کراچی: کیمیکل فیکٹری میں آتشزدگی سے 13 مزدور جاں بحق

کراچی کے علاقے کورنگی میں ایک کیمیکل فیکٹری میں آتشزدگی سے 13 مزدور جاں بحق ہو گئے۔

کورنگی کے علاقے مہران ٹاؤن میں واقع کیمیکل فیکٹری میں صبح 10 بجے کے قریب آگ لگی جو دیکھتے ہی دیکھتے پوری فیکٹری میں پھیل گئی۔

علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ فیکٹری میں لگی آگ کو بجھانے کے لیے فائر بریگیڈ کی گاڑیاں تاخیر سے پہنچیں جس کے باعث آگ پھیل گئی۔

فائر بریگیڈ کا عملہ فیکٹری میں لگی آگ بجھانے کے لیے موجود ہے اور آگ بجھانے کی کوشش کے دوران 2 فائر فائٹرز بھی زخمی ہوئے جبکہ فیکٹری کی دیواریں توڑنے کے لیے ہیوی مشینری کو بھی طلب کر لیا گیا ہے۔

ریسکیو ذرائع کا بتانا ہے کہ فیکٹری سے اب تک 13 مزدوروں کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں جس میں سے 10 لاشوں کو جناح اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے جبکہ عینی شاہدین کا بتانا ہے کہ فیکٹری میں اب بھی لوگ موجود ہیں۔

یکم ستمبر سے کورونا ویکسی نیشن نہ کروانے والے افراد پیٹرول سے محروم

لاہور میں یکم ستمبر سے کورونا ویکسی نیشن نہ کروانے والے افراد کو  پیٹرول نہیں دیا جائے گا۔

ذرائع کے مطابق کورونا ویکسین نہ لگوانے والوں کے لیے نئی پابندیوں کا فیصلہ کیا گیا ہے،جس کے  پیش نظر لاہور میں ضلعی انتظامیہ نے پیٹرول پمپس پر  بینر ز بھی آویزاں کروا دیئے ہیں۔

پیٹرول پمپس پر  آویزاں بینرز  پر لکھا گیا ہے کہ یکم ستمبر  2021 سے کورونا ویکسین نہ لگوانے والوں کو پیٹرول نہیں ملے گا، یکم ستمبر سے پیٹرول صرف کورونا ویکسی نیشن کروانے والوں کو  ہی  دیا جائے گا۔

دوسری جانب موٹر  وے پولیس نے بھی موٹر ویز اور ہائی ویز  پر کورونا ویکسی نیشن  سرٹیفکیٹ کے بغیر سفر پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

موٹر وے پولیس کا کہنا ہے کہ  15 ستمبر کے بعد شہری ویکسی نیشن سرٹیفکیٹ کے بغیر سفر نہیں کر سکیں گے، لہذا مسافر دوران سفر  ویکسی نیشن سرٹیفکیٹ لازمی ساتھ رکھیں۔

سابق حکمران شوبازیوں ، بزدار عوامی خدمت کے قائل ہیں، فیاض چوہان

لاہور ( لیڈی رپورٹر سے ) وزیر جیل خانہ جات و ترجمان حکومت پنجاب فیاض چوہان نے کہا ہے کہ گزشتہ حکومت کی شوبازیوں اور پھڑکنے بھڑکنے کے برعکس وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار \”نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو\” کے قائل ہیں۔

شہباز شریف ایک کروڑ کا پراجیکٹ لگا کر بارہ کروڑ ذاتی تشہیر پر خرچ کرتے تھے ۔ شریف خاندان نے سرکاری خزانے کے باون ارب ڈالر صرف یہ ثابت کرنے پر لگا دیئے کہ انہوں نے عوام کے لیے کچھ کیا ہے ۔ حکومت پنجاب کی تین سالہ کارکردگی کے حوالے سے منعقدہ پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ بزدار حکومت نے محکمہ صحت کے مجموعی بجٹ میں 118 فیصد اضافہ کیا، حکومت سات لاکھ بیس ہزار کی سالانہ ہیلتھ انشورنس فراہم کر رہی ہے ، سال کے آخر تک ساڑھے 11 کروڑ لوگوں کو یہ سہولت میسر ہو گی۔

تعلیم کے لیے مجموعی طور پر 442.1 ارب روپے مختص کیے سرکاری اراضی واگزار، آبپاشی، زراعت کو ترقی دی پریس کانفرنس

شریف خاندان نے 52 ارب ڈالر اپنی تشہیر پر لگا دئیے ، عوام کئ لیے کچھ نہیں کیا

کابل ائیرپورٹ دھماکے: امریکی صدر کا داعش پر حملوں کا حکم

امریکا کے صدر جو بائیڈن نے کابل ائیرپورٹ دھماکوں کا ذمہ دار  داعش خراسان کو  قرار دیتے ہوئے شدت پسند تنظیم کی قیادت پر حملوں کا حکم دے دیا۔

وائٹ ہاؤس میں میڈیا بریفنگ دیتے ہوئے صدر جوبائیڈن نے بتایا کہ کابل ائیرپورٹ پر دھماکوں کے حوالے سے داعش اور طالبان کے درمیان گٹھ جوڑ کے کوئی شواہد نہیں ملے، ان کا کہنا تھا طالبان اچھے لوگ نہیں ہیں لیکن کابل ائیرپورٹ تک راستہ کھلا رکھنا ان کے اپنے مفاد میں ہے۔

صدر جوبائیڈن کا کہنا تھا کہ امریکی اہلکاروں پر حملے کی منصوبہ بندی داعش اور کابل کی جیلوں سے نکلنے والے افراد کر رہے تھے، حملے کے ذمہ دار جہاں کہیں بھی ہوئے انھیں ڈھونڈ نکالیں گے اور انھیں اس حملے کی قیمت ادا کرنے پر مجبور کر دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم کابل ائیرپورٹ پرحملے کے ذمہ داروں کو اپنی طاقت سے اور اپنی مرضی کے مقام پر بھرپور جواب دیں گے۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز کابل ائیرپورٹ پر ہونے والے خودکش دھماکوں میں 13 امریکی فوجیوں سمیت 90 افراد ہلاک اور 140 زخمی ہوئے۔

کابل ائیرپورٹ پر ہونے والے خودکش دھماکوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کرتے ہوئے کہا کہ بمبار نے امریکی فوج کے سکیورٹی حصار کو توڑتے ہوئے 50 میٹر اندر جا کر  خود کو اڑایا۔

3سالہ کارکردگی پر فخر ، غربت ،ختم روزگار میں اضافہ کیا : وفاقی وزرا

اسلام آباد: (نامہ نگار خصوصی ) وفاقی وزیر اطلاوات و نشریات چوہدری فواد حسین نے کہا ہے کہ پاکستان میں جن جماعتوں نے 30 سال حکومت کی ، آج وہ اپنا منہ چھپا رہی ہیں۔

تحریک انصاف واحد حکومت ہے جوعوام کے سامنے اپنی کارکردگی فخر کے ساتھ پیش کر رہی ہے۔ تما  وزارتوں کی کارکردگی پیش کرنا نئی روایت ہے۔

اسحاق ڈار معیشیت کا جنازہ نکال کر کر فرار ہوئے ، ہماری حکومت نئے ڈیم اور بجلی گھر بنا رہی ہے: فرخ حبیب

پاکستان میں30 سال حکومت کرنیوالی جماعتیں آج اپنا منہ چھپا رہی ہیں، ہم نے فلسطین ، کشمیر کی پوری دنیا میں آواز اٹھائی : فواد چوہدری

میں جانتا ہوں کہ میں نہیں جانتا

ڈاکٹرعبدالقادر مشتاق
اے پروردگار ہمیں اکیلا نہ چھوڑنا۔ بے شک تو بہترین وارث ہے۔ انسان بہت کمزور ہے، جذبات کے آگے ریت کی دیوار ثابت ہوتا ہے۔ جذبات کو قابو میں رکھنے کے لئے نفس کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ میں نے قربانی عید پر ایک دوست سے پوچھا کہ اس دفعہ آپ کس جانور کی قربانی دے رہے ہو تو اس کا کیا خوبصورت جواب تھا کہ سر! ہم نفس کو قربان کرنے جارہے ہیں۔ میں اس کی بات سن کر حیران بھی ہوا اور خوش بھی ہوا کہ دنیا میں اور خاص طور پر آج کے دور میں بھی ایسے انسان موجود ہیں جو نفس کی قربانی دینے کا سوچتے ہیں۔ میں نے اس سے سوال کیا کہ نفس کسے کہتے ہیں۔ وہ بولا حرص کو، لالچ کو، کینہ اور بغض و عناد کو، انا کو۔ میں نے سوال کیا کہ یہ ساری قربانیاں ایک ہی موقع پر؟ وہ سوچ میں پڑ گیا۔ میں نے اس کی خاموشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے کہا کہ
روز یہ کہتا ہوں کہ اب نہ تجھے دیکھوں گا لیکن
روز تیرے کوچے میں کوئی کام نکل آتا ہے
دوست نے خاموشی توڑی اور واہ واہ کرنے لگا۔ میرے شعری انتخاب کی داد دینے لگا۔ میں نے کہا بس کر میرا نفس تیری واہ واہ پر خوش ہو رہا ہے۔ واہ واہ انسان کو تباہی کی طرف بھی لے کر جاتی ہے اور اگر نفس قابو میں رہے تو اصلاح کی طرف بھی۔ درگاہ گولڑہ شریف کے ایک صاحبزادے بہت بڑے شاعر بھی تھے۔ ان کے والد گرامی ان کو مشاعروں میں جانے سے روکتے تھے۔ اس کی وجہ وہ یہ بیان کرتے تھے کہ مشاعروں میں شاعری پر ہونے والی واہ واہ انا کے پودے کو پانی دیتی ہے جس سے اس کی افزائش ہوتی ہے۔ اور جب انا کا پودا پروان چڑھ جاتا ہے تو پھر اسے کاٹنے میں وقت لگتا ہے۔ وقت بھی کتنی عجیب چیز ہے۔ کبھی مستقل کسی کا نہیں ہوتا۔ آج میرے ساتھ ہے تو کل کسی اور کے ساتھ۔ لیکن اس کی ایک خوبی ضرور ہے کہ یہ جب کسی کے ساتھ ہوتا ہے تو پھر منافقت سے پاک ہوکر انسان کا ساتھ دیتا ہے۔ منافقت بھی عجیب چیز ہے انسان سوچتا ہے کہ اپنے مفادات کے حصول کے لئے اس کا استعمال جائز ہے۔ میرا ایک دوست کہتا ہے کہ مفادات کے حصول کے لئے ڈپلومیسی سے کام لینا چاہیے منافقت سے نہیں۔ لیکن بدقسمتی سے لوگ ڈپلومیسی اور منافقت میں فرق نہیں کرتے۔ کیا فرق ہے دونوں میں؟ منافقت کا استعمال ہمیشہ منفی مقاصد کے حصول کے لئے کیا جاتا ہے، چور دروازوں سے داخل ہونے کے لئے کیا جاتا ہے۔ انسان کو دھوکہ دینے کے لئے کیا جاتا ہے، قول و فعل میں تضاد کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔
ڈپلومیسی کی بنیاد گفت و شنید پر ہوتی ہے اور پھر جو معاہدات وجود میں آتے ہیں ان کی پاسداری من وعن فرض ہو جاتی ہے۔ ڈپلومیسی ایک سکل ہے جو ہر شخص میں نہیں ہوتی۔ اس معاشرے میں ہنرمند افراد کی ویسے بھی کمی ہے۔ ویسے تو انسانوں کی بھی کمی ہے کیونکہ انا پرست زیادہ ہیں۔ اور اپنی انا کو برقرار رکھنے کے لئے کوئی بھی اپنی غلطی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ ہر انسان فرشتہ بننے کی کاوش میں لگا رہتا ہے۔ بشر بننے کی خواہش کسی کے اندر نظر ہی نہیں آتی۔ انا پرستی کو قابو میں رکھنے کے لئے “میں ” کی نفی کرنی پڑے گی۔ ہمارے دوست انجم سلیمی نے اپنی کتاب کا نام “میں ” رکھ دیا لیکن ”میں“ کو مارنے کا کوئی طریقہ نہ بتا سکا۔ ہمارے ایک اور دوست اپنے آپ کوبہت بڑے محقق سمجھتے ہیں اور اکثر اپنی تعریف خود کہہ جاتے ہیں کہ میں بڑا دعویٰ نہیں کرتا لیکن تیرے ادارے میں میرے جیساکوئی ہے تو سامنے لے کر آئیں۔ جب اس کی بات پر سب خاموش رہیں تو پھر کہتا ہے کہ مجھے ہر بندہ نہیں جان سکتا ہے کیونکہ ان کے بس میں نہیں ہے اگر کوئی جان سکتا ہے تو وہاں بیٹھے ہوئے کسی دوست کا نام لے لے گا کہ میرے بارے میں جاننا ہے تو اس سے پوچھو۔ ہم پروفیسر لوگ اپنی قابلیت کا یقین دلوانے کے لئے دوسروں کی گواہی ضروری سمجھتے ہیں ورنہ ہمیں خود اپنی قابلیت پر شک ہونے لگتا ہے۔ میں نے بزرگوں سے سنا ہے اور صوفیہ کرام کی شاعری میں پڑھا بھی ہے کہ انسان پر جیسے جیسے علم کا بوجھ پڑتا ہے وہ عاجزی اور انکساری کی طرف جاتا ہے۔
کسی نے کہا کہ عارف وہ ہے جو علم کا سمندر پی جائے اور پتہ بھی نہ چلے۔ اس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ علم جذب کرنا بھی بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ جذب کرنے کے لئے ریاضت کرنی پڑتی ہے۔ اور ریاضت کسی استاد کے بغیر ممکن نہیں۔ اب استادوں پر بات آگئی ہے لہٰذا محتاط ہو کر گفتگو کرنی پڑے گی ورنہ فتوے استادوں کی جیب میں ہوتے ہیں۔ جو وہ اکثر اپنے دوست پروفیسروں پر ہی استعمال کر جاتے ہیں۔ اچھے خاصے مسلمان انسان کو قادیانی بنا دیتے ہیں، محب وطن شخص کو پاکستان مخالف بنا دیا جاتا ہے، اخلاقی اور معاشی الزامات کی بوچھاڑ تو ہر وقت مخالف کی تلاش میں رہتی ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات کا درس دے کر یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ ہمارے جیسا کوئی دنیا میں مسلمان ہے ہی نہیں۔ بس نہیں چلتا ورنہ نعوذ باللہ نبوت کے دعوے بھی ہونے لگیں۔ خیر ہم ایسے استادوں پر بات کرکے اپنے کالم کی خوبصورتی ختم نہیں کرنا چاہتے۔ ہماری تاریخ دان ہیں۔ ڈاکٹر تنویر انجم ان کا خیال ہے کہ جو ساری عمر احساس محرومی میں گزارتے ہیں ان کے پاس جب علم آتا ہے تو وہ بہت خطرناک ہوجاتے ہیں۔ انسانوں کو آپس میں لڑواتے ہیں، ان کو عزت ملتی ہے تو وہ فوری طور پر فرعون بن جاتے ہیں انسانوں سے ہتک آمیز رویہ اختیار کر لیتے ہیں جب بس نہیں چلتا تو شدید منافقت کا روپ دھار لیتے ہیں۔ لیکن من کو مارنے کے لئے ان استادوں کی ضرورت ہے جو نمی دانم کے فلسفے کے قائل ہیں اور بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ میں جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا۔ جنھوں نے اپنی ذات کی نفی کی وہ امر ہوگئے۔
سارے پنجابی صوفی شاعر اسی بات کا پرچار کرتے کرتے دنیا سے چلے گئے کہ میں ناہیں سب توں، کسی نے کہا کہ ”میں نوں مار کے مُنج کر۔۔۔نکی کر کے کُٹ۔۔۔بھرے خزانے رب دے جو بھاویں سو لٹ“۔ ایسے استادوں کی تلاش ضروری ہے جو عاجزی اور انکساری کا درس دیتے ہوں اپنے شاگردوں کو تاکہ خودغرضی، نفسانفسی، انا پرستی، منافقت،دکھاوا اور انسانوں کو نیچا دیکھانے کی حرص سے جان چھوٹ سکے۔ خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے کہ اپنے سوا کوئی دکھائی نہ دے۔ دیکھنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان کے پاس بصارت ہونی چاہیے اور بصارت کے لئے ضرورت ہے کہ آنکھوں کے کُکرے صاف کرواے جائیں تاکہ آنکھیں صحیح کام کر سکیں اور انسان کی معاونت کر سکیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پے آ سکتا نہیں۔۔۔۔۔محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔ دنیا میں زاوئیے بدلنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اشفاق احمد کا خیال ہے کہ زاویہ بدلنے سے انسان تکبر سے بچ جاتا ہے۔ جب تکبر ختم ہو جائے تو پھر وہ زمین پر نہ تو اکڑ کر چلتا ہے اور نہ ہی انسانوں کو تباہ و برباد کرنے کے منصوبے بناتا ہے۔ ویسے تو اس ملک میں کئی منصوبہ ساز آئے اور چلے گئے لیکن ملک کی ترقی کا انحصار شعور پر ہے۔ جو انسانوں میں یکدم نہیں آجاتا بلکہ وقت درکار ہوتا ہے۔ اس لئے تبدیلی بھی فوری ممکن نہیں ہوتی۔ تبدیلی افراد کی تبدیلی کا نام نہیں ہے۔ بلکہ نظام کی تبدیلی ہے۔ نظام کی تبدیلی مثبت تنقید کی گود میں جنم لیتی ہے۔ تنقید برائے تنقید کے ہم لوگ عادی ہوچکے ہیں۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ اپنی ہر تخلیق ہمارے لئے باعث رحمت بنائے۔آمین
(کالم نگار جی سی یونیورسٹی فیصل آبادکے
شعبہ ہسٹری کے چیئرمین ہیں)
٭……٭……٭

کابلستان سے افغانستان تک کی کہانی

خضر کلاسرا
چھ لاکھ پچاس ہزار مربع میل پر پھیلا ہوا ملک افغانستان عجیب خصوصیات کا حامل ہے ‘مشرق سے مغرب کی طرف بڑھتا ہوا پہاڑوں کا سلسلہ ہندوکش کہلاتا ہے۔ جس کی کئی چوٹیاں چار پانچ ہزار میڑ سے بھی بلند ہیں۔ اور یہ ہندوکش افغانستان کو دوحصوں میں تقسیم کرتا ہے۔یہ وسیع کوہ ہزار کلومیٹر طویل اور اڑھائی سوکلومیٹر کے قریب چوڑا ہے۔ اس میں کئی درے ہیں جوکہ شمال سے جنوب کی طرف پھیلے ہوئے ہیں۔ افغانستان کے شمالی مشرقی کونے میں یہ سلسلہ کوہ مرتفع پامیر سے جاملتا ہے۔ جس کی بعض چوٹیاں ساڑھے سات ہزار میڑ بلند ہیں۔ اور یہ چوٹیاں کسی رہائشی مکان کی غلام گردش کی طرح علاقے واِخان سے گزرتی ہیں ‘ جہاں افغانستان کی سرحدیں چین اور سویت یونین سے ملتی ہیں۔ ہندوکش کے شمال میں علاقے کے نیم صحرائی میدان آمو دریاتک پھیلے ہوئے ہیں۔ ہرات کے اردگرد کا مغربی علاقہ ایرانی سطح مرتفع کی توسیع ہے۔ جنوب مغرب کا علاقہ پتھریلا صحرا ہے۔ہزارہ جات کا صوبہ مرکزی سلسلہ کوہ کے دامن میں ہے۔ مشرق کی طرف بھی پہاڑ ہیں۔ جو شمال میں بدخشاں سے ہوتے ہوئے نورستان سے گزر کر جنوب میں پکتیا تک پھیلے ہوئے ہیں۔
افغان قطعہ زمین قریب قریب برہنہ ہے۔کنڑ، نورستان اور پکتیا میں جنگل ابھی تک موجود ہیں۔مگر یہ جنگل بھی آہستہ آہستہ ختم ہورہے ہیں۔ گرماخشک اور سخت گرم ہے۔ سردیاں شدید اور تکلیف دہ ہیں۔ بارش عام طور پر دسمبر اور فروری کے درمیان ہوتی ہیں۔ نومبر سے مارچ تک پہاڑ برف سے ڈھکے رہتے ہیں۔ اور اس موسم میں سفر انتہائی مشکل اور مضرصحت ہوتا ہے۔ صحرائی علاقوں میں ایک سو بیس دن تک یعنی جولائی سے ستمبر تک ایک ایسی ہوا چلتی ہے جو باعث زحمت بن جاتی ہے۔اس ہواکانام بھی مقامی لوگوں نے ایک بیس دن رکھا ہوا ہے۔افغانستان میں دوسرے ایشائی ممالک کی طرح پانی کی کمی تو نہیں مگر پانی کو قابو کرنا اور استعمال کرنا سب سے بڑا مسلہ ہے۔افغانستان میں چاربڑے دریا ہیں۔ شمال میں آمو جوکہ افغانستان کو سوویت یونین سے علیحدہ کرتا ہے۔ مغرب میں ہری رود۔مشرق میں دریائے کابل ‘جنوب مشرق اور جنوب مغرب میں ہلمند- ارغنہ اب یہ چاروں دریا افغانستان کے دوتہائی علاقے کو پانی فراہم کرتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود افغانستان میں پانی کی کمی ہے۔ اور زیادہ سے زیادہ پندرہ فیصد زمین قابل کاشت ہے۔ افغانستان میں ہندو کش کے شمالی علاقے زرخیز بھی ہیں اور ان زمینوں پر عمدہ قسم کی کپاس پیدا ہوتی ہے۔افغانستان میں کئی نسلی گروہ آباد ہیں لیکن پختون اکثریت میں ہیں۔ انکی آبادی ایک اندازے کے مطابق افغانستان کی چالیس فیصد آبادی ہے۔ یہاں تاجک نورستانی ‘ترک ‘مغل ‘بلوچ ‘کرغز ‘ازبک’ ایماق اور بروہی بھی آباد ہیں۔ پختون ملک کے جنوب میں رہتے ہیں۔ اور نسلی اعتبار سے ڈیورنڈ لائن کے اس پار پاکستان میں آباد پٹھانوں کے قریب ہیں۔ دنیا کے سیاسی نقشہ پر افغانستان درحقیقت1747 میں نمودار ہوا۔ جدید افغانستان کا خالق اصل میں امیر عبدالرحمان خان تھا۔ جس نے 1880 سے1901 تک افغانستان پرحکومت کی۔ اس نے کافرستان کو فتِح کیا اور اس کو نورستان کا نام دیا۔ ہزارہ جات کو زیر کیا اور ملکی سرحدات کا تعین کیا۔ 1893 میں افغانستان کو ایک ملک بنانے کی غرض سے ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کیا ‘اس کا مقصد تھاکہ اسے اپنے ملک کی سرحدات کا علم ہواتاکہ وہ ان سرحدات کا دفاع کرسکے۔
عبدالرحمان خان کے اقتدار سنھبالنے سے پہلے ملک کئی حصوں میں تقسیم تھا۔ کوہ ہندوکش کے شمالی علاقہ جات کو ترکستان کہاجاتا تھا۔ہندوکش سے دریائے سندہ تک پھیلے علاقے کو کابلستان کے نام سے پکارا جاتا تھا۔اس کے جنوب اورجنوب مغربی علاقے کا نام زابلستان تھا۔امیر عبدالرحمان خان نے ان سب علاقوں کو جوکہ مختلف نام رکھتے تھے ان کو یکجا کردیا ‘مطلب کابلستان’ زابلستان اور ترکستان نام ختم کردیئے۔ اور افغانستان کا نام دیدیا۔ انگریزوں نے جب وہ برصغیر پاک وہند کے حکمران تھے ‘کئی بار افغانستان میں مداخلت کی اور دو ایک بار ذلت آمیز شکت کھائی۔ ان کا بنیادی مقصد مداِخلت کرکے روس کی توسیع پسندی کا سدباب کرنا تھا۔سویت یونین جو اس وقت دو براعظموں پر پھیلا ہوا تھا۔ اور کسی زمانے میں ماسکو کی ریاستی حدود تک محدود تھا۔1505 میں اس کا علاقہ صرف دس لاکھ مربع میل تھا۔ اور چارسو سال کے عرصے میں یہ علاقہ پچاس مربع میل فی یوم سے بڑھتا ہوا 1900 میں 8500000 مربع میل تک پھیل گیا۔ اس علاقہ میں اس کے بعد بھی توسیع ہوئی۔ افغانستان انیسویں صدی میں دو استعماری قوتوں کی کشمکش میں ملوث ہوگیا تھا۔
1837 میں روسیوں کی ہلہ شیری پر ایران نے ہرات پر قبضہ کرنے کی ناکام کوشش کی۔ اس سے پہلے1826 میں روس سے ایران کی جنگ ہوچکی تھی۔اور ایران کو امن خریدنے کیلئے ٹرانس کیثیا کو روس کے حوالے کرنا پڑا تھا۔ انگریزوں نے روس کی جنوب کی جانب یلغار روکنے کیلئے افغانستان میں دوبارہ مداخلت کی اور دونوں بار منہ کی کھانی پڑی۔ 1885 میں روس نے افغانستان کے علاقے پنجدہ پر قبضہ کرلیا اور جب انگریزوں نے ہندوستان میں لام بندی کا اعلان کیا تو روسیوں نے جنوب کی طرف مزید پیش قدمی نہ کرنے کاوعدہ کیا۔ 1887 میں سینٹ پیٹرس برگ میں روس اور برطانیہ کے درمیان ایک معائدہ طے پایا۔ برطانیہ اس معاہدہ سے یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ روس کب اور کہاں رکے گا؟موجودہ حالات میں افغانستان کی جنگ وجدل کا ایک اور واقعہ یوں سامنے آکھڑا ہوتا ہے جوکہ اس بات کی بھی وضاحت کرتا ہے کہ افغانستان کا صدر اشرف غنی طالبان کی کابل میں پہنچنے کی اطلاع ملتے ہی صدارتی محل کو چھوڑ کر کیوں فرار ہوا ہے؟ اگلی بات بھی کرتے ہیں لیکن اس تاریخی واقعہ کو پڑھ لیں جوکہ داود خان کے پورے خاندان سمیت قتل کا سبب بنا تھا۔
دنیا حیرت میں مبتلاہے کہ طالبان کیسے پوری قوت اور طاقت کیساتھ افغانستان واپس آگئے ہیں؟ ایک طرف لوگ طالبان کی یوں تیزترین فتح پر حیرت میں ہیں تو دوسری طرف اس بات پر بھی حیران و پریشان ہیں کہ آخر امریکہ بہادر یوں خوف کے عالم میں افغانستان سے کیوں بھاگ رہا ہے؟ اس بارے میں فی الحال کیاعرض کروں لیکن تاریخ میں تو امریکہ کے یوں بھاگنے کو بڑی دیر تک یاد رکھا جائیگا؟ اس صورتحال میں دلچسپ امر یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کے فاتح کے طور پر داِخل ہونے پر آئی ایس آئی کے سابق چیف جنرل حمید گل کے ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میں کہے گئے تاریخی جملہ کی گونج امریکہ تک سنائی دے رہی ہے ‘امریکہ میں مقیم حسین حقانی جیسے دانشور تو اس جملہ میں پھنس گئے ہیں۔ جنرل حمید گل نے کہا تھا کہ ایک وقت میں کہا جائیگا کہ آئی ایس آئی نے امریکہ کی مدد سے سوویت یونین کو افغانستان میں شکست دیدی۔ پھر ایک اور جملہ ہوگا کہ آئی ایس آئی نے امریکہ کی مدد سے امریکہ کو شکت دیدی۔ جنرل حمید گل کے اس تاریخی جملہ پر بحث ہے کہ بڑھتی جارہی ہے۔ یوں آپ بھی جنرل حمید گل کے اس تاریخی جملہ کی گہرائی میں جاکر اس کے معنی تلاش کریں؟ اور اگر معنی مل جائیں تو مجھے بھی بتائیے گا۔ منتظر ہوں۔
(کالم نگاراسلام آباد کے صحافی اورتجزیہ کار ہیں)
٭……٭……٭

طالبان کی طاقت

سردارآصف احمدعلی
پندرہ اگست کے بعد افغانستان میں اب تک مشروط حکومت نہیں بن سکی لیکن طالبان اس عمل میں پوری طرح مصروف ہیں اور اب تو تحریک طالبان کے سینئر قائدین کابل پہنچ چکے ہیں۔ شمالی افغانستان کے قائدین کا ایک وفد پاکستان کا دورہ بھی کر چکا ہے اور وفد کے قائدین نے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی ٗ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ملاقاتیں بھی کر لی ہیں۔ کابل میں اب جناب حامد کرزئی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ بھی طالبان کے قائدین کے ساتھ بہت سی میٹنگیں کر چکے ہیں اور گزشتہ دنوں انجینئر گلبدین حکمت یار نے بھی طالبان کے قائد کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔ اس سارے عمل میں پاکستان کا ایک کلیدی کردار نظر آ رہا ہے۔ چاہے وہ وزیر خارجہ ہوں یا کابل میں پاکستان کے سفیر ہوں، یہ عمل تو اب ہم نہیں جانتے کہ کب تک جاری رہے گا لیکن کچھ ایسی ڈویلپمنٹس ضرور ہوئی ہیں جو قابل ذکر ہیں جو حسب ذیل ہیں۔
(1 مغربی میڈیا اور مغرب کی قیادت کے رویئے اب سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں اور تاثر یہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ طالبان افغانستان کی حکومت نہیں چلا سکیں گے اور آئندہ افغانستان میں خانہ جنگی کے امکانات ہیں۔
(2 بین الاقوامی رپورٹنگ کا محور کابل ایئرپورٹ بن چکا ہے اور یوں لگتا ہے کہ مغرب کی دلچسپی صرف اسی ایئرپورٹ پر ہے نہ کہ افغانستان کے عوام پر یا ان کے مستقبل پر۔ یہ بتانے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے کہ افغانستان کے عوام طالبان سے خوفزدہ ہیں اور وہ بیرونی ممالک میں جانا چاہتے ہیں۔
(3 مغرب کے اندازوں کے مطابق خانہ جنگی کی جوپیشگوئی کی گئی تھی اور وہ کسی حد تک درست بھی نظر آ رہی ہے کیونکہ ایک سابق نائب صدر نے پنج شیر وادی میں جا کر اعلان بغاوت کر دیا ہے۔
(4 اب یاد رہے کہ وادی پنج شیر چاروں طرف سے طالبان کے گھیرے میں ہے اور وہ اب بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ جنگ نہیں کرنا چاہتے اور مصالحت کی طرف معاملات کو لے کر جانا چاہتے ہیں۔ ابھی تک پنج شیر کی قیادت نے اس بات کا جواب نہیں دیا۔ یہ بھی یاد رہے کہ پنج شیر وادی پہاڑوں میں گھری ہوئی ہے اور اس پر حملہ کرنا یا قبضہ کرنا بڑا مشکل کام ہے۔ جب روس کا افغانستان پر قبضہ ہوا تو انہوں نے بھی پنج شیر وادی کو اس کے اپنے حال پر چھوڑ دیا تھا۔ کچھ ایسا ہی ملا عمر کے دور میں ہوا جبکہ پنج شیر وادی کو انہوں نے بھی اس کے حال پر چھوڑ دیا تھا۔ روس کی پالیسی سے اور نہ ہی ملا عمر کی پالیسی سے پنج شیر وادی کا افغانستان پر کوئی اثر پڑا۔ اب بھی طالبان کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پنج شیر میں وہ اپنا مورچہ بنائے رکھیں گے اور وہ وہاں سے باہر نہیں آ سکیں گے۔ اس طرح بھی ہے کہ پنج شیر کی آبادی تمام کی تمام تر تاجک قومیت پر مشتمل ہے اور باقی افغانستان میں تاجک بہت کم ہیں اور بڑی بھاری اکثریت پختونوں کی ہے لہٰذا پنج شیر سے جو امیدیں بیرونی ممالک لگائے بیٹھے ہیں، ان کو بڑی سخت مایوسی ہوگی۔ نہ ہندوستان وہاں سے کچھ پا سکے گا اور نہ ہی مغربی قوتیں کچھ حاصل کر پائیں گی۔
(5 پاکستان کے لئے خوشخبری ہے کہ افغان طالبان نے یہ اعلان کیا ہے بلکہ ایک کمیٹی بھی بنا دی ہے جس کے تحت وہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کا سدباب کریں گے۔ پاکستان بڑا مثبت کردار ادا کر رہا ہے اور اب تک ہزاروں لوگوں کو وہاں سے بذریعہ ٹرک اور ہوائی جہاز نکال چکا ہے۔
(6 سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا طالبان ایک مخلوط حکومت بنا سکیں گے یا نہیں اور اگر مخلوط حکومت بنتی ہے تو وہ اتحادیوں کو اقتدار میں کس قدر حصہ دینا پسند کرے گی۔ اس میں پیچیدگی یہ ہے کہ جو شمالی علاقے ہیں، ان کے قائدین کہیں یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ ان کو ساتھ ملانا طالبان کی کوئی مجبوری ہے اور اس سے وہ اپنی قیمت کو زیادہ بڑھا نہ لیں۔ اس نکتے پر ہی سمجھوتہ ہوگا یا پھر نہیں ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ اب افغانستان میں طالبان کا 99 فیصد قبضہ ہے۔ اس حقیقت کو اگر شمالی اتحاد والے بھول گئے تو پھر وہ افغانستان کے ساتھ زیادتی کریں گے۔ وہ اپنی طاقت کے مطابق اپنا حصہ مانگیں تو پھر بات بن سکتی ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ طالبان اتنی بڑی طاقت بن چکے ہیں کہ اب انہیں اقتدار میں بہت بڑا حصہ دینا پڑے گا۔ آئندہ حکومت میں صدر بھی انہی کا ہونا چاہئے۔ وزیر خارجہ ٗ وزیر داخلہ اور وزیر خزانہ اور وزیر اندرونی سیکورٹی وہ بھی انہی کے بنانے پڑیں گے۔ اگر کچھ مزید نائب صدور بنانے ہوں گے تو پھر ایک تاجک نائب صدر بن سکتا ہے اور ایک ترک قومیت کا نائب صدر بن سکتا ہے۔ کچھ اس طرح سے اقتدار میں حصہ داری ممکن ہوگی۔ مگر بالآخر یہ افغانیوں ہی کا فیصلہ ہے اگر اس نوعیت کا فیصلہ ہو گیا تو پھر ساری دنیا اس حکومت کو تسلیم کرلے گی اور اگر یہ فیصلہ نہ ہو سکا تو اس کی ساری کی ساری ذمہ داری شمالی اتحاد کے اوپر آئے گی اور حامد کرزئی پر آئے گی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ پر آئے گی۔
اس وقت یہ سوال اٹھے گا کہ کیا افغانستان کو تسلیم کیا جائے یا نہیں۔ اگر یہ وقت آتا ہے تو پاکستان کو کیا کرنا ہے۔ میری تجویز یہ ہے کہ پاکستان کو فوری چین ٗ روس ٗ ایران اور ترکی کے ساتھ مشاورت کرنی چاہیے اور پھر یہ پانچوں ملک مل کر یہ فیصلہ کریں کہ بیک وقت افغان حکومت کو تسلیم کر لیں۔ اس کے بعد اس میں دنیا کے دیگر بہت سے ممالک بھی شامل ہو جائیں گے کیونکہ سیکورٹی کونسل کے دو مستقل ممبر اس فیصلے میں شریک ہوں گے اور وہ ہیں چین اور روس۔
(کالم نگار سابق وزیرخارجہ اورممتاز ماہرمعیشت ہیں)
٭……٭……٭

قرض کے وینٹی لیٹر پر کب تک؟

شفقت حسین
آج مجھے مرحوم احمد فراز کی ایک معروف غزل کا ذیل کا شعر بے طرح یاد آ رہا ہے۔ کون لکھے گا اس طرح کی چیزیں۔ کہاں گئے فیض احمد فیض، جناب ڈاکٹر جمیل جالبی کہاں گئے، قتیل شفائی، منیر نیازی، احمد ندیم قاسمی، کہاں گئی اچانک بچھڑ کر اداس کر جانے والی پروین شاکر، منوں مٹی تلے جا کر سو جانے والے میرے بڑے بھائیوں کی طرح عزیز اور مربی ّشہید محسن نقوی۔ کس کس کا ذکر کیا جائے اور کس کس کے بچھڑ جانے پر نوحہ پڑھا جائے یا بین کیا جائے۔ ادب تو آج بھی اپنے ارتقائی عمل سے اسی طرح گزر رہا ہے جس طرح ماضی میں گزرتا رہا ہے لیکن وہ ادبی شہ پارے بدقسمتی سے نظروں سے نہیں گزر رہے جو کبھی پڑھنے اور سننے کو ملا کرتے تھے۔ ذکر ہوا تھا احمد فراز کی ایک غزل کے ایک شعر کا جو کچھ یوں ہے: قارئین کرام! آپ بھی لطف لیجئے اور سر دھنیئے:
شکوہئ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
اور میرے پیارے پڑھنے والے! یہ بھی میں عرض کردوں کہ اس غزل یا شعر کے یاد آنے کا محرک مرکزی حکومت کا وہ دعویٰ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس نے نادرا کے تعاون سے ڈیڑھ کروڑ ایسے افراد کا سراغ لگا لیا ہے جو قومی خزانے میں ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں ڈالتے۔ اطلاع یہ ہے کہ اس وقت فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے پاس ٹیکس نیٹ میں بیس بائیس کروڑ کی آبادی میں سے (ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر پڑھئے) صرف 72 لاکھ افراد ہیں جو اپنی آمدنی میں سے ٹیکس جمع کرواتے ہیں۔ اگرچہ خبر پڑھ کر تفصیلات کے حوالے سے تشنگی باقی ہے کیونکہ اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ حکومت ہر سال ان 72لاکھ افراد معاشرہ سے ٹیکس کی مد میں کس قدر پیسہ وصول کرتی ہے آیا یہ لوگ قومی خزانے میں اپنا حصہ بقدرِ جثہ ڈالتے ہیں یا مبینہ طور پر کچھ دے دلا کر گلو خلاصی کروا لیتے ہیں البتہ ایک بات ضرور ہے کہ حکومت نے مزید لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لئے (یہ بھی ذرا دل بڑا کرکے پڑھیئے) پورے پندرہ سو آڈیٹرز بھرتی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے جو میں سمجھتا ہوں کہ ملک و قوم کے ساتھ مذاق کے ہم معنی ہی ہے کیونکہ یہ آڈیٹرز جو کچھ ماہانہ مشاہروں اور مراعات اور دیگر سہولیات کی مد میں حاصل کریں گے اس سے تو ٹیکسز میں بڑھوتری کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا یعنی جو کچھ قومی خزانے میں آئے گا اس سے تو کہیں زیادہ یہ آڈیٹرز لے جائیں گے۔
اس ”نیک عمل“ سے حکومت کے بعض قریب سمجھے جانے والے اس کے خیرخواہ تو شاید Oblige ہو جائیں مگر حکومت حصولِ مقصد میں اسی طرح ناکام رہے گی جس طرح ماضی کی حکومتیں ناکام رہی ہیں یا جیسا کہ پچھلے تین سالوں سے موجودہ حکومت شومئی قسمت کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ اس کے لئے تو لوگوں میں شعور بیدار کرنے اور آگاہی مہم شروع کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے نہ کہ آڈیٹرز کی فوج ظفر موج بھرتی کرنے کی۔ کون نہیں جانتا کہ ہمارے ہر ادارے میں اوور سٹافنگ اور سرپلس لوگوں کی تعداد پہلے ہی روز افزوں ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ماضی میں گولڈن شیک ہینڈ کی مہم چلا کر زائد از ضرورت سٹاف کو کچھ دے دلا کر جان چھڑائی گئی۔ لیکن گزشتہ دو تین دہائیوں کے دوران میں بظاہر بھرتیوں پر پابندی کے باوصف اندرون خانہ یہ سلسلہ کسی نہ کسی طرح سارا سال جاری و ساری رہتا ہے اور اس کے لیے کوئی نہ کوئی چور دروازہ تلاش کرنے میں بھی چنداں مشکل پیش نہیں آتی۔ میرا تاثر یہ ہے کہ اپنی ذات اور شخصیت کے حوالے سے ہمہ دانی کے مدعی وزیراعظم اگر خود عوام میں یہ شعور پیدا کرنے کا عزمِ بالجزم کر لیں تو پھر میرا دعویٰ ہے کہ عوام بھی انہیں تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ عوام کو یہ باور کرایا جائے کہ وقت نازک ہے اور مقابلہ عالمی معیارات سے ہے، معاصر دنیا سے مقابلے میں اور زندگی کی دوڑ میں ہم بہت پیچھے ہیں اور جو قرض ہم پر واجب بھی نہیں تھے ہم نے وہ بھی ادا کرنے ہیں جو ماضی کے حکمرانوں نے قوم پر ڈالے تھے اور ہاں اگر گھی سیدھے سبھاؤ نہیں نکلتا تو پھر انگلیوں کو ٹیڑھا بھی کرنا پڑے تو بھی ایک لمحے کیلئے تاخیر اور توقف نہ کیا جائے کہ اس وقت ہم حالت نزاع میں ہیں، وینٹی لیٹر پر ہیں اور یہ وینٹی لیٹر وہ قرضہ ہے جو وقتاًًً فوقتاً ہم عالمی مالیاتی اداروں سے لیتے رہے ہیں اور سوموار کے روز بھی آئی ایم ایف نے ہمیں دو ارب 77 کروڑ ڈالرز کی صورت میں دیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ یہ قرض ہے چاہے تو پاکستان اس سے اپنے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھالے یا پھر اپنے اوپر واجب الادا قرضوں کی ادائیگی کر دے اور ظاہر ہے کہ ہم عالمی مالیاتی اداروں ہی کے مقروض ہیں جن میں آئی ایم ایف بھی شامل ہے یعنی یوں اس کا دیا ہوا قرض بھی اسی کی جیب میں پرانے قرضوں کی ادائیگی کی صورت میں چلا جائیگالیکن کیا کریں ہم قرض کی مے تو پیتے ہیں اپنے وطن سے جو حاصل کرتے ہیں اس کے لئے کوئی بھی قربانی دینے کے لئے تیار نہیں۔ اس حوالے سے مغرب اور یورپ کے مقابلے پر تو ہمارے ہاں سختی ان کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ ہاں البتہ اگر وہ اپنے شہریوں کی خون پسینے کی کمائی کا معتدبہ حصہ لیتے بھی ہیں تو اسی نسبت تناسب سے وہ اپنے شہریوں کو سہولیات بھی فراہم کرتے ہیں جن میں نمایاں طور پر صحت اور تعلیم کے شعبے ہیں۔ ان ممالک میں کوئی شہری ٹیکس چوری کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر قباحتوں کے باوجود وہ معاشرے خوشحال اور پُرسکون ہیں۔
لہٰذا ہمارا مشورہ ہے کہ وزیراعظم اگر اگلے دو سال میں جو بھی حربہ اور طریقہ اختیار کریں گے لازماً اختیار کریں۔ کوئی شہری ٹیکس نیٹ سے باہر نہ چھوڑا جائے۔ خاکروب سے لے کر چپڑاسی تک اور کلرک سے لے کر گریڈ بائیس کے افسران تک، ریڑھی بان اور رکشہ ڈرائیور سے لے کر صنعتکار اور بڑے بڑے ٹیکسٹائل ملزمالکان تک سب کو رجسٹر کرے اور قومی خزانے میں انہیں اپنا اپنا ڈالنے پر مجبور کریں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ عوام کے ریلیف کا بھی خیال رکھیں۔مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند رکھیں، حکومتی اللّوں تللّوں پر بھی روک لگائیں۔ بجلی، گیس، پانی سمیت ہونے والے ہر قومی ضیاع کو بھی آہنی ہاتھوں سے روکیں۔ مشیرانِ کرام اور وزراء صاحبان کی تعداد بے شک بڑھائیں لیکن انہیں قومی خزانے پر ہاتھ صاف کرنے سے باز رکھیں کہ اللہ پاک کی ان پر عنایات اور رحمتیں پہلے ہی بے پایاں ہیں اور بھرے ہوئے کو مزید بھرنا خالی کاسے سے ناانصافی ہے۔ قرضے تو ملتے رہیں گے لیکن سود بڑھتا رہے گا قرضوں کی ادائیگی کے لئے بھی قرض لینا پڑے گا اور سود در سود سے ہماری کمر کبھی سیدھی نہیں ہوگی۔ کسی غیر سے گلہ کرنے سے بہتر ہے کہ
بقول احمد فراز قوم کو اپنے حصہ کی شمع خود جلانے کی تلقین ہی کارگر ثابت ہوگی۔
(کالم نگار سیاسی‘سماجی اورمعاشرتی موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

وزیراعظم احتساب کے لئے پُرعزم

طارق ملک
جب سے عمران خان کی حکومت آئی ہے روزانہ چہ مگوئیاں سننے کو ملتی ہیں کہ عمران خان کی حکومت آج جا رہی ہے یاکل جا رہی ہے لیکن ایسے لگتا ہے کہ عمران خان کی حکومت دن بدن مضبوط ہو رہی ہے اور عمران خان خاموشی سے عوامی مسائل کو حل کیے جا رہے ہیں اور انہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں ہے کہ ان کی حکومت رہتی ہے یا نہیں یوں لگتا ہے جیسے اللہ تعالی عمران خان کی مدد کر رہا ہے دوستوں کا کہنا ہے کہ عمران خان آسانی سے اپنے پانچ سال پورے کرے گا بلکہ اگلے پانچ سال بھی اسی کی حکومت ہوگی۔دوستوں کا یہ بھی کہنا ہے کے مسلم لیگ(ن)دوسرے سے تیسرے نمبر پر چلی گئی ہے جبکہ پیپلز پارٹی تیسرے نمبر سے دوسرے نمبر پر آگئی ہے۔سوجھ بوجھ رکھنے والے لوگ عمران خان کی حمایت کر رہے ہیں جبکہ نا سمجھ لوگ اب بھی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہیں۔
دوستوں کا کہنا ہے کہ آئندہ بھی وفاق میں عمران خان کی حکومت ہوگی سندھ پیپلز پارٹی کے پاس جائے گا پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت ہوگی۔خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی کی حکومت ہوگی جبکہ بلوچستان میں پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی مل کرحکومت بنائیں گے۔پیپلز پارٹی بڑی اپوزیشن پارٹی بن کر ابھرے گی۔دوستوں کا کہنا ہے کہ میاں صاحبان اپنی وعدہ خلافی کی وجہ سے اپنے دوست ممالک کا اعتماد کھو چکے ہیں جس کی وجہ سے جنرل مشرف نے ان کو چھوڑا تھا اور انہوں نے دس سال تک جلا وطنی کی زندگی گزارنے کا معاہدہ کیا تھا مگر تین سال کے بعد ہی سعودی عرب سے دوسرے ممالک میں آنا جانا شروع کر دیا اور پانچ سال کے بعد پاکستان واپس آگئے تھے۔دوستوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ میاں نواز شریف عمران خان کی مرضی سے پاکستان سے نہیں گئے بلکہ شہباز شریف کو بھی عمران خان نے پاکستان سے باہر جانے سے روکا۔عمران خان بھرپور احتساب کرنا چاہتے ہیں جبکہ کچھ حلقے ان کی صحیح طریقے سے مدد نہیں کر رہے۔
دوستوں کا کہنا ہے کہ میاں شہباز شریف کو دوبارہ گرفتار کر لیا جائے گا میاں صاحبان جب تک رقم واپس نہیں کرینگے ان کو چھوڑا نہیں جائے گا۔دوستوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ عمران خان کسی بھی صورت میں احتساب کے نعرے سے پیچھے ہٹنے میں تیار نہیں ہوگا اگر اسے مجبور کیا گیا تو وہ اسمبلیاں توڑ دے گا اور دوبارہ عوام کے پاس جائے گا اور اپنی تقریروں میں عوام کو بتائے گا کہ کس طرح احتساب کے راستے میں رکاوٹیں ڈالی گئی ہیں۔اس طرح عوام کی ہمدردی حاصل کرکے ووٹ لینے کی کوشش کرے گا۔اس وقت عمران خان کے لئیے سب سے بڑا مسئلہ مصنوعی مہنگائی کو روکنا اور قیمتوں کو کنٹرول کرنا ہے۔غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے لوگ ہوشربا مصنوعی مہنگائی کی وجہ سے پریشان ہیں اور عمران خان کی حکومت پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔
جس طرح عمران خان نے ثابت قدمی سے حالات کا مقابلہ کیا ہے اور جہانگیر ترین اور زُلفی بخاری جیسے دوستوں کو بھی معاف نہیں کیا۔کورونا جیسی وبا کا احسن طریقے سے مقابلہ کیا ہے اور ملک کو مکمل لاک ڈاؤن سے بچایا ہے اور عوام کی بلا تفریق ویکسینیشن کروائی ہے۔کرونا کے دنوں میں غریبوں کی مالی مدد کی ہے۔عوام کی نظر میں اس کی عزت اور وقارمیں مزید اضافہ ہوا ہے۔میاں صاحبا ن کے زوال کا اصل سبب ان کا تکبر ہے۔تکبر اللہ تعالی کو بالکل پسند نہیں ہے سیاست دانوں اور اداروں کو اپنی اپنی حدود میں رہ کر ملک وقوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ہر ایک کو بطور مسلمان اس بات پر یقین ہونا چاہیے کہ یہ زندگی عارضی ہے ہر شخص کو مرنا ہے اور رب ذوالجلال کے سامنے پیش ہونا ہے جس کو اللہ نے جتنا عطا کیا ہے اتنا ہی اس کو حساب بھی دینا پڑے گا۔اللہ تعالی نے کلام پاک میں ہر چیز کا وضاحت سے ذکرکیا ہے۔
جھوٹ،وعدہ خلافی، کسی کی حق تلفی، غیبت اور تکبر کی سزاؤں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔احادیث میں بھی تفصیل بتائی گئی ہے جھوٹے پر خدا کی لعنت،قول اور فعل میں فرق پر دائرہ اسلام سے خارج ہونا۔جس نے غیبت کی گویا اس نے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھایا۔تکبر کی معافی نہیں ہے۔تکبر صرف اللہ کی ذات کے شایان شان ہے۔کسی انسان کا تکبر کرنا اللہ تعالی سے مقابلہ کرنے کے مترادف ہے۔حق تلفی بہت بڑا گناہ ہے جس کی حق تلفی کی گئی ہو جب تک وہ معاف نہ کرے اللہ تعالی بھی معاف نہیں کرتے۔
اللہ تعالی ہمیں اپنے حفظ و امان میں رکھے اور جھوٹ، وعدہ خلافی،غیبت،کسی کی حق تلفی اور تکبر سے بچائے اور صحیح معنوں میں ملک و قوم کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
(کالم نگار ریٹائرایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل ہیں)
٭……٭……٭