تازہ تر ین

آزادی…… معانی و اِطلاق

ڈاکٹر عاصم ثقلین
آزادی کے بہت سے معانی اورمفاہیم ہیں۔ اقلیمِ شعر کے قلندر علامہ اقبال ؒنے آزادی کے مقابلے میں آئین و قانون کی پابندی کا ثمر ہمیشہ کا آرام بتایا ہے کیوں کہ اپنی آزادی کے سبب پانی کی لہرکا مقدر گریہ و زاری یارونا ٹھہرتا ہے، وہ کہتے ہیں:
دہر میں عیشِ دوام آئین کی پابندی سے ہے
موج کو آزادیاں سامانِ شیون ہو گئیں
آزادی کا فلسفہ یا مفہوم بظاہر بہت آسان لیکن باطنی حوالے سے بہت وسیع ہونے کے ساتھ ساتھ بہت مشکل اوردقیق ہے۔ ہم آزادیئ فکر چاہتے ہیں لیکن اسی آزادیئ فکر کے نظریات دوسروں سے لے کر اپنے ذہن و دل کو دوسروں کا غلام یا محکوم کر لیتے ہیں۔ ہمارے ارد گرد بسنے والے سبھی لوگ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی طرح غلام ہی ہیں۔ جو لوگ خود کو لبرل یا آزاد مانتے ہیں، انہی کی فکر کو دوسرے ”غلامانہ سوچ“ کہتے ہیں۔بات اتنی سی ہے کہ کسی نے اپنی فکرکو قرآن و حدیث کا پابند کر رکھا ہے تو کوئی اپنے نظریات میں ڈارون اور کارل مارکس کا تابع کیے ہوئے ہے۔ دین و مذہب کی غلامی کرنے والے اس غلامی کو بھی اپنے سر کا تاج مانتے اور اسے غلامی کہتے ہوئے بھی اس پر نازاں رہتے ہیں جبکہ دوسرے کئی لوگ اپنی اپنی امپورٹڈفکری غلامیوں پر”لبرٹی“ کا ٹیگ (tag) لگا کر خوش ہو جاتے ہیں۔ آزاد کوئی نہیں ہے۔ کوئی ہو بھی نہیں سکتا اور ہونا بھی نہیں چاہیئے۔ذرا غور کریں توفکری آزادی بھی اسی قدر اچھی ہوتی ہے کہ آدمی جو چاہے وہ سوچ سکتا ہو، صرف سوچ ہی سکتا ہو۔۔۔بس!!۔۔۔ سوچنا، یعنی صرف سوچنا، کسی مذہب میں گناہ نہیں۔ اور اس سے آگے کوئی بھی،کہیں بھی آزاد نہیں۔ یہاں تک کہ اپنی سوچ کا محض بیان کر دینا بھی کسی جرم یا گناہ کے ذیل میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ایک ماحول اور معاشرے کے دام میں جکڑا ہوا فرد آزاد کیسے ہو سکتا ہے کیونکہ گھر سے لے کر ملک اور ریاست تک کسی ماحول اور معاشرے میں رہنے کے اصول و آئین اور قواعد وضوابط بہرحال ہوتے ہیں جن کی پاسداری پر ہر فرد مجبور ہوتا ہے۔میرے لیے میرے بچوں کی محبت پاؤں کی بیڑی ہے۔ گلی محلے میں رہن سہن کے قواعد میری مجبوری ہیں۔ مجھے بہر صورت شہر اور ملک کے آئین و قانون کا پابند رہنا ہے۔یہ بیڑیاں، مجبوریاں اور پابندیاں ہی تو میری زندگی کا حسن ہیں۔ میں بھلا کیسے آزاد رہ سکتا ہوں۔ہر ہوش مند فرد انہی مجبوریوں کی قید میں خوش رہتا ہے۔اس محکومی پر ہزار آزادیاں قربان کر دیتا ہے اور جاننے والے جانتے ہیں کہ مجبوری اور محکومی چاہے کسی بھی قانون کی ہو آزادی کا متضاد ہی ہوتی ہے۔
قارئین یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ میں ہر قسم کی آزادی کا منکر اور ہر پابندی کا عاشق ہوں۔ انسان فطری طور پر پابندیوں سے چڑنے اور آزادیوں پر مر مٹنے والا ہے۔ لیکن اس دنیا کی زندگی میں ابنِ آدم کو فطری آزادیاں ایک خاص عمر تک دینے کا قانون رائج رہا ہے۔اس کے بعد آزادی و پابندی کا ایک امتزاج زندگی میں موجود رہتا ہے جس میں جزوی آزادیاں ہمیشہ جزوی پابندیوں کے ہمراہ ہوتی ہیں۔آپ گھر چھوڑ دینے میں آزادہیں مگر گھر میں موجود رشتے ناطے تبدیل نہ کر سکنے میں مجبور بھی ہیں۔ اسی طرح ایک آزاد ریاست میں آپ آزاد ہوتے ہیں کہ جو چاہیں کریں مگر قانون کے دائرہئ کار میں رہتے ہوئے۔آپ جو چاہیں پڑھیں لیکن ایم بی بی ایس کرنے کے لیے آپ کچھ امتحانات دینے کے پابند بھی ہیں۔ آپ مجبور ہیں کہ ایم اے اکنامکس کرنے کے لیے کسی انجنیئرنگ یونیورسٹی میں داخلہ نہیں لے سکتے۔کسی بھی میرٹ کا نظام (جہاں ہو) دراصل مجبوری ہے۔ آدمی اپنی سواری پر جب جہاں جانا چاہے جا سکتا ہے لیکن سگنل نہیں توڑسکتا۔ ون ویلنگ نہیں کر سکتا۔گاڑی سڑک کے درمیان میں روکنے کی آزادی کسی ملک کے عوام کو حاصل نہیں۔افراد ہر آزادی مانگنے لگیں تو بڑے بھیانک انجام سامنے آتے ہیں۔ فطرتاً ظالم اور جاہل لوگ ہر سگنل توڑنا اپنا حق سمجھتے ہیں بلکہ سگنل پر کھڑے سپاہی کو روندنے کی آزادی پر بھی نازاں رہتے ہیں۔ سب سے اچھی اور خوب صورت آزادی کسی قوم یا ریاست کی دوسری قوموں اور دوسری ریاستوں کے دام سے نکل جانے کی آزادی ہوتی ہے۔ دوسری قوم کا غلام نہ رہنے کی آزادی۔ اپنا ملک بنا لینے اور اپنی ریاست میں اپنے بنائے قوانین کے اطلاق کی آزادی۔14اگست1947ء کی آزادی۔ایسی آزادی کا سب سے حسین اور میٹھا ثمر عدل و انصاف کی فراہمی کا ہوتا ہے۔کسی آزاد ملک کے شہری کے لیے شاید سب سے زیادہ سکون کا باعث یہ بات ہوتی ہے کہ اگرمیں ملکی قوانین کی پاسداری کرتا رہوں تو میری حکومت مجبور اور پابند ہے کہ میری جان، مال اور عزت کے معاملات میں مجھے تحفظ اور انصاف فراہم کرے۔میری حفاظت کے معاملات میں میرا حاکم مجھ سے بڑھ کر پابند ہے۔پھر ایک آزاد ملک کے حکمران کے لیے بھی یہ بات باعثِ اطمینان ہے کہ میرے ملک کے لوگ اس آزادی کی سچی قدر کرنے والے اورآئین و قانون کے پاسداراور پابندہیں۔یوں خوب صورت ترین آزادی دراصل پابندیوں کے ساتھ وجود میں آتی ہے۔ اچھے رہنما اسی طرح کی آزادی کے خواب دکھاتے، اچھے حکمران اسی طرح کی آزادی کے نفاذ کے لیے کوشاں رہتے اور زندہ قومیں ایسی ہی آزادی پر فخر کرتی ہیں۔
ہماری آزادی کو 74 برس بیت چکے۔ انشاء اللہ اگلے برس انہی دنوں ہم آزادی کی پون صدی گزار چکے ہوں گے۔کسی قوم کے زندہ قوم بننے کے لیے یہ کافی و شافی مدت ہے۔اس تمام عرصے کو مڑ کر دیکھیں تو ہمارا المیہ شاید یہی ہے کہ ہم اس آزادی کے ساتھ لازم و ملزوم پابندیوں کے عادی نہیں ہوسکے۔ سگنل پر رک جانے کا ضبط و تحمل نہ تو فطرتاً ہم میں تھا اور نہ ہی جبراً ہم پر نافذکیا گیا اور نتیجتاً ہم بہت آزاد ہو گئے۔یہ آزادی کہیں مادر پدر آزادبے لگامی بنتی گئی۔ ہم نے نہ تو اونٹ کی ناک میں نکیل ڈالی نہ ہی اس کے گھٹنے باندھے بلکہ اسے اللہ کے آسرے پر چھوڑ دیا کہ وہ حفاظت کرنے والا ہے۔مال کھلا چھوڑ کر بے فکری کی نیند سو لیے۔ اسی بے فکری کا گھن ہمارے فرد و اجتماع دونوں کی جڑیں کھاتا رہا۔ قوم اور ادارے دونوں تباہ ہوتے رہے۔ اب تک بڑی آزادی سے سو بھی رہے ہیں۔ آزادی کو صرف آزادی سمجھنے اور کسی بھی پابندی کو خود پر حاوی نہ کرنے کا رویہ ہمارے جزو کل پر حاوی ہے۔ اللہ ہمارے سبھی طبقات کو اس آزادی کی قدر کرنے والا بنائے۔افراد اور ادارے اپنی حدود کا تعین کر لیں۔ قانون اتوار کے دن غریب کو بھی رعایت دینے لگے اور ہماری اولادیں اُن المناک مناظر کی حدت نہ دیکھیں جن میں جلتے جلتے ہماری آنکھیں آبلہ ہو چکیں۔ فراز ؔ نے کہا تھا نا:
کہاں کی آنکھیں کہ اب تو چہروں پہ آبلے ہیں
اور آبلوں سے بھلا کوئی کیسے خواب دیکھے
(کالم نگار ممتازماہر تعلیم ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain