تازہ تر ین

کابلستان سے افغانستان تک کی کہانی

خضر کلاسرا
چھ لاکھ پچاس ہزار مربع میل پر پھیلا ہوا ملک افغانستان عجیب خصوصیات کا حامل ہے ‘مشرق سے مغرب کی طرف بڑھتا ہوا پہاڑوں کا سلسلہ ہندوکش کہلاتا ہے۔ جس کی کئی چوٹیاں چار پانچ ہزار میڑ سے بھی بلند ہیں۔ اور یہ ہندوکش افغانستان کو دوحصوں میں تقسیم کرتا ہے۔یہ وسیع کوہ ہزار کلومیٹر طویل اور اڑھائی سوکلومیٹر کے قریب چوڑا ہے۔ اس میں کئی درے ہیں جوکہ شمال سے جنوب کی طرف پھیلے ہوئے ہیں۔ افغانستان کے شمالی مشرقی کونے میں یہ سلسلہ کوہ مرتفع پامیر سے جاملتا ہے۔ جس کی بعض چوٹیاں ساڑھے سات ہزار میڑ بلند ہیں۔ اور یہ چوٹیاں کسی رہائشی مکان کی غلام گردش کی طرح علاقے واِخان سے گزرتی ہیں ‘ جہاں افغانستان کی سرحدیں چین اور سویت یونین سے ملتی ہیں۔ ہندوکش کے شمال میں علاقے کے نیم صحرائی میدان آمو دریاتک پھیلے ہوئے ہیں۔ ہرات کے اردگرد کا مغربی علاقہ ایرانی سطح مرتفع کی توسیع ہے۔ جنوب مغرب کا علاقہ پتھریلا صحرا ہے۔ہزارہ جات کا صوبہ مرکزی سلسلہ کوہ کے دامن میں ہے۔ مشرق کی طرف بھی پہاڑ ہیں۔ جو شمال میں بدخشاں سے ہوتے ہوئے نورستان سے گزر کر جنوب میں پکتیا تک پھیلے ہوئے ہیں۔
افغان قطعہ زمین قریب قریب برہنہ ہے۔کنڑ، نورستان اور پکتیا میں جنگل ابھی تک موجود ہیں۔مگر یہ جنگل بھی آہستہ آہستہ ختم ہورہے ہیں۔ گرماخشک اور سخت گرم ہے۔ سردیاں شدید اور تکلیف دہ ہیں۔ بارش عام طور پر دسمبر اور فروری کے درمیان ہوتی ہیں۔ نومبر سے مارچ تک پہاڑ برف سے ڈھکے رہتے ہیں۔ اور اس موسم میں سفر انتہائی مشکل اور مضرصحت ہوتا ہے۔ صحرائی علاقوں میں ایک سو بیس دن تک یعنی جولائی سے ستمبر تک ایک ایسی ہوا چلتی ہے جو باعث زحمت بن جاتی ہے۔اس ہواکانام بھی مقامی لوگوں نے ایک بیس دن رکھا ہوا ہے۔افغانستان میں دوسرے ایشائی ممالک کی طرح پانی کی کمی تو نہیں مگر پانی کو قابو کرنا اور استعمال کرنا سب سے بڑا مسلہ ہے۔افغانستان میں چاربڑے دریا ہیں۔ شمال میں آمو جوکہ افغانستان کو سوویت یونین سے علیحدہ کرتا ہے۔ مغرب میں ہری رود۔مشرق میں دریائے کابل ‘جنوب مشرق اور جنوب مغرب میں ہلمند- ارغنہ اب یہ چاروں دریا افغانستان کے دوتہائی علاقے کو پانی فراہم کرتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود افغانستان میں پانی کی کمی ہے۔ اور زیادہ سے زیادہ پندرہ فیصد زمین قابل کاشت ہے۔ افغانستان میں ہندو کش کے شمالی علاقے زرخیز بھی ہیں اور ان زمینوں پر عمدہ قسم کی کپاس پیدا ہوتی ہے۔افغانستان میں کئی نسلی گروہ آباد ہیں لیکن پختون اکثریت میں ہیں۔ انکی آبادی ایک اندازے کے مطابق افغانستان کی چالیس فیصد آبادی ہے۔ یہاں تاجک نورستانی ‘ترک ‘مغل ‘بلوچ ‘کرغز ‘ازبک’ ایماق اور بروہی بھی آباد ہیں۔ پختون ملک کے جنوب میں رہتے ہیں۔ اور نسلی اعتبار سے ڈیورنڈ لائن کے اس پار پاکستان میں آباد پٹھانوں کے قریب ہیں۔ دنیا کے سیاسی نقشہ پر افغانستان درحقیقت1747 میں نمودار ہوا۔ جدید افغانستان کا خالق اصل میں امیر عبدالرحمان خان تھا۔ جس نے 1880 سے1901 تک افغانستان پرحکومت کی۔ اس نے کافرستان کو فتِح کیا اور اس کو نورستان کا نام دیا۔ ہزارہ جات کو زیر کیا اور ملکی سرحدات کا تعین کیا۔ 1893 میں افغانستان کو ایک ملک بنانے کی غرض سے ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کیا ‘اس کا مقصد تھاکہ اسے اپنے ملک کی سرحدات کا علم ہواتاکہ وہ ان سرحدات کا دفاع کرسکے۔
عبدالرحمان خان کے اقتدار سنھبالنے سے پہلے ملک کئی حصوں میں تقسیم تھا۔ کوہ ہندوکش کے شمالی علاقہ جات کو ترکستان کہاجاتا تھا۔ہندوکش سے دریائے سندہ تک پھیلے علاقے کو کابلستان کے نام سے پکارا جاتا تھا۔اس کے جنوب اورجنوب مغربی علاقے کا نام زابلستان تھا۔امیر عبدالرحمان خان نے ان سب علاقوں کو جوکہ مختلف نام رکھتے تھے ان کو یکجا کردیا ‘مطلب کابلستان’ زابلستان اور ترکستان نام ختم کردیئے۔ اور افغانستان کا نام دیدیا۔ انگریزوں نے جب وہ برصغیر پاک وہند کے حکمران تھے ‘کئی بار افغانستان میں مداخلت کی اور دو ایک بار ذلت آمیز شکت کھائی۔ ان کا بنیادی مقصد مداِخلت کرکے روس کی توسیع پسندی کا سدباب کرنا تھا۔سویت یونین جو اس وقت دو براعظموں پر پھیلا ہوا تھا۔ اور کسی زمانے میں ماسکو کی ریاستی حدود تک محدود تھا۔1505 میں اس کا علاقہ صرف دس لاکھ مربع میل تھا۔ اور چارسو سال کے عرصے میں یہ علاقہ پچاس مربع میل فی یوم سے بڑھتا ہوا 1900 میں 8500000 مربع میل تک پھیل گیا۔ اس علاقہ میں اس کے بعد بھی توسیع ہوئی۔ افغانستان انیسویں صدی میں دو استعماری قوتوں کی کشمکش میں ملوث ہوگیا تھا۔
1837 میں روسیوں کی ہلہ شیری پر ایران نے ہرات پر قبضہ کرنے کی ناکام کوشش کی۔ اس سے پہلے1826 میں روس سے ایران کی جنگ ہوچکی تھی۔اور ایران کو امن خریدنے کیلئے ٹرانس کیثیا کو روس کے حوالے کرنا پڑا تھا۔ انگریزوں نے روس کی جنوب کی جانب یلغار روکنے کیلئے افغانستان میں دوبارہ مداخلت کی اور دونوں بار منہ کی کھانی پڑی۔ 1885 میں روس نے افغانستان کے علاقے پنجدہ پر قبضہ کرلیا اور جب انگریزوں نے ہندوستان میں لام بندی کا اعلان کیا تو روسیوں نے جنوب کی طرف مزید پیش قدمی نہ کرنے کاوعدہ کیا۔ 1887 میں سینٹ پیٹرس برگ میں روس اور برطانیہ کے درمیان ایک معائدہ طے پایا۔ برطانیہ اس معاہدہ سے یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ روس کب اور کہاں رکے گا؟موجودہ حالات میں افغانستان کی جنگ وجدل کا ایک اور واقعہ یوں سامنے آکھڑا ہوتا ہے جوکہ اس بات کی بھی وضاحت کرتا ہے کہ افغانستان کا صدر اشرف غنی طالبان کی کابل میں پہنچنے کی اطلاع ملتے ہی صدارتی محل کو چھوڑ کر کیوں فرار ہوا ہے؟ اگلی بات بھی کرتے ہیں لیکن اس تاریخی واقعہ کو پڑھ لیں جوکہ داود خان کے پورے خاندان سمیت قتل کا سبب بنا تھا۔
دنیا حیرت میں مبتلاہے کہ طالبان کیسے پوری قوت اور طاقت کیساتھ افغانستان واپس آگئے ہیں؟ ایک طرف لوگ طالبان کی یوں تیزترین فتح پر حیرت میں ہیں تو دوسری طرف اس بات پر بھی حیران و پریشان ہیں کہ آخر امریکہ بہادر یوں خوف کے عالم میں افغانستان سے کیوں بھاگ رہا ہے؟ اس بارے میں فی الحال کیاعرض کروں لیکن تاریخ میں تو امریکہ کے یوں بھاگنے کو بڑی دیر تک یاد رکھا جائیگا؟ اس صورتحال میں دلچسپ امر یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کے فاتح کے طور پر داِخل ہونے پر آئی ایس آئی کے سابق چیف جنرل حمید گل کے ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میں کہے گئے تاریخی جملہ کی گونج امریکہ تک سنائی دے رہی ہے ‘امریکہ میں مقیم حسین حقانی جیسے دانشور تو اس جملہ میں پھنس گئے ہیں۔ جنرل حمید گل نے کہا تھا کہ ایک وقت میں کہا جائیگا کہ آئی ایس آئی نے امریکہ کی مدد سے سوویت یونین کو افغانستان میں شکست دیدی۔ پھر ایک اور جملہ ہوگا کہ آئی ایس آئی نے امریکہ کی مدد سے امریکہ کو شکت دیدی۔ جنرل حمید گل کے اس تاریخی جملہ پر بحث ہے کہ بڑھتی جارہی ہے۔ یوں آپ بھی جنرل حمید گل کے اس تاریخی جملہ کی گہرائی میں جاکر اس کے معنی تلاش کریں؟ اور اگر معنی مل جائیں تو مجھے بھی بتائیے گا۔ منتظر ہوں۔
(کالم نگاراسلام آباد کے صحافی اورتجزیہ کار ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain