تازہ تر ین

قرض کے وینٹی لیٹر پر کب تک؟

شفقت حسین
آج مجھے مرحوم احمد فراز کی ایک معروف غزل کا ذیل کا شعر بے طرح یاد آ رہا ہے۔ کون لکھے گا اس طرح کی چیزیں۔ کہاں گئے فیض احمد فیض، جناب ڈاکٹر جمیل جالبی کہاں گئے، قتیل شفائی، منیر نیازی، احمد ندیم قاسمی، کہاں گئی اچانک بچھڑ کر اداس کر جانے والی پروین شاکر، منوں مٹی تلے جا کر سو جانے والے میرے بڑے بھائیوں کی طرح عزیز اور مربی ّشہید محسن نقوی۔ کس کس کا ذکر کیا جائے اور کس کس کے بچھڑ جانے پر نوحہ پڑھا جائے یا بین کیا جائے۔ ادب تو آج بھی اپنے ارتقائی عمل سے اسی طرح گزر رہا ہے جس طرح ماضی میں گزرتا رہا ہے لیکن وہ ادبی شہ پارے بدقسمتی سے نظروں سے نہیں گزر رہے جو کبھی پڑھنے اور سننے کو ملا کرتے تھے۔ ذکر ہوا تھا احمد فراز کی ایک غزل کے ایک شعر کا جو کچھ یوں ہے: قارئین کرام! آپ بھی لطف لیجئے اور سر دھنیئے:
شکوہئ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
اور میرے پیارے پڑھنے والے! یہ بھی میں عرض کردوں کہ اس غزل یا شعر کے یاد آنے کا محرک مرکزی حکومت کا وہ دعویٰ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس نے نادرا کے تعاون سے ڈیڑھ کروڑ ایسے افراد کا سراغ لگا لیا ہے جو قومی خزانے میں ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں ڈالتے۔ اطلاع یہ ہے کہ اس وقت فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے پاس ٹیکس نیٹ میں بیس بائیس کروڑ کی آبادی میں سے (ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر پڑھئے) صرف 72 لاکھ افراد ہیں جو اپنی آمدنی میں سے ٹیکس جمع کرواتے ہیں۔ اگرچہ خبر پڑھ کر تفصیلات کے حوالے سے تشنگی باقی ہے کیونکہ اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ حکومت ہر سال ان 72لاکھ افراد معاشرہ سے ٹیکس کی مد میں کس قدر پیسہ وصول کرتی ہے آیا یہ لوگ قومی خزانے میں اپنا حصہ بقدرِ جثہ ڈالتے ہیں یا مبینہ طور پر کچھ دے دلا کر گلو خلاصی کروا لیتے ہیں البتہ ایک بات ضرور ہے کہ حکومت نے مزید لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لئے (یہ بھی ذرا دل بڑا کرکے پڑھیئے) پورے پندرہ سو آڈیٹرز بھرتی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے جو میں سمجھتا ہوں کہ ملک و قوم کے ساتھ مذاق کے ہم معنی ہی ہے کیونکہ یہ آڈیٹرز جو کچھ ماہانہ مشاہروں اور مراعات اور دیگر سہولیات کی مد میں حاصل کریں گے اس سے تو ٹیکسز میں بڑھوتری کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا یعنی جو کچھ قومی خزانے میں آئے گا اس سے تو کہیں زیادہ یہ آڈیٹرز لے جائیں گے۔
اس ”نیک عمل“ سے حکومت کے بعض قریب سمجھے جانے والے اس کے خیرخواہ تو شاید Oblige ہو جائیں مگر حکومت حصولِ مقصد میں اسی طرح ناکام رہے گی جس طرح ماضی کی حکومتیں ناکام رہی ہیں یا جیسا کہ پچھلے تین سالوں سے موجودہ حکومت شومئی قسمت کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ اس کے لئے تو لوگوں میں شعور بیدار کرنے اور آگاہی مہم شروع کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے نہ کہ آڈیٹرز کی فوج ظفر موج بھرتی کرنے کی۔ کون نہیں جانتا کہ ہمارے ہر ادارے میں اوور سٹافنگ اور سرپلس لوگوں کی تعداد پہلے ہی روز افزوں ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ماضی میں گولڈن شیک ہینڈ کی مہم چلا کر زائد از ضرورت سٹاف کو کچھ دے دلا کر جان چھڑائی گئی۔ لیکن گزشتہ دو تین دہائیوں کے دوران میں بظاہر بھرتیوں پر پابندی کے باوصف اندرون خانہ یہ سلسلہ کسی نہ کسی طرح سارا سال جاری و ساری رہتا ہے اور اس کے لیے کوئی نہ کوئی چور دروازہ تلاش کرنے میں بھی چنداں مشکل پیش نہیں آتی۔ میرا تاثر یہ ہے کہ اپنی ذات اور شخصیت کے حوالے سے ہمہ دانی کے مدعی وزیراعظم اگر خود عوام میں یہ شعور پیدا کرنے کا عزمِ بالجزم کر لیں تو پھر میرا دعویٰ ہے کہ عوام بھی انہیں تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ عوام کو یہ باور کرایا جائے کہ وقت نازک ہے اور مقابلہ عالمی معیارات سے ہے، معاصر دنیا سے مقابلے میں اور زندگی کی دوڑ میں ہم بہت پیچھے ہیں اور جو قرض ہم پر واجب بھی نہیں تھے ہم نے وہ بھی ادا کرنے ہیں جو ماضی کے حکمرانوں نے قوم پر ڈالے تھے اور ہاں اگر گھی سیدھے سبھاؤ نہیں نکلتا تو پھر انگلیوں کو ٹیڑھا بھی کرنا پڑے تو بھی ایک لمحے کیلئے تاخیر اور توقف نہ کیا جائے کہ اس وقت ہم حالت نزاع میں ہیں، وینٹی لیٹر پر ہیں اور یہ وینٹی لیٹر وہ قرضہ ہے جو وقتاًًً فوقتاً ہم عالمی مالیاتی اداروں سے لیتے رہے ہیں اور سوموار کے روز بھی آئی ایم ایف نے ہمیں دو ارب 77 کروڑ ڈالرز کی صورت میں دیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ یہ قرض ہے چاہے تو پاکستان اس سے اپنے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھالے یا پھر اپنے اوپر واجب الادا قرضوں کی ادائیگی کر دے اور ظاہر ہے کہ ہم عالمی مالیاتی اداروں ہی کے مقروض ہیں جن میں آئی ایم ایف بھی شامل ہے یعنی یوں اس کا دیا ہوا قرض بھی اسی کی جیب میں پرانے قرضوں کی ادائیگی کی صورت میں چلا جائیگالیکن کیا کریں ہم قرض کی مے تو پیتے ہیں اپنے وطن سے جو حاصل کرتے ہیں اس کے لئے کوئی بھی قربانی دینے کے لئے تیار نہیں۔ اس حوالے سے مغرب اور یورپ کے مقابلے پر تو ہمارے ہاں سختی ان کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ ہاں البتہ اگر وہ اپنے شہریوں کی خون پسینے کی کمائی کا معتدبہ حصہ لیتے بھی ہیں تو اسی نسبت تناسب سے وہ اپنے شہریوں کو سہولیات بھی فراہم کرتے ہیں جن میں نمایاں طور پر صحت اور تعلیم کے شعبے ہیں۔ ان ممالک میں کوئی شہری ٹیکس چوری کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر قباحتوں کے باوجود وہ معاشرے خوشحال اور پُرسکون ہیں۔
لہٰذا ہمارا مشورہ ہے کہ وزیراعظم اگر اگلے دو سال میں جو بھی حربہ اور طریقہ اختیار کریں گے لازماً اختیار کریں۔ کوئی شہری ٹیکس نیٹ سے باہر نہ چھوڑا جائے۔ خاکروب سے لے کر چپڑاسی تک اور کلرک سے لے کر گریڈ بائیس کے افسران تک، ریڑھی بان اور رکشہ ڈرائیور سے لے کر صنعتکار اور بڑے بڑے ٹیکسٹائل ملزمالکان تک سب کو رجسٹر کرے اور قومی خزانے میں انہیں اپنا اپنا ڈالنے پر مجبور کریں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ عوام کے ریلیف کا بھی خیال رکھیں۔مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند رکھیں، حکومتی اللّوں تللّوں پر بھی روک لگائیں۔ بجلی، گیس، پانی سمیت ہونے والے ہر قومی ضیاع کو بھی آہنی ہاتھوں سے روکیں۔ مشیرانِ کرام اور وزراء صاحبان کی تعداد بے شک بڑھائیں لیکن انہیں قومی خزانے پر ہاتھ صاف کرنے سے باز رکھیں کہ اللہ پاک کی ان پر عنایات اور رحمتیں پہلے ہی بے پایاں ہیں اور بھرے ہوئے کو مزید بھرنا خالی کاسے سے ناانصافی ہے۔ قرضے تو ملتے رہیں گے لیکن سود بڑھتا رہے گا قرضوں کی ادائیگی کے لئے بھی قرض لینا پڑے گا اور سود در سود سے ہماری کمر کبھی سیدھی نہیں ہوگی۔ کسی غیر سے گلہ کرنے سے بہتر ہے کہ
بقول احمد فراز قوم کو اپنے حصہ کی شمع خود جلانے کی تلقین ہی کارگر ثابت ہوگی۔
(کالم نگار سیاسی‘سماجی اورمعاشرتی موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain