ہیٹی میں زلزلہ،مرنے والوں کی تعداد 12سو سےمتجاوز

ہیٹی میں شدید زلزلے کے باعث مرنے والوں کی تعداد 1297 تک پہنچ گئی ہے۔درجنوں عمارتیں زلزلے سے  ملبے کا ڈھیر بن گئیں۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق 7.2 شدت کا زلزلہ ہیٹی کے جزیرہ نما جنوبی علاقے سے 12 کلومیٹر کے فاصلے پر آیا جس کی گہرائی 10 کلومیٹر تھی۔

رپورٹس کے مطابق 7.2 شدت کے زلزلے نے تباہی مچادی۔ زلزلے سے مرنے والوں کی تعداد 1297 تک پہنچ گئی ہیں جبکہ درجنوں زخمی ہیں۔ متاثرہ مقامات پر امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔

ہیٹی کے نئے وزیر اعظم ایریئل ہنری نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ خطرناک زلزلے سے ملک کے مختلف علاقوں میں متعدد ہلاکتیں ہوئیں اور بہت زیادہ نقصان پہنچا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ متاثرین کی مدد کے لیے تمام سرکاری وسائل بروئے کار لائیں گے اور اس صورتحال کو ڈرامائی قرار دیتے ہوئے قوم سے یکجہتی اور اتحاد کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی۔

وزیر اعظم نے ملک میں ایک ماہ کی ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کردیا ہے اور کہا ہے کہ وہ نقصانات کے تعین تک عالمی امداد کی اپیل نہیں کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ساحلی پٹی پر واقع کچھ مقامات بالکل تباہ ہو چکے ہیں اور حکومت ان کی بحالی کے لیے منصوبہ تیار کر رہی ہے۔

ہیٹی کے ڈائریکٹرآف سول پروٹیکشن جیری چینڈلر نے خبر رساں ایجنسی اے پی کو بتایا کہ زلزلے سے اب تک 29 افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور مزید نقصان کا پتا لگانے کے لیے امدادی ٹیمیں مختلف علاقوں میں بھیجی جائیں گی۔

دوسری جانب وائٹ ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کی نائب کمالا ہیرس کو ہفتے کو ہیٹی میں زلزلے کے حوالے سے بریفنگ دی گئی اور انہوں نے ہیٹی کو امداد اور مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے جبکہ چلی اور ارجنٹینا سمیت مختلف ممالک نے بھی امداد کی پیشکش کی ہے۔

امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق زلزلے سے بڑے پیمانے پر ہلاکتوں اور تباہی کا خدشہ ہے۔ یورپی مڈیٹرینین سیسمولوجیکل سینٹر کے مطابق زلزلہ 7.6 شدت کا تھا جبکہ کیوبا کے زلزلہ مرکز کے مطابق اس کی شدت 7.4 تھی۔

امریکی جیولوجیکل سروے نے زلزلے کے بعد سونامی کی وارننگ بھی جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ سونامی میں تین میٹر اونچی لہریں بلند ہو سکتی ہیں تاہم بعدازاں انہوں نے یہ وارننگ واپس لے لی۔

اس سے قبل ملک میں 2018 میں 5.9 شدت کا زلزلہ آیا تھا جس میں ایک درجن سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے لیکن 2010 میں ملک میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے نتیجے میں 2لاکھ افراد لقمہ اجل بن گئے تھے

پاکستان کا نام پوری دنیا میں روشن کروں گا، طلحہ طالب

طلحہ طالب نے کہا ہے کہ پاکستان کا نام پوری دنیا میں روشن کروں گا۔

تفصیلات کے مطابق واپڈا کی جانب سے منعقدہ تقریب سے ویٹ لفٹر طلحہ طالب نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں اللہ کا شکر گزار ہوں  اور واپڈا اور سپورٹس طورڈ کا شکریہ کرتا ہوں، تاریخ میں آج تک کھلاڑیوں کو اتنا بڑا انعام نہیں ملا۔

انھوں نے مزید کہا ہے کہ میں آئندہ بھی پاکستان کا نام پوری دنیا میں روشن کروں گا۔

سروں کے شہنشاہ استاد نصرت فتح علی خان کی 24 ویں برسی

موسیقی کی دنیا کے بے تاج بادشاہ استاد نصرت فتح علی خان کی 24 ویں برسی منائی جارہی ہے۔

1948 میں فیصل آباد میں معروف قوال فتح علی خان کے گھر پیدا ہونے والے نصرت فتح علی خان قوالی اورلوک موسیقی میں اپنی پہچان آپ تھے۔ نصرت فتح علی خان کا پہلا تعارف خاندان کے دیگرافراد کی گائی ہوئی قوالیوں سے ہوا۔ ’’حق علی مولا علی‘‘ اور’’دم مست قلندرمست مست‘‘ نے انہیں شناخت عطا کی۔

موسیقی میں نئی جہتوں کی وجہ سے ان کی شہرت پاکستان سے نکل کرپوری دنیا میں پھیل گئی۔ بین الاقومی سطح پرصحیح معنوں میں ان کا تخلیق کیا ہوا پہلا شاہکار1995 میں ریلیز ہونے والی فلم’’ڈیڈ مین واکنگ‘‘ تھا جس کے بعد انہوں نے ہالی ووڈ کی ایک اور فلم ’’دی لاسٹ ٹیمپٹیشن آف کرائسٹ‘‘ کی بھی موسیقی ترتیب دی۔
نصرت فتح علی خاں کی قوالی کے 125 سے زائد آڈیو البم جاری ہوئے اوران کا نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی شامل ہے۔ استاد نصرت فتح علی خاں نے فن موسیقی کی روحانی کیفیات کے ذریعے پوری دنیا کو مرید بنائے رکھا۔ عالمی سطح پر جتنی شہرت انھیں ملی وہ شاید کسی اور موسیقاریا گلوکارنصیب نہیں ہوئی۔

وہ حقیقی معنوں میں پاکستان کے بہترین سفیر تھے کہ جہاں لفظ ’’پاکستان‘‘ سے لوگ ناواقف تھے وہاں پاکستان کو ایک عظیم ملک کے طورپرمتعارف کرایا۔ موسیقارایم ارشد نے کہا کہ وہ لاجواب آرٹسٹ اورمیوزک کو سمجھنے والے آدمی تھے۔ ان جیسے فنکار صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اگریہ کہا جائے کہ وہ موسیقی کے ماتھے کا جھومرتھے توبے جا نہ ہوگا۔

عظیم گلوکارکوصدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سمیت متعدد ملکی اورغیرملکی ایوارڈزسے نوازا گیا۔ 1987 میں حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس، نگار ایوارڑ سمیت متعدد ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ نصرت فتح علی خان گردوں کے عارضے میں مبتلا ہونے کے باعث صرف 48 سال کی عمرمیں 16اگست 1997ء کودنیا سے کوچ کر گئے مگر ان کا فن آج بھی انہیں زندہ رکھے ہوئے ہے۔

کیچز چھوڑنے کا خمیازہ بھگتنا پڑا، بابر اعظم

قومی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی بابر اعظم کہتے ہیں کہ ہمارے باولرز نے بہت اچھی باولنگ کا مظاہرہ کیا ہے۔

اپنے جاری کردہ بیان میں بابر اعظم نے بتایا کہ آج ایک بہت اچھا میچ ہوا ہے ، دونوں ٹیموں نے اچھا مقابلہ کیا اور میچ کا کوئی بھی دن ایسا نہیں تھا کہ سارا دن ایک ہی ٹیم حاوی رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہی ٹیسٹ کرکٹ کی خوبصورتی ہے ، آخری سیشن میں کیچز چھوڑنے کا خمیازہ بھگتنا پڑا تھا کیونکہ  اہم مواقع پر کیچ چھوڑنے سے میچ کا نقشہ بدل جاتا ہے۔

بابر اعظم کا کہنا تھا کہ اس ٹیسٹ کے آخری سیشن میں ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا تھا ، ہم نے اس ٹیسٹ میچ میں کئی مشکل کیچز بھی پکڑے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ لڑکوں نے جیت کے لیے سو فیصد کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے ، ہمیں مختلف مواقع پر مومنٹم ملا مگر ہم اسے برقرار نہیں رکھ سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ شاہین شاہ آفریدی ، حسن علی اور محمد عباس کی باولنگ سے مطمئن ہوں اور پرامید ہوں کہ اگلے میچ میں ہمارے باولرز مزید بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔

افغانستان میں غلامی کی زنجیریں ٹوٹ گئیں لیکن ذہنی غلامی کی نہیں ٹوٹیں، وزیراعظم

وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں۔

ملک میں یکساں تعلیمی نصاب کے اجرا کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ اصل غلامی سے زیادہ بری ذہنی غلامی ہوتی ہے، ایک غلام ذہن کبھی بڑا کام نہیں کر سکتا۔

ان کا کہنا تھا ذہنی غلامی میں جو کپڑے وہ پہنتے ہیں آپ کو بھی وہی کپڑے پہننے پڑتے ہیں، ذہنی غلامی میں آپ ان کا سارا فیشن لے لیتے ہیں کیونکہ آ پ سمجھتے ہیں وہ آپ سے بہتر ہیں۔

وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ملک میں یکساں نصاب تعلیم نہ لا کر بڑی ناانصافی کی گئی، دنیا میں صرف اوریجنل سوچ جاتی ہے، ہم انگلش زبان نہیں سیکھتے بلکہ ان کا پورا کلچر لے لیتے ہیں، یہ سب سے بڑا نقصان ہے، یکساں نظام میں نوجوانوں کی ایک ہی سمت ہو گی۔

خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے سندھ کے علاوہ ملک بھر میں یکساں نصابِ تعلیم کا اجرا کر دیا ہے یعنی مدرسے، سرکاری اسکول اور  پرائیویٹ اسکول کے بچے ایک ہی نصاب پڑھیں گے۔

نور مقدم قتل کیس: تھراپی ورکس کلینک کے مالک سمیت 6 ملازم گرفتار

اسلام آباد : نور مقدم قتل کیس کی تحقیقات میں اہم پیشرفت ہوئیں۔  تھراپی ورکس کلینک کے مالک ڈاکٹر طاہر سمیت 6 ملازموں کو پولیس نے گرفتارلیا ہے۔

عدالت نے ملزم جان محمد کو جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیج دیا۔ پولیس نے ملزم ظاہر کے خلاف مزید شواہد بھی حاصل کرلئے ہیں۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد: نور مقدم کیس کی سماعت آج پھر ہو گی۔ مرکزی ملزم ظاہر جعفر کا چودہ روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل۔

پولیس آج ملزم کو دوبارہ اڈیالہ جیل سے عدالت پیش کرے گی ۔تھراپی ورکس کلینک کے مالک ڈاکٹر طاہر سمیت چھ افراد کو بھی آج پیش کیا جائے گا۔ چھ ملزمان کا گزشتہ روز ایک روزہ جسمانی ریمانڈ منظور ہوا تھا۔ تھانہ کوہسار پولیس چھ ملزمان کو اسلام آباد کچہری پیش کرے گی۔جوڈیشل مجسٹریٹ ثاقب جواد کیس کی سماعت کریں گے۔چھ ملزمان پر ظاہر جعفر کے والد ذاکر سے مل کر شواہد چھپانے کا الزام ہے ، پولیس

پنجاب وہ پہلا صوبہ ہے جہاں ائیر ایمبولینس سروسز کا منصوبہ منظور کیا گیا ہے،عثمان بزدار

عثمان بزدار کا کہنا ہے کہ پنجاب وہ پہلا صوبہ ہے جہاں ائیر ایمبولینس سروسز کا منصوبہ منظور کیا گیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے 467 ریسکیورز کی پاسنگ آوٹ تقریب سے خطاب  کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں خیبر پختونخواہ سے آنیوالے مہمانوں کو خوش آمدید کہتا ہوں اور ریسکیو کیڈیٹس کوخصوصی تربیت اور جنوبی ایشیاء کی معروف ایمرجنسی سروس کا حصہ بننے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں،393 کیڈیٹس خیبر پختونخواہ جبکہ 74 کوہ سلیمان کے کیڈیٹس پاس آوٹ ہو رہے ہیں، امید کرتا ہوں بڑے شہروں کی طرح یہ کیڈیٹس خیبر پختون خواہ اور کوہ سلیمان میں بھی اپنی خدمات سرانجام دیں گے۔

انھوں نے کہا ہے کہ پنجاب ایمرجنسی سروسز نے 96 لاکھ سے زائد متاثرین کو ریسکیو کیا ہے، پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے پنجاب کی 86 تحصیلوں تک سروسز کے دائرہ کار کو بڑھنے کےلئے نئی ایمبولینسز دیں ہیں اس کے علاوہ ہم نے 27 اضلاع میں موٹر بائیک ریسکیو سروسز کو پہنچائی ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب نے مزید کہا ہے کہ پنجاب پولیس کی طرز پر بنیادی تنخواہ کے برابر رسک الاونس کے بارے میں بھی دلی ہمدردی سے غوروفکر کیا جائیگا، پنجاب وہ  پہلا صوبہ ہے جہاں ائیر ایمبولینس سروسز کا منصوبہ منظور کیا گیا ہے اور آئندہ بجٹ میں اس کا فنڈ بھی منظور ہو جائیگا۔

آزادی…… معانی و اِطلاق

ڈاکٹر عاصم ثقلین
آزادی کے بہت سے معانی اورمفاہیم ہیں۔ اقلیمِ شعر کے قلندر علامہ اقبال ؒنے آزادی کے مقابلے میں آئین و قانون کی پابندی کا ثمر ہمیشہ کا آرام بتایا ہے کیوں کہ اپنی آزادی کے سبب پانی کی لہرکا مقدر گریہ و زاری یارونا ٹھہرتا ہے، وہ کہتے ہیں:
دہر میں عیشِ دوام آئین کی پابندی سے ہے
موج کو آزادیاں سامانِ شیون ہو گئیں
آزادی کا فلسفہ یا مفہوم بظاہر بہت آسان لیکن باطنی حوالے سے بہت وسیع ہونے کے ساتھ ساتھ بہت مشکل اوردقیق ہے۔ ہم آزادیئ فکر چاہتے ہیں لیکن اسی آزادیئ فکر کے نظریات دوسروں سے لے کر اپنے ذہن و دل کو دوسروں کا غلام یا محکوم کر لیتے ہیں۔ ہمارے ارد گرد بسنے والے سبھی لوگ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی طرح غلام ہی ہیں۔ جو لوگ خود کو لبرل یا آزاد مانتے ہیں، انہی کی فکر کو دوسرے ”غلامانہ سوچ“ کہتے ہیں۔بات اتنی سی ہے کہ کسی نے اپنی فکرکو قرآن و حدیث کا پابند کر رکھا ہے تو کوئی اپنے نظریات میں ڈارون اور کارل مارکس کا تابع کیے ہوئے ہے۔ دین و مذہب کی غلامی کرنے والے اس غلامی کو بھی اپنے سر کا تاج مانتے اور اسے غلامی کہتے ہوئے بھی اس پر نازاں رہتے ہیں جبکہ دوسرے کئی لوگ اپنی اپنی امپورٹڈفکری غلامیوں پر”لبرٹی“ کا ٹیگ (tag) لگا کر خوش ہو جاتے ہیں۔ آزاد کوئی نہیں ہے۔ کوئی ہو بھی نہیں سکتا اور ہونا بھی نہیں چاہیئے۔ذرا غور کریں توفکری آزادی بھی اسی قدر اچھی ہوتی ہے کہ آدمی جو چاہے وہ سوچ سکتا ہو، صرف سوچ ہی سکتا ہو۔۔۔بس!!۔۔۔ سوچنا، یعنی صرف سوچنا، کسی مذہب میں گناہ نہیں۔ اور اس سے آگے کوئی بھی،کہیں بھی آزاد نہیں۔ یہاں تک کہ اپنی سوچ کا محض بیان کر دینا بھی کسی جرم یا گناہ کے ذیل میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ایک ماحول اور معاشرے کے دام میں جکڑا ہوا فرد آزاد کیسے ہو سکتا ہے کیونکہ گھر سے لے کر ملک اور ریاست تک کسی ماحول اور معاشرے میں رہنے کے اصول و آئین اور قواعد وضوابط بہرحال ہوتے ہیں جن کی پاسداری پر ہر فرد مجبور ہوتا ہے۔میرے لیے میرے بچوں کی محبت پاؤں کی بیڑی ہے۔ گلی محلے میں رہن سہن کے قواعد میری مجبوری ہیں۔ مجھے بہر صورت شہر اور ملک کے آئین و قانون کا پابند رہنا ہے۔یہ بیڑیاں، مجبوریاں اور پابندیاں ہی تو میری زندگی کا حسن ہیں۔ میں بھلا کیسے آزاد رہ سکتا ہوں۔ہر ہوش مند فرد انہی مجبوریوں کی قید میں خوش رہتا ہے۔اس محکومی پر ہزار آزادیاں قربان کر دیتا ہے اور جاننے والے جانتے ہیں کہ مجبوری اور محکومی چاہے کسی بھی قانون کی ہو آزادی کا متضاد ہی ہوتی ہے۔
قارئین یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ میں ہر قسم کی آزادی کا منکر اور ہر پابندی کا عاشق ہوں۔ انسان فطری طور پر پابندیوں سے چڑنے اور آزادیوں پر مر مٹنے والا ہے۔ لیکن اس دنیا کی زندگی میں ابنِ آدم کو فطری آزادیاں ایک خاص عمر تک دینے کا قانون رائج رہا ہے۔اس کے بعد آزادی و پابندی کا ایک امتزاج زندگی میں موجود رہتا ہے جس میں جزوی آزادیاں ہمیشہ جزوی پابندیوں کے ہمراہ ہوتی ہیں۔آپ گھر چھوڑ دینے میں آزادہیں مگر گھر میں موجود رشتے ناطے تبدیل نہ کر سکنے میں مجبور بھی ہیں۔ اسی طرح ایک آزاد ریاست میں آپ آزاد ہوتے ہیں کہ جو چاہیں کریں مگر قانون کے دائرہئ کار میں رہتے ہوئے۔آپ جو چاہیں پڑھیں لیکن ایم بی بی ایس کرنے کے لیے آپ کچھ امتحانات دینے کے پابند بھی ہیں۔ آپ مجبور ہیں کہ ایم اے اکنامکس کرنے کے لیے کسی انجنیئرنگ یونیورسٹی میں داخلہ نہیں لے سکتے۔کسی بھی میرٹ کا نظام (جہاں ہو) دراصل مجبوری ہے۔ آدمی اپنی سواری پر جب جہاں جانا چاہے جا سکتا ہے لیکن سگنل نہیں توڑسکتا۔ ون ویلنگ نہیں کر سکتا۔گاڑی سڑک کے درمیان میں روکنے کی آزادی کسی ملک کے عوام کو حاصل نہیں۔افراد ہر آزادی مانگنے لگیں تو بڑے بھیانک انجام سامنے آتے ہیں۔ فطرتاً ظالم اور جاہل لوگ ہر سگنل توڑنا اپنا حق سمجھتے ہیں بلکہ سگنل پر کھڑے سپاہی کو روندنے کی آزادی پر بھی نازاں رہتے ہیں۔ سب سے اچھی اور خوب صورت آزادی کسی قوم یا ریاست کی دوسری قوموں اور دوسری ریاستوں کے دام سے نکل جانے کی آزادی ہوتی ہے۔ دوسری قوم کا غلام نہ رہنے کی آزادی۔ اپنا ملک بنا لینے اور اپنی ریاست میں اپنے بنائے قوانین کے اطلاق کی آزادی۔14اگست1947ء کی آزادی۔ایسی آزادی کا سب سے حسین اور میٹھا ثمر عدل و انصاف کی فراہمی کا ہوتا ہے۔کسی آزاد ملک کے شہری کے لیے شاید سب سے زیادہ سکون کا باعث یہ بات ہوتی ہے کہ اگرمیں ملکی قوانین کی پاسداری کرتا رہوں تو میری حکومت مجبور اور پابند ہے کہ میری جان، مال اور عزت کے معاملات میں مجھے تحفظ اور انصاف فراہم کرے۔میری حفاظت کے معاملات میں میرا حاکم مجھ سے بڑھ کر پابند ہے۔پھر ایک آزاد ملک کے حکمران کے لیے بھی یہ بات باعثِ اطمینان ہے کہ میرے ملک کے لوگ اس آزادی کی سچی قدر کرنے والے اورآئین و قانون کے پاسداراور پابندہیں۔یوں خوب صورت ترین آزادی دراصل پابندیوں کے ساتھ وجود میں آتی ہے۔ اچھے رہنما اسی طرح کی آزادی کے خواب دکھاتے، اچھے حکمران اسی طرح کی آزادی کے نفاذ کے لیے کوشاں رہتے اور زندہ قومیں ایسی ہی آزادی پر فخر کرتی ہیں۔
ہماری آزادی کو 74 برس بیت چکے۔ انشاء اللہ اگلے برس انہی دنوں ہم آزادی کی پون صدی گزار چکے ہوں گے۔کسی قوم کے زندہ قوم بننے کے لیے یہ کافی و شافی مدت ہے۔اس تمام عرصے کو مڑ کر دیکھیں تو ہمارا المیہ شاید یہی ہے کہ ہم اس آزادی کے ساتھ لازم و ملزوم پابندیوں کے عادی نہیں ہوسکے۔ سگنل پر رک جانے کا ضبط و تحمل نہ تو فطرتاً ہم میں تھا اور نہ ہی جبراً ہم پر نافذکیا گیا اور نتیجتاً ہم بہت آزاد ہو گئے۔یہ آزادی کہیں مادر پدر آزادبے لگامی بنتی گئی۔ ہم نے نہ تو اونٹ کی ناک میں نکیل ڈالی نہ ہی اس کے گھٹنے باندھے بلکہ اسے اللہ کے آسرے پر چھوڑ دیا کہ وہ حفاظت کرنے والا ہے۔مال کھلا چھوڑ کر بے فکری کی نیند سو لیے۔ اسی بے فکری کا گھن ہمارے فرد و اجتماع دونوں کی جڑیں کھاتا رہا۔ قوم اور ادارے دونوں تباہ ہوتے رہے۔ اب تک بڑی آزادی سے سو بھی رہے ہیں۔ آزادی کو صرف آزادی سمجھنے اور کسی بھی پابندی کو خود پر حاوی نہ کرنے کا رویہ ہمارے جزو کل پر حاوی ہے۔ اللہ ہمارے سبھی طبقات کو اس آزادی کی قدر کرنے والا بنائے۔افراد اور ادارے اپنی حدود کا تعین کر لیں۔ قانون اتوار کے دن غریب کو بھی رعایت دینے لگے اور ہماری اولادیں اُن المناک مناظر کی حدت نہ دیکھیں جن میں جلتے جلتے ہماری آنکھیں آبلہ ہو چکیں۔ فراز ؔ نے کہا تھا نا:
کہاں کی آنکھیں کہ اب تو چہروں پہ آبلے ہیں
اور آبلوں سے بھلا کوئی کیسے خواب دیکھے
(کالم نگار ممتازماہر تعلیم ہیں)
٭……٭……٭

جنرل محمدضیاء الحق، افعانستان کی آزادی کے محافظ (1)

اعجاز الحق
افغانستان ہمارا پڑوسی اسلامی ملک ہے۔ جس کے معروضی حالات کا پاکستان پر اثر انداز ہونا لازمی امر ہے۔ 1979ء میں افغانستان پر روسی جارحیت نے پاکستان کی سلامتی اور اس کے مستقبل کے لئے ایک بڑا خطرہ پیدا کر دیا۔ 71ء میں پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد بلکہ اس سے بھی پہلے روس اور بھارت میں دوستی کے کئی معاہدے ہوئے اور محبت کی پینگیں بڑھیں۔ ادھر امریکہ کو تشویش تھی کہ بھارت کو مکمل طور پر روس کی گود میں چلے جانے سے روکا جائے۔ جب جنرل ضیاء الحق نے جولائی 1977ء میں چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے طور پر اقتدار سنبھالا تو امریکہ سے پاکستان کے حالات کافی کشیدہ اور پیچیدہ تھے۔ ایسے میں روسی جارحیت پاکستان کے لئے انتہائی تشویش کا باعث تھی اور اگر روس افغانستان میں اپنے عزائم میں کامیاب اور قدم جما لیتا تو پھر لازمی طور پر اس کی اگلی مہم جوئی کا نشانہ پاکستان ہوتا۔ کیونکہ یہاں صوبہ سرحد (KPK) اور بلوچستان میں بھارت کی مدد سے قوم پرستی کے نام پر علیحدگی کی تحریکیں بھی سر اُٹھا چکی تھیں۔
روسی جارحیت کے خلاف افغانستان کی آزادی کے لئے جدوجہد میں افغانوں کی مدد اور 35 لاکھ سے زائد مہاجرین کو خوش دلی سے پناہ دے کر جنرل ضیاء الحق نے جس ملی، اخلاقی، مذہبی اور انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کیا اور یہ ذمہ داری جس احسن طریقے سے نبھائی اس کی مثال پیش کرنا مشکل ہے اور اس حوالے سے جنرل محمد ضیاء الحق شہید کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ افغان جنگ میں جنرل ضیاء الحق اور ان کے رفقائے کار کے کردار، حکمت عملی، سیاسی اور حربی دانش مندی، تدبر اور تزویر کو کبھی بھلایا نہ جائے گا۔ شہید صدر نے بطور فوجی سپہ سالار، ایک منجھے ہوئے سیاست دان، مدبر اور انسان دوست مسلمان سربراہ کی حیثیت سے افغان جنگ میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ دنیا نے انہیں مستقل مزاجی ااور مکمل یک سوئی سے ایک بڑی سپر پاور کے مقابلے میں افغان عوام کے شانہ بشانہ کھڑے دیکھا۔ یہ سب کچھ انہوں نے اس وقت کیا جب پاکستان مالی اور سیاسی طور پر غیر مستحکم تھا اور خطے کی معروضی صورت حال کی وجہ سے کئی طرح کی مشکلات اور خطرات میں گھرا ہوا تھا۔ اُس وقت تک پاکستان ایٹمی قوت کی شناخت بھی نہ رکھتا تھا۔ افغان قوم کو روس کے پنجہ استبداد سے نجات دلا کر افغانستان کی آزادی کی شمع روشن کرنے کا کارنامہ ایسا بڑا کارنامہ ہے کہ جنرل محمد ضیاء الحق اور ان کے اس جنگ میں فوجی کمانڈروں کو اس کا کریڈٹ نہ دینا ناانصافی ہو گی۔ افغانستان کی روسی جارحیت سے آزادی موجودہ عہد کا ایسا لازوال واقعہ ہے جس نے احیائے اسلام کی تحریکوں پربڑے گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔
جنرل ضیاء الحق ایک راسخ العقیدہ مسلمان سپہ سالار تھے۔ 1977ء میں اپوزیشن کی اپیل پر عوام نے اس وقت کے حکمران ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کی تھی، اس کے نتیجے میں آئینی بحران پیدا ہوا جنرل ضیاء الحق کو ملک کا نظم و نسق سنبھالنا پڑا تو تاریخ کے اوراق اس بات کے گواہ ہیں کہ ملک کے طول و عرض میں ہر سطح پر عوام نے مارشل لاء کا والہانہ استقبال کیا اور اس اقدام کو خوش آمدید کہا۔ لوگوں نے اس قدر مٹھائیاں بانٹیں کہ سوجی اور چینی کے گودام خالی ہو گئے۔
1979ء میں جب اشتراکی افواج نے افغانستان میں جارحیت کی اور افغان عوام پر چڑھ دوڑیں تو جنرل ضیاء الحق کی سربراہی میں پاکستان کی عسکری قیادت نے بہت سوچ سمجھ کر یہ تاریخ ساز فیصلہ کیا کہ پاکستان کو افغان عوام کی تحریک آزادی میں مدد کرنی چاہئے۔ افغانستان کی صدیوں کی تاریخ شاہد ہے کہ افغان قوم نے بیرونی حملہ آوروں کو کبھی قبول نہیں کیا، افغان جنگجو قوم ہے۔ وہ ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں کے خلاف برسرپیکار رہتی آئی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر صدیوں کی تاریخ میں کوئی ایسا وقت آیا کہ جب افغان قوم کو بیرونی حملہ آوروں سے نجات نصیب ہوئی تو یہ قوم آپس میں ہی میدان جنگ سجا کر بیٹھ گئی اور مختلف قبائل یا گروہ آپس میں لڑتے رہے۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم نے اپنے کمانڈروں کے ساتھ مل کر جو پالیسی مرتب کی اس میں امریکیوں کو افغان مجاہدین تک رسائی سے روکنا افغان پالیسی کا اہم حصہ تھا۔ افغانستان میں ہزاروں کلو میٹر تک پھیلے محاذ جنگ کی نگرانی آئی ایس آئی کی اہم ذمہ داری تھی۔ پاکستان ہی افغانستان میں مجاہدین تک خوراک اور اسلحہ پہنچاتا تھا۔ مجاہدین کی ضرورت پیٹ کے لئے روٹی اور بندوق کے لئے گولی تھی۔ جوکمک کی صورت پاکستان انہیں فراہم کرتا رہا۔ امریکیوں کے ساتھ جو بھی معاملات طے کئے جاتے وہ پاکستان ہی طے کرتا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب جنرل ضیاء الحق اپنی جہادی پالیسیوں کے باعث پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنے رہے خصوصاً عالم عرب میں وہ ایک مسلمان جرنیل ہونے کے باعث ہیرو کے طور پر پسند کئے جاتے اور عام لوگ ان سے والہانہ محبت بھرے جذبات رکھتے تھے۔
جنرل ضیاء الحق کی افغان جنگ میں مدد اور پشت پناہی کی پالیسی نے امریکہ اور پاکستان کو قریب کر دیا تھا اور وہ کشیدہ صورت حال ماضی کا قصہ بن گئی جو 1977 میں اُن کے زمام اقتدار سنبھالتے وقت تھی۔ اب بھارت تشویش میں مبتلا تھا اور پاکستان جنرل صاحب کی افغان پالیسی کے باعث عالمی منظر نامے پر چھایا ہوا تھا۔ یہی وقت تھا جب پاکستان کی عسکری قوت میں جدید ترین جنگی آلات کا قابل قدر اضافہ ہوا۔ بھارت کے بے پناہ شور شرابے کے باوجود پاکستان نے اپنے معاملہ فہم زیرک اور حرب و ضرب کے ماہر سپہ سالارجنرل ضیاء الحق کی قیادت میں اپنے ایٹمی پروگرام کو رفتہ رفتہ آگے بڑھایا۔ یہ وہ وقت تھا جب عالمی اُفق پرجنرل محمد ضیاء الحق کی قیادت کا چرچا تھا اوار امریکہ سمیت نہ صرف مغربی ممالک بلکہ اُمت مسلمہ کے تقریباً سبھی عرب حکمران بھی پاکستان کے دم ساز اور ہم نوا تھے۔ ایسے میں کسی نے بھارت کی آہ و بکا، واویلے اور شور شرابے پر کان نہ دھرے۔ بھارت روتا پیٹتا اور شور مچاتا رہا جبکہ جنرل ضیاء الحق اپنے دھیمے لہجے اور پروقار انداز میں دنیا کے شاطر اور بزعم خود، خود کو عقل کُل سمجھنے والے بڑے بڑے دماغوں سے اپنی مدبرانہ سوچ اور صلاحیت سے اپنے مطلب کا کام نکالتے رہے اور پاکستان کے جوہری پروگرام کو آگے بڑھاتے رہے۔ 1974ء میں بھارت کے ایٹمی دھماکے کے بعد یہ ازحد ضروری تھا کہ پاکستان بھی اپنے دفاع کے لئے ایٹمی صلاحیت حاصل کرے۔ لہٰذا جنرل محمد ضیاء الحق نے نہایت حمل، بردباری اور حکمت عملی سے پاکستان کے لئے ایٹمی صلاحیت حاصل کر کے اپنے اس خواب کو شرمندہئ تعبیر کر دیا جو کہ ہر پاکستانی کا مطمح نظر تھا۔
افغان مجاہدین کے تمام گروپس اور تمام تنظیموں کی قیادت انہیں اپنا ہیرو اور رہنما تسلیم کرتی تھی۔ افغانستان کے گلی کوچوں، مجاہدین کے مورچوں، چیک پوسٹوں کے درودیوار ”ضیاء الحق“ کی تصویروں سے سجے رہتے تھے اور اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ افغانستان کے بارے ان کا موقف اور پالیسی بہت واضح اور دو ٹوک تھی اور اس سلسلے میں وہ نہ روس کی کوئی بات سنتے تھے اور نہ بھارت کو ہی خاطر میں لاتے تھے۔ کابل کی کٹھ پتلی حکومت کی تو ان کی نظر میں کوئی حیثیت ہی نہ تھی۔
(جاری ہے)
(مسلم لیگ ضیاء کے سربراہ اورسابق وفاقی وزیر ہیں)

صدرضیاء الحق نے جس ہمت، جواں مردی اور حکمت عملی سے کئی برسوں تک روسی جارحیت کا مقابلہ کیا یہ ایک طرح سے کابل کا نہیں اسلام آباد کا دفاع تھا۔ اگر خدانخواستہ روس ”کابل“ کو فتح کر لیتا تو آج پاکستان کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔ آزادی کے لئے قیام پاکستان کے وقت بھی قربانیاں دی گئی تھیں اور آج بھی محب وطن پاکستانی اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ اانہی محب وطن سرفروشوں میں 17 اگست 1988ء کو سازش کا شکار ہونے والے C-130 طیارہ کے وہ سب سوار اور سالار بھی ہیں جنہوں نے اپنے دل رنگ لہو سے ارض پاکستان کی آبیاری کی۔

مزے مزے

ندیم اُپل
13 اگست کی شب جب آفس کا کام مکمل کرنے کے بعد گھر جانے کیلئے روانہ ہوا تب پاکستان کا 75واں یوم آزادی پانچ منٹ کے فاصلے پر تھا اور یہ پانچ منٹ کافاصلہ ریگل چوک (مال روڈ)تک پہنچے پہنچتے طے ہو چکا تھا۔پھر ٹھیک رات 12بجتے ہی مال روڈ پر منچلوں نے ایسا شور شرابہ کیا کہ عہد حاضر کاپاکستان میں نے اپنی آنکھوں سے بنتے دیکھا۔ مال روڈ روشنیوں میں نہایاہوا تھا جن کے دلوں میں جھوٹ اور منافقت کے اندھیرے تھے انہوں نے بھی اندر کے اندھیروں کو باہر کی روشنیوں میں چھپا رکھا تھا۔اچانک دیکھتے ہی دیکھتے طوفان بدتمیزی اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ممی ڈیڈی نوجوانوں کی موٹر سائیکلز کے سائلنسرز نے ایسی خوفناک آوازیں نکالناشروع کر دیں جیسے بد روحیں چیخ رہی ہوں۔میرے قریب سے گزرنے والی نوجوانوں کی موٹر سائیکلزکی لمبی قطار نے بھونپوبجا بجا کر حشر کا سماں بپا کر رکھا تھا۔سرخ اشارے پر رکنے والی گاڑیوں میں بیٹھی فیملیز کے سامنے بیچ چوراہے میں ممی ڈیڈی نوجوانوں نے انڈین گانوں پر اس طرح سے وحشیانہ انداز میں ڈانس شروع کر دیا کہ گاڑیوں میں بیٹھی خواتین اور بچے یوں سہم گئے جیسے ایک با ر پھر آزادی کے قافلوں پر دشمن حملہ آور ہونے والے ہوں۔اسی دوران نوجوانوں کی ایک اور ٹولی بیڈن روڈ سے نمودار ہوئی اور ان جوشیلے نوجوانوں نے آتش بازی کے نام پردل ہلادینے والے پٹاخے چھوڑ کر ایسا خوف پھیلا دیا گویا کوئی بڑا سونامی آرہا ہو۔ان نوجوانوں کے تیور بتا رہے تھے کہ اگر کسی شریف شہری یا بزرگ نے انہیں منع کرنے کی کوشش کی تو وہ اس کی پگڑی اچھالنے میں ذرا دیر نہیں کریں گے۔اسی دوران مخالف سمت سے ایک ہارن بجاتی ایمبولینس کا گزر ہوا مگر اس کے ہارن کی آواز نوجوانوں کے بھونپو اور باجوں میں دب کر رہ گئی جس کے اندر ایک مریض کو آکسیجن لگی ہوئی تھی۔زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا اس مریض کی ایمبولینس کو بھی راستہ نہیں مل پا رہا تھاخدا جانے وہ مریض زندہ سلامت ہسپتال پہنچا ہوگا یا نہیں مگر ہماری نوجوان نسل جس نہج پر پہنچ چکی ہے وہ ہماری قوم کا بہت بڑا المیہ ہے۔
اسی دوران جب مال روڈکی دوسری طرف نظریں اٹھیں تو وہاں کچھ فیملیاں لب سڑک آئس کریم انجوائے کر رہی تھیں۔فاسٹ فوڈ کی دکانوں پر یوں رش تھا اوردھکم پیل ہو رہی تھی گویا لنگر تقسیم ہو رہا ہو۔اس سے کچھ فاصلے پر اونٹ کی سواری کرانے والی گاڑی بھی کھڑی تھی جس میں کچھ دیسی اور کچھ ولائتی فیملیز اپنے بچوں کے ساتھ انجوائے کر رہی تھیں۔ایک اچھا سین یہ دیکھنے کو ملا کہ اسی اونٹ گاڑی میں لیجنڈ گلوکار مہدی حسن کا یہ قومی گیت بج رہا تھا:
یہ وطن ہمارا ہے
ہم ہیں پاسباں اس کے
مگر یہ نغمہ مال روڈ پر غل غپاڑہ کرنے اور اودھم مچانے والے نوجوانوں سے یہ سوال بھی کر رہا تھا کہ کیا پاسبان ان جیسے ہوتے ہیں؟ اسی دوران میرے قریب سے ایسے ہی منچلے نوجوانوں کی موٹر سائیکلز پر ایک اور لمبی قطار گزری۔ان نوجوانوں کی موٹر سائیکلز میں ایک خاص بات یہ تھی کہ ان کی پشت پر نمبرپلیٹ کی جگہ جعلی حروف میں یہ الفاظ درج تھے ”مزے مزے“
لیکن ”مزے مزے“ کرنیوالے آج کے ان نوجوانوں نے آزادی کے دوران ہندووں کے وہ نیزے بھالے کہاں دیکھے ہوں گے جو پاکستان کی طرف ہجرت کرنے والے آزادی حاصل کرنے کے بعد پاکستان آنے والے قافلوں میں شریک مسلمانوں کے سینوں میں اتار دیے گئے تھے۔ان نوجوانوں نے تو سکھوں کی وہ کرپانیں بھی نہیں دیکھی ہوں گی جو قافلوں میں شریک حاملہ مسلمان عورتوں کے شکموں میں پار کرکے اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی ان کے بچوں کو ہوا میں اچھال دیا گیا تھا۔ایسے عاقبت نااندیش نوجوانوں نے توہندوستان سے آنے والی اس آخری ٹرین میں آنے والی ان بند بوریوں کو بھی کھول کر نہ دیکھا ہوگا جو نوجوان لڑکیوں کے جسمانی اعضا سے بھری پڑی تھیں۔
یہ تھیں وہ قربانیاں اور یہ تھی آزادی کی وہ قیمت جو ہمارے بزرگوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے حاصل کی تھی مگر ہم تواس آزادی کی حفاظت بھی نہ کرسکے۔بابائے قوم نے پاکستان کی صورت میں جو امانت ہمارے سپرد کی تھی آزادی کے چوبیس برس بعد ہی ہم نے اس کی امانت میں بھی خیانت کر دی اور ہمارا مشرقی بازو کٹ گیا مگر ہم پھر بھی نہیں سمجھے۔ آج کوئی بتائے کیا یہ آزادی ون ویلنگ کرکے،موٹر سائیکلزکے سائلنسز نکال کر اور ماؤں بہنوں کی گاڑیوں کا راستہ روک کر اور ان کے سامنے ڈانس کرکے حاصل کی گئی تھی۔اس کا جواب شاید کسی کے پاس بھی نہ ہو۔پھر جب آزادی مل گئی اور اللہ کے دین کی حرمت کا سوال آیا تو ایک ترکھان کا بیٹا ایک گستاخ رسول کو جہنم واصل کرکے غازی علم اّلدین شہید قرار پاتا ہے۔اسی طرح جب اس ملک کی قومی سلامتی اور دفاع کا موقع آتا ہے تو کوئی میجر عزیز بھٹی شہید،کوئی میجرشبیر شہید اور کوئی راشد منہاس بن جاتا ہے آج کے ایسے نوجوان جویوم آزادی کے موقع پر اس طرح کا طرز عمل اختیار کرتے ہیں میں کیسے توقع کروں کہ ان میں سے ہمیں مستقبل کا کوئی غازی علم الدین شہید،کوئی میجرعزیز بھٹی شہید اور کوئی راشد منہاس شہیدمل جائے گا۔دنیا کے سارے ”مزے مزے“ دنیا میں ہی رہ جائیں گے اور دوام صرف انہی کو ملے گا جو سناں کی نوک بھی آواز حق بلند کریں گے۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭