8 اضلاع میں رینجرز تعینات

محکمہ داخلہ پنجاب نے جمعرات کی صبح بتایا کہ صوبے کی8 اضلاع میں رینجرز کو تعینات کر دیا گیا ہے۔ پنجاب کے 8 اضلاع میں رینجرز کے دستے 60 روز کے لیے تعینات کیے گئے ہیں۔ محکمہ داخلہ کے نوٹیفکیشن کے مطابق راولپنڈی، جہلم، شیخوپورہ، گوجرانوالہ، لاہور، چکوال، گجرات اور فیصل آباد میں دستے تعینات رہیں گے۔ گزشتہ روز وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے پنجاب میں رینجرز بلانے کا اعلان کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ کالعدم ٹی پی ایل عسکریت پسند ہو چکی ہے، پنجاب حکوت جہاں چاہیے رینجرز کو استعمال کر سکتی ہے۔ شیخ رشید کاکہنا تھا کہ کالعدم ٹی ایل پی کی قیادت سے 6 مرتبہ مذاکرات کیے۔ انہوں نےعید میلاد کے جلوس کو احتجاج میں تبدیل کیا، ہم سے وعدہ کیا تھا کہ راستے کھول دیں گے مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ کالعدم جماعت کی باتوں سے لگتا ہے کہ ان کا ایجنڈا کچھ اور ہے۔

ریاست مدینہ کا شاکر شجاع آبادی

ڈاکٹر محمدممتاز مونس
شاکر شجاع آبادی کو اس عہد کا اقبال کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کیونکہ اس پائے کا الحامی شاعر اس عہد میں شاید کوئی اور نہ ہو جس نے غریب مفلس مزدور محنت کش مظلوم اور دکھوں کے ماروں کی اس انداز میں بے باکی سے ترجمانی کی ہواس کی مثال نہیں ملتی۔ شاکر شجاع آبادی کا ایک مشہور زمانہ سرائیکی قطع ہے کہ
میکوں میڈا ڈکھ میکوں تیڈا ڈکھ میکوں ھر مظلوم انسان داڈکھ
جتھاں ظلم دی بھاہ پئی بلدی ھے میکوں روھی چولستان دا ڈکھ
جتھاں کوئی انصاف دا ناں کائنی میکوں پورے پاکستان دا ڈکھ
جہڑے مر گئے ہن او مرگئے ہن میکوں جیندے قبرستان دا ڈکھ
جس میں موصوف اس معاشرے کو زندہ قبرستان کا نام دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مجھے اس زندہ قبرستان کا بڑا دکھ ہے ہمیں ان کے ان اشعار کی سمجھ اب سمجھ آئی جب انہیں انتہائی بیماری کسمپرسی لاچاری کے عالم میں ایک طبیب کے پاس جاتے ہوئے موٹر سائیکل پر فریدی رومالوں کے ساتھ باندھا ہوا تھا چونکہ شاکر شجاع آبادی فالج کے مریض ہیں اوروہ خود کو کسی بھی صورت سنبھال نہیں سکتے اس لیے وہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ موٹر سائیکل سے اب گرے کہ اب۔ جس شخص کے پاس دوائی کے پیسے نہ ہوں اور وہ ڈسٹونیا جیسی انتہائی خطر ناک بیماری کا مریض ہو ہر آنے والا حکمران ان کے علاج کے لیے بڑے بڑے بلند بانگ دعوے کرے شاکر شجاع آبادی کو قومی سرمایہ اور اثاثہ قرار دے۔ دوسری طرف ان کی حالت یہ ہو کہ انہیں اپنے حکیم کے پاس جانے کے لیے موٹر سائیکل تک کرائے کی لینی پڑے اور دوائی کے پیسے نہ ہوں وہ موٹر سائیکل پر بیٹھ نہ سکتا ہو بلکہ انہیں فریدی رومالوں کے ساتھ باندھ کر بٹھایا گیا ہو تو پھر ان کا یہ نظریہ کہ اسے زندہ قبرستان کا دکھ ہے شاید اسی لیے ہی ہے۔
اس ملک میں آج ایسے حکمران ہیں جو اس ریاست کو مدینے کی ریاست کہتے ہیں میں پوچھتا ہوں مملکت خداداد کے ان حکمرانوں سے کہ کیا اس عہد میں شاکر شجاع آبادی سے بڑا کوئی فکر دینے والا شاعر ہے کسی نے شاکر شجاع آبادی سے بڑھ کر مظلوموں غریبوں مزدوروں بیماروں اور محنت کشوں کی ترجمانی کی۔ کیا ان کے یہ حالات اس بات کی غمازی نہیں کرتے کہ حکمران شاکرشجاع آبادی کے لیے کوئی خصوصی اقدامات کرتے ہوئے ان کا علاج کروائیں۔ مکان دینے کی بجائے صرف اور صرف اس کا باقاعدہ علاج ہی کروا دیا جائے۔ شاکر شجاع آبادی کی یہ نظم اسی درد کو عیاں کرتی ہے کہ
فکر دا سجھ ابھردا ائے سوچیندئیں شام تھی ویندی
خیالیں وچ سکون اجکل گولیندئیں شام تھی ویندی
انہاں دے بال ساری رات روندن بکھ توں سمدے نئیں
جنہاں دی کہیں دے بالاں کوں کھڈیندئیں شام تھی ویندی
غریباں دی دعایا رب خبر نی کن کرینداہیں
سدا ہنجواں دی تسبی کوں پھر یندئیں شام تھی ویندی
کڈاہیں تاں دکھ وی ٹل ویسن کڈاہیں تاں سکھ وی ول آسن
پلا خالی خیالاں دے پکیندئیں شام تھی ویندی
میڈا رازق رعائیت کرنمازاں رات دیاں کرڈے
جو روٹی رات دی پوری کریندیں شام تھی ویندی
میں شاکر بکھ دا ماریا ہاں مگر حاتم کو گھٹ کنئیں
قلم خیرات ہے میڈی چلیندیں شام تھی ویندی
شاکر شجاع آبادی کی زندگی ان کے اس شعر کے مطابق گزر گئی کہ وہ اپنی تقدیر کی لکیریں خود بدلنے کی کاوش کرتے رہے۔
نجومی نہ ڈراوے ڈے اساکوں بدنصیبی دے
جڈاں ہتھاں دے چھالے پئے لکیراں خود بدل ویسن
شاکر شجاع آبادی کی شاعری کا وہ وزن اور وہ فکر ہمیں کہیں اور سے نہ مل سکی جو کہ انہوں نے اپنی اس شدید بیماری کی حالت میں یوں کہہ دی کہ گویا وہ ایک قطعے کے اندر اس پورے عہد کی تاریخ لکھ رہے ہوں۔ جیسے موصوف لکھتے ہیں کہ
مجبور جوانی میڈی اے تو حسن دا شاہ تیکوں کیا پروا
تو خوش وسدیں وچ غیراں دے میڈی جھوک تباہ تیکوں کیا پروا
تیڈے رستے وچ پئے پھل کِردن میڈے اوکھے راہ تیکوں کیا پروا
بھانویں شاکر تیڈی مونجھ کنوں میڈے نکلن ساہ تیکوں کیا پروا
شاکر شجاع آبادی کے بارے میں آج مخیر حضرات کو خصوصی طورپرسوچنے کی ضرورت ہے بڑے بڑے دعوے کرنے والے نمودو نمائش کرنے والے حکمران آج کے اس عظیم شاعر کی اس بدحالی پر خاموش کیوں ہیں ریاست مدینہ کے مخیر حضرات ایسے نہیں ہو سکتے جو اپنے قومی ہیرو کو علاج تک کی سہولتیں میسر نہ کر سکیں اسی لیے تو موصوف لکھتے ہیں کہ
اے درد پرانے تھی گئے ھن کوئی نویں درد عطا کرونج
وت سکھ دا بوٹا پھپھڑیا ہے ایکوں پہلے وانگ سوا کرونج
میڈے روونڑدی سک پوری تھیوے کئی اینجھا ظلم جفا کرونج
میکوں راس نئیں آیا سکھ شاکر میڈا اوہو حال ولا کرونج
شاکر شجاع آبادی کے بارے میں جو بھی القابات جس نے بھی لکھے لیکن میری نظر میں موصوف کسی درویش سے کم نہیں اور ان کی اس درویشی میں ان کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ شاہد ہمارے اس معاشرے اور ہم پر بوجھ ہے اسی لیے تو موصوف کہتے تھے کہ
تیئں نال جو گزری شام ساڈی ہنڑ شام دے شام توں یاد آندیں
اتوں رات پوندی تنہائیاں دی ڈسے گھر ویران توں یاد آندیں
ادھ رات کوں اٹھ اٹھ روواں میں تھیوے فجر اذان توں یاد آندیں
ڈینہہ روندیاں شاکر لنگھ ویندے وت تھیندی اے شام توں یاد آندیں
انہیں یہ بھی پتہ تھا کہ معاشرہ ان کے ساتھ کیا سلوک کرنے جا رہا ہے اسی لیے انہوں نے خود لکھ دیا تھا کہ
تیکوں یاد ہوسی میں آکھیا ہم دلدار مٹھا تو چھوڑ ویسیں
کجھ سوچ سمجھ کے فیصلہ کر نہ جوش دکھا تو چھوڑ ویسیں
کر شاکر کوں برباد سجن بس لوک کھلا تو چھوڑ ویسیں
تیکوں کئیں آکھیے تیکوں بھل گئے ہیں دلدار بھلاونڑ سوکھی ہے
بھاویں یار دا جو کردار ھووے بندا آپ تاں توڑ نبھاوے
بھاویں سرتوں پانی تار ھووے بندا ادب توں سر نہ چاوے
نہ لیک لگے کدی یاری کوں بھاویں اوکھا وقت وی آوے
اویارنی شاکر یارھوندا جیڑھا سجناں کوں ازماوے
شاکر شجاع آبادی کی حالیہ بدحالی کی ویڈیو وائرل ہوتے ہی سب سے پہلے اس خطے کے عظیم فرزند چیف ایڈیٹر خبریں جناب امتنان شاہد صاحب نے سب سے پہلے ایکشن لیتے ہوئے اسے ٹی وی چینل پر بھر پور کوریج دینے اور خبریں ٹیم کو اس کی فوری مدد کرنے کے احکامات جاری کیے جنہیں جتنا بھی خراج تحسین پیش کیا جائے کم ہے۔خبریں کی تحریک پر وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار نے شاکر شجاع آبادی کے علاج کا وعدہ کیا ہے اللہ کرے جیسے حق ہے ویسے ہی شاکر شجاع آبادی کا علاج ہو سکے۔
(کالم نگارسینئر صحافی ہیں)
٭……٭……٭

پٹرولیم مصنوعات۔نیا بم گرانے کی تیاریاں

طارق ملک
قارئین کرام حکومت پاکستان، پاکستانی عوام پر یکم نومبر سے نیا پٹرولیم مصنوعات بم گرانے کی تیاریاں کر رہی ہے پٹرولیم مصنوعات پر9 روپے فی لٹر تک اضافہ متوقع ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کی شرح میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے جس سے سب سے زیادہ وہ دو کروڑ افراد جو سطح غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور وہ 50 لاکھ لوگ جو بے روزگار ہیں سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی روز بروز مشکل ہو رہی ہے اور ان کے لئے روح اور جسم کا رشتہ قائم رکھنا مشکل بلکہ ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ مہنگائی ایک عالمی مسئلہ ہے اور پاکستان میں مہنگائی دُنیا کے 30 ممالک سے کم ہے لیکن اُن ممالک میں لوگوں کی فی کس آمدنی اور قوت خرید زیادہ ہے اسی طرح ڈالر کی قیمت بھی روز بروز بڑھ رہی ہے اور اس کے اثرات بھی مہنگائی کی شکل میں رُونما ہوتے ہیں لیکن نہ تو حکومت مہنگائی کم کر سکی ہے اور نہ ہی ڈالر کی قیمت روپے کے مقابلے میں کنٹرول کر سکی۔ حکومت کو چاہئے کہ ایسے انتظامات کرے جن سے کم از کم سطح غربت سے نیچے بسنے والے دو کروڑ افراد اور 50 لاکھ بے روزگار مہنگائی کا مقابلہ کر سکیں اور اس کے اثرات سے محفوظ رہ سکیں تا کہ ان کی روح اور جسم کا حصہ قائم رہ سکے۔ اس بابت بار بار اپنے کالموں میں ٹارگٹڈ سبسڈی کا ذکر کر چُکا ہوں حکومت کی طرف سے ٹارگٹڈ سبسڈی کی تجاویز جن میں موٹر سائیکل رکشا کو کم قیمت میں پٹرول مہیا کرنا اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی فائنل لسٹوں کے مطابق لوگوں کو دو ہزار فی کس ماہانہ آٹا چینی گھی دالیں اور دیگر اشیا خوردونوش کی خریداری کے لئے سبسڈی دینا شامل ہے مگر اس بارے میں ابھی تک کوئی عملی اقدامات نظر نہیں آئے۔
سابقہ حکومتوں نے پانی کی بجائے‘ انرجی کوئلہ گیس اور تیل سے حاصل کی ہے جس کی وجہ سے تیل گیس اور کوئلہ کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے بجلی کی قیمت بڑھانا ناگزیر ہو چکا ہے جس کی وجہ سے غریب عوام پر آئے دن بجلی بم گرایا جا رہا ہے۔ بجلی کی پیداوار کے کارخانوں کی بُنیاد میں سٹرکچرل ڈیفیکٹ ہے کیونکہ یہ کارخانے آئل گیس اور کوئلہ سے چلائے جا رہے ہیں۔ جب تک پاکستان میں ڈیم نہیں بنیں گے سستی بجلی بنانا اور عوام کو سستے نرخوں پر مہیا کرنا ناممکن ہے۔ حکومت وقت کی ہیلتھ کارڈ پالیسی ابھی تک پنجاب میں مکمل نہیں ہو سکی جس کی وجہ سے غریب عوام صحت کی مفت سہولتوں سے محروم ہیں۔ فوری طور پر پنجاب میں صحت کارڈ تقسیم کئے جائیں اور اس کام کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیا جائے۔ غریب لوگوں کو آٹا دالیں چینی اور دیگر اشیا ئے خورونوش کی ارزاں نرخوں پر فراہمی کے لئے یوٹیلیٹی سٹورز کو استعمال کیا جائے۔
کرونا کی صورتحال بہت بہتر ہو چکی ہے بروقت حکومتی اقدامات اور عوام کے حکومت کے ساتھ شانہ بشانہ چلنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے پاکستان پر اپنا خصوصی رحم اور کرم فرمایا ہے لیکن یہ بات بڑے افسوس سے کہنی پڑ رہی ہے کہ محکمہ ہیلتھ کے بعض افسران کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے ڈینگی پھیلا ہے اور قیمتی جانوں کا نقصان ہوا ہے۔ ڈپٹی ڈسٹرکٹ آفیسرز ہیلتھ اور انٹیمالوجسٹ جو کہ لاہور کے ہر ٹاؤن اور صوبے کی تمام تحصیلوں میں تعینات ہیں ان کو سرکاری گاڑیاں پٹرول وافر عملہ اور دفاتر مہیا کئے گئے ہیں ڈینگی کو کنٹرول کرانے کی اولین ذمہ داری ان کی ہے۔ ان کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے اس دفعہ ڈینگی کا بہت زیادہ پھیلاؤ ہوا ہے اور قیمتی جانیں ضائع ہوئی ہیں کیپٹن ریٹائرڈ محمد عثمان جب ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن آفیسر لاہور تھے تو اُنہوں نے ڈینگی کے بارے میں تفصیلی.S S.O.P مرتب کئے تھے اور جب وہ سیکرٹری صحت تھے اُس وقت بھی وہ بطور ڈی سی او اپنے تجربہ سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ڈینگی سے بھرپور طریقہ سے نبردآزما ہوئے تھے اس وقت بطور کمشنر لاہور ڈویژن کام کر رہے ہیں اور بالآخر اُن کو ہی ڈینگی ٹیموں کو چیک کرنا پڑ رہا ہے۔ اسی طرح ڈپٹی کمشنر لاہور عمر شیر چٹھہ بھی دن رات پرائس کنٹرول تجاوزات کے خاتمہ، صفائی کی چیکنگ قبضہ مافیا کے خلاف کارروائیوں کرونا ویکسی نیشن کی مانیٹرنگ پناہ گاہوں کی چیکنگ اور ڈینگی ٹیموں کی چیکنگ میں مصروف ہیں جب کہ ڈپٹی ڈسٹرکٹ آفیسرز محکمہ صحت نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کے خلاف متعلقہ اسسٹنٹ کمشنرز کو ایمانداری اور غیر جانبداری سے ڈینگی S.O.P.S پر عملدرآمد نہ کرنے پر خصوصی رپورٹس متعلقہ ڈپٹی کمشنر کو بھجوانی چاہئے اور متعلقہ ڈپٹی کمشنر یہ رپورٹس متعلقہ کمشنر کو بھجوائیں اور متعلقہ کمشنر یہ رپورٹیں چیف سیکرٹری پنجاب کو بھجوائیں۔ چیف سیکرٹری پنجاب اس بارے میں ایک مانیٹرنگ/ تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دیں اور مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہیلتھ آفیسرزکے خلاف محکمانہ کارروائی کریں اور مقدمات درج کروائیں اور ان کو سرکاری نوکری سے برطرف کیا جائے۔
(کالم نگار ریٹائرایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل ہیں)
٭……٭……٭

حمزہ شہباز اور پنجاب کی سیاست

کامران گورائیہ
پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ ن کے مرکزی نائب صدر حمزہ شہباز کی پنجاب کی سیاست میں فیصلہ کن سیاست اور قربانیوں کی لازوال داستان کا احاطہ کرنا کم وبیش نا ممکن ہے۔ حمزہ شہباز نے پارٹی قائد میاں نوازشریف کی ہدایات پر ہمیشہ لبیک کہا اور قائد کی توقعات سے کہیں آگے بڑھ کر نتائج دیئے۔ چند روز قبل بھی جب مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف پارٹی کے ڈویژنل اور ڈسٹرکٹ سطح کے اجلاسوں سے تسلسل کے ساتھ مخاطب رہے۔ حمزہ شہباز نے جنوبی پنجاب کے مشکل ترین محاذ پر کام کیا اور ان کے دورہ جنوبی پنجاب کے شاندار ناقابل تردید نتائج سامنے آئے۔ حمزہ شہباز کے دورہ جنوبی پنجاب کے موقع پر ناصرف دیگر سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنماؤں اور کارکنان نے مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی بلکہ متعدد سیاسی کارکنان کی واپسی کے راستے بھی کھل گئے جو مسلم لیگ ن سے فاصلہ رکھے ہوئے تھے۔ حمزہ شہباز نے ہمیشہ مسلم لیگ ن ہی کے لئے بلکہ اپنے خاندان کے لئے گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ شریف خاندان اور مسلم لیگ ن کے دیگر پنجاب سے تعلق رکھنے والے اہم رہنماؤں کے دل ان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔
حمزہ شہباز ماضی میں جب مشرف کے دور آمریت میں شریف خاندان کو جلا وطن کیا گیا تھا تو وہ تن تنہا ء یہاں رہ کر تمام سختیاں برداشت کرتے رہے۔ خاندان کے لئے دی گئی قربانیوں کے ساتھ حمزہ شہباز کی پاکستان میں موجودگی نے مسلم لیگ ن کو متحد رکھنے میں شاندار کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ مشرف کا دور آمریت ہو یا عمران خان کے اقتدار کا دورانیہ آج بھی مسلم لیگ ن یکجا بھی ہے اور یکسو بھی ہے۔ حمزہ شہباز مسلم لیگ ن کی پنجاب میں جڑیں مضبوط رکھنے اور اوپر سے لیکر نیچے تک پارٹی کارکنان اور رہنماؤں سے رابطے رکھنے میں اپنا ایک خاص مقام اور کارکردگی رکھتے ہیں اور ان کی یہی خوبی انہیں مسلم لیگ ن کے لئے لازم و ملزوم بناتی ہے۔ موجودہ حکومت اپنے تمام تر وسائل استعمال کرنے کے باوجود بھی حمزہ شہباز پر کرپشن، بدعنوانی سمیت لگائے گئے دیگر تمام الزامات ثابت نہیں کر سکی۔ اگر حمزہ شہباز پر لگائے گئے الزامات میں ذرا بھی صداقت ہوتی تو انہیں ملک کی عدالتیں ضمانت کیوں دیتیں لیکن آج حمزہ شہباز ضمانت پر جیل کی طویل اور بلا جواز اسیری برداشت کرنے کے بعد باہر ہیں اور اپنی تمام تر خدمات پارٹی کے لئے ناصرف واقف کر دی ہیں بلکہ وہ مسلم لیگ ن کو پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط بنانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔
حمزہ شہباز نے ہمیشہ اپنے آپ کو تنازعات سے دور رکھ کر خدمت کی سیاست کو اپنا شعار بنایا جس کے نتائج ماضی میں بھی آتے رہے ہیں اور آئندہ بھی دور رس نتائج کے امکانات واضح ہیں۔ حمزہ شہباز کی ایک کمال خوبی اور مقبولیت یہ بھی ہے کہ وہ پارٹی اور قائد کے لئے جو کچھ بھی کرتے ہیں غیر مشروط طور پر کرتے ہیں لیکن اب وہ وقت آچکا ہے جب مسلم لیگ ن کے رہنماء اور عام کارکنان انہیں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں اور بجا طور پروہ اس کے حقدار بھی ہیں۔ ملک بھر میں موجودہ حکومت کی ناقص کارکردگی اور عوام دشمن پالیسیوں کی وجہ سے تبدیلی کی ہوائیں چل رہی ہیں۔ تیزی سے تبدیل ہوتے اس سیاسی منظر نامہ میں حمزہ شہباز کے کردار کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے جس کا انداز اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پارٹی قائد میاں نواز شریف نے انہیں جنوبی پنجاب کے محاذ پر ایک ایسا ٹاسک دیا جسے ان کے علاوہ پارٹی کا کوئی دوسرا رہنما انجام نہیں دے سکتا۔
حمزہ شہباز نے محض چند دنوں کے دورہئ جنوبی پنجاب کی سیاست کا رخ ہی تبدیل کر کے ہی رکھ دیا ہے۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں رہنماؤں اور کارکنان نے مسلم لیگ ن سے عہد وفا کا اظہار کر دیا ہے اور اس کا تمام تر کریڈٹ حمزہ شہباز ہی کو جاتا ہے جو ہمیشہ اپنے خاندان اور پارٹی کے لئے آب حیات کی اہمیت کے حامل رہے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے نائب صدر اور قائد حزب اختلاف پنجاب حمزہ شہباز شہباز شریف کے جنوبی پنجاب کے دورے کے دوران مختلف سیاسی رہنماں کی مسلم لیگ ن میں شمولیت کااعلان،راجن پور سے تعلق رکھنے والے سابق ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی شیر علی گورچانی نے حمزہ شہباز سے ملاقات کی اور مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا۔پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا ملتان پہنچنے پر شاندار استقبال کیا گیا اور پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر تین مرتبہ ایم پی اے منتخب ہونے والے اسحاق بُچہ نے مسلم لیگ ن میں شمولیت کا اعلان کیا۔ اسحاق بُچہ1988, 1993 اور 2002 میں پیپلز پارٹی کے ایم پی اے رہے ہیں۔خانیوال پہنچنے پر شاندار استقبال کے بعد سابقہ ایم پی اے جمیل شاہ نے متعلقہ حلقے کے ایم این اے افتخار نذیر کی موجودگی میں مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی۔ جمیل شاہ 2008 میں ایم پی اے رہے ہیں مظفر گڑھ کے حلقہ پی پی 271 سے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ ہولڈر اور سرکردہ رہنما اختر علی گوپانگ کا بھی مسلم لیگ ن کی قیادت پر اعتماد کا اظہار ہے۔اس موقع پر انہوں نے بھی اپنے ساتھیوں سمیت مسلم لیگ ن میں شمولیت کا اعلان کیا،اسی طرح ملتان سے برگیڈیئر (ر)قیصر نے بھی اپنے ساتھیوں سمیت مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی۔
حمزہ شہباز کے جنوبی پنجاب کے دورے پر راجن پور آمداور اس موقع پر مسلم لیگ ن میں راجن پور سے سابق ایم این اے ڈاکٹر حفیظ دریشک مسلم لیگ ن میں دوبارہ شامل ہوگئے۔ حفیظ دریشک 2013 میں مسلم لیگ ن کے ایم این اے رہے۔ شمولیت کے اس موقع پر انہوں نے کہا کہ آئندہ انتخاب مسلم لیگ کا ہے اور مسلم لیگ ن ہی ملک کو دوبارہ ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ میاں حمزہ شہباز سے ملتان سے سکندر بوسن کی بھی ملاقات ہوئی۔ ڈی جی خان سے امجد فاروق کھوسہ اور محسن عطاکھوسہ بھی آئندہ چند دنوں میں مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کرنے والے ہیں۔ اپنے دور جنوبی پنجاب کے دوران حمزہ شہباز نے ناصرف سیاسی رہنماؤں اور کارکنان سے ملاقاتیں کیں بلکہ کسانوں، تاجر پیشہ افراد سمیت بہت سے دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد سے بھی اہم ملاقاتیں کیں۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کی وجہ سے ناصرف مہنگائی اور بے روزگاری میں ناقابل برداشت اضافہ ہوا ہے بلکہ کسانوں کی مشکلات بھی پہلے سے بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ بلوچستان کے بعد اب عوام پنجاب اور بالخصوص قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز شریف سے امیدیں لگا چکے ہیں کہ وہ آگے بڑھیں اور انہیں مہنگائی، بے روزگاری اور بدامنی جیسے مسائل سے چھٹکارہ دلوائیں۔ روزانہ کی بنیاد پر پنجاب میں بھی اب تبدیلی کے اشارے مل رہے ہیں دیکھنا یہ ہوگا کہ حمزہ شہباز شریف آنے والے دنوں میں درپیش چیلنجز سے کس طرح نبرد آزما ہوتے ہیں۔
(کالم نگارسینئر صحافی ہیں)
٭……٭……٭

کالعدم تنظیم کااحتجاج : حکومت کا مظاہرین کو روکنے کے لیے رینجرز تعینات کرنے کا فیصلہ

اسلام آباد : حکومت نے کالعدم تنظیم کے احتجاجی مظاہرین کو روکنے کے لیے رینجرز تعینات کرنے اور پشاور جی ٹی روڈ بند کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ اجلاس ہوا ، جس میں ملکی سیاسی اور معاشی صورتحال کا جائزہ لیاگیا اور وزیراعظم نے دورہ سعودی عرب پر کابینہ کو اعتماد میں لیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں کابینہ کو سعودی عرب کی جانب سے مالی معاونت اور کالعدم تنظیم سے متعلق مذاکرات پر بریفنگ دی گئی، شیخ رشید نے کالعدم تنظیم کیساتھ مذاکرات میں ڈیڈ لاک سے آگاہ کیا، اراکین نے کہا جانی وملکی املاک کونقصان پہنچانے والے عناصر کو رعایت نہیں دینی چاہیے۔

اجلاس میں کالعدم ٹی ایل پی کے احتجاج سے نمٹنے کی حکمت عملی پر غور کیا گیا، جس کے بعد حکومت نے مظاہرین کو روکنے کے لیے رینجرز تعینات کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ مظاہرین کو جہلم سے آگے نہیں آنے دیا جائے گا جبکہ پشاور جی ٹی روڈ بھی بند کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ قانون ہاتھ میں لینےوالوں سےسختی سےنمٹا جائےگا۔

اس سے قبل ریاست پاکستان نے احتجاج کرنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریاستی رٹ چیلنج کرنے والوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔

خیال رہے کچھ دنوں سے کالعدم تنظیم نے احتجاج کی آڑ میں راستے بند کررکھے ہیں، کالعدم تنظیم کی جانب سے راستے بند کرنے سے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

حکومت کا کالعدم تحریک لبیک سے عسکریت پسند تنظیم کے طور پر نمٹنے کا فیصلہ

وفاقی حکومت نے گزشتہ کئی روز سے دھرنا دینے والی کالعدم تنظیم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) سے عسکریت پسند تنظیم کے طور پر نمٹنے اور ان کیخلاف آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کابینہ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ اب کالعدم ٹی ایل پی کو سیاسی و مذہبی جماعت کے طور پر نہیں دیکھا جائے گا بلکہ اسے ایک عسکری تنظیم کے طور پر لیا جائے گا اور جیسے دیگر عسکریت پسند تنظیموں سے نمٹا گیا ٹی ایل پی سے بھی اسی طرح نمٹا جائے گا۔

فواد چوہدری نے کہا کہ کابینہ اجلاس میں ریاست کی رٹ قائم رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، ریاست کے صبر کی بھی حد ہوتی ہے، ہم کتنے دن آپ کا لحاظ کریں گے؟ ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنا کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔

فواد چوہدری نے مزید کہا کہ آئی جی پنجاب پولیس کالعدم ٹی ایل پی کیخلاف آپریشن کی تفصیلات پیش کریں گے۔

فواد چوہدری نے دیگر ریاستی اداروں سے بھی درخواست کی کہ وہ ٹی ایل پی سے متعلق اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کریں۔

وزیر اطلاعات نے کہا کہ ٹی ایل پی ایک کالعدم تنظیم اور شر پسند گروپ ہے، انہوں نے وتیرہ بنا لیا ہے کہ بہانہ کرکے باہر نکلتے ہیں اور سڑکیں بلاک کر دیتے ہیں، پاکستان نے القاعدہ جیسی تنظیم کو شکست دی ہے، ریاست کو کمزور سمجھنے کی غلطی نہ کریں، پہلے 6 مرتبہ یہ تماشا لگ چکا ہے، ریاست نے بہت صبر کا مظاہرہ کیا ہے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ دو دنوں میں 3 پولیس اہلکار شہید ہوچکے ہیں، 27 کلاشنکوف بردار سادھوکی میں ان کے ساتھ شامل ہوئے، ہم کتنی دیر آپ کا لحاظ کریں گے، کل وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس میں فیصلہ ہوا، اجلاس میں انٹیلی جنس چیفس اور ادارے شریک تھے، اب ہم اس تحریک کو باقی دہشتگرد تنظیموں کی طرح ٹریٹ کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ جو یوٹیوب اور سوشل میڈیا پر مہم چلا رہے ہیں وہ بھی اپنے رویوں پر نظرثانی کر لیں ، فیک نیوز کے کلچر کو برداشت نہیں کیا جائے گا، بھارت اور کچھ دیگر ممالک سے فیک نیوز پھیلانے والوں کو مدد مل رہی ہے ہم ان کے خلاف کارروائی کریں گے۔

قبل ازیں وزیراعظم عمران خان نے بھی کابینہ اجلاس میں کالعدم ٹی ایل پی کے تمام مطالبات ماننے سے انکار کر دیا ہے اور راستے بند کرنے والوں کے خلاف سختی سے نمٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔

وزیر اعظم نے شہریوں کا راستہ روکنے والوں سے سختی سے نمٹنے کی ہدایت کردی ہے۔

وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کالعدم تنظیم کے مظاہرین کو جی ٹی روڈ پر روکنے کا فیصلہ کیاگیا اور جہلم پل پر رینجرز کو تعینات کر دیا گیا ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ کسی کو بھی قانون کو ہاتھ میں لینے نہیں دیا جائے گا، سیاسی مقاصد کے لیے تشدد کا راستہ اختیار نہیں کرنے دیں گے، پولیس والوں کو مارنا سیاسی کارکنوں کاکام نہیں۔

خیال رہے کہ کالعدم ٹی ایل پی نے 12 ربیع الاول کے روز سے اپنے احتجاج کا دائرہ وسیع کیا ہے۔ ابتدائی طور پر تنظیم نے ملتان اور لاہور میں دھرنے دیے جس کے بعد لاہور کی طرف مارچ کا اعلان کیا گیا۔

سکیورٹی اداروں نے مظاہرین کو اسلام آباد پہنچنے سے روکنے کیلئے اہم سڑکیں بند کر دیں ہیں جبکہ مظاہرین نے گزشتہ کئی روز سے جی ٹی روڈ پر دھرنا دیا ہوا ہے جس کی وجہ سے ٹرانسپورٹ سروس معطل ہے۔

کالعدم تنظیم کے مارچ کے باعث وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور پنجاب کے مختلف شہروں میں نظام زندگی متاثر ہے۔

راولپنڈی میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں، اسلام آباد اور راولپنڈی کو ملانے والی مرکزی شاہراہیں سیل کر دی گئی ہیں۔ صدر سے فیض آباد میٹرو سروس معطل ہے۔ متبادل راستوں پر شدید ٹریفک جام ہوگیا ہے اور شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے، مریضوں کا اسپتال جانامشکل ہوگیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق پولیس اور مظاہرین کے درمیان اب تک ہونے والی جھڑپوں میں 5 پولیس اہلکار شہید ہوچکے ہیں جبکہ متعدد زخمی ہوئے ہیں۔

ٹی ایل پی کا ایک مطالبہ یہ ہے کہ ان کے سربراہ علامہ سعد حسین رضوی کو رہا کیا جائے جبکہ وہ پاکستان سے فرانس کے سفیر کی ملک بدری کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔

امریکا اپنی پراکسی فورس داعش کے ذریعے افغانستان میں حالات خراب کر رہا ہے، ایران

طالبان حکومت کے مستقبل کے حوالے سے ایران کی میزبانی میں چین، روس، پاکستان، تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان کے وزرائے خارجہ کے اہم اجلاس میں افغانستان میں مخلوط حکومت کے قیام پر زور دیا گیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایران نے افغانستان میں تمام قومیتوں اور طبقات کی نمائندوں پر مشتمل جامع حکومت کی تشکیل کے سلسلے میں پڑوسی ممالک کے وزرائے خارجہ کے اہم اجلاس انعقاد کیا جس میں پاکستان، تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان کے وزرائے خارجہ بے بہ نفس نفیس جب کہ چین اور روسی ہم منصب ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوئے۔
ایک روزہ اجلاس کا افتتاح کرتے ہوئے صدر ابراہیم رئیسی کی نمائندگی کرتے ہوئے ایران کے نائب صدر محمد مخبر نے کہا کہ افغانستان میں امریکی پالیسیوں کی شکست کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امریکا نے پورے خطے میں اپنی تباہ کن پالیسیوں کو ترک کر دیا ہے۔
اجلاس کے میزبان ملک کے نائب صدر نے داعش کو امریکا کی پراکسی فورس قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ اب امریکا نے افغانستان میں خانہ جنگی کو بھڑکانے کے لیے داعش کا استعمال شروع کردیا ہے۔
اس کے بعد اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتیرس نے ریکارڈ شدہ ویڈیو لنک میں کہا کہ طالبان حکومت کے بعد سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور خواتین مظاہرین پر حملے پریشان کن ہیں۔ انسانی بحران کے شکار ملک کو دہشت گردی سے نمٹنے اور منشیات کی اسمگلنگ کے خلاف اقدامات اُٹھانے چاہیئے۔
چین کے وزیر خارجہ وانگ یی سمیت ساتوں وزرائے خارجہ نے افغانستان میں مخلوط حکومت بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیتے ہوئے رابطے بحال رکھنے اور مزید اجلاس منعقد کرنے کی تجویز دی۔
اس موقع پر چین نے اگلے اجلاس کی میزبانی کا اعلان کیا تاہم ابھی اس کی تاریخ کا طے ہونا باقی ہے۔ گزشتہ ماہ ایسا ہی ایک اجلاس پاکستان کی میزبانی میں بھی ہوا تھا۔