تازہ تر ین

جنرل محمدضیاء الحق، افعانستان کی آزادی کے محافظ (1)

اعجاز الحق
افغانستان ہمارا پڑوسی اسلامی ملک ہے۔ جس کے معروضی حالات کا پاکستان پر اثر انداز ہونا لازمی امر ہے۔ 1979ء میں افغانستان پر روسی جارحیت نے پاکستان کی سلامتی اور اس کے مستقبل کے لئے ایک بڑا خطرہ پیدا کر دیا۔ 71ء میں پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد بلکہ اس سے بھی پہلے روس اور بھارت میں دوستی کے کئی معاہدے ہوئے اور محبت کی پینگیں بڑھیں۔ ادھر امریکہ کو تشویش تھی کہ بھارت کو مکمل طور پر روس کی گود میں چلے جانے سے روکا جائے۔ جب جنرل ضیاء الحق نے جولائی 1977ء میں چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے طور پر اقتدار سنبھالا تو امریکہ سے پاکستان کے حالات کافی کشیدہ اور پیچیدہ تھے۔ ایسے میں روسی جارحیت پاکستان کے لئے انتہائی تشویش کا باعث تھی اور اگر روس افغانستان میں اپنے عزائم میں کامیاب اور قدم جما لیتا تو پھر لازمی طور پر اس کی اگلی مہم جوئی کا نشانہ پاکستان ہوتا۔ کیونکہ یہاں صوبہ سرحد (KPK) اور بلوچستان میں بھارت کی مدد سے قوم پرستی کے نام پر علیحدگی کی تحریکیں بھی سر اُٹھا چکی تھیں۔
روسی جارحیت کے خلاف افغانستان کی آزادی کے لئے جدوجہد میں افغانوں کی مدد اور 35 لاکھ سے زائد مہاجرین کو خوش دلی سے پناہ دے کر جنرل ضیاء الحق نے جس ملی، اخلاقی، مذہبی اور انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کیا اور یہ ذمہ داری جس احسن طریقے سے نبھائی اس کی مثال پیش کرنا مشکل ہے اور اس حوالے سے جنرل محمد ضیاء الحق شہید کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ افغان جنگ میں جنرل ضیاء الحق اور ان کے رفقائے کار کے کردار، حکمت عملی، سیاسی اور حربی دانش مندی، تدبر اور تزویر کو کبھی بھلایا نہ جائے گا۔ شہید صدر نے بطور فوجی سپہ سالار، ایک منجھے ہوئے سیاست دان، مدبر اور انسان دوست مسلمان سربراہ کی حیثیت سے افغان جنگ میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ دنیا نے انہیں مستقل مزاجی ااور مکمل یک سوئی سے ایک بڑی سپر پاور کے مقابلے میں افغان عوام کے شانہ بشانہ کھڑے دیکھا۔ یہ سب کچھ انہوں نے اس وقت کیا جب پاکستان مالی اور سیاسی طور پر غیر مستحکم تھا اور خطے کی معروضی صورت حال کی وجہ سے کئی طرح کی مشکلات اور خطرات میں گھرا ہوا تھا۔ اُس وقت تک پاکستان ایٹمی قوت کی شناخت بھی نہ رکھتا تھا۔ افغان قوم کو روس کے پنجہ استبداد سے نجات دلا کر افغانستان کی آزادی کی شمع روشن کرنے کا کارنامہ ایسا بڑا کارنامہ ہے کہ جنرل محمد ضیاء الحق اور ان کے اس جنگ میں فوجی کمانڈروں کو اس کا کریڈٹ نہ دینا ناانصافی ہو گی۔ افغانستان کی روسی جارحیت سے آزادی موجودہ عہد کا ایسا لازوال واقعہ ہے جس نے احیائے اسلام کی تحریکوں پربڑے گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔
جنرل ضیاء الحق ایک راسخ العقیدہ مسلمان سپہ سالار تھے۔ 1977ء میں اپوزیشن کی اپیل پر عوام نے اس وقت کے حکمران ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کی تھی، اس کے نتیجے میں آئینی بحران پیدا ہوا جنرل ضیاء الحق کو ملک کا نظم و نسق سنبھالنا پڑا تو تاریخ کے اوراق اس بات کے گواہ ہیں کہ ملک کے طول و عرض میں ہر سطح پر عوام نے مارشل لاء کا والہانہ استقبال کیا اور اس اقدام کو خوش آمدید کہا۔ لوگوں نے اس قدر مٹھائیاں بانٹیں کہ سوجی اور چینی کے گودام خالی ہو گئے۔
1979ء میں جب اشتراکی افواج نے افغانستان میں جارحیت کی اور افغان عوام پر چڑھ دوڑیں تو جنرل ضیاء الحق کی سربراہی میں پاکستان کی عسکری قیادت نے بہت سوچ سمجھ کر یہ تاریخ ساز فیصلہ کیا کہ پاکستان کو افغان عوام کی تحریک آزادی میں مدد کرنی چاہئے۔ افغانستان کی صدیوں کی تاریخ شاہد ہے کہ افغان قوم نے بیرونی حملہ آوروں کو کبھی قبول نہیں کیا، افغان جنگجو قوم ہے۔ وہ ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں کے خلاف برسرپیکار رہتی آئی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر صدیوں کی تاریخ میں کوئی ایسا وقت آیا کہ جب افغان قوم کو بیرونی حملہ آوروں سے نجات نصیب ہوئی تو یہ قوم آپس میں ہی میدان جنگ سجا کر بیٹھ گئی اور مختلف قبائل یا گروہ آپس میں لڑتے رہے۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم نے اپنے کمانڈروں کے ساتھ مل کر جو پالیسی مرتب کی اس میں امریکیوں کو افغان مجاہدین تک رسائی سے روکنا افغان پالیسی کا اہم حصہ تھا۔ افغانستان میں ہزاروں کلو میٹر تک پھیلے محاذ جنگ کی نگرانی آئی ایس آئی کی اہم ذمہ داری تھی۔ پاکستان ہی افغانستان میں مجاہدین تک خوراک اور اسلحہ پہنچاتا تھا۔ مجاہدین کی ضرورت پیٹ کے لئے روٹی اور بندوق کے لئے گولی تھی۔ جوکمک کی صورت پاکستان انہیں فراہم کرتا رہا۔ امریکیوں کے ساتھ جو بھی معاملات طے کئے جاتے وہ پاکستان ہی طے کرتا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب جنرل ضیاء الحق اپنی جہادی پالیسیوں کے باعث پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنے رہے خصوصاً عالم عرب میں وہ ایک مسلمان جرنیل ہونے کے باعث ہیرو کے طور پر پسند کئے جاتے اور عام لوگ ان سے والہانہ محبت بھرے جذبات رکھتے تھے۔
جنرل ضیاء الحق کی افغان جنگ میں مدد اور پشت پناہی کی پالیسی نے امریکہ اور پاکستان کو قریب کر دیا تھا اور وہ کشیدہ صورت حال ماضی کا قصہ بن گئی جو 1977 میں اُن کے زمام اقتدار سنبھالتے وقت تھی۔ اب بھارت تشویش میں مبتلا تھا اور پاکستان جنرل صاحب کی افغان پالیسی کے باعث عالمی منظر نامے پر چھایا ہوا تھا۔ یہی وقت تھا جب پاکستان کی عسکری قوت میں جدید ترین جنگی آلات کا قابل قدر اضافہ ہوا۔ بھارت کے بے پناہ شور شرابے کے باوجود پاکستان نے اپنے معاملہ فہم زیرک اور حرب و ضرب کے ماہر سپہ سالارجنرل ضیاء الحق کی قیادت میں اپنے ایٹمی پروگرام کو رفتہ رفتہ آگے بڑھایا۔ یہ وہ وقت تھا جب عالمی اُفق پرجنرل محمد ضیاء الحق کی قیادت کا چرچا تھا اوار امریکہ سمیت نہ صرف مغربی ممالک بلکہ اُمت مسلمہ کے تقریباً سبھی عرب حکمران بھی پاکستان کے دم ساز اور ہم نوا تھے۔ ایسے میں کسی نے بھارت کی آہ و بکا، واویلے اور شور شرابے پر کان نہ دھرے۔ بھارت روتا پیٹتا اور شور مچاتا رہا جبکہ جنرل ضیاء الحق اپنے دھیمے لہجے اور پروقار انداز میں دنیا کے شاطر اور بزعم خود، خود کو عقل کُل سمجھنے والے بڑے بڑے دماغوں سے اپنی مدبرانہ سوچ اور صلاحیت سے اپنے مطلب کا کام نکالتے رہے اور پاکستان کے جوہری پروگرام کو آگے بڑھاتے رہے۔ 1974ء میں بھارت کے ایٹمی دھماکے کے بعد یہ ازحد ضروری تھا کہ پاکستان بھی اپنے دفاع کے لئے ایٹمی صلاحیت حاصل کرے۔ لہٰذا جنرل محمد ضیاء الحق نے نہایت حمل، بردباری اور حکمت عملی سے پاکستان کے لئے ایٹمی صلاحیت حاصل کر کے اپنے اس خواب کو شرمندہئ تعبیر کر دیا جو کہ ہر پاکستانی کا مطمح نظر تھا۔
افغان مجاہدین کے تمام گروپس اور تمام تنظیموں کی قیادت انہیں اپنا ہیرو اور رہنما تسلیم کرتی تھی۔ افغانستان کے گلی کوچوں، مجاہدین کے مورچوں، چیک پوسٹوں کے درودیوار ”ضیاء الحق“ کی تصویروں سے سجے رہتے تھے اور اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ افغانستان کے بارے ان کا موقف اور پالیسی بہت واضح اور دو ٹوک تھی اور اس سلسلے میں وہ نہ روس کی کوئی بات سنتے تھے اور نہ بھارت کو ہی خاطر میں لاتے تھے۔ کابل کی کٹھ پتلی حکومت کی تو ان کی نظر میں کوئی حیثیت ہی نہ تھی۔
(جاری ہے)
(مسلم لیگ ضیاء کے سربراہ اورسابق وفاقی وزیر ہیں)

صدرضیاء الحق نے جس ہمت، جواں مردی اور حکمت عملی سے کئی برسوں تک روسی جارحیت کا مقابلہ کیا یہ ایک طرح سے کابل کا نہیں اسلام آباد کا دفاع تھا۔ اگر خدانخواستہ روس ”کابل“ کو فتح کر لیتا تو آج پاکستان کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔ آزادی کے لئے قیام پاکستان کے وقت بھی قربانیاں دی گئی تھیں اور آج بھی محب وطن پاکستانی اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ اانہی محب وطن سرفروشوں میں 17 اگست 1988ء کو سازش کا شکار ہونے والے C-130 طیارہ کے وہ سب سوار اور سالار بھی ہیں جنہوں نے اپنے دل رنگ لہو سے ارض پاکستان کی آبیاری کی۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain