تازہ تر ین

رومانویت اور حقیقت پسندی

میاں انوارالحق رامے
گزشتہ صدی غلام اور محکوم قوموں کیلئے آزادی اور خود مختاری کی صدی تھی۔بر صغیر پاک و ہند کے لوگ انگریز کی غلامی کا شکار تھے۔گزشتہ صدی میں برصغیر کی دو قوموں کے اندر آزادی اور خود مختاری کے خوابوں نے جنم لیا۔مسلمان برصغیر پاک و ہند میں چونکہ حکمران رہ چکے تھے ان میں آزادی کے آدرش زیادہ بلند تھے۔علی گیلانی بطل حریت ان افراد میں شامل تھے جس نے بر صغیر میں آزادی کے پرچم کو اکیسویں صدی تک اپنی ہمت اور طاقت کے مطابق بلند کئے رکھا۔سید علی گیلانی نے زندگی کی آخری سانس تک سبز ہلالی پرچم کے ساتھ اپنی نسبت و محبت کو برقرار رکھا۔ان کے آزادی پسند قفس عنصری نے ہلالی پرچم میں لپٹا پسند کیا۔ مرنے کے بعد بھی ان کی مجاہدانہ شخصیت آزادی پسند لوگوں کیلئے مشعل راہ ہے۔ ہلالی پرچم میں لپٹا ہوا شخص غلام قوموں کے لئے ایک صدا ئے اسرافیل ہے جو غلام قوموں کیلئے پیغام حریت ہے۔برصغیر پاک و ہند کے محکوم مسلمانوں کیلئے پاکستان ایک آدرش اور زندگی بخش رومان تھا۔وہ مجاہدانہ روحیں آہستہ آہستہ خالق حقیقی کی طرف منتقل ہو رہی ہیں بلکہ ان بے تاب انقلابی روحوں میں ایک روح مرد مجاہد سید علی گیلانی کی پاکیزہ روح تھی جو ہمیں جدوجہد کا درس دے کر مالک حقیقی سے مل چکی ہے۔اب رومان کی جگہ حقیقت پسندی نے لے لی ہے زندگی کے تمام شعبے انحطاط پذیر ہو چکے ہیں۔صحافت و سیاست سب بانجھ پن کا شکار ہو کر قعر مزلت میں ڈوب چکے ہیں۔
اہل صحافت میں جناب ضیاشاہد‘ میرخلیل الرحمن‘ مجیدنظامی اوردیگر جنہوں نے ہمیشہ صداقت کے علم کو بلند کئے رکھا۔سیاست میں قائد اعظم محمد علی جناح اور قائد ملت لیاقت علی خان کے بعد اس وادی بے آب و گیاہ میں گزشتہ پچاس برسوں میں کوئی ایسی شخصیت مطلع سیاست پر نمودار نہیں ہوئی جس کو بطور مثال پیش کیا جا سکے۔سیاست کے ایوانوں میں ہر طرف نا اہلی اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔جن کو خواہش نفس نے اپنا غلام بنا رکھا ہے۔ہر طرف طلب زر و منصب کے مناظر آنکھوں کوخیرہ کرتے نظر آئیں گے۔تحریک پاکستان کے جلو میں اور بھی ارمان محو سفر تھے۔جن کی کاشت بیسویں صدی میں ہمارے نیک دل بزرگوں نے کی تھی۔ان رومانوں میں سر فہرست اسلامی انقلاب کا رومان تھا۔ وہ بھی مدت ہوئی قصہ پارینہ بن گیا ہے۔حقیقت یہ ہے جن خواہشوں نے 20ویں صدی میں جنم لیا تھا وہ سب خواہشیں اب خواب و خیال ہو چکی ہیں۔ اب ہم پر ایک نیا عہد مسلط ہو چکا ہے جس سے مفر ممکن نظر نہیں آتا ہے اس عہد کی ضروریات اور تقاضے مختلف ہیں۔
کشمیر کی آزادی ہماری ترجیح اول ہے ہم سمجھتے ہیں کہ اس کی آزادی کے بغیر تشکیل پاکستان کا ایجنڈا نامکمل ہے۔ مہا راجہ کشمیر کا ہندوستان سے الحاق کا فیصلہ ظالمانہ فیصلہ تھا کوئی مستند دستاویز فیصلے کی تائید نہیں کرتی ہے۔ بھارت آج تک کوئی مستند دستاویز اقوام متحدہ میں پیش کرنے سے قاصر رہا ہے اس لئے باامر مجبوری اس نے اقوام متحدہ کے سامنے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کر لیا تھا۔جب اس کا روبہ عمل آنے کا وقت آیا تو اقرار و وعدہ سے منحرف ہو گیا تھا۔اگست 2019 اس نے ہر باہمی اور بین الاقوامی معا ہدے کو پاؤں تلے روندتے ہوئے تاریخ کے ساتھ جغرافیہ بھی تبدیل کر دیا تھا۔ بھارت کے ان جارحانہ اقدامات کے خلاف کوئی مرد مجاہد سامنے نہیں آیا۔علی گیلانی نے اپنی آنکھوں کے سامنے اس منظر کو ابھرتے دیکھا لیکن انہیں کوئی آزادی کا علم بلند کرنے والا نظر نہیں آیا۔ وہ آس و امید کی مدھم لو کو اپنے سامنے بجھتے ہوئے دیکھتے رہے۔
عصر حاضر میں تاریخ جغرافیہ بدل گئے ہیں 1947 کے نقشے میں جوہری تبدیلیاں چکی ہے۔نقشہ کی پہلی خورد برد بانڈری کمیشن نے کی تھی۔پھر حیدر آباد نقشے سے محو ہو گیا پھر کشمیر کو غلامی کی زنجیریں پہنا دی گئیں پھر مشرقی پاکستان کو بزور شمشیر ہم سے الگ کر دیا گیا۔حقائق تبدیل ہو چکے ہیں۔قدرت کا قانون فطرت ہے صاحبان عزم و ہمت نئے حقائق کی تخلیق کرتے ہیں۔صاحباں رخصت ان کو قاضی کا فیصلہ سمجھتے ہوئے قبول کر لیتے ہیں, تاریخ میں ہمارا شمار صاحبان رخصت میں ہوتا ہے سید علی گیلانی جیسے مجاہد کا شمار صاحبان عزیمت میں ہوتا ہے۔ نئے حقائق کی تخلیق کیلئے قدرت نے اصول مقرر ر رکھے ہیں۔ایک تاریخی جبریت کی ذریعے ظہور پذیر ہوتے ہیں دوسرے صاحبان عزم کے دست ہنر کے نتیجے میں جنم لیتے ہیں۔ہر دور اپنے تقاضے اور اسلوب لے کر جنم لیتا ہے۔صنعتی دور کی معاشرت زرعی اور خانہ بدوشی کے دور سے بالکل مختلف تھی۔ اس سے فرار ممکن نہیں ہے۔دوسری طرف کسی قوم کی صلاحیت اور عزم نئی تاریخ مرتب کر دیتا ہے بلکہ جغرافیہ بدلنے کی صلاحیت کا بھی مالک ہوتا ہے۔امریکہ اور اس کے حریفوں نے مل کر دنیا کا جغرافیہ اور تاریخ بدل دی ہے۔ایران کی مذہبی قیادت نے بھی یہ کام کر ڈالا ہے ایران صدیوں تک بادشاہی کے شکنجہ میں پستا رہا ہے اب ایران میں بادشاہت ایک قصہ پارینہ بن گئی ہے۔اسی طرح علم کی کائنات میں بھی لوگ نئی دنیا آباد کر لیتے ہیں۔۔قائد اعظم کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو تاریخ بدلتے ہیں۔
پاکستان کا وجود مسعود ان کی کھلی اور درخشاں نشانی ہے۔علی گیلانی کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو تاریخ اور جغرافیہ بدلنے کی کوشش میں اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر دیتے ہیں۔ہر غلام فرد چاہے وہ فلسطینی ہو یا کشمیری قائد اعظم کی جدوجہد کو اپنے لئے ایک مثال سمجھتا ہے۔اب کشمیری قیادت میں کوئی رومان نہیں ہے اب حقیقت پسندی نے لوگوں کی سوچوں کو اسیر بنا لیا ہے۔مقبوضہ کشمیرمیں آج ان جیسا کوئی با ہمت نہیں ہے جو ان کی خلا پر کر سکے۔آج برصغیر میں ایک طرف حقیقت پسند قیادت ہے دوسری طرف سرحد کے پار انتہا پسند قیادت ہے۔جو کشمیر پر ظلم ستم کی خوگر ہو چکی ہے۔سید گیلانی جیسے عزیم المرتبت لوگ اپنے پیچھے بہادری اور عزم صمیم کی داستانیں چھوڑ جاتے ہیں جن کی برکت سے نئے جرات مند کردار پیدا ہوتے ہیں۔ جو ہمت و جرات کے نئے اور تابندہ چراغ روشن کر دیتے ہیں۔سید علی گیلانی کو ایک چمکتے ہوئے ستارے کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
(کالم نگارمعروف سابق پارلیمنٹیرین اورپاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain