تازہ تر ین

انشورنس کیسے کروانی چاہئے

عبدالباسط خان
انشورنس کروانا ایک مفید عمل ہے یا انشورنس ایک نقصان دہ سودا ہے۔ اس سلسلے میں مختلف آرا عوام میں پائی جاتی ہیں۔ سوشل میڈیا بھی اس سلسلے میں بہت تنقیدکرتا ہے اور بعض انشورنس کمپنیوں کے خلاف مہم چلا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بعض لوگ جو انشورنس کمپنیوں کے خلاف محاذ آرائی کر رہے ہیں ان میں بعض نامور وکلا حضرات اور تجزیہ کار بھی شامل ہیں۔ اکثر لوگ اپنی زندگی کا بیمہ کروا کر اپنے پسماندگان کیلئے آسانیاں تلاش کرتے ہیں اور بعض لوگ اپنی گاڑیوں، فیکٹریوں اور مال اسباب کا بیمہ کراتے ہیں تاکہ رسک اور نقصان سے بچا جا سکے۔ پاکستان میں جو بیمہ پالیسی ہوتی ہے یا جو لوگ اپنی انشورنس کرواتے ہیں وہ بیرون ممالک کی انشورنس پالیسی کے مقابلے میں عشر عشیربھی نہیں ہوتی اورنہ ہی اس میں اتنی زیادہ انوسٹمنٹ ہوتی ہے۔ جو کہ باہر دیگر ممالک میں لوگ کرواتے ہیں۔ ایک واضح فرق تو یہ ہے کہ لوگ باہر کے ممالک میں زیادہ سمجھدار باشعور اور پڑھے لکھتے ہوتے ہیں دیگر وہاں کمپنیاں زیادہ شفافیت کے ساتھ لوگوں کی پالیسی کرتی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ پاکستان میں انشورنس کمپنیاں لوگوں کے ساتھ جان بوجھ کر فراڈ کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے یہاں ہمارا سوشل میڈیا اور لیگل برادری انشورنس کمپنیوں کو یکطرفہ طور پر موردِ الزام ٹھہراتے ہیں جو سراسر غلط بیانی پر مبنی ہے۔ در حقیقت جو لوگ انشورنس کروا کر نقصان اٹھاتے ہیں وہ انشورنس سے پہلے اس کی تمام شقوں پر مکمل آگاہی حاصل نہیں کر پاتے یہ درست ہے کہ انشورنس کمپنیاں لوگوں کو زیادہ سے زیادہ انشورنس پالیسی کر کے اپنے کاروبار کو آگے بڑھاتی ہیں مگر بعض ایسے مراحل ضرور ہیں کہ اگر انشورنس کروانے والا ان سے مکمل آگاہی حاصل کر لے تو شائد نقصان کا احتمال نہ رہے بلکہ کارآمد اور مفید بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ چونکہ انشورنس کمپنیاں خود اپنے کارندوں کے ذریعے بھی انشورنس براہ راست کرتی ہیں اور بینکوں کے ذریے بھی۔ لوگوں کی زندگی کا بیمہ یا انشورنس کرتی ہیں اس سلسلے میں اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے مختلف بینکوں کو لوگوں کی پالیسیاں کرنے کے لئے اجازت دے رکھی ہے اور بینک منیجر لوگوں کی پالیسیاں کرنے کیلئے ان کو مستقبل کے سہانے سپنے اور خواب دکھاتے ہیں اور اپنا کمیشن حاصل کر کے یہ جا اور وہ جا ہو جاتے ہیں انشورنس کروانے والا جب مالی مشکلات کاشکار ہوتا ہے اور اپنا پریمیم ادا نہیں کر سکتا تو پالیسی کروانے والا بینک جاتا ہے تو وہاں کوئی اور شخص موجود ہوتا ہے اور اس کے ساتھ دوستانہ برتاؤ کی بجائے تحقیر آمیز رویہ اختیار کرنا شروع کرتا ہے مجبوراً یہ شخص جب متعلقہ انشورنس کمپنی سے اپنی رقم کی واپسی کا مطالبہ کرتا ہے تو اتنی حقیر سی رقم اس شخص کو واپس ملنے کی بتائی جاتی ہے کہ اس کے پاؤں تلے سے زمین نکل جاتی ہے وہ پیر پٹختا جب کسی وکیل کے پاس جاتا ہے تو وہ اسے اپنی قانونی فیس کے ساتھ کیس لڑنے کی دعوت دیتا ہے۔ اب یہاں کیس کرنے کے چند فورم ہیں جس میں بینک کے ٹریبونل‘ ایس ای سی پی، سول کورٹ یا پھر انشورنس کے وفاقی محتسب کے دروازوں پر دستک دی جا سکتی ہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ انشورنس کروانے والا قبل از وقت اپنی رقم کی واپسی کا مطالبہ کر رہا ہے جس میں اس کی کیش ویلیو نہایت کم ہوتی ہے پہلے سال کے اندر رقم کی واپسی دوسرے سال اور تیسرے سال سے لے کر چھٹے سال تک انشورنس پالیسی کی رقم کیش ویلیو کے ساتھ بمشکل اس کی جمع کردہ رقم کے برابر یا پھر اس سے بھی کم ہوتی ہے۔ اس وقت تک انشورنس کروانے والے کی دماغی اور ذہنی حالت بہت خراب ہو چکی ہوتی ہے وہ سمجھنے لگتا ہے کہ اس کے ساتھ فراڈ ہو گیا ہے جب وہ وفاقی محتسب کی عدالت میں تمام تر مراحل جو انشورنس آرڈیننس 2000 میں موجود ہیں طے کر کے جاتا ہے اور کہتا ہے کہ جناب میں نے تو انشورنس ہی نہیں کروائی تھی بلکہ مجھے سرمایہ کاری کرنے کی دعوت بینک والوں نے دی تھی تو پھر جواب میں کمپنی اسی شخص کی ریکارڈ شدہ گفتگو انشورنس محتسب کے فورم پر سنا دیتی ہے جہاں اسے انشورنس کروانے کی دعوت سمیت مختلف سوالات کئے جاتے ہیں۔ وہ شخص اب واقعی سٹپٹا جاتاہے تو کمپنی اس کو اس کی رقم کی کیش ویلیو بتاتی ہے جس میں بینک والے کا کمیشن سے لیکر کمپنی کے اخراجات اور اس شخصہ کی بیمہ پالیسی تک میں وہ تمام رسک شامل کرتی ہے اور مکمل منہا کر کے اگر اس نے فرض کیا پانچ یا چھ سال میں پانچ یا چھ لاکھ جمع کروائی ہے تو اس رقم کا یعنی پچاس سے ساٹھ فیصد ادا کرنے کی خبر سنا دی جاتی ہے اور مختلف مراحل میں جب پریمیئر ادا کیا جانا ہوتا ہے تو ایک سال میں ایک یادو سال میں وہ مقررہ وقت پر رقم جمع ہی نہیں کرواتا تو پھر اس کا خمیازہ بھی اسے کم رقم کی شکل میں بھگتنا پڑتا ہے۔
دلچسپ صورتحال اس وقت ہوتی ہے جب کوئی انشورنس کروانے والا ایک لاکھ پریمیئر سالانہ کے لحاظ سے پورے دس سال دس لاکھ روپے جمع کرواتا ہے اور جب پالیسی مکمل میچور ہو جاتی ہے تو وہ دس لاکھ کے ہمراہ وہ رقم جو اس کے پسماندگان کو ملنی ہوتی ہے اگر وہ دس سال سے پہلے یعنی دوسرے یا تیسرے سال میں فوت ہو جانے کی صورت میں ملتی ہوتی ہے مطالبہ کرتا ہے کہ دس اور دس یعنی بیس لاکھ رقم بمعہ منافع کا مطالبہ رکھ دیتا ہے تو کمپنی والے بتاتے ہیں کہ جناب یہ تو اس صورت میں ملے گی اگر آپ انتقال فرما جائیں گے لہذا آپ کے دس لاکھ کے اوپر بمشکل ایک سے ڈیڑھ لاکھ کا منافع ملتا ہے وہ بھی اس صورت میں اگر سٹاک مارکیٹ کے حالات کمپنی کے لئے ساز گار ہوں اور یونٹس کی تعداد انشورنس کروانے والے کے حق میں ہو۔ یقینا یہ خبر اس کے لئے باعث تشویش ہوتی ہے کہ دس سال بعد صرف 80 یا 90 ہزار کا منافع یا بعض اوقات اصل رقم سے بھی کم رقم دینے کی اس کو خبر سنائی جاتی ہے۔ یہاں یہ امربھی قابل ذکر ہے کہ بعض اوقات اس شخص کے مرنے پر جب اس کے پسماندگان جن کو پالیسی کروانے والا نامزد کرتا ہے رقم لینے کے لئے کمپنی سے رجوع کرتا ہے تو اس کو یہ خبر سنائی جاتی ہے کہ اس شخص نے پالیسی کرواتے وقت کمپنی سے غلط بیانی سے کام لیا ہے لہٰذا وہ شخص پالیسی کروانے سے پہلے ہی کسی موذی مرض کا شکار تھا اور کمپنی سے غلط بیانی کرنے کی پاداش میں وہ رقم جو اس شخص کے نامزد کردہ فرد یعنی بیوی یا بیٹے کو ملنی چاہئے اس سے محروم کر دیا جاتا ہے۔
یہاں پر صورتحال بہت تشویش ناک اور سنگین ہو جاتی ہے۔ مرنے والے کے لواحقین کو بتایا جاتا ہے کہ پالیسی سے چھ ماہ پہلے یا سال پہلے وہ شخص کینسر کے مرض میں یا ہیپاٹائٹس سی کے مرض میں مبتلا تھا اور اس نے پالیسی پر دستخط کرتے وقت اس بیماری کا ذکر نہیں کیا تھا۔ لواحقین انشورنس فورم پر چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ انشورنس کمپنی نے آخر اس کا میڈیکل ٹیسٹ کیوں نہیں کروایا تھا۔ انشورنس ایکٹ کی مختلف دفعات جس میں انشورنس کرنے والے اور انشورنس کروانے پر لازم ہے کہ وہ دھوکہ دہی، فریب اور غلط بیانی سے کام نہیں لے گا۔ انشورنس کلیم لینے والے کے لئے دردسر بن جاتی ہیں۔ لہٰذا یہاں اس بات کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے کہ انشورنس کرواتے تمام تر معلومات حاصل کرنے کی اس شص میں اہلیت ہونی چاہئے یا پھر کسی پڑھے لکھے رشتہ دار یا دوست کی مدد سے اسے تمام شقوں کا مکمل ادراک ہونا چاہئے کہتے ہیں کہ مشتری ہوشیار باش مگر یہاں تمام الزام کمپنیوں پر تھوپ دیا جاتا ہے کہ انشورنس کمپنیاں دھوکہ دہی سے کام لے رہی ہیں۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ صرف غیر ان پڑھ سادہ لوح یہ نقصان اٹھاتے ہیں حالانکہ اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگ بلکہ گریڈ بیس اکیس تک کے سیانے لوگ بھی اس کاشکار ہو رہے ہیں یہاں پر ان اقدامات کا ذکر کرنا مناسب ہو گا جن کی وجہ سے لوگ نقصان اٹھاتے ہیں اور ساتھ ساتھ ان اقدامات کی ضرورت بھی ہے تاکہ انشورنس کروانے والے اور انشورنس کمپنیوں کے درمیان ایک مفید شفاف اور دیانتداری والا رشتہ قائم ہو جائے۔ سب سے پہلے انشورنس کروانے والا شخص پالیسی کو منسوخ کروانے کے پندرہ دن کے اندر اندر اگر وہ شخص پالیسی منسوخ کروا لے گا تو اسے کسی قسم کا نقصان نہیں اٹھانا پڑے گا اور مکمل رقم ریفنڈ ہو جائے گی۔ اگر لوگ گلہ کرتے ہیں کہ ان کے بینک اکاؤنٹ سے رقم براہ راست کمپنی منہا کر لیتی ہے کیونکہ وہ آٹو ڈیبٹنگ پیپر پر دستخط کر دیتا ہے اور جب اس کے اکاؤنٹ سے رقم خود بخود بینک والا نکلواتا ہے تو وہ دوڑتا ہوا بینک والے کے پاس جاتا ہے اور بینک والا اس کو بتا دیتا ہے کہ جناب آپ نے خود اس کاغذ پر دستخط کئے ہیں لہٰذا ہر پریمئیم کی رقم بذریعہ چیک ادا کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔ ایک اور اہم غلطی جو پالیسی کنندہ کرتا ہے وہ پریمئیم کی ادائیگی میں ڈیفالٹ کر جاتا ہے جس پر اسے پیلنٹی کا سامنا کرنا پڑتا ہے لہٰذا پالیسی کرواتے وقت رقم کی بروقت ادائیگی یا پریمیئم وقت مقررہ پر جمع نہ کروانے کی صورت میں تمام ممکنہ نقصانات کا ادراک ہونا چاہئے۔ وفاقی محتسب کا ادارہ اس صورتحال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے عوام کو آگاہی کی مہم میں شامل حال رکھ رہا ہے۔ ٹیلی ویژن کے نامور اداکار اس سلسلے میں لوگوں کو پالیسی حاصل کرتے وقت مکمل حالات سے آگاہی کا مشورہ دے رہے ہیں۔
صدر مملکت پاکستان عارف علوی نے وفاقی محتسب ڈاکٹر محمد خاور جمیل کوسالانہ رپورٹ پیش کرنے کے موقع پر خاص طور پر عوام میں پالیسی سے متعلق شعور بیدار کرنے کی اہمیت پر زور دیا اور وفاقی محتسب کا ادارہ انشورنس کمپنیوں اور شکایات کنندہ کے مابین رضامندی سے معاملات طے کر کے ایک معقول رقم دلوا رہا ہے تاکہ پالیسی ہولڈرز کو کم سے کم نقصان اٹھانا پڑے۔ اس آگاہی مہم کے نتیجے میں لوگ بہتر انداز سے اپنی رقم کے حصول میں سرخرو ہو رہے ہیں یہاں یہ امر ضروری ہے کہ زندگی کی پالیسی کا بیمہ کرتے وقت تمام انشورنس کمپنیوں کو میڈیکل ٹیسٹ کروانے کا پابند کروایا جائے تاکہ بعد ازاں مرحومین کے پسماندگان پریشانیوں سے چھٹکارا حاصل کریں۔
(کالم نگارمختلف موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain