ابتدائی طبی امداد کا عالمی دن

کرامت علی
آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں ” فرسٹ ایڈ “کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ ابتدائی طبی امداد کا عالمی دن ہر سال ستمبر کے دوسرے ہفتہ کو پوری دنیا میں منا یا جاتا ہے۔تاریخ میں پہلی بار یہ دن سال 2000میں انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس اینڈ ریڈ کریسنٹ نے منایا۔ یہ دن عوام میں ابتدائی طبی امداد کی اہمیت و فوائد کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے اور طبی امداد دینے کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے طور پر منایا جاتا ہے تاکہ کسی ایمرجنسی یا بحرانی حالات میں کسی شخص کو ابتدائی طبی امداد دے کر اس کی جان بچائی جا سکے۔ عالمی دن کے اس موقع پر ابتدائی طبی امداد دینے والے عملے کو بھی خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے جو بروقت طبی امدا فراہم کر تے ہوئے قیمتی انسانی جانوں کو بچانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس دن کی مناسبت سے عوام کو طبی امداد سیکھنے کے لئے ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ طبی امداد کی تربیت اور مہارتیں سیکھ کر انسانی جان بچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ابتدائی طبی امداد کا 2021 کا موضوع “فرسٹ ایڈ اور روڈ سیفٹی” ہے۔ اس کا بنیادی مقصد آگاہی پھیلانا ہے کہ کس طرح ابتدائی طبی امداد فراہم کر کے ہر روز کسی بھی ہنگامی صورتحال میں زخمیوں کی جانیں کیسے بچا ئی جا سکتی ہیں۔
ابتدائی طبی امداد وہ فوری علاج یا طبی امداد ہے جو کسی زخمی یا بیمار شخص کودستیاب وسائل کے ساتھ پیشہ وارانہ افراد یا طبی عملے کے پہنچنے سے پہلے دی جاتی ہے۔ آپ دنیا میں کہیں بھی ہوں اگر آپ کو طبی امداد دینی آتی ہو تو آپ کسی کی جان بچانے کا سبب بن سکتے ہیں اسی لئے ہم سب کا طبی امداد سیکھنا ناگزیر ہے۔ یہ نہ صرف ایک مہارت ہے بلکہ ایک انسانی ہمدردی کی سوچ کے عین مطابق بھی ہے جسکی بلا امتیاز امداد کی فراہمی کسی بھی معاشرے کے افراد کو با اختیار بنانے میں مدد دیتی ہے تاکہ وہ اپنی فلاح و بہبود کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھ سکیں۔جیسا کہ ٓاپ نے روز مرہ زندگی میں مشاہدہ کیا ہو گا کہ زیادہ ترلوگ خطرناک ٹریفک حادثات میں ابتدائی طبی امداد کی عدم دستیابی کے باعث جاں بحق ہو جاتے ہیں اور اور ٹریفک حادثات میں بہت سارے لوگ انجانے میں غلط مدد کی وجہ سے زندگی بھر کے لئے معذور ہو جاتے ہیں۔ ایک لمحہ کیلئے سوچیں اگر ان تمام افراد کو بر وقت اور صحیح طبی امداد مل سکتی تو شائد انکو عمر بھر کی معذوری سے بچایا جا سکتا تھا۔ فرض کریں اگر کوئی شخص کہیں زخمی یا اچانک بیمار ہو جائے تو اُس موقع پراُس شخص کو بروقت طبی امداد فراہم کرنے سے بڑی ہمدردی کوئی نہیں ہو سکتی۔
اگر ہم تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ پنجاب ایمرجنسی سروس (ریسکیو1122) کے قیام سے قبل پاکستان میں بہت سے ادارے اپنے حصے کا کام تو کر رہے تھے لیکن نہ کوئی منظم ادراہ موجود تھا اور نہ ہی کسی ہنگامی صورت حال میں پیشہ ورانہ تربیت کے حامل افراد دستیاب تھے۔اسی لئے ٹریفک حادثات کے نتیجے میں زیادہ تر لوگ موقع پر صحیح طبی امداد نہ ملنے یا تاخیر کے باعث عمر بھر کے لئے معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں۔پاکستان میں پہلی بار پر ی ہاسپٹل ایمرجنسی مینجمنٹ کا ایک مربوط نظام بنانے کا سہرابانی ڈائریکٹرجنرل ایمرجنسی سروس ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹر رضوان نصیر (ستارہ امتیاز) کے سر جاتا ہے جنہوں نے پیرا میڈیکس سٹاف کو ایمرجنسی سروسز اکیڈمی میں بین لاقوامی معیار پر پیشہ ورانہ تربیت دی اور پری ہاسپٹل ایمرجنسی مینجمنٹ کا ایک مربوظ نظام قائم کیا تاکہ کسی بھی سانحہ یا ایمرجنسی کے متاثرہ افراد کو بر وقت طبی امداد فراہم کر کے متاثرہ شخص کی زندگی کو درپیش خطرات کو کم سے کم کیا جا سکے۔پنجاب ایمرجنسی سروس ڈیپارٹمنٹ قیام سے اب تک 97لاکھ سے زائد ایمرجنسی کے متاثرین کو بروقت ریسپانڈ کرتے ہوئے ابتدائی طبی امداد فراہم کرتے ہوئے احساس تحفظ فراہم کر چکا ہے۔
پنجاب میں ریسکیو سروس کے قیام کے بعد ریسکیو سروس کا حتمی ویژن ہے کہ کیمونٹی کے اشتراک سے ایمرجنسی کی روک تھام کی جائے تاکہ پاکستان میں محفوظ معاشرے کا قیام عمل میں لایا جا سکے۔ افراد کی تربیت کسی بھی ادارے کو مستحکم و مضبوط اورصف اول میں لانے کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔اگر دنیا میں اپنا نام پیدا کرنے والے اداروں کی فہرست اُٹھا کر دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ ان کی کامیابیوں کا راز ان کی بہترین تربیت میں پنہاں ہے۔ اسی طرح تربیت کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کیلئے ایمرجنسی سروسز اکیڈمی قائم کی گئی جو کہ جنوبی ایشیاء میں ایمرجنسی کی تربیت فراہم کرنے کا بہترین ماڈل تصور کیا جاتا ہے۔ ایمرجنسی سروسز اکیڈمی نے نیشنل ایمبولینس سروس کالج فار آئر لینڈ کے باہمی تعاون سے صوبہ پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں کے پرا میڈیکس کو بین الاقومی معیار پر تربیت دی جاتی ہے۔تربیت کے اس عالمی میعار کو یقینی بنانے کے لئے دوران تربیت غیر ملکی ماہرین سے تھرڈ پارٹی ایولوایشن بھی کروائی جاتی ہے۔ تربیت کے اس مرحلے میں ایک آفیسر سے لے کر ڈرائیور تک کے تمام ریسکیورز کو یکساں معیار پر ابتدائی طبی امداد کی تربیت فراہم کی جاتی ہے تاکہ کسی بڑی آفت، حادثے یا سانحہ کے موقع پرمتاثرہ افراد کوابتدائی طبی امداد دینے تمام ریسکیورز انسانی جانوں کو بچانے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
ابتدائی طبی امداد کے فروغ کے لئے پنجاب ایمر جنسی سروس ڈیپارٹمنٹ سروس ایکٹ کے مطابق سکول کالجز اور یونیورسٹیز کے طلبا کو طبی امداد کی تربیت فراہم کر نے کیلئے ریسکیو کیڈٹ کورپس ایپ کو متعارف کروا چکا ہے جس کا اہم مقصد ہر گھر میں ایک فرسٹ ایڈر بنانا ہے تاکہ کسی بھی طرح کی ایمرجنسی کی صورت میں کمیونٹی کے لوگ علاقائی سطح پر کسی انسانی جان کو بچانے کیلئے اپنا کردارمتحرک طور پر ادا کر سکیں۔معاشرے کے افراد کو باشعور اور ذمہ دار شہری بنانے کے لئے ریسکیو کیڈٹ کورپس کے ذریعے آن لائن رجسٹریشن کا عمل جاری ہے اور ساتھ ہی ساتھ آن لائن تربیت حاصل کرنے کے کورسز اور لیکچر زبھی فراہم کر دئیے گئے ہیں تاکہ ملک کے طول عرض میں کوئی بھی فرد گھر بیٹھے مفت ابتدائی طبی امداد کی تربیت حاصل کر سکے۔کوئی بھی شہری اپنے قریبی ریسکیو اسٹیشن پر جا کر ابتدائی طبی امداد کی تربیت فری حاصل کر سکتاہے۔ اس سلسلے میں گورنمنٹ آف پنجاب پی سی ون کی منظوری دے چکی ہے اورپنجاب کے تمام اضلاع میں یونین کونسل کی سطح پر کمیونٹی ایمرجنسی رسپانس ٹیم تشکیل دی جارہی ہیں۔
پنجاب ایمرجنسی سروس ڈیپارٹمنٹ اور آغا خان یونیورسٹی کے ساتھ مل کرپاکستان لائیو سیور پروگرام کے تحت 10 ملین لوگوں کو فرسٹ ایڈ کی تربیت فراہم کر نے کیلئے بھی تربیت کا آغاز کر چکا ہے۔ پاکستان لائیو سیور پروگرام کے ذریعے نوجوان نسل کو بنیادی طور پر دل اور پھیپھڑوں کی بحالی اور خون کے بہاؤ کو روکنے پر مشتمل ابتدائی طبی امداد کی تربیت فراہم کر رہا ہے۔ پوری دنیا میں کارڈیک اریسٹ اور شدید خون کے بہاؤکی وجہ سے شرح اموات ایک عالمی مسلہ بن چکا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق دل کا دورہ پڑنے پر اگر بروقت امداد (سی پی آر) نہ دی جائے تو ہر گزرتے منٹ میں اس شخص کے زندہ بچنے کے امکانات کو 10فیصد کم کر دیتا ہے۔ اسی طرح ہرگزرتے منٹ کے ساتھ فوری طبی امداد کی فراہمی ایسے مریض کو زندہ بچانے کے امکانات کو 30فیصد تک بڑھا دیتی ہے۔اگر ہر گھر میں ابتدائی طبی امداد کا ایک فرسٹ ایڈر بن جائے تو خون کے شدید بہاؤ اور دل کا دورہ پڑنے سمیت دیگر ایمرجنسی صورتحال میں ہم لاکھوں لوگوں کی زندگیا ں بچا سکتے ہیں۔ آئیں آج ہم ابتدائی طبی امداد کے عالمی دن کے موقع پریہ عہد کریں کہ ہم ابتدائی طبی امداد کی تربیت ضرور حاصل کریں گے کیونکہ ابتدائی طبی ا مدا د ہی وہ مدد ہے جو کسی کی جان بچا سکتی ہے۔
ریسکیو رز زندہ آباد
پاکستان پا ئندہ آباد
(اسسٹنٹ آفیسر تعلقاتِ عامہ پنجاب ایمرجنسی سروس ڈیپارٹمنٹ ریسکیو1122ہیں)
٭……٭……٭

سید علی گیلانی ہم شرمندہ ہیں

ڈاکٹر محمدممتاز مونس
اقوام عالم کی تاریخ میں صرف وہی یاد رکھتے جاتے ہیں جو اپنے مشاہیر اور محسنوں کو یاد رکھتے ہیں۔ کشمیر کا پاکستان سے کیا رشتہ ہے یہ ایک دلسوز کہانی ہے پاکستانیوں نے کشمیر کے لیے کیا ہے اور کشمیریوں نے پاکستان کے لیے کیا کیا یہ وہ دکھ بھری کہانی ہے جسے یاد کر کے آج ہم سید علی گیلانی کی روح سے شرمندہ ہیں۔76سالوں سے پاکستان کی جنگ لڑنے والے کشمیری آج ہم سے پوچھ رہے ہیں کہ ہم نے ان کے لیے کیا کیا اور انہوں نے ہمارے لیے کیا کیا نہیں کیا۔سید علی گیلانی نے لڑکپن سے ہی کشمیرکی آزادی کی جنگ میں ایک سپاہ سالار کی حیثیت سے جہاد کا آغاز کیا اور اپنی جان مالک کے سپرد کرتے تک جہاد جیسے عظیم مشن کا پرچم تھامے رکھا۔ ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے کا وہ عظیم ترین نعرہ اس عظیم مجاہد کی زبان سے یوں گونجتا تھا کہ یہ بوڑھی آواز ہندو بنیئے کے ایوانوں میں لرزہ طاری کر دیتی تھی۔سید علی گیلانی نے کشمیریوں کے لیے جو کیا اس کی مثال دینا مشکل ہے لیکن اتنا بڑا اور اتنا سچا پاکستانی کہ زندگی کا ایک ایک لمحہ پاکستان کی محبت میں گزار دیا اور کشمیری نوجوانوں نے حریت کی وہ عظیم داستان رقم کی کہ کشمیر کی آواز دنیا کے کونے کونے میں پہنچ گئی۔سید علی گیلانی کی آواز بھارتی ڈیڑھ ارب آبادی کی آواز سے زیادہ طاقتور توانا اور جراتمند تھی۔جرأت ہمت اور جہد مسلسل کا وہ عظیم پہاڑ جو رہتی دنیا تک کے مسلمانوں کے ایمان کو حرارت پہنچاتی رہے گی جس نے ثابت کیا کہ اگر جذبے سچے ہوں عقائد میں پختگی ہو اوراپنے ملک و ملت کچھ کرنے کی آرزو ہو تو انسان سید علی گیلانی جیسا عظیم تر اور بے باک رہبر و رہنما بن کر ابھرتا ہے۔آج شاہ صاحب ہم میں نہیں لیکن ان کی عظمت ان کی صلاحیت اور ان کی جراتمندانہ قیادت کشمیری یا پاکستانی نہیں پوری دنیا کے مسلمانوں میں احترام کا جو مقام رکھتی ہے وہ شاید ہی کسی اور کو نصیب ہو۔
سید علی گیلانی ہم آپ سے اس لیے شرمندہ ہیں کہ آپ کی قیادت میں کشمیریوں نے جس انداز سے لڑی اور جس جرات و حمیت کا مظاہرہ کیا شاید ہم اس پر پورا نہیں اتر سکے۔ سات دہائیوں سے دنیا کی فاشسٹدہشت گرد اور مسلمانوں کی ازلی دشمن بھارتی حکومت نے جس درندگی کا مظاہرہ مقبوضہ کشمیر میں کیا اس کی مثال پوری دنیا میں کوئی اور نہیں مل سکتی را اور انڈین آرمی نے مقبوضہ کشمیر میں بے غیرتی‘بے حیائی اور لعنت کے ایسے ایسے واقعات برپا کیے گئے کے جس کو مجھ جیسا کمزور آدمی لکھنے سے بھی قاصر ہے جبکہ کئی دہائیوں سے مسلسل کرفیو گھر گھر تلاشی ماروائے عدالت قتل تشدد اور معذور کرنے والی المناک داستانیں جنہیں جب کوئی مورخ لکھے گا تو یہ لکھنے پر مجبور ہو گا کہ روئے زمین پر سب سے زیادہ مزاحمت جرات اور استقلال کشمیری عوام میں پایا جاتا ہے۔سید علی گیلانی کی قیادت میں غیرت اور جرات کی کشمیریوں نے جو داستان رقم کر دی یقیناوہ کسی اور کے حصے میں آنے والی نہیں لیکن ہم شرمندہ ہیں کہ ہم نے دہشت گرد بھارت کو کشمیریوں پر ہونے والے ظلم و ستم کا منہ توڑ جواب نہیں دیا۔ہمارے قائد جناب محمد علی جناح نے کشمیر کوشہہ رگ قرار دیا لیکن ہم نے صرف اور صرف بیان بازی اور ہندو بنیئے کی مذمت پرزوردیا۔ ادھر کشمیر میں ہماری ماں بہنوں کی عصمت دری ہوتی رہی اور ہماری نوجوان سینے چھلنی کروا کر اپنے رب کے حضور پیش ہوتے رہے کشمیر میں لاکھوں بیویوں کے سہاگ اجڑ گئے۔ہزاروں ماؤں کے لال اس دنیا میں نہ رہے گھر کے چولہے ٹھنڈے ہو گئے لیکن آپ کی جرات کو سلام ہے کہ کشمیریوں نے اپنے قائد جناب شہید سید علی گیلانی کا دیا ہوا وہ عظیم تر نعرہ کہ ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے نہیں چھوڑا۔
پندرہ سال سے زائد عرصہ بھارتی درندوں کے ہاتھوں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے اور گیارہ سال تک اپنے گھر میں نظر بند رہنے والے نظر بندبھی وہ کہ نماز عید جمعتہ المبارک اور اپنے پیاروں کی آخری رسومات میں جانے کی اجازت بھی نہیں تھی اس عظیم رہنما نے اپنے عظیم مقصد کو ہر صورت میں اور ہر حالات میں جاری رکھا یہاں تک کہ قابض بھرتی فوجوں کے ہاتھوں مسلسل محاصرے میں رہتے ہوئے جب خالق حقیقی کے پاس جا پہنچے تو ان کے جسد خاکی پر پاکستانی پرچم تھامرحوم کی رات دس بجے وفات ہوئی اور آدھے گھنٹے میں ہی بھارتی درندوں نے پورے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ کر دیا۔ انٹرنیٹ سروس بند کر دی اور مرحوم کے گھر پہنچ کر جسد خاکی کو چھینادرندے اس بوڑھے اور ناتواں بزرگ کی میت سے ہی اتنے گھبرا رہے تھے کہ ان کے اہل خانہ پر خوف وہراس پیدا کر کے کلاشنکوف کے بٹ مار کر میت کو گھسیٹتے ہوئے ایمبولینس میں ڈال کر لے گئے اور ان کے گھر سے چند سو فٹ کے فاصلے پر قریبی مسجد میں دو چار مدرسے کے بچوں سے جنازہ پڑھوا کر سپرد خاک کر دیا۔ انا للہ واناالیہ راجعون۔
شاہ صاحب ہم آپ سے اس لیے بھی شرمندہ ہیں کہ ہماری سیاسی قیادت آپ کے لیے وہ کچھ نہ کر سکے جس کے آپ حقدار تھے یہ حقیقت ہے کہ ہمارے فوجی جوانوں نے آپ کے لیے جنگیں بھی لڑیں اور بڑی تعداد میں شہادت کی مالا بھی اپنے گلوں میں سجائی اور ہر محاذ پر آپ کا ساتھ بھی دیا لیکن کچھ ایسے دلخراش واقعات بھی ہیں جس سے ہم آپ سے شرمندہ ہیں۔ جب مقبوضہ کشمیر میں نوجوانوں کی مودی کے دہشت گرد پائلٹ گنوں سے ان کی بصارت چھین رہے تھے اور خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی عین اسی وقت ہمارے وزیر اعظم کے گھر میں دہشت گرد مودی اپنے را اور ایس ایس آر کے سربراہوں کے ہمراہ بغیر ویزوں کے ایک تقریب میں مسرور تھا۔آج سید علی گیلانی تمام کشمیریوں اور پاکستانیوں کو جو پیغام دے گئے ہیں وہ ہمارے لیے مشعل راہ اور صراط مستقیم ہے اور ان کا پیغام ہے کہ ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے۔
(کالم نگارسینئر صحافی ہیں)
٭……٭……٭

کورونا وائرس بھارت اور انگلینڈ کا آخری میچ ‘نگل’ گیا

کورونا کیسز میں اضافے کے باعث بھارت اور انگلینڈ کے درمیان پانچواں اور آخری ٹیسٹ منسوخ کردیا گیا۔

تفصیلات کے مطابق بھارت اور انگلینڈ کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان ٹیسٹ سیریز کا آخری میچ آج سے ‘اولڈ ٹریفورڈ’ میں کھیلا جانا تھا تاہم اب پانچواں میچ منسوخ کردیا گیا ہے۔

سیریز کے دوران بھارتی ہیڈ کوچ روی شاستری، بولنگ اور فیلڈنگ کوچ کورونا کا شکار ہوئے۔

بھارتی کھلاڑیوں اور کوچز کی بےاحتیاطی سے کورونا مزید پھیلا، مانچسٹر ٹیسٹ سے پہلے بھارتی ٹیم کے ایک اور اسپورٹ اسٹاف وائرس میں مبتلا ہوئے۔ وبا کی موجودہ صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے میچ منسوخ کیا گیا۔

بھارت کو سیریز میں 1-2 کی برتری حاصل ہے اس طرح اب چار میچوں کی سیریز بھارت کے نام رہی۔

یاد رہے کہ 7 ستمبر کو بھارت نے انگلینڈ کو چوتھے ٹیسٹ میچ میں 157 رنز سے شکست دے کر سیریز میں 1- 2 کی برتری حاصل کی تھی۔

برف پگھل گئی؛ جوبائیڈن اور چینی صدر کا پہلی بار براہ راست رابطہ

واشنگٹن / بیجنگ: مریکی صدر جوبائیڈن نے اقتدار سنبھالنے کے 7 ماہ بعد اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ سے ٹیلی فونک گفتگو کی ہے جس سے دونوں ممالک کے درمیان جاری معاشی جنگ کے تھمنے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔ 

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکا اور چین کے درمیان سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدہ سنبھالتے ہی اختلافات شروع ہوگئے تھے جس میں ہر گزرتے روز کے ساتھ معاشی اور تجارتی جنگ میں اضافہ ہوتا گیا اور دونوں ممالک ایک دوسرے کی مصنوعات پر ٹیکس کی شرح بڑھاتے رہے اور اقتصادی پابندیاں سخت کرتے رہے۔

امریکا میں گزشتہ برس کے آخر میں ہونے والے صدارتی الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ کی شکست اور جوبائیڈن کے صدر بننے کے بعد بھی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں تناؤ برقرار رہا ہے تاہم اب نئی امریکی حکومت نے 7 ماہ بعد چین سے رابطہ کیا ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن اور چینی صدر  شی جن پنگ نے مستقبل میں روابط برقرار رکھنے کے عزم کا بھی اظہار کیا۔

وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن چین کے ساتھ مسابقت کو تنازعے میں تبدیل ہونے سے روکنا چاہتے ہیں اور اختلافی امور کے حل کے لیے اپنے ہم منصب سے ضروری اقدامات اُٹھانے کے حوالے سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے تناؤ میں کمی لانے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔

دوسری جانب چین کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان گفتگو کافی کھلی اور گہری رہی لیکن چین سے متعلق امریکی پالیسیاں پہلے ہی سنگین مشکلات کا سبب بن چکی ہیں جس کے باعث دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔

ملکی استحکام کو نقصان پہنچانے والی قوتوں کے عزائم ہر صورت ناکام بنائیں گے: آرمی چیف

آرمی چیف  جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ پاکستان میں امن واستحکام کیلئے بیرونی اور اندرونی قوتوں کے عزائم کو ناکام بنائیں گے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیرصدارت کورکمانڈرکانفرنس ہوئی جس میں عالمی، علاقائی اور ملکی سکیورٹی صورتحال پر غور کیا گیا۔

 آئی ایس پی آر نے بتایا کہ کانفرنس میں افغانستان کی صورتحال پربھی غورکیا گیا۔

اس حوالے سے آرمی چیف کا کہنا تھاکہ بارڈر منیجمنٹ کی وجہ سے پاکستان کی سرحدیں اور داخلی سلامتی برقرار ہے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے مختلف خطرات کے خلاف فوج کے تعاون اور کردار کو سراہا جبکہ انہوں نے افغانستان سےغیرملکیوں کے انخلا کیلئے فوج کے تعاون اورکردار کی تعریف کی۔

آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ آر می چیف جنرل قمرجاوید باجوہ نے امن کیلئے پاکستان کے پختہ عزم کا اعادہ کیا اور کہا کہ علاقائی اسٹیک ہولڈرز کے درمیان تعاون خوشحال اور پرامن خطے کیلئے ضروری ہے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ  کے مطابق آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ نے سینیئر کشمیری حریت رہنما سید علی گیلانی کو خراج عقیدت پیش کیا۔

آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ آرمی چیف نے روایتی اورغیر روایتی خطرات سے نمٹنے کیلئے مکمل تیاری کی ہدایت کی اور کہا کہ پاکستان میں امن واستحکام کیلئے بیرونی اور اندرونی قوتوں کے عزائم کو ناکام بنائیں گے۔

آرمی چیف نے بھارتی ریاستی جبر  اور تشدد کاسامناکرنے والے کشمیریوں کے ساتھ اظہاریکجہتی بھی کیا۔

پاکستان کو مسلسل 15 ویں ماہ بھی 2 ارب ڈالر سے زیادہ کی ترسیلات موصول، سعودی عرب سرفہرست

کراچی : اگست 2021میں ترسیلات زرمیں 27 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جس کے بعد ترسیلات زر 2 ارب 66کروڑ ڈالر تک پہنچ گئیں، اس دوران سعودی عرب سرفہرست رہا۔

تفصیلات کے مطابق اسٹیٹ بینک کی جانب سے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اگست 2021ء میں کارکنوں کی ترسیلات زر کا مضبوط رجحان جاری رہا اور ترسیلات زر 2.66 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔ یہ مسلسل چھٹا مہینہ ہے کہ آنے والی رقوم اوسطاً 2.7 ارب ڈالر کے لگ بھگ رہی ہیں اور مسلسل پندرہ مہینہ ہے کہ 2 ارب ڈالر سے زائد رہی ہیں۔

مرکزی بینک کا کہنا تھا کہ نمو کے لحاظ سے ترسیلات زر اگست میں 26.8 فیصد (سال بسال) بڑھ گئیں جو اس مہینے کے لیے پوری دہائی کی بلند ترین شرح نمو ہے، ماہ بہ ماہ بنیاد پر آنے والی رقوم جولائی سے معمولی سی کم تھیں، جس سے عید کے بعد کی معمول کی سست روی کی عکاسی ہوتی ہے۔ تاہم یہ موسمی کمی اس سال تاریخی رجحانات کے مقابلے میں کہیں کم تھی۔

مجموعی طور پر 5.36 ارب ڈالر کی ترسیلات زر اس سال کے پہلے دو مہینوں کے دوران پچھلے سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 10.4 فیصد بڑھیں، اگست 2021ء کے دوران آنے والی ترسیلات زر زیادہ تر سعودی عرب (694 ملین ڈالر)، متحدہ عرب امارات (512 ملین ڈالر)، برطانیہ (353 ملین ڈالر) اور امریکہ (279 ملین ڈالر) سے آئیں۔

گذشتہ سال سے ترسیلات زر کی آمد میں مسلسل بہتری کے اسباب میں باضا بطہ طریقوں کے استعمال کی ترغیب دینے کے لیے حکومت اور اسٹیٹ بینک کے فعال پالیسی اقدامات، کووڈ 19 کی بنا پر سرحد پار سفر میں کمی، وبا کے دوران پاکستان کو بھیجی جانے والی فلاحی رقوم اور زرمبادلہ مارکیٹ کے منظم حالات شامل تھے۔

دوسری جانب وزیر مملکت فرخ حبیب نے ٹوئٹر پیغام میں بیرون ملک پاکستانیوں کاشکریہ ادا کرتے ہوئے کہا اگست 2021میں 2.7بلین ڈالرزترسیلات زربجھوائی گئی، ترسیلات زر اگست 2020 کے مقابلے 27فیصد اضافہ ہے جبکہ جولائی اگست میں مجموعی طور پر5.4بلین ڈالرترسیلات زر ہیں ، یہ پچھلےسال جولائی اگست سے10.4فیصد زیادہ ہے۔

ڈالرکی اڑا

طارق ملک
لیجئے قارئین کرام!آج ڈالر 167 روپے 23 پیسے کا ہو گیا ہے اگر ماضی کی طرف نظر دہرائی جائے تو جنرل مشرف کے دور میں ڈالر 57 روپے کا رہا۔جمہوری حکومتوں میں ڈالر 110 روپے 23 پیسے مہنگا ہواجس کی وجہ سے ملک میں غربت، مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ ہوا۔ملک میں اس وقت سینٹ کی 100 قو می اسمبلی کی 342، بلوچستان اسمبلی کی 65، خیبر پختو نخواہ اسمبلی کی 145 پنجاب اسمبلی کی 371 اور سندھ اسمبلی کی 168 نشستیں بنتی ہیں۔میرے ناقص علم کے مطابق 1 نشست جیتنے کے لئے کم ازکم 10 کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ اس طرح کم ازکم 11 ہزار 910 کروڑ روپے خرچ کرکے 1191 افراد سینیٹرز، ایم این اے اورایم پی اے بنتے ہیں۔اور میرے ناقص علم کے مطابق جیتنے والے سینیٹرز، ایم این اے اور ایم پی اے 5 سال میں اپنی خرچ کی ہوئی رقم کو کم از کم 10 گنا ہ کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اس طرح ملک کو ان منتخب نمائندوں کے لئیے 1 لاکھ 19 ہزار ایک سو کروڑ روپے کی ضرورت ہے جو کہ سال کے 23 ہزار 8 سو بیس کروڑ بنتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج ڈالر 167 روپے 23 پیسے کا ہو گیا ہے۔
علاوہ ازیں تقریباً3 سو کروڑ روپے سالانہ انکی تنخواہوں وغیرہ پر خرچ ہوتے ہیں۔وزرا،مشیران، معاونین خصوصی، پارلیمانی سیکرٹریز اور سٹینڈنگ کمیٹیوں کے چئیر مینوں کے اخراجات اس کے علاوہ ہیں یہی وجہ ہے کہ میرا ملک غریب سے غریب ہوتا جا رہا ہے اور اسکے غریب عوام غربت اور مہنگائی کی چکی میں پیس رہے ہیں۔ہمارے ملک کی ایک بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری نے ایک ٹی وی کے مورخہ 01-09-2021 کے پروگرام میں بتایاکہ مرغی کا گوشت 500 روپے کلو مل رہا ہے۔جبکہ گزشتہ 1 ماہ سے مرغی کا گوشت 200 سے 250 روپے مل رہا ہے جب ہمارے سیاست دانوں کی عوام کے مسائل سے اس طرح دلچسپی ہوگی کہ ان کو مارکیٹ کے ریٹ کا ہی پتہ نہیں ہوگا تو وہ ہمارے مسائل کیا خاک حل کریں گے۔یہ بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے۔ میری رائے میں ہمارا ملک اس طرح کے اخراجات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ہمیں اس جمہوری نظام کو خیر آباد کہنا ہوگا جس میں سیاسی جماعتوں پر کرپشن کے الزامات لگیں اور ثابت ہوئے ہوں۔
ہمیں اپنے غریب عوام کو اس نظام کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہیے کیونکہ ہم اس نظام کے قابل ہی نہیں ہیں یہ نظام صرف ایماندار،کسی کا حق نہ مارنے والے،سچ بولنے والے اور وعدہ خلافی نہ کرنے والے معاشروں کے لئے ہے۔میں نے اپنے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ حکومت اور اپوزیشن کو مل کر ملک و قوم کی خدمت کرنی چاہیے مجھے بہت خوشی ہوئی ہے کہ محترمہ مریم نواز شریف نے بھی ایک بیان میں میری اس بات کی تائید کی ہے اور چودھری نثا ر علی خان نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں اسی بات پر زور دیا ہے۔چودھری نثار علی خان ایک بے داغ اور تجربہ کار سیاست دان ہیں۔انہوں نے بھی قومی سیاست میں متحرک ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔یا تو ہمارے سیاست دان خدا کو یاد رکھتے ہوئے موت کو یاد رکھتے ہوئے خدا سے ڈرتے ہوئے جھوٹ، بد دیانتی، وعدہ خلافی اور منافقت سے توبہ کرلیں بصورت دیگر ہمیں صدارتی نظام کی طرف بڑھنا ہوگا تمام پارٹیاں اپنا اپنا امیدوار کھڑا کریں۔
جس کو اللہ عزت دے وہ اپنی حکومت بنائے اور انتظامیہ کے ذریعے جس میں وفاقی سیکر ٹریز،ایف آئی اے نیب اور صوبائی چیف سیکر ٹریز انسپکٹر جنرل پولیس کے ذریعے حکومت چلائیں۔اس طرح ایک لاکھ بیس ہزار 6 سو کروڑ روپے 5 سال میں بچائے جا سکتے ہیں۔ملک پر زیادہ قرضہ جمہوری حکومتوں کے دور میں ہی بڑھا ہے ان جمہوری حکومتوں نے سوائے قرضہ بڑھانے اور عوام کو مہنگائی اور غربت سے دوچار کرنے کے سوا اور کچھ نہیں کیا۔
اپنے پچھلے کالم میں بھی عمران خان، نواز شریف، آصف علی زرداری، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن کی عمروں کا ذکر کر چکا ہوں اور ساتھ ہی ان کی خدمت میں پاکستان میں اوسط عمر 35 سال عرض کر چکا ہوں لہذا ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ اگر جمہوریت چاہتے ہیں تو خدا کے لئے سچ بول کر، ایمانداری، وعدہ خلافی نہ کرکے عوام کی خدمت کریں۔بصورت دیگر ملک جو کہ انتہائی نازک دور سے گز ررہا ہے ان کو کبھی معاف نہیں کرے گا اور تاریخ میں ان کا نام اچھے الفاظ میں یاد نہیں کیا جائے گا۔آج بھی وقت ہے کہ ہم سب توبہ کر لیں اور دل و جان سے عوامی مسائل کے حل کے لئے حکومت وقت کی اچھی پالیسیوں پر ان کا ساتھ دیں او ر اگر حکومت وقت کوئی غلط فیصلہ کرتی ہے تو مہذب انداز میں ان کو بتائیں اور ان کو ان مسائل کے حل کے لئے قابل عمل تجاویز دیں اس وقت ہمارا ایک ایک دن اور ایک ایک پل قیمتی ہے ہمیں اپنا وقت ضائع کیے بغیر ملک و قوم کی خدمت کرنا ہے اور اپنی پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر ملک کے دفاع کو مضبوط کرنا ہے۔اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین
(کالم نگار ریٹائرایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل ہیں)
٭……٭……٭

رومانویت اور حقیقت پسندی

میاں انوارالحق رامے
گزشتہ صدی غلام اور محکوم قوموں کیلئے آزادی اور خود مختاری کی صدی تھی۔بر صغیر پاک و ہند کے لوگ انگریز کی غلامی کا شکار تھے۔گزشتہ صدی میں برصغیر کی دو قوموں کے اندر آزادی اور خود مختاری کے خوابوں نے جنم لیا۔مسلمان برصغیر پاک و ہند میں چونکہ حکمران رہ چکے تھے ان میں آزادی کے آدرش زیادہ بلند تھے۔علی گیلانی بطل حریت ان افراد میں شامل تھے جس نے بر صغیر میں آزادی کے پرچم کو اکیسویں صدی تک اپنی ہمت اور طاقت کے مطابق بلند کئے رکھا۔سید علی گیلانی نے زندگی کی آخری سانس تک سبز ہلالی پرچم کے ساتھ اپنی نسبت و محبت کو برقرار رکھا۔ان کے آزادی پسند قفس عنصری نے ہلالی پرچم میں لپٹا پسند کیا۔ مرنے کے بعد بھی ان کی مجاہدانہ شخصیت آزادی پسند لوگوں کیلئے مشعل راہ ہے۔ ہلالی پرچم میں لپٹا ہوا شخص غلام قوموں کے لئے ایک صدا ئے اسرافیل ہے جو غلام قوموں کیلئے پیغام حریت ہے۔برصغیر پاک و ہند کے محکوم مسلمانوں کیلئے پاکستان ایک آدرش اور زندگی بخش رومان تھا۔وہ مجاہدانہ روحیں آہستہ آہستہ خالق حقیقی کی طرف منتقل ہو رہی ہیں بلکہ ان بے تاب انقلابی روحوں میں ایک روح مرد مجاہد سید علی گیلانی کی پاکیزہ روح تھی جو ہمیں جدوجہد کا درس دے کر مالک حقیقی سے مل چکی ہے۔اب رومان کی جگہ حقیقت پسندی نے لے لی ہے زندگی کے تمام شعبے انحطاط پذیر ہو چکے ہیں۔صحافت و سیاست سب بانجھ پن کا شکار ہو کر قعر مزلت میں ڈوب چکے ہیں۔
اہل صحافت میں جناب ضیاشاہد‘ میرخلیل الرحمن‘ مجیدنظامی اوردیگر جنہوں نے ہمیشہ صداقت کے علم کو بلند کئے رکھا۔سیاست میں قائد اعظم محمد علی جناح اور قائد ملت لیاقت علی خان کے بعد اس وادی بے آب و گیاہ میں گزشتہ پچاس برسوں میں کوئی ایسی شخصیت مطلع سیاست پر نمودار نہیں ہوئی جس کو بطور مثال پیش کیا جا سکے۔سیاست کے ایوانوں میں ہر طرف نا اہلی اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔جن کو خواہش نفس نے اپنا غلام بنا رکھا ہے۔ہر طرف طلب زر و منصب کے مناظر آنکھوں کوخیرہ کرتے نظر آئیں گے۔تحریک پاکستان کے جلو میں اور بھی ارمان محو سفر تھے۔جن کی کاشت بیسویں صدی میں ہمارے نیک دل بزرگوں نے کی تھی۔ان رومانوں میں سر فہرست اسلامی انقلاب کا رومان تھا۔ وہ بھی مدت ہوئی قصہ پارینہ بن گیا ہے۔حقیقت یہ ہے جن خواہشوں نے 20ویں صدی میں جنم لیا تھا وہ سب خواہشیں اب خواب و خیال ہو چکی ہیں۔ اب ہم پر ایک نیا عہد مسلط ہو چکا ہے جس سے مفر ممکن نظر نہیں آتا ہے اس عہد کی ضروریات اور تقاضے مختلف ہیں۔
کشمیر کی آزادی ہماری ترجیح اول ہے ہم سمجھتے ہیں کہ اس کی آزادی کے بغیر تشکیل پاکستان کا ایجنڈا نامکمل ہے۔ مہا راجہ کشمیر کا ہندوستان سے الحاق کا فیصلہ ظالمانہ فیصلہ تھا کوئی مستند دستاویز فیصلے کی تائید نہیں کرتی ہے۔ بھارت آج تک کوئی مستند دستاویز اقوام متحدہ میں پیش کرنے سے قاصر رہا ہے اس لئے باامر مجبوری اس نے اقوام متحدہ کے سامنے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کر لیا تھا۔جب اس کا روبہ عمل آنے کا وقت آیا تو اقرار و وعدہ سے منحرف ہو گیا تھا۔اگست 2019 اس نے ہر باہمی اور بین الاقوامی معا ہدے کو پاؤں تلے روندتے ہوئے تاریخ کے ساتھ جغرافیہ بھی تبدیل کر دیا تھا۔ بھارت کے ان جارحانہ اقدامات کے خلاف کوئی مرد مجاہد سامنے نہیں آیا۔علی گیلانی نے اپنی آنکھوں کے سامنے اس منظر کو ابھرتے دیکھا لیکن انہیں کوئی آزادی کا علم بلند کرنے والا نظر نہیں آیا۔ وہ آس و امید کی مدھم لو کو اپنے سامنے بجھتے ہوئے دیکھتے رہے۔
عصر حاضر میں تاریخ جغرافیہ بدل گئے ہیں 1947 کے نقشے میں جوہری تبدیلیاں چکی ہے۔نقشہ کی پہلی خورد برد بانڈری کمیشن نے کی تھی۔پھر حیدر آباد نقشے سے محو ہو گیا پھر کشمیر کو غلامی کی زنجیریں پہنا دی گئیں پھر مشرقی پاکستان کو بزور شمشیر ہم سے الگ کر دیا گیا۔حقائق تبدیل ہو چکے ہیں۔قدرت کا قانون فطرت ہے صاحبان عزم و ہمت نئے حقائق کی تخلیق کرتے ہیں۔صاحباں رخصت ان کو قاضی کا فیصلہ سمجھتے ہوئے قبول کر لیتے ہیں, تاریخ میں ہمارا شمار صاحبان رخصت میں ہوتا ہے سید علی گیلانی جیسے مجاہد کا شمار صاحبان عزیمت میں ہوتا ہے۔ نئے حقائق کی تخلیق کیلئے قدرت نے اصول مقرر ر رکھے ہیں۔ایک تاریخی جبریت کی ذریعے ظہور پذیر ہوتے ہیں دوسرے صاحبان عزم کے دست ہنر کے نتیجے میں جنم لیتے ہیں۔ہر دور اپنے تقاضے اور اسلوب لے کر جنم لیتا ہے۔صنعتی دور کی معاشرت زرعی اور خانہ بدوشی کے دور سے بالکل مختلف تھی۔ اس سے فرار ممکن نہیں ہے۔دوسری طرف کسی قوم کی صلاحیت اور عزم نئی تاریخ مرتب کر دیتا ہے بلکہ جغرافیہ بدلنے کی صلاحیت کا بھی مالک ہوتا ہے۔امریکہ اور اس کے حریفوں نے مل کر دنیا کا جغرافیہ اور تاریخ بدل دی ہے۔ایران کی مذہبی قیادت نے بھی یہ کام کر ڈالا ہے ایران صدیوں تک بادشاہی کے شکنجہ میں پستا رہا ہے اب ایران میں بادشاہت ایک قصہ پارینہ بن گئی ہے۔اسی طرح علم کی کائنات میں بھی لوگ نئی دنیا آباد کر لیتے ہیں۔۔قائد اعظم کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو تاریخ بدلتے ہیں۔
پاکستان کا وجود مسعود ان کی کھلی اور درخشاں نشانی ہے۔علی گیلانی کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو تاریخ اور جغرافیہ بدلنے کی کوشش میں اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر دیتے ہیں۔ہر غلام فرد چاہے وہ فلسطینی ہو یا کشمیری قائد اعظم کی جدوجہد کو اپنے لئے ایک مثال سمجھتا ہے۔اب کشمیری قیادت میں کوئی رومان نہیں ہے اب حقیقت پسندی نے لوگوں کی سوچوں کو اسیر بنا لیا ہے۔مقبوضہ کشمیرمیں آج ان جیسا کوئی با ہمت نہیں ہے جو ان کی خلا پر کر سکے۔آج برصغیر میں ایک طرف حقیقت پسند قیادت ہے دوسری طرف سرحد کے پار انتہا پسند قیادت ہے۔جو کشمیر پر ظلم ستم کی خوگر ہو چکی ہے۔سید گیلانی جیسے عزیم المرتبت لوگ اپنے پیچھے بہادری اور عزم صمیم کی داستانیں چھوڑ جاتے ہیں جن کی برکت سے نئے جرات مند کردار پیدا ہوتے ہیں۔ جو ہمت و جرات کے نئے اور تابندہ چراغ روشن کر دیتے ہیں۔سید علی گیلانی کو ایک چمکتے ہوئے ستارے کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
(کالم نگارمعروف سابق پارلیمنٹیرین اورپاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما ہیں)
٭……٭……٭

سیگون بھی یاد آیا اور ہوچی منھ بھی

عارف بہار
ڈیڈ لائن کی آخری لکیر سے چند گھنٹے کی دوری پر ہی امریکہ کا آخری جہاز آخری فوجی کو لے کر افغانستان کی حدود پار ہوگیا۔امریکہ نے افغانستان آنے میں بھی عجلت کی تھی اور رخصتی میں بھی عجلت کا پہلو نمایاں رہا۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق آخری جہاز کے کابل ائر پورٹ سے ٹیک آف کرتے ہی کابل شہر ہوائی فائرنگ سے گونج اُٹھا۔امریکی فوجی کے جہاز میں سوا ر ہو کر اُڑان بھرتے ہی طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد فاتحانہ انداز میں ائر پورٹ میں داخل ہوئے اور مختلف حصوں کا جائزہ لیا۔ ذبیح اللہ مجاہد نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ امریکہ شکست کھا کر جا چکا ہے اور یہ سب افغانوں کی فتح ہے اور دنیا کے لئے سبق بھی ہے تاہم انہوں نے امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات کی قیام کی خواہش ظاہر کی۔
دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلینکن نے انخلا کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اب طالبان کے ساتھ رابطہ دوحہ دفتر کے ذریعے ہی رہے گا۔انہوں نے انخلا کی مشن کو بہادرانہ اور تاریخی قرار دیا۔ اس طرح بیس سال بعد افغانستان کی امریکی جنگ اپنے انجام کو پہنچ گئی۔کابل سے امریکی فوجیوں کی اُڑانیں بھرنے کے یہ آخری مناظر دہائیوں پہلے سوویت افواج کے ٹینکوں پر دریائے آمو عبور کرنے جیسے ہی تھے۔دونوں فوجیں واپس لوٹتے ہوئے حملوں کی یقین دہانی حاصل کرنے کی ضمانت کے بعد افغانستان کو خالی کر رہی تھیں۔ سوویت یونین کے آخری حکمران گوورباچوف نے تو افغان مجاہدین سے باضابطہ اپیل کی تھی کہ وہ واپس لوٹتی ہوئی فوجوں پر حملے نہ کریں۔امریکہ کے موجود ہ صدر جو بائیڈن نے طالبان سے اس امر کی باضابطہ ضمانت حاصل کی تھی۔بیس سال پر محیط مار دھاڑ سے بھرپور ”ہالی ووڈ“ کی یہ فلم امریکہ کو بہت مہنگی پڑی۔ بیس سال کی اس جنگ میں آٹھ لاکھ امریکی فوجیوں نے حصہ لیا۔اس دوران سرکاری اعداد وشمار کے مطابق دوہزار سے زیادہ فوجی مارے گئے جبکہ بیس ہزارسے زیاد ہ زخمی ہوئے۔امریکہ نے یہ جنگ لڑنے کے لئے822ارب ڈالر خرچ کئے۔یہ محض سرسری اعدادوشمار ہیں۔کاغذوں میں دفن اصل حقیقت کچھ وقت گزرنے کے بعد امریکی روایت کے عین مطابق”ڈی کلاسیفائی“ہو کر دنیا کے سامنے آئے گی اور تاریخ کا حصہ بن جائے گی۔انخلاء کا یہ عمل جس انداز سے دراز سے دراز تر ہوتا رہا یہاں تک کہ امریکی حکام کے مطابق اب بھی امریکہ کے دو سو شہری افغانستان میں پھنسے ہوئے ہیں اس سے انداز ہ ہوتا ہے کہ امریکہ ہی نہیں اس کے اتحادی اور دست بازو اور ایک جنوبی ایشیائی شہ بالا افغانستان میں دہائیوں تک قیام کے ار ادوں کے ساتھ بیٹھے تھے۔وہ مارشل افغان قوم کو فنِ سپاہ گری سے آشنا کرنے کے نام پر اپنے قیام کو جواز اور وجوہات کے دلائل کے پرتوں اور پردوں میں چھپائے بیٹھے تھے۔اسی لئے جب عمران خان نے کہا کہ افغانوں نے غلامی کی زنجیریں توڑدی ہیں تو اس کی سب سے زیادہ تکلیف بھارت میں محسوس ہوئی کیونکہ امریکہ اگر افغانستان پر حملے کی بارات کا دولہا تھا تو بھارت اس کا شہ بالا تھا۔اس تشریح کے مطابق بھارت افغانستان کی زنجیروں کا حصہ تھا۔ بیس سال پر محیط دور اگر غلامی تھا تو بھارت کتاب کا مرکزی باب ہے۔امریکہ نے افغانستان میں مار ہی کھائی اس ریت کی بوری کے پیچھے چھپے بھارت نے حالات کو پاکستان کے خلاف اپنی”ایناکونڈا“ حکمت عملی کے لئے استعمال کیا۔اژدھے کی طرح پاکستان کے گرد گھیر اڈالنے کی یہ حکمت عملی کچھ وقت تک کامیاب ہوئی مگر امریکی فوج کی رخصتی کے ساتھ اژدھا کئی ٹکڑوں میں بٹ کر رہ گیا۔اس عرصے میں پاکستان کے لئے مغرب اور مشرق کی سرحدوں کا فرق ہی ختم ہوگیا۔یہی نہیں بلکہ اس حکمت عملی کو کامیاب بنانے کے لئے بحیرہ عرب کے پار بھی ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ خلیجی ممالک پاکستان سے دور ہو کر رہ جائیں۔افغانستان سے امریکہ کے آخری سپاہی کے انخلا کے بعد اینا کونڈا پالیسی بری طرح ناکام ہوگئی۔حکمت یار نے بہت اچھے انداز میں بھارت میں پاکستان کی سٹریٹجک ڈیپتھ پالیسی سے سبق سیکھتے ہوئے اپنی پالیسی میں تبدیلی کا مشورہ دیا۔بھارت کی ایناکونڈا پالیسی نے افغانستان کو کئی قوتوں کی لڑائی کا اکھاڑہ بنا ئے رکھا۔آج بھی افغانستان کبڈی کا میدان ہے۔ مخالف ٹیم کا کوئی رکن جب کبڈی کبڈی کرتا ہوا اس میں قدم رکھتا ہے تو سارے علاقائی کھلاڑی اس کے گرد گھیرا ڈالتے ہیں۔یہ مستقبل میں بھی ہوتا رہے گا۔ اس لئے سب کے لئے بہتر یہی ہے کہ اس پُرخطر مقام کا رخ ہی نہ کریں۔
بیس برس امریکہ نے ایک لمحے اور ایک تاثر کو ٹالنے میں ضائع کئے۔وہ یہ تھا کہ امریکہ کی افغانستان سے رخصتی میں سیگون یعنی ویت نام کی جھلک نظر نہ آئے اور جنگ کے اس گرد وغبار سے کسی ہوچی مین کی شبیہ نہ اُبھرے مگر اس کا کیاکیجئے کہ سیگون بھی زیر بحث آیا اور ہوچی میں بھی۔
(کالم نگارقومی وسیاسی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

یہ کہاں کی دوستی ہے

لیفٹیننٹ جنرل(ر)سلیم اشرف
چالیس اکتالیس سال بہت لمبا عرصہ ہوتا ہے۔ اس عرصے میں دو نسلیں جوان ہو جاتیں ہیں اور دنیا بالکل بدل جاتی ہے۔ خواص طور پر آج کی ڈیجیٹل ایج میں تو اتنے عرصے میں ایک مختلف اور نئی دنیا جنم لے لیتی ہے۔ 1979 کا سال گزشتہ صدی کا ایک نہایت ہی اہم سال تھا جس میں تاریخ کا نیا مگر بہت ہی عہد ساز سال شروع ہوا۔ افغانستان میں سوویت یونین کی افواج داخل ہو گئیں اور وہاں جنگ کاایک طویل اوربہت ہی تباہ کن سلسلہ شروع ہو گیا۔ یہ جنگ پاکستان کی سلامتی اور تحفظ کے لئے بھی نہایت اہم تھی۔ سوویت فوج کابل میں رہنے کے لئے نہیں آئی تھی بلکہ وہاں وہ اپنا قبضہ مستحکم کر کے سویت یونین پاکستان میں صوبہ بلوچستان کے راستے بحیرہ عرب کے گرم پانیوں تک جانے کا عزم رکھتی تھی۔ ان کو اس کے لئے کل چار سے پانچ سال درکار تھے۔ مگر تقدیر کا لکھا کچھ اور تھا۔
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں کے مصداق افغان مجاہدین نے چند ہی سالوں میں حالات کا دھارا بدل دیا اور روسی اپنے زخم چاٹتے ہوئے دریائے آمو کے اس پار بھاگ گئے۔ اس جنگ میں امریکہ، پاکستان، سعودی عرب، خلیجی ریاستوں اور افغانستان کے مجاھدین کے مفادات ایک تھے۔ امریکہ شاید ویٹنام میں اپنی شکست کا بدلہ لینے کے جذبے سے اس جنگ میں آیا، جبکہ پاکستان اپنی سلامتی کے تحفظ اور سوویت یونین کے 1971 کی جنگ میں ہندوستان کا ساتھ دینے کا حساب چکانے کے لئے بے تاب تھا۔ افغان مجاھدین اپنے آپ کو غیر ملکی روسی تسلط سے آزاد کرانا کے لئے جذ بہ اور آرزو لے کر میدان جنگ میں کود پڑے تھے۔ یہ جنگ مکمل طور پر ایک جائز اور حق کی جنگ تھی جس میں افغانوں نے خوب بہادری کے جوہر دکھائے اور پاکستان نے اس جنگ میں کھل کر افغان مجاھدین کی نہ صرف سیاسی اور سفارتی حمائت کی بلکہ فوجی طور پر بھی ان مجاھدین کی ہر طرح سے مکمل مدد کی۔
لیکن مقدر نے روسیوں کے بعد افغانستان کے زندہ دل مجاھدین کے لئے ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں اور آزمائشوں اور جدوجہد کے بہت سارے اور مراحل رکھے تھے۔ نائین الیون کے واقعہ کے بعد افغان مجاہدین جو اب طالبان کے روپ میں آچکے تھے، نے امریکہ کی ڈکٹیشن لینے سے انکار کر دیا اور افغانوں کی آزمائش کا ایک نیامگر قدرے طویل عرصہ شروع ہو گیا۔ 2001 سے لے کر 2021 تک امریکہ اور نیٹو افواج نے تمام جدید اسلحہ سے لیس ہو کر یہ جنگ لڑی مگر آخر انہیں بھی روس کی طرح اپنے زخم گہرے ہوتے نظر آئے۔ 2021 ایک اور تاریخ رقم کر گیا۔
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
طالبان کا ذوق یقین اور جذبہ جہاد قابل دید ہے۔نہ عددی برتری نہ جنگی سازوسامان کی بہتات مگر قوت ایمانی حب الوطنی اور جذبہ کی بہتات تھی جس نے کم تعداد کو بالا کر دیا۔
اب افغانستان جنگ سے بیزار ہے افغان نہیں چاہتے کی ان کا ملک اور برباد ہو بلکہ برباد ہونے کو بچا کیا ہے؟ اب مرحلہ ہے کہ تمام ممالک خاص طور پر پڑوسی ممالک جن میں پاکستان ایران چین اور وسطی ایشیائی مسلم اکثریتی ریاستیں شامل ہیں سب مل کر افغانستان کے تعمیر نو کے مراحل میں افغانوں کی مدد کریں تاکہ وہ اپنی یکجہتی کو برقرار رکھتے ہوئے اقتصادی ترقی اور تعمیر نو کے مراحل کو آسانی سے طے کر سکیں۔ اگر یہ نہ ہوا تو افغانستان خدانخواستہ دوبارہ مشکل حالات سے دو چار نہ ہو جائے۔ خاص طور پر بہت سارے سپائیلرز کی موجودگی میں جس میں مسلم امہ اور پاکستان کا دشمن نمبر ایک یعنی ہندوستان پیش پیش ہے، بہت ساری ممکنات پیش آ سکتی ہیں۔ ان حالات میں ہمارے لئے بہت ضروری ہے کہ پاکستان بغیر افغانستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کئے افغانوں کی دامے درمے اور سخنے کھل کر مدد کرے کیونکہ ہمارا مستقبل بھی افغانستان کے مستقبل سے جڑا ہوا ہے۔ ہمیں خواہ مِخواہ کے خدشات سے بالاتر ہو کر اور چین کی مدد سے افغانستان کی تعمیر نو کا آغاز کرنا چاہئے اور دشمنوں کی انکلوسو inclusive کے پراپیگنڈہ کا توڑ کرنا چاہئے۔ افغان کیسی حکومت بناتے ہیں یہ انکا اندرونی معاملہ ہے۔ عورتوں کے حقوق بھی ان کا اپنا مسلہ ہے جو وہ اپنی روایات اور کلچر کے مطابق طے کریں گے کسی بیرونی قوت یا ملک کو اس سے غرض نہیں ہونی چاہئے۔ ہاں جب ملک ترقی کرے گا تو یہ تمام معاملات حل ہو جائیں گے۔ ابھی وقت ہے افغان حکومت کی مدد کی جائے چہ جائے کہ ان کو بن مانگے مشورے دئیے جائیں۔
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غمگسار ہوتا
تو پھر پاکستان ان حالات میں کیا کرے؟
افغانستان میں طالبان کی نئی حکومت کو تسلیم کرنے کامرحلہ سب سے اہم ہے۔ دنیا کے باقی بڑے اور چھوٹے ممالک کی بات اور ہے وہ بغیر کسی وجہ کے تسلیم کے مرحلے کو طول دے سکتے ہیں مگر پاکستان کے لئے لمبی مدت کے لئے اس مرحلے کو پس پشت ڈالے رکھنا مشکل ہو گا اور حالات کا مکمل جائزہ لے کر نئی افغان حکومت کو چند دنوں یا ہفتوں میں یہ فیصلہ کرنا ہو گا اورہمارے وزیر خارجہ سمیت اعلیٰ سطحی وفد کا کابل کا دورہ ضروری ہو گا۔ نئی حکومت کو تسلیم کرنے میں پہل کے اپنے فائدے ہیں اور ہمیں کابل میں سفارتی سطح پر ایک بہت ہی بہتر مقام حاصل ہو سکتا ہے۔ دیر سے تو سب ممالک تسلیم کر ہی لیں گے۔
لیکن جب تک تسلیم کا مرحلہ نہیں آتا ہم بہت سارے دیگر اقدامات سے کابل میں اور افغان عوام کے دلوں میں گھر کر سکتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کا ذکرمندرجہ ذیل ہے:
اگرچہ پاکستان نے کچھ جہاز سامان اور ادویات کے افغانستان روانہ کئے ہیں مگر افغان عوام کی توقعات پاکستان سے زیادہ ہیں۔ فوری طور پر پاکستان اپنے افغان بھائیوں کے لئیے کم از کم بیس سے تیس ہزار ٹن گندم چاول اور چینی بھیجنے کا اعلان کرے۔ اس کے علاوہ باقی ضروریات زندگی افغان تاجر پاکستانی مارکیٹ سے بآسانی خرید سکیں اور اس کے لئے نرم ڈیوٹی قواعد کا اعلان کیا جائے۔
افغانستان میں ادویات کی ضرورت ہو گی جس کے لئے ہم جو بھی سہولیات فراہم کر سکیں وہ کرنے چاہئیں۔
ضرورت ہو تو میڈیکل مشن بھی روانہ کئے جائیں۔
تعمیر نو کے لئے جو اشیا افغانستان کو ضرورت ہو مثلا سیمنٹ سریا وغیرہ وہ کم ڈیوٹی پر لے جانے کی اجازت دی جائے۔افغانستان کو اس مرحلے پر بہت مدد درکار ہوگی اور پاکستان اس کے لئے ہر طرح تیار رہے۔
پاکستان خاص طور پر تعلیم اور تکنیکی تعلیم اور صحت کے معاملات میں افغان حکومت کی دل کھول کے مدد کرے۔ یہ سب پاکستان کر سکتا ہے اور یہ وقت ہے کچھ کر گزرنے کا۔
ماضی میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات اچھے نہیں رہے جس کی کئی وجوہات ہیں اس حوالے سے کچھ اور ممالک کا کردار کلیدی تھا اب ہمارے لئے ضروری ہے کہ ان ممالک کو دوبارہ کھل کھیلنے کا موقعہ نہ ملے گیند اب اسلام آباد اور کابل دونوں کے کورٹ میں ہے اور دونوں ممالک کوماضی کی غلطیوں سے اجتناب کرناچاہیے۔
(کالم نگار ہلال ملٹری امتیازاورسابق ہائی کمشنر ہیں)
٭……٭……٭