یو اے ای کا پاکستانی ائیرپورٹس پر موجود لیبارٹریوں کے معیار پر تحفظات کا اظہار

وفاقی وزارت صحت نے تمام ملکی انٹرنیشنل ائیرپورٹس پر لیبارٹریوں کے فوری معائنےکا فیصلہ کیا ہے۔

وفاقی حکام کا کہنا ہےکہ ائیرپورٹس پرکام کرنے والی اکثر لیبارٹریوں کا عملہ غیر تربیت یافتہ ہے۔

خیال رہے کہ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے مطابق گزشتہ ماہ پاکستان سے 75 ہزار مسافر متحدہ عرب امارات گئے تھے، جن میں سے 684 افراد میں کورونا وائرس پایا گیا تھا۔

پاکستان سے آنے والے افراد کے کورونا سے متاثر ہونے پر متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے پاکستان میں لیبارٹریوں کے معیار پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

پاکستان تاجکستان بزنس فورم: وزیراعظم کی سرمایہ کاروں کو ہرقسم کی سہولیات فراہم کرنے کی یقین دہانی

وشنبے : وزیراعظم عمران خان نے پاکستان تاجکستان بزنس فورم میں سرمایہ کاروں کو ہرقسم کی سہولیات فراہم کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا دونوں ملکوں میں تجارت سے فائدہ ہوگا۔

تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے پاکستان تاجکستان بزنس فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کےفورم کامقصد دونوں ممالک کے کاروباری روابط کو بڑھانے سمیت پاکستان اورتاجکستان کےتاجروں سےمخاطب ہونا ہے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں بجلی مہنگی ہے، اپنے ملک کاروباری طبقے کو سہولتیں فراہم کرنےکی کوشش کررہے ہیں اور سرمایہ کاروں کو سہولیات کے لیے خصوصی اقدامات کیے گئے ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ توانائی کےمنصوبے کاسا 1000کی جلد تکمیل چاہتے ہیں، ہم پاکستان میں صنعتکاروں کوسہولتیں فراہم کررہےہیں اور پاکستان میں سرمایہ کاروں کے لیے آسانیاں پیدا کی جارہی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں ملکوں میں تجارت سے فائدہ ہوگا اور بزنس کمیونٹی کو ہرقسم کی سہولت فراہم کی جائےگی، پاکستان سےمختلف67کمپنیاں تاجکستان آئی ہیں، توانائی کے منصوبے کاسا1000کی جلد تکمیل چاہتے ہیں، سستی اورماحول دوست ہائیڈر و پاور انرجی سے فائدہ اٹھاسکے۔

پی آئی اے کا لاہور سے پشاور کیلئے پروازیں شروع کرنے کا فیصلہ

پی آئی اے نے لاہور سے پشاور کیلئے پروازیں شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق قومی ایئر لائن پی آئی اے نے لاہور سے پشاور کیلئے پروازیں شروع کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیر اور جمعہ کو پروازیں آپریٹ ہوں گی۔

ذرائع کے مطابق  اس حوالے سے ترجمان پی آئی اے  نے کہا کہ پی آئی اے لاہور سے پشاور کیلئے ہفتہ وار 2 پروازیں آپریٹ کرے گی، پروازیں پیر اور جمعہ کو آپریٹ ہوں گی۔

ترجمان کا کہنا ہے کہ یکم اکتوبر کولاہور سے پرواز صبح11 بج کر40 منٹ پر پشاور روانہ ہوگی جبکہ لاہور سے پشاور پروازکے لیےاے ٹی آر طیارہ استعمال کیا جائے گا۔

واضح  رہے اس سے قبل رواں سال 7 اپریل کو قومی ایئر لائن پی آئی اے  نے تاریخ میں پہلی مرتبہ لاہور سے اسکردو کے لیے فلائٹ آپریشن شروع کیا تھا، یہ ادارے کے لیے ایک اہم سنگ میل تھا، لاہور سے پہلی پرواز ایئر بس 320 کے ساتھ 160 مسافروں کو لے کر اسکردو پہنچی تھی۔

کنٹونمنٹ انتخابات اور پی ٹی آئی کی جیت

طارق ملک
پاکستان بھر میں کنٹونمنٹ بورڈ کی کل 212 نشستوں کا رزلٹ آچکا ہے جس میں سے پی ٹی آئی کی60 پاکستان مسلم لیگ ن کی 59 آزاد امیدوار55 پاکستان پیپلزپارٹی17 ایم کیو ایم10 جماعت اسلامی 7 اور بلوچستان عوامی پارٹی نے 2 نشستیں حاصل کیں اس طرح پی ٹی آئی کو سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے کا اعزاز حاصل رہا۔اس طرح پی ٹی آئی نے سندھ میں پاکستان پیپلزپارٹی کے برابر سیٹیں حاصل کیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سندھ میں پی ٹی آئی کا گراف بڑھا ہے کے پی کے نے پی ٹی آئی سے 16 آزاد امیدواروں نے 11 پی ایم ایل این نے 5 اور پاکستان پیپلزپارٹی نے 3 نشستیں حاصل کیں، اس طرح کے پی کے میں پی ٹی آئی کا پلہ بھاری رہا۔ بلوچستان میں پیپلزپارٹی اور ن لیگ کو کوئی نشست نہیں ملی۔لہٰذا پی ٹی آئی واحد قومی جماعت بن کر اُبھری جس نے پنجاب سندھ بلوچستان اور کے پی کے میں نشستیں حاصل کیں۔ مسلم لیگ ن صرف پنجاب کی جماعت بن کر رہ گئی ہے۔ اب مستقبل میں پنجاب میں اپنی اکثریت بڑھانے کے لئے پی ٹی آئی کو شہری علاقوں میں خاص طور پر مہنگائی کو کنٹرول کرنا ہو گا کیونکہ دیہی علاقوں میں اشیاء خورونوش کی مہنگائی کا اتنا اثر نہ ہے کیونکہ زمیندار اور کسانوں کو ان کی اجناس کا معقول معاوضہ مل رہا ہے۔
پاکستانی قوم حج عمرہ کرنے میں دُنیا میں پہلے نمبر پر ہے جبکہ ایمانداری میں 180 ملکوں میں سے 117 ویں نمبر پر ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں مصنوعی مہنگائی کی وجہ سے غربت میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے سابقہ چیف سیکرٹری جواد رفیق ملک نے اپنی تعیناتی کے آخری ایام میں مصنوعی مہنگائی ختم کرنے کے لئے دن رات کام کیا اور پرائس مجسٹریٹس کے ہفتہ وار اجلاس کی خود صدارت کی۔ اُنہوں نے غریبوں کو ٹارگٹڈ سبسڈی دینے کا ایک طریقہ کار بھی واضع کیا تھا جس کے تحت ہر غریب گھرانے کو آٹے کی مد میں ایک ہزار روپیہ ادا کرنا تھا جو کہ ایک بہت بڑا ریلیف تھا مگر اب اُن کے جانے کے بعد اس سکیم کا کیا بنتا ہے کچھ پتا نہیں۔
نئے چیف سیکرٹری صاحبکو وزیراعظم عمران خان کی طرف سے مہنگائی کنٹرول کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے جس کے لئے وہ آتے ہی دن رات کام کر رہے ہیں۔ اُنہوں نے کام اور کارکردگی کی بنیاد پر تبادلے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تمام ڈپٹی کمشنر زکو پرائس کنٹرول پر الرٹ کر دیا ہے سب سے بڑھ کر چیف سیکرٹری پنجاب نے ڈپٹی کمشنرز کی کارکردگی پرائس کنٹرول سے جانچنے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ خوش آئند ہے اس ضمن میں چیف سیکرٹری پنجاب کی خدمت میں گزارش ہے کہ تمام دکانوں پر نمایاں طور پر اشیا خورونوش کے ریٹ لگوائے جائیں عام طور پر ایک چھوٹے سے کاغذ پر ریٹ لسٹ جاری کی جاتی ہے جس کو دکان دار چھپا کے رکھ لیتے ہیں اور غریب عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں۔ غریب عوام چیزوں کی قیمتوں سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے زیادہ قیمتیں دینے پر مجبور ہوتے ہیں اگر اشیائے تصرف کی قیمتیں نمایاں طور پر آویزاں ہوں تو کوئی بھی شخص زائد قیمت ہر گز ادا نہیں کرے گا۔ ریٹ لسٹ کے نیچے متعلقہ پرائس مجسٹریٹ کا موبائل نمبر بھی درج ہونا چاہئے تا کہ کوئی بھی صارف کسی بھی شکایت کی صورت میں متعلقہ مجسٹریٹ کو مطلع کر سکے منڈیوں میں بھی کڑی نگرانی ہونی چاہئے اور مصنوعی ریٹ کی بجائے قابل عمل ریٹ طے ہونے چاہئیں۔ پرچون ریٹ میں منڈی سے دکان تک کا کرایہ اور دکان دار کا جائز منافع شامل ہونا چاہئے اس کے باوجود کوئی اگر زائد قیمت وصول کرتا ہے تو اُس کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کرنی چاہئے جس میں کم از کم تین یوم قید سات یوم تک دکان سیل کرنا شامل ہونا چاہئے۔ جرمانوں سے اجتناب کرنا چاہئے کیونکہ جرمانوں میں کرپشن کا عنصر ہوتا ہے اور دکاندار یہ جرمانے مزید مہنگائی کر کے سائلوں سے حاصل کرتے ہیں۔
پی ٹی آئی کی حکومت کے لئے سب سے بڑا چیلنج مہنگائی کو کنٹرول کرنا ہے۔ ایک تو روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت زیادہ ہونے کی وجہ سے مہنگائی ہوئی ہے دوسرے مصنوعی مہنگائی جو کہ دکانداروں نے خود پیدا کی ہے۔ جس کو دوسرے لفظوں میں اوورچارجنگ کہتے ہیں کو روکنا بہت ضروری ہے یہ کام انتظامی مشینری کا ہے اور چیف سیکرٹری پنجاب نے واضح طور پر ڈپٹی کمشنرز کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈ کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ غریب عوام نے ہوشربا مہنگائی کے باوجود ایماندار عمران خان کا ساتھ دیا سندھ میں پی ٹی آئی نے پاکستان پیپلزپارٹی کے برابر نشستیں حاصل کی ہیں۔ بلوچستان میں پی ٹی آئی واحد قومی جماعت بن کر اُبھری ہے کے پی کے میں پی ٹی آئی نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں پنجاب میں مسلم لیگ ن نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں۔ پی ٹی آئی کو پنجاب میں سخت محنت کی ضرورت ہے۔ پنجاب میں اگر مہنگائی اور مصنوعی مہنگائی کو ختم کر دیا جائے تو پی ٹی آئی پنجاب میں بھی سب سے بڑی پارٹی بن کر اُبھر سکتی ہے اس ضمن میں پنجاب کے شہری علاقوں میں ٹارگٹڈ سبسڈی صرف غریب لوگوں کو دے کر کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔
(کالم نگار ریٹائرایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل ہیں)
٭……٭……٭

ایک دانا مردِ درویش

خدا یار خان چنڑ
اناللہ واناالیہ راجعون سیدعلی گیلانی اللہ کے حضورپیش ہوگئے جہاں ٹھنڈی ہوائیں اورراحتیں آپ کی منتظرہوں گی
سیدعلی گیلانی 29ستمبر1929کومقبوضہ کشمیرکی تحصیل بانڈی پورامیں پیداہوئے آپ کے بچپن میں ہی آپ کے والدین نقل مکانی کرکے سوپورآگئے گیلانی صاحب نے ابتدائی تعلیم سوپورمیں ہی حاصل کی پھرمذید تعلیم کے حصول کے لیے لاہورتشریف لے گئے جوتعلیمی سرگرمیوں کازبردست مرکزتھاگیلانی صاحب نے طویل عرصے تک لاہورمیں قیام کیا اورنیشنل کالج لاہورسے سندفراغت حاصل کی جبکہ کشمیریونیورسٹی سری نگرسے بھی اسنادحاصل کیں۔آپ نے اپنے کیرئیر کاآغازتعلیم وتدریس سے کیااورتقریبابارہ سال تک سرکاری سکول میں پڑھاتے رہے اس دوران جماعت اسلامی سے آپ کاتعارف ہوااورآپ جماعت اسلامی کے اجتماعات میں شریک ہونے لگے اوربعدمیں جماعت اسلامی کی رکنیت اختیارکرلی جب جماعت اسلامی نے آپ کوذمہ داری دی توآپ نے ملازمت سے مستعفی ہوکرخودکوجماعت اسلامی کے لیے وقف کردیا اورطویل عرصے تک جماعت اسلامی کے کارکن کی حیثیت سے کام کرتے رہے اورساتھ ساتھ کشمیرکی سیاست میں بھی دلچسپی لینے لگے آپ کی یہ سرگرمیاں حکومت کوکھٹکنے لگیں تو28اگست1962کوپہلی دفعہ گرفتارکرلیا گیا 13ماہ تک جیل میں رکھاگیاجب آپ رہاہوئے توکشمیرپربھارت کے جارحانہ اورناجائزقبضے کے خلاف میدان میں آگئے آپ کوباربارگرفتارکیاجاتارہاآپ نے کم وبیش26 سال جیلوں میں گزارے اوربرسوں تک آپ کونظربندرکھاگیالیکن یہ تمام ہتھکنڈے آپ کے اصولی موقف میں ذرّہ برابربھی لچک پیدانہ کرسکے۔
وہ 26سیاسی وسماجی پارٹیوں کے اتحاداورآل پارٹیزحریت کانفرنس کے لمبے عرصے تک چیئرمین رہے آپ بھارت کے ریاست جموں وکشمیرپرناجائزقبضے کوللکارتے رہے اورمرتے دم تک اس موقف پرڈٹے رہے گیلانی صاحب 15سال تک ریاست جموں وکشمیرکی اسمبلی کے رکن بھی رہے۔7اگست2004کوگیلانی صاحب نے تحریری مفاہمت کے بعدجماعت اسلامی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیاکیونکہ آپ مقبوضہ کشمیرمیں آزادی کی جدوجہدکومزیدتیزکرناچاہتے تھے اس کے لیے گیلانی صاحب نے تحریک حریت جموں وکشمیرکی بنیادرکھی اورمقبوضہ کشمیرمیں جاری مسلح جدوجہدکوحق بجانب قراردے دیا۔
گیلانی صاحب مسئلہ کشمیرمیں پاکستان کے اس موقف کی تائیدکرتے رہے کشمیرپاکستان کی شہہ رگ ہے اورکشمیرکی آزادی اوراس کاپاکستان سے الحاق بہت ضروری ہے گیلانی صاحب ریاست جموں وکشمیرکوپاکستان کاحصہ قراردیتے تھے اورمرتے دم تک اس موقف پرقائم رہے اس طرح تمام حکومتی بھارتی حربے ناکام ثابت ہوئے۔عمران خان کے حکومت میں آنے کے بعدگیلانی صاحب مسلسل ان سے رابطے میں رہے اورخط کے ذریعے اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیرپر وزیراعظم کے خطاب کی تعریف کی اورمشورہ دیاکہ وہ اپنے خطاب کی روشنی میں بھارت کے ساتھ مسلہ کشمیرپرماضی میں کئے گئے تمام دوطرفہ معاہدوں سے ہٹ جائیں اورکنٹرول لائن پربھارت کی جانب سے لگائی گئی خاردارباڑکے خلاف اقوام متحدہ سے رجوع کریں۔حکومت پاکستان سیدعلی گیلانی صاحب کی انتھک جدوجہد اورخدمات کے اعتراف میں انہیں نشان پاکستان سے نوازا۔گیلانی صاحب اس بات کے حامی تھے پاک فوج کومقبوضہ کشمیرمیں پیش قدمی کرنی چاہیے جس کاکشمیری عوام شدت سے انتظارکررہے ہیں۔سیدعلی گیلانی کی فکرحریت کی شمع مقبوضہ کشمیرکی آزادی تک روشن رہے گی اوران کی اس امانت کوپاکستانی اورکشمیری مل کرآگے لے کربڑھیں گے سیدعلی گیلانی صاحب کی ساری زندگی کشمیری اورپاکستانی عوام کی محبت میں گزری 1947میں شروع ہونے والاآزادی کاسفراب تک جاری ہے اورآزادی تک جاری رہے گا ان شااللہ۔
اب کشمیرکے ہر گلی کوچے سے لے کرقریہ قریہ تک جیل کی اندھیری کوٹھڑی سے لے کر پہاڑوں کی اونچی چوٹیوں تک سیدعلی گیلانی کی کاوشوں کوسراہاجارہاہے آپ نے کشمیری عوام اورخاص طور پر نوجوان نسل کوبھارت کاغلام بننے کی بجائے اپنی آزادی کے لیے لڑناسکھایا۔آپ نے1977ء کاالیکشن بھی جیل سے ہی لرااورکامیاب ہوئے اسمبلی کے اندربڑی جرأت کے ساتھ بھارت کوللکارتے تھے اس کی وجہ سے کئی بارآپ کوجیل جاناپڑاآپ نے آزادی کشمیرکے لیے ساری زندگی کی ایسی قربانی دی کہ اب دوسروں کوبھی اپنے حقوق کے لیے جنگ لڑنا آسان ہوگئی ہے۔اب تیزی کے ساتھ دنیاکانقشہ بدل رہاہے بہت جلدسیدعلی گیلانی کی روح خوش ہوجائے گی جب کشمیرآزادہو جائے گاابھی تووہ جیل کی قیدپابندیاں جوکئی سالوں سے کاٹ رہے تھے ان سے آزادہوکراللہ کے پاس چلے گئے ہیں اللہ پاک گیلانی صاحب کوجنت الفردوس میں جگہ عطافرمائے اوران کی آزادی کی تحریک پایہئ تکمیل کو پہنچے اوران کے لواحقین کوصبرجمیل عطافرمائے پوری پاکستانی قوم ان کے غم میں برابرکی شریک ہے سیدعلی گیلانی مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن تھے۔
(کالم نگارسیاسی وسماجی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

انشورنس کیسے کروانی چاہئے

عبدالباسط خان
انشورنس کروانا ایک مفید عمل ہے یا انشورنس ایک نقصان دہ سودا ہے۔ اس سلسلے میں مختلف آرا عوام میں پائی جاتی ہیں۔ سوشل میڈیا بھی اس سلسلے میں بہت تنقیدکرتا ہے اور بعض انشورنس کمپنیوں کے خلاف مہم چلا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بعض لوگ جو انشورنس کمپنیوں کے خلاف محاذ آرائی کر رہے ہیں ان میں بعض نامور وکلا حضرات اور تجزیہ کار بھی شامل ہیں۔ اکثر لوگ اپنی زندگی کا بیمہ کروا کر اپنے پسماندگان کیلئے آسانیاں تلاش کرتے ہیں اور بعض لوگ اپنی گاڑیوں، فیکٹریوں اور مال اسباب کا بیمہ کراتے ہیں تاکہ رسک اور نقصان سے بچا جا سکے۔ پاکستان میں جو بیمہ پالیسی ہوتی ہے یا جو لوگ اپنی انشورنس کرواتے ہیں وہ بیرون ممالک کی انشورنس پالیسی کے مقابلے میں عشر عشیربھی نہیں ہوتی اورنہ ہی اس میں اتنی زیادہ انوسٹمنٹ ہوتی ہے۔ جو کہ باہر دیگر ممالک میں لوگ کرواتے ہیں۔ ایک واضح فرق تو یہ ہے کہ لوگ باہر کے ممالک میں زیادہ سمجھدار باشعور اور پڑھے لکھتے ہوتے ہیں دیگر وہاں کمپنیاں زیادہ شفافیت کے ساتھ لوگوں کی پالیسی کرتی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ پاکستان میں انشورنس کمپنیاں لوگوں کے ساتھ جان بوجھ کر فراڈ کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے یہاں ہمارا سوشل میڈیا اور لیگل برادری انشورنس کمپنیوں کو یکطرفہ طور پر موردِ الزام ٹھہراتے ہیں جو سراسر غلط بیانی پر مبنی ہے۔ در حقیقت جو لوگ انشورنس کروا کر نقصان اٹھاتے ہیں وہ انشورنس سے پہلے اس کی تمام شقوں پر مکمل آگاہی حاصل نہیں کر پاتے یہ درست ہے کہ انشورنس کمپنیاں لوگوں کو زیادہ سے زیادہ انشورنس پالیسی کر کے اپنے کاروبار کو آگے بڑھاتی ہیں مگر بعض ایسے مراحل ضرور ہیں کہ اگر انشورنس کروانے والا ان سے مکمل آگاہی حاصل کر لے تو شائد نقصان کا احتمال نہ رہے بلکہ کارآمد اور مفید بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ چونکہ انشورنس کمپنیاں خود اپنے کارندوں کے ذریعے بھی انشورنس براہ راست کرتی ہیں اور بینکوں کے ذریے بھی۔ لوگوں کی زندگی کا بیمہ یا انشورنس کرتی ہیں اس سلسلے میں اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے مختلف بینکوں کو لوگوں کی پالیسیاں کرنے کے لئے اجازت دے رکھی ہے اور بینک منیجر لوگوں کی پالیسیاں کرنے کیلئے ان کو مستقبل کے سہانے سپنے اور خواب دکھاتے ہیں اور اپنا کمیشن حاصل کر کے یہ جا اور وہ جا ہو جاتے ہیں انشورنس کروانے والا جب مالی مشکلات کاشکار ہوتا ہے اور اپنا پریمیم ادا نہیں کر سکتا تو پالیسی کروانے والا بینک جاتا ہے تو وہاں کوئی اور شخص موجود ہوتا ہے اور اس کے ساتھ دوستانہ برتاؤ کی بجائے تحقیر آمیز رویہ اختیار کرنا شروع کرتا ہے مجبوراً یہ شخص جب متعلقہ انشورنس کمپنی سے اپنی رقم کی واپسی کا مطالبہ کرتا ہے تو اتنی حقیر سی رقم اس شخص کو واپس ملنے کی بتائی جاتی ہے کہ اس کے پاؤں تلے سے زمین نکل جاتی ہے وہ پیر پٹختا جب کسی وکیل کے پاس جاتا ہے تو وہ اسے اپنی قانونی فیس کے ساتھ کیس لڑنے کی دعوت دیتا ہے۔ اب یہاں کیس کرنے کے چند فورم ہیں جس میں بینک کے ٹریبونل‘ ایس ای سی پی، سول کورٹ یا پھر انشورنس کے وفاقی محتسب کے دروازوں پر دستک دی جا سکتی ہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ انشورنس کروانے والا قبل از وقت اپنی رقم کی واپسی کا مطالبہ کر رہا ہے جس میں اس کی کیش ویلیو نہایت کم ہوتی ہے پہلے سال کے اندر رقم کی واپسی دوسرے سال اور تیسرے سال سے لے کر چھٹے سال تک انشورنس پالیسی کی رقم کیش ویلیو کے ساتھ بمشکل اس کی جمع کردہ رقم کے برابر یا پھر اس سے بھی کم ہوتی ہے۔ اس وقت تک انشورنس کروانے والے کی دماغی اور ذہنی حالت بہت خراب ہو چکی ہوتی ہے وہ سمجھنے لگتا ہے کہ اس کے ساتھ فراڈ ہو گیا ہے جب وہ وفاقی محتسب کی عدالت میں تمام تر مراحل جو انشورنس آرڈیننس 2000 میں موجود ہیں طے کر کے جاتا ہے اور کہتا ہے کہ جناب میں نے تو انشورنس ہی نہیں کروائی تھی بلکہ مجھے سرمایہ کاری کرنے کی دعوت بینک والوں نے دی تھی تو پھر جواب میں کمپنی اسی شخص کی ریکارڈ شدہ گفتگو انشورنس محتسب کے فورم پر سنا دیتی ہے جہاں اسے انشورنس کروانے کی دعوت سمیت مختلف سوالات کئے جاتے ہیں۔ وہ شخص اب واقعی سٹپٹا جاتاہے تو کمپنی اس کو اس کی رقم کی کیش ویلیو بتاتی ہے جس میں بینک والے کا کمیشن سے لیکر کمپنی کے اخراجات اور اس شخصہ کی بیمہ پالیسی تک میں وہ تمام رسک شامل کرتی ہے اور مکمل منہا کر کے اگر اس نے فرض کیا پانچ یا چھ سال میں پانچ یا چھ لاکھ جمع کروائی ہے تو اس رقم کا یعنی پچاس سے ساٹھ فیصد ادا کرنے کی خبر سنا دی جاتی ہے اور مختلف مراحل میں جب پریمیئر ادا کیا جانا ہوتا ہے تو ایک سال میں ایک یادو سال میں وہ مقررہ وقت پر رقم جمع ہی نہیں کرواتا تو پھر اس کا خمیازہ بھی اسے کم رقم کی شکل میں بھگتنا پڑتا ہے۔
دلچسپ صورتحال اس وقت ہوتی ہے جب کوئی انشورنس کروانے والا ایک لاکھ پریمیئر سالانہ کے لحاظ سے پورے دس سال دس لاکھ روپے جمع کرواتا ہے اور جب پالیسی مکمل میچور ہو جاتی ہے تو وہ دس لاکھ کے ہمراہ وہ رقم جو اس کے پسماندگان کو ملنی ہوتی ہے اگر وہ دس سال سے پہلے یعنی دوسرے یا تیسرے سال میں فوت ہو جانے کی صورت میں ملتی ہوتی ہے مطالبہ کرتا ہے کہ دس اور دس یعنی بیس لاکھ رقم بمعہ منافع کا مطالبہ رکھ دیتا ہے تو کمپنی والے بتاتے ہیں کہ جناب یہ تو اس صورت میں ملے گی اگر آپ انتقال فرما جائیں گے لہذا آپ کے دس لاکھ کے اوپر بمشکل ایک سے ڈیڑھ لاکھ کا منافع ملتا ہے وہ بھی اس صورت میں اگر سٹاک مارکیٹ کے حالات کمپنی کے لئے ساز گار ہوں اور یونٹس کی تعداد انشورنس کروانے والے کے حق میں ہو۔ یقینا یہ خبر اس کے لئے باعث تشویش ہوتی ہے کہ دس سال بعد صرف 80 یا 90 ہزار کا منافع یا بعض اوقات اصل رقم سے بھی کم رقم دینے کی اس کو خبر سنائی جاتی ہے۔ یہاں یہ امربھی قابل ذکر ہے کہ بعض اوقات اس شخص کے مرنے پر جب اس کے پسماندگان جن کو پالیسی کروانے والا نامزد کرتا ہے رقم لینے کے لئے کمپنی سے رجوع کرتا ہے تو اس کو یہ خبر سنائی جاتی ہے کہ اس شخص نے پالیسی کرواتے وقت کمپنی سے غلط بیانی سے کام لیا ہے لہٰذا وہ شخص پالیسی کروانے سے پہلے ہی کسی موذی مرض کا شکار تھا اور کمپنی سے غلط بیانی کرنے کی پاداش میں وہ رقم جو اس شخص کے نامزد کردہ فرد یعنی بیوی یا بیٹے کو ملنی چاہئے اس سے محروم کر دیا جاتا ہے۔
یہاں پر صورتحال بہت تشویش ناک اور سنگین ہو جاتی ہے۔ مرنے والے کے لواحقین کو بتایا جاتا ہے کہ پالیسی سے چھ ماہ پہلے یا سال پہلے وہ شخص کینسر کے مرض میں یا ہیپاٹائٹس سی کے مرض میں مبتلا تھا اور اس نے پالیسی پر دستخط کرتے وقت اس بیماری کا ذکر نہیں کیا تھا۔ لواحقین انشورنس فورم پر چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ انشورنس کمپنی نے آخر اس کا میڈیکل ٹیسٹ کیوں نہیں کروایا تھا۔ انشورنس ایکٹ کی مختلف دفعات جس میں انشورنس کرنے والے اور انشورنس کروانے پر لازم ہے کہ وہ دھوکہ دہی، فریب اور غلط بیانی سے کام نہیں لے گا۔ انشورنس کلیم لینے والے کے لئے دردسر بن جاتی ہیں۔ لہٰذا یہاں اس بات کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے کہ انشورنس کرواتے تمام تر معلومات حاصل کرنے کی اس شص میں اہلیت ہونی چاہئے یا پھر کسی پڑھے لکھے رشتہ دار یا دوست کی مدد سے اسے تمام شقوں کا مکمل ادراک ہونا چاہئے کہتے ہیں کہ مشتری ہوشیار باش مگر یہاں تمام الزام کمپنیوں پر تھوپ دیا جاتا ہے کہ انشورنس کمپنیاں دھوکہ دہی سے کام لے رہی ہیں۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ صرف غیر ان پڑھ سادہ لوح یہ نقصان اٹھاتے ہیں حالانکہ اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگ بلکہ گریڈ بیس اکیس تک کے سیانے لوگ بھی اس کاشکار ہو رہے ہیں یہاں پر ان اقدامات کا ذکر کرنا مناسب ہو گا جن کی وجہ سے لوگ نقصان اٹھاتے ہیں اور ساتھ ساتھ ان اقدامات کی ضرورت بھی ہے تاکہ انشورنس کروانے والے اور انشورنس کمپنیوں کے درمیان ایک مفید شفاف اور دیانتداری والا رشتہ قائم ہو جائے۔ سب سے پہلے انشورنس کروانے والا شخص پالیسی کو منسوخ کروانے کے پندرہ دن کے اندر اندر اگر وہ شخص پالیسی منسوخ کروا لے گا تو اسے کسی قسم کا نقصان نہیں اٹھانا پڑے گا اور مکمل رقم ریفنڈ ہو جائے گی۔ اگر لوگ گلہ کرتے ہیں کہ ان کے بینک اکاؤنٹ سے رقم براہ راست کمپنی منہا کر لیتی ہے کیونکہ وہ آٹو ڈیبٹنگ پیپر پر دستخط کر دیتا ہے اور جب اس کے اکاؤنٹ سے رقم خود بخود بینک والا نکلواتا ہے تو وہ دوڑتا ہوا بینک والے کے پاس جاتا ہے اور بینک والا اس کو بتا دیتا ہے کہ جناب آپ نے خود اس کاغذ پر دستخط کئے ہیں لہٰذا ہر پریمئیم کی رقم بذریعہ چیک ادا کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔ ایک اور اہم غلطی جو پالیسی کنندہ کرتا ہے وہ پریمئیم کی ادائیگی میں ڈیفالٹ کر جاتا ہے جس پر اسے پیلنٹی کا سامنا کرنا پڑتا ہے لہٰذا پالیسی کرواتے وقت رقم کی بروقت ادائیگی یا پریمیئم وقت مقررہ پر جمع نہ کروانے کی صورت میں تمام ممکنہ نقصانات کا ادراک ہونا چاہئے۔ وفاقی محتسب کا ادارہ اس صورتحال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے عوام کو آگاہی کی مہم میں شامل حال رکھ رہا ہے۔ ٹیلی ویژن کے نامور اداکار اس سلسلے میں لوگوں کو پالیسی حاصل کرتے وقت مکمل حالات سے آگاہی کا مشورہ دے رہے ہیں۔
صدر مملکت پاکستان عارف علوی نے وفاقی محتسب ڈاکٹر محمد خاور جمیل کوسالانہ رپورٹ پیش کرنے کے موقع پر خاص طور پر عوام میں پالیسی سے متعلق شعور بیدار کرنے کی اہمیت پر زور دیا اور وفاقی محتسب کا ادارہ انشورنس کمپنیوں اور شکایات کنندہ کے مابین رضامندی سے معاملات طے کر کے ایک معقول رقم دلوا رہا ہے تاکہ پالیسی ہولڈرز کو کم سے کم نقصان اٹھانا پڑے۔ اس آگاہی مہم کے نتیجے میں لوگ بہتر انداز سے اپنی رقم کے حصول میں سرخرو ہو رہے ہیں یہاں یہ امر ضروری ہے کہ زندگی کی پالیسی کا بیمہ کرتے وقت تمام انشورنس کمپنیوں کو میڈیکل ٹیسٹ کروانے کا پابند کروایا جائے تاکہ بعد ازاں مرحومین کے پسماندگان پریشانیوں سے چھٹکارا حاصل کریں۔
(کالم نگارمختلف موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

افغانستان اوردنیا کارویہ

لیفٹیننٹ جنرل(ر)نعیم خالد لودھی
افغانستان کامحل وقوع کچھ اس طرح کاہے کہ یہ وسطی ایشیا‘جنوبی ایشیا اورمغربی ایشیاکے سنگم پرواقع ہے اور خاص طورپر وسط ایشیا کے لئے سمندروں تک جانے کاراستہ بھی فراہم کر سکتا ہے اگر پاکستان او ر ایران تک اس کے ذریعے راستہ کھل جائے۔ اس بنیادی وجہ سے چین اورروس کے لئے یہ خاص اہمیت کاحامل ہے اور جس چیز سے بھی چین اور روس کوفائدہ پہنچے اس میں بھلا امریکہ اپنی ٹانگ کیوں نہ اڑائے؟
بھارت کے لئے بھی افغانستان کی بہت بڑی اہمیت ہے کہ یہ شمال کی طرف بھارت کو راستے فراہم کرسکتاہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ پوری دنیا کے لئے انتہائی اہمیت کاحامل بن جاتاہے۔
اب ہم ذرا ایک ایک کرکے جائزہ لیتے ہیں کہ ان تمام ممالک جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے ان کے اورکون کون سے مفادات افغانستان کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
سب سے پہلے چین ہی کو لے لیں۔ افغانستان میں چین کے مفادات سیاسی بھی‘ معاشی بھی اورعسکری بھی ہیں۔ افغانستان میں چونکہ بے شمار معدنیات موجود ہیں تو خود افغانستاان کاخطہ چین کے معاشی مفادات میں واضح حیثیت رکھتاہے اس کے علاوہ بی آرآئی(Belt Road Initiative) ہے جوکہ وسطی اشیا اور بحیرہ عرب کی طرف راستوں کے ساتھ منسلک ہو جاتاہے۔ لہٰذا چین کو مشرقِ وسطیٰ‘ مغربی ایشیاء اور افریقہ تک رسائی دینے کاموجب بھی بنتا ہے۔
روس کے سلسلے میں تو یہ کہا جاسکتاہے کہ ان کاصدیوں کا گرم پانیوں تک رسائی کا خواب افغانستان اور سی پیک کے ذریعے پورا ہو سکتا ہے۔اُدھر سے ان کو ایران تک بھی بآسانی رسائی حاصل ہو سکتی ہے گوکہ روس کے پاس ایران تک رسائی اور پہنچنے کے اوربھی راستے موجود ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی حیثیت تو بہت خصوصی ہے گوکہ بظاہر وقتاً فوقتاً دونوں ممالک میں کچھ تلخی نظر آتی رہی ہے لیکن بنیادی طورپر یہ دونوں ممالک دینی‘ نسلی‘ لسانی اور معاشرتی رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں اور دونوں ممالک کی سرحد بھی باقی تما م ممالک کے مقابلے پر سب سے لمبی ہے۔ اس کے علاوہ تاریخی طورپر کئی بار یہ ایک ہی خطے کاحصہ رہے ہیں۔
اس کی وجہ سے پاکستان کے دو صوبے خیبر پختونخوااور بلوچستان اور افغانستان کے درمیانی طرف کے لوگوں کی آمدورفت صوبوں سے آسان رہی ہے اور کچھ سال پہلے تک ان دونوں ملکوں میں آنے جانے کے لئے ایسی سہولیات میسر تھیں کہ کسی پاسپورٹ یا ویزے کی کبھی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ اب جا کے سفری معاملات کچھ باضابطہ بنائے جا رہے ہیں اور پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہر قسم کی تجارت سال کے تمام دنوں میں کھلی رہتی ہے لہٰذا پاکستان کے بھی افغانستان میں بہت گہرے مفادات ہیں۔
بھارت گو کہ افغانستان کا بلا واسطہ ہمسایہ تو نہیں ہے لیکن پاکستان کے ذریعے ان کی تجارت کا حجم بھی افغانستان کے ساتھ کافی بڑا رہا ہے گو کہ آج کل اس میں کچھ تعطل اور دشواریاں آئی ہیں جس کی بنیادی وجہ بھارت اور پاکستان کے تنازعات ہیں۔ جب ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ امریکہ اور چین کی معاشی اور سیاسی مخاصمت دنیا کے کئی خطوں میں موجود ہے، اس طرح افغانستان میں بھی امریکہ کی توجہ کا مرکزبن جاتا ہے۔ امریکہ کے روس اور وسط ایشیا کے کچھ ممالک کے اس سلسلے میں بہت سے تحفظات موجود ہیں۔ اب تک قارئین کو یہ اندازہ ہو گیا ہوگا کہ امریکہ نے افغانستان پر حملہ کرکے جو تسلط قائم کیا اس کا واحد مقصد فقط القاعدہ کو ختم کرنا نہیں تھا بلکہ وہ یہاں پر اس طرح براجمان ہونا چاہ رہا تھا جس سے وہ چین، روس اور وسط ایشیا کے کچھ ممالک کے لئے راستے کی دیوار بن جائے اور اس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی رہا۔
آپ یہ اندازہ کیجئے کہ وہ 20 سال تک وہاں رہ کر نہ تو افغانستان کی تعمیر و ترقی میں کوئی قابل ذکر کردار ادا کر سکا اور نہ ہی سیاسی طور پر افغان عوام کی کوئی خدمت کر پایا بلکہ وہاں پر توڑ پھوڑ اور انتشار پیدا کرکے ایک بڑا کردار ضرور ادا کیا لیکن چین کے اثر و رسوخ کو اس نے 15 سال پیچھے دھکیل دیا اور دو دہائیوں تک روس کا گرم پانیوں تک پہنچنے والا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہونے دیا۔ اب جبکہ امریکہ کی بساط افغانستان سے لپیٹ دی گئی ہے تو چین اور ایران اور پاکستان کے لئے بہت روشن روشن امکانات پیدا ہوئے ہیں لیکن جس طرح کہا جاتا ہے“رسی جل گئی مل مگربل نہ گیا“ امریکہ کی آج بھی پوری کوشش ہے کہ افغانستان میں طالبان کی نئی حکومت اپنے پاؤں نہ جمانے پائے، منافقت کی حد دیکھئے کہ نو ارب ڈالر کی وہ رقم جو افغانستان کے اپنے پیسے ہیں ان کو روک کر ان پر سانپ بن کر بیٹھا ہوا ہے۔ حالانکہ ورلڈ فوڈ آرگنائزیشن بار بار یہ انتباہ کر رہی ہے کہ افغانستان میں خوراک کے حوالے سے کہیں قحط نہ پڑ جائے۔
اب دیکھنا یہ ہے جبکہ افغانستان میں طالبان کی حکومت تشکیل پا چکی ہے، عمومی طور پر دنیا اور خاص طور پر جن ممالک کا سطور بالا میں تذکرہ ہوا ہے وہ اپنے رویوں میں کیا تبدیلی لے کر آتے ہیں۔ بظاہر تو یہی نظر آتا ہے کہ چین، روس، ایران، پاکستان اور ترکی سمیت کوئی درجن بھر ممالک افغانستان کی حکومت کو تسلیم کیا ہی چاہتے ہیں جبکہ امریکہ اور اس کے حواریوں کی خواہش یہ ہے کہ اس نئی حکومت کو نہ تو وہ خود تسلیم کریں اور نہ ہی دوسرے ممالک کو ایسا کرنے دیں۔ ہمارا تجزیہ یہ ہے کہ امریکہ اس حوالے سے دوبارہ منہ کی کھائے گا اور افغانستان کی حکومت کچھ عرصے میں سیاسی طور پر مستحکم ہو جائے گی البتہ معاشی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لئے افغانستان کو دوست ممالک کی مدد اور کچھ وقت ضرور درکار ہوگا اور دوستوں کی کمی ہمیں نظر نہیں آتی۔ اس رسہ کشی کا جلد ہی اختتام ہونے والا ہے اور یوں لگتا ہے کہ آخرکار امریکہ، برطانیہ اور دوسرے مغربی ممالک اس علاقے کو چین اور روس کیلئے خالی چھوڑنے کی بجائے پینترا بدل کر یا بھیس بدل کر دوبارہ یہاں پر آن وارد ہوں گے اور اس سے پاکستان کی حیثیت بہت ممتاز ہو جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج کل آپ کو مغربی ممالک کے بہت سے انتہائی اہم لوگوں کا آنا جانا نظر آتا ہے۔
(کالم نگار سابق کورکمانڈر اور وفاقی
سیکرٹری دفاع رہے ہیں)
٭……٭……٭

آئی جی پولیس پنجاب ایک نظر اپنے گھر پر

سید سجاد حسین بخاری
جناب ڈاکٹر راؤ سردار صاحب موجودہ حکومت میں آپ پنجاب میں گزشتہ تین سالوں میں تعینات ہونے والے پانچویں انسپکٹر جنرل پولیس ہیں۔ آپ کی قابلیت اور ایمانداری شک وشبے سے بالا ہے اور سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ سفارش کی بجائے آپ میرٹ پر کام کرتے ہیں جوکہ آج کے دور میں بہت کم آفیسر ایسا کرتے ہیں۔لودھراں شہر کے آپ رہائشی ہیں جوکہ ہمارے وسیب کا ایک پسماندہ ترین علاقہ ہے۔آپ پنجاب پولیس کے اُس عہدے پر فائز ہیں جو ہر پولیس آفیسر کا خواب ہوتا ہے جسے خدا نے پورا کردیا اور جب تک خدا کو منظور ہوگا آپ اس عہدے پر قائم رہیں گے بس ایک ہی دعا ہے کہ جس عزت سے آپ آئے ہیں اسی طرح عزت سے آپ واپس جائیں۔
میں بھی چونکہ اسی خطے کا رہائشی ایک معمولی سا اخبارنویس ہوں اور زندگی میں اپنی اوقات اور عمر سے زیادہ دیکھ چکاہوں لہٰذا ضروری سمجھتاہوں آپ سے آپ کے محکمے کی چند باتیں شیئرکردوں ممکن ہے کہ آپ ان میں کوئی بہتری لاسکیں۔ پولیس میں صرف ایک عہدہ اہم ہوتا ہے جسے ایس ایچ او کہاجاتا ہے جس کی تعیناتی کیلئے اس علاقے کا سیاستدان اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگاکر اپنی پسند کا ملازم لگواکر مرضی کے پرچے‘ پکڑدھکڑ وغیرہ اوراس کا کام اپنے مخالفین کی زندگی کو اجیرن بنانا ہوتا ہے۔ آپ کی بادشاہی میں جنوبی پنجاب وہ خطہ ہے جہاں پر پنجاب بھر میں سب سے زیادہ قتل وغارت‘ اغوا‘ بھتہ‘ قبضہ مافیا‘ منشیات مافیا‘ سٹریٹ کرائم‘ بچوں کے ساتھ نہ صرف زیادتی بلکہ اغوا‘ زنا اور پھر قتل یہ روز کا معمول ہے۔ گزشتہ صرف ایک ماہ کا ریکارڈ آپ اٹھاکردیکھیں تو آپ کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے اور یہ تو رپورٹ ہونے والے مقدمات ہیں جبکہ اتنی یا اس سے زیادہ تعداد کے مقدمات کا اندراج ہی نہیں ہوتا۔ عام آدمی سے لیکر ججز اور خود پولیس آفیسر کے گھر تک محفوظ نہیں ہیں۔
اصل خرابی کہاں ہے؟ جی اصل خرابی کی جڑ آپ کا ایس ایچ او ہے اور خصوصاًرینکر ایس ایچ او برائی اور خرابی کی جڑ ہے کیونکہ وہ سپاہی یا اے ایس آئی بھرتی ہوتا ہے جب وہ ایس ایچ او لگتا ہے تو وہ منبع برائی یا خرابی ہوتا ہے اسے اپنے افسر کی بھی پروا نہیں ہوتی وہ دو کاموں سے سی پی او یاڈی پی او کو رام کرتا ہے۔ ایک سیاستدان سے دوسرا مال پانی سے اگر اس کا سی پی او کرپٹ ہو۔
اب ہرتھانے کا ایس ایچ او خصوصاً رینکر چار کاموں پر خصوصی توجہ دیتا ہے۔ پہلا کام وہ اپنا ذاتی کاروبار شروع کرتا ہے اور ان میں اکثریت پراپرٹی ڈیلر کا فرنٹ مین اس کا ذاتی گارڈ یا ذاتی ڈرائیور ہوتا ہے یا پھر اس کا کوئی دوست اور وہ علاقے میں جو متنازعہ پلاٹ ہوگا یا کسی طاقتور نے کمزور کے پلاٹ پر قبضہ کیا ہوگا تو وہ ایس ایچ او اونے پونے خرید کرفل قیمت پر فروخت کرکے لاکھوں روپے کمالیتا ہے اور بدقسمتی سے آپ کے چندایس پیز لیول کے افسران بھی پراپرٹی کے دھندے میں نہ صرف ملوث ہیں بلکہ قبضہ گروپوں کی سرپرستی کرتے ہیں جس کی درجنوں مثالیں موجود ہیں۔ پولیس کے افسران کا دوسرا بڑا کاروبار آج کل پولٹری شیڈز ہیں جن کے ذریعے کالے دھن کو پولیس افسران سفید کرتے ہیں اور جنوبی پنجاب میں تیسرا بڑا دھندہ پولیس افسران آج کل ایرانی تیل کی سمگلنگ کا کرتے ہیں۔ بڑے افسران نے کسٹم کے عملے کو ماہانہ رشوت طے کی ہوئی ہے اور صرف ڈیرہ غازیخان کے راستے سینکڑوں ٹرالے جنوبی پنجاب اور پھر پنجاب بھر میں داخل ہوتے ہیں۔یہ تینوں کام پولیس افسران آج کل بڑی ”محنت“اور”لگن“ سے کررہے ہیں جبکہ چھوٹے دھندوں میں منشیات‘چوریاں اورڈکیتیاں شامل ہیں۔ متعدد وارداتیں ایک ہی طرح کی ہوتی ہیں خصوصاً ڈاکوؤں کی تعداد‘واردات کا وقت‘ استعمال ہونے والی گاڑی یا موٹرسائیکل‘ مجھ جیسا غریب متاثر جب تھانے میں اپنا کیس بتاتا ہے تو مقامی پولیس کا افسر متاثرہ شخص کو خود بتاتا ہے کہ 125سی سی موٹرسائیکل تھی‘تین آدمی تھے دو نے منہ پر ماسک اور تیسرے نے ہیلمٹ پہناہوا تھا اور موٹرسائیکل والا دور کھڑا تھا؟؟؟مجھے تفصیل دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس وقت جنوبی پنجاب میں سب سے بڑا دھندہ غریب اور کمزور یا غیرممالک میں مقیم پاکستانیوں کی پراپرٹی پر قبضہ ہے جو مقامی ایس ایچ او اورچند ایس پی کی ملی بھگت سے ہورہا ہے۔ جعلی کاغذات کا بننا اور پھر سول جج سے حکم امتناعی کو پولیس بہانہ بناکر مالک سے مک مکا کرکے لین دین کرتی ہے۔ میری آپ سے صرف ایک ہی درخواست ہے کہ آپ نوجوان جو مقابلے کا امتحان پاس کرکے آئے ہیں انہیں ایس ایچ او لگائیں رینکر کو دور رکھیں اور ہر تھانے میں تفتیش بھی نوجوان سب انسپکٹروں سے کرائیں۔ اسی طرح سرکل میں سی ایس پی پولیس افسران کو لگائیں۔ رینکر ایس پی کو قطعاً نہ لگائیں کیونکہ تمام برائی اور خرابی کی جڑ رینکر پولیس افسر ہے۔ خدارا ہمارے وسیب میں تمام گینگز کا خاتمہ کریں جب تک یہ کام نہیں ہوگا۔ پنجاب میں وارداتیں کم نہیں ہوں گی۔ ایس ایچ او کو ہر ڈکیت‘ چور قبضہ گروپ کا بخوبی علم ہوتاہے مگر وہ مقامی سیاستدان کے ہاتھوں بے بس ہے۔آپ صرف اتنا کریں۔
میرٹ پر نوجوان ایس ایچ اوز کی تعیناتیاں‘ سرکل میں بھی نوجوان اے ایس پی کی تعیناتی‘اغوا‘زنا اور قتل کرنے والے مجرموں کو پولیس مقابلوں میں اڑادیں۔
ذاتی کاروبار کرنے والے پولیس افسران کی تعیناتی پر پابندی لگادیں۔
سٹریٹ کرائم کرنے والوں کا ریکارڈ ہر تھانے میں موجود ہے ان کا خاتمہ۔
منشیات اور قبضہ گروپوں کے خلاف موقع پر سخت سے سخت کارروائیاں۔
جناب آئی جی صاحب۔ آپ کو ان تمام باتوں کا پہلے سے علم ہے میں نے صرف آپ کو یاددہانی کیلئے لکھا ہے۔ یہ بہت آسان اور مجرب فارمولا ہے اور آپ ایساکرسکتے ہیں۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

سابق کپتان محمد یوسف کورونا کا شکار

پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور ٹیسٹ کر کٹر محمد یوسف  کورونا وائرس کا شکار ہو گئے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق سابق کرکٹر محمد یوسف پاکستان کے ٹی ٹوئنٹی پلئیر کے کیمپ میں بطور کوچ دستیاب نہیں ہونگے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ محمد یوسف کی عدم موجودگی میں عمر رشید ٹی ٹوئنٹی پلیئرز کی نگرانی کریں گے۔

واضح رہے کہ نیوزی لینڈ سیریز اور ورلڈ کپ اسکواڈ کے 5 کھلاڑیوں کا 16 ستمبر سے کیمپ شروع ہو رہا ہے۔

طالبان پر عائد پابندیاں ختم نہیں کریں گے، امریکا

واشنگٹن: امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ  طالبان پر عائد اقتصادی پابندیاں نہیں ہٹائیں گے تاہم انسانی ہمدردی کی بنیاد پر افغان شہریوں کی مالی امداد کو یقینی بنایا جائے گا۔ 

امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق وزیرِ خارجہ اینٹونی بلنکن نے سینیٹ میں ارکان کے سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے واضح انداز میں بتایا کہ طالبان پر عائد پابندیوں کو ختم نہیں کیا جائے گا البتہ اقوام متحدہ کے اداروں اور این جی اوز کی مدد سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر افغان شہریوں کی امداد جاری رکھی جائے گی۔

امریکی وزیر خارجہ نے مزید بتایا کہ رواں مالی سال افغان شہریوں کو 33 کروڑ ڈالر کی مالی امداد فراہم کی جائے گی اور یہ اعانت افغان شہریوں کو طالبان کے ذریعے نہیں بلکہ براہ راست پہنچانے کے انتظامات کیے ہیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز بھی امریکا نے نئے پیکج کے تحت 6 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کی مالی امداد کا اعلان کیا تھا۔

وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے کہا کہ افغان شہریوں کی مالی امداد میں اضافے سے صحت اور غذا کی ضروریات پوری کی جاسکیں گی جب کہ خواتین، بچوں اور اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

دو روز قبل اقوام متحدہ کی عالمی ڈونر کانفرنس میں افغانستان کے لیے ایک ارب ڈالر جمع ہوئے تھے جب کہ اقوام متحدہ نے ایک کروڑ 10 لاکھ افراد کو رواں برس کے آخر تک غذا، صحت، پناہ اور دیگر ضروریات کی فراہمی کے لیے عالمی برادری سے 60 کروڑ 60 لاکھ ڈالر مالیت کے عطیات کی اپیل کی تھی۔

یورپی یونین کی سربراہ نے بھی افغان شہریوں کو خوراک اور ادویہ کی فراہمی کے لیے 10 کروڑ اضافی مالی امدا کا اعلان کیا ہے جب کہ افغانستان کے لیے خصوصی ایلچی وانگ یو نے امارت اسلامیہ کے وزیر خارجہ امیر اللہ متقی سے ملاقات میں ڈیڑھ کروڑ مالی امداد کا اعلان کیا تھا