ملک کے اچھے مستقبل کیلئے عمران خان کوایماندار لوگوں کی ضرورت ہے، سارہ لورین

کراچی: اداکارہ سارہ لورین نے کہا ہے کہ ملک کے مستقبل کے لیے وزیراعظم عمران خان کو ایماندار اور اچھے لوگوں کی ضرورت ہے۔

چند روز قبل اداکار فرحان علی آغاز نے حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی میں شامل ہوا ہوں، ملک ایک مشکل گھڑی سے گزررہا ہے لہذا اچھے اور ایماندار لوگوں کی پی ٹی آئی میں ضرورت ہے۔

فرحان علی آغا نے مزید کہا تھا وطن سے محبت مجھے ورثے میں ملی ہے۔ یہ وقت ہے کہ پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے اچھے کاموں کو آگے بڑھائیں۔

اداکارہ سارہ لورین نے فرحان علی آغا کے پی ٹی آئی میں شمولیت پرخوشی کا اظہار کرتے ہوئے

آسٹریلیا نے قومی ترانے میں تبدیلیاں کردیں

ماضی میں سلطنت برطانیہ کی کالونی رہنے والے ملک آسٹریلیا نے اپنے قومی ترانے میں پہلی بار تبدیلیاں کردیں۔

خبر رساں ادارے کے مطابق آسٹریلوی حکومت نے 2021 کے پہلے ہی دن میں قومی ترانے میں تبدیلیوں کی تصدیق کی اور بتایا کہ قومی ترانے کی دوسری سطر میں نمایاں تبدیلی

ماضی میں سلطنت برطانیہ کی کالونی رہنے والے ملک آسٹریلیا نے اپنے قومی ترانے میں پہلی بار تبدیلیاں کردیں۔

خبر رساں ادارے کے مطابق آسٹریلوی حکومت نے 2021 کے پہلے ہی دن میں قومی ترانے میں تبدیلیوں کی تصدیق کی اور بتایا کہ قومی ترانے کی دوسری سطر میں نمایاں تبدیلی کردی گئی۔

آسٹریلوی ترانہ انگریزی زبان میں ہے، تاہم اسے وہاں کی پرانی و آبائی زبانوں میں بھی گایا جاتا ہے اور وہاں کے اصلی لوگ ترانے کو تبدیل کرکے گاتے رہے ہیں۔

آسٹریلیہ کے حالیہ ترانے کو 1984 میں حکومتی سطح پر قومی ترانے کے طور پر نافذ العمل کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔

کردی گئی۔

سی سی پی او لاہور عمر شیخ کو تبدیل کردیا گیا. غلام محمود ڈوگر کو سی سی پی او لاہور تعینات

نیا سال کا پہلا دن لاہور پولیس کے لئے خوش خبری لے آیا
لاہور عمر شیخ کے تبدیل ہوتے ہی پولیس آفسران میں خوشی کی۔لہر دوڑ آٹھی
لاہور عمر شیخ دور میں پولیس آفسران میں کرپشن کے الزامات بڑھے
لاہور تھانوں میں تعینات پولیس آفسران پر جھوٹے مقدمات درج ہوئے
لاہور قبضے سی سی پی او لاہور دور میں زیادہ ہوئے پولیس زرائع

بابر اعظم موسٹ ویلیوایبل کرکٹر، رضوان ٹیسٹ کرکٹر آف دی ائیر قرار

پاکستان کرکٹ بورڈ نے سال 2020 کے لیے کرکٹرز سمیت مختلف کیٹیگریز میں نمایاں کارکردگی دکھانے والوں کے لیے ایوارڈز  کا اعلان کیا ہے۔

پی سی بی کی جانب سے قومی ٹیم کے کپتان بابر اعظم کو دو ایوارڈ دیےگئے، بابر اعظم کو موسٹ ویلیو ایبل اور وائٹ بال کرکٹر آف دی ائیر کے ایوارڈز سے نوازا گیا۔

وکٹ کیپر بلے باز محمد رضوان کو ٹیسٹ کرکٹر آف دی ائیر قرار دیا گیا جبکہ فواد عالم کو انفرادی کارکردگی کا ایوارڈ مل گیا۔

فاسٹ بولر نسیم شاہ کو بیسٹ ایمرجنگ انٹرنیشنل کرکٹر کا ایوارڈ دیا گیا جبکہ بیسٹ ایمرجنگ ڈومیسٹک کرکٹر کا ایوارڈ پاکستان شاہینز کے وکٹ کیپر کپتان روحیل نذیر کے نام رہا۔ اسی طرح کامران غلام کو ڈومیسٹک کے بہترین کرکٹر کا ایوارڈ مل گیا۔

قومی ویمن کرکٹر عالیہ ریاض بیسٹ ویمن کرکٹر آف دی ائیر قرار پائیں جبکہ پی سی بی ایمرجنگ ویمن کرکٹر آف دی ایئر کا ایوارڈ فاطمہ ثنا نے اپنے نام کر لیا۔

آصف یعقوب پی سی بی امپائر آف دی ائیر قرار پائے جبکہ کارپوریٹ اچیومنٹ آف دی ائیر کا ایوارڈ پاکستان سوپر لیگ فائیو کو دیا گیا۔

کرپٹ افراد پیسے دیں یا جیل جائیں :عمران خان کا اپوزیشن کو دو ٹوک جواب

وزیراعظم عمران خان نے نئے سال کے پہلے روز بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ سال 2021 کو پاکستان کی ترقی کا سال ہوگا۔

اسلام آباد میں گاڑیاں متعارف کروانے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا پاکستان اگر کس ملک سے سیکھ سکتا ہے تو وہ چین ہے، کیوں کہ ان کا ترقی کا ماڈل ہمیں سب سے زیادہ بہتر رہے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘چین نے جس طرح صنعتکاری کی، برآمدات کے زونز بنائے، بیرون ملک سے سرمایہ کاری لے کر آئے اور اس سے اپنی برآمدات بڑھائی جس سے ان کی دولت بڑھی اور اس سے انہوں نے لوگوں کو غربت سے نکالا’۔

انہوں نے کہا کہ ‘چین نے 70 کروڑ لوگوں کو گزشتہ چند دہائیوں میں غربت سے نکالا، اس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں’۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ‘ہم چاہتے ہیں کہ چینی صنعتیں ہمارے خصوصی اقتصادی زونز میں ری لوکیٹ کریں، ویتنام میں چینی انڈسٹری نے ری لوکیٹ کیا اور وہ ان کی برآمدات کا بہت بڑا حصہ بن چکا ہے’۔

انہوں نے کہا کہ چین نے گزشتہ 30 سے 35 برسوں میں جس تیزی سے ترقی کی ہے پاکستان اس سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘گزشتہ 50 سالوں سے حکومتوں نے برآمدات بڑھانے کی کوشش نہیں کی جس کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ جاتا ہے اور آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے’۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ ‘چین کے ساتھ مل کر ہم زراعت کے شعبے کو بہتر بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں اور سی پیک کے اگلے حصے میں زراعت کا شعبہ بھی شامل ہے’۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آٹو موبائیل کی صنعت ایسی ہے جس سے اس سے جڑی تمام صنعتیں ترقی کریں گی، روزگار پیدا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ‘معیشت میں استحکام لانے کی کوشش کی جاتی ہے تو عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں کورونا وائرس کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا جس کی وجہ سے مشکلات میں اضافہ ہوا’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم سے امیر ممالک میں بھی لوگوں کی کھانا لینے کے لیے لائنیں لگی ہوئی ہیں، ہمیں خوف تھا کہ ہمارا نچلا طبقہ پس جائے گا تاہم احساس پروگرام کے تحت ہم اسے بچانے میں کامیاب رہے’۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ہم نے 2 سال میں جو تجربہ کیا اب ہم ہر قسم کے چیلنجز کے لیے تیار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سال 2021 ترقی کا سال ہوگا، ہماری صنعتیں چل پڑی ہیں سیمنٹ کی صنعت اور ٹیکسٹائل کی صنعت میں نمو دیکھی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2021 میں کاروبار دوست پالیسی بنائیں گے اور جو دولت پیدا ہوگی اس سے ہم عوام کو غربت سے نکالنے پر خرچ کریں گے۔

انہوں نے اعلان کیا کہ خیبر پختونخوا، پنجاب اور گلگت بلتستان میں رواں سال کے آخر میں یونیورسل صحت کوریج فراہم کردیں گے۔

اس کے علاوہ انہوں نے بتایا کہ ‘احساس پروگرام کے ذریعے ایک اور پروگرام متعارف کرانے لگا ہوں جس کا تحت ہم کوشش کریں گے کہ پاکستان میں کوئی بھوکا نہ سوئے’۔

عمران خان 31 جنوری تک مستعفی نہیں ہوں گے:شاہ محمود قریشی

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پی ڈی ایم میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ 31دسمبر تک تمام جماعتیں اپنے استعفے پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمٰن کو پیش کردیں، اس پر بھی آپ نے دیکھا کہ اختلاف رائے سامنے آیا اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے یہ کہا کہ استعفے پی ڈی ایم کے صدر کو نہیں بلکہ اپنی جماعتوں کے قائدین کو دیے جائیں گے تو یہاں بھی ہمیں اعتماد کا فقدان دکھائی دے رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 31 دسمبر آ گئی اور چلی گئی، استعفے نہیں آئے، آج کے اجلاس میں بھی مجھے استعفوں کا فیصلہ ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا۔

انہوں نے کہا کہ31 جنوری ایک اور تاریخ ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اگر 31 تاریخ تک وزیر اعظم عمران خان مستعفی نہ ہوئے تو ہم اسلام آباد پر چڑھائی کریں گے، ایک لانگ مارچ کا اعلان کیا جائے گا، 31 جنوری بھی آئے گی اور چلی جائے گی، اب دیکھنا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے کیا فیصلہ کیا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ پیپلز پارٹی نے لانگ مارچ پر بھی ایک شرط عائد کردی ہے، وہ پریس کانفرنس میں صحافیوں کے سوالات کے جواب دینے سے کترا رہے ہیں اور اندر کی کہانی تو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے بہت سارے اراکین بالکل کسی تاریخ پر آمادہ دکھائی نہیں دیے اور انہوں نے لانگ مارچ کو نواز شریف کی واپسی سے مشروط کردیا ہے، تو مجھے یہ مسئلہ بھی کھٹائی میں پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک بات تو واضح ہے کہ 31 جنوری کو عمران خان مستعفی نہیں ہوں گے اور کیوں ہوں، ان کے پاس مینڈیٹ ہے، ایوان کا اعتماد ہے، عوام کے ووٹ ہیں، ان کے کہنے پر وہ مستعفی ہو جائیں، ایسا ہوا نہیں کرتا، سیاسی تقاضا اس کے برعکس ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 27 دسمبر کو بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر اس دن کی اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے گڑھی خدا بخش پہنچتی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اگر آج ہونے والے اجلاس کو پی ڈی ایم کا اہم اجلاس قرار دیا جا رہا ہے تو بلاول بھٹو آج جاتی امرا میں دکھائی کیوں نہیں دے رہے، اگر اس اجلاس کی اتنی ہی اہمیت تھی انہیں بنفس نفیس اجلاس میں ہونا چاہیے تھا، اجلاس سے ان کی عدم موجودگی اس کی سنجیدگی کا پول کھول دیتی ہے۔

جعلی حکومت سے مذاکرات نہیں ہونگے :فضل الرحمٰن اختلاف رائے ہی راہ نکالتی ہے:محمد علی درانی

پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے مذاکرات نہ کرنے کا عندیہ دیدیا۔ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ہم نے کچی گولیاں نہیں کھیلیں۔لاہور میں محمد علی درانی کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ محمد علی درانی سے دیرینہ تعلقات ہیں، درانی صاحب اور پی ڈی ایم کی سوچ مثبت ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن اپنے موقف پر ڈٹ گئے اور کہا کہ ہمارا واضح موقف ہے کہ حکومت دھاندلی کی پیداوار ہے، یہ حکومت عوام کی نمائندہ حکومت نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کی بات کرنا عوام کو مایوسی کی طرف دھکیلنے کی بات ہے۔ پی ڈی ایم سربراہ نے کہا کہ ایسے حکمرانوں کا مسلط رہنا ملک کو تباہی کی طرف لے جانا ہے۔ انھوں نے ملکی معیشت کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کی معیشت عالمی مالیاتی اداروں کے پاس ہے، مالیاتی اداروں نے ایک پیسا کی مدد نہیں کی، یہ پاکستان کی پالیسی سے مطمئن نہیں۔ اپوزیشن اتحاد کے لائحہ عمل پر بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ جلسے، اجلاس میں جانا ہے یا نہیں جانا، یہ اجازت ہم نے ایک دوسرے کو دی ہوئی ہے۔ مولانا کا کہنا تھا کہ ہم نے کچی گولیاں نہیں کھیلیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے کہا ہے جو فیصلہ پی ڈی ایم کا ہوگا وہ سب کا ہوگا، اجلاس میں پیپلز پارٹی کی تجاویز سامنے آنے پر کوئی بات ہوگی۔ سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ اے پی سی کے اعلامیہ کو اسٹریٹجی کی شکل دینا ہے، تمام پارٹیاں اس پر تبادلہ خیال کریں گی۔ اپوزیشن کے استعفوں سے متعلق مولانا کا کہنا تھا کہ تمام پارٹیوں کے استعفے جمع ہوچکے ہیں، میڈیا کی دنیا میں چھوٹی موٹی خبریں اڑتی رہتی ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ فرد کی رائے کو نہیں دیکھا جاتا، عوام پارٹی کی پالیسیوں کو دیکھتے ہیں۔ اس موقع پر پاکستان مسلم لیگ (ف) کے جنرل سیکرٹری محمد علی درانی نے کہا ہے کہ اپوزیشن حکومت سے کوئی ریلیف نہیں مانگ رہی، اپوزیشن موقف پر ڈٹی ہوئی ہے۔ انھوں نے تجویز پیش کی کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات ریاست کی سطح پر ہونا چاہئیں۔ انھوں نے کہا کہ مولانا سے مل کر میری امید بڑھی ہے، ہر کوئی چاہتا ہے عوامی مشکلات کم ہوں۔ اپنی آمد سے متعلق وضاحت کرتے ہوئے محمد علی درانی کا کہنا تھا کہ مولانا کے لیے پیر پگارا کا پیغام لے کر آیا ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ ملکی حالات میں ٹکراؤ کو بچانے کے لیے نئے راستے نکلنا چاہئیں۔

براڈ شیٹ کیس:پاکستان کو ساڑھے 4ارب جرمانہ ،برطانوی ہائی کمیشن کے اکاﺅنٹس منجمد

براڈ شیٹ کیس میں اہم پیش رفت، لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کے اکاؤنٹس منجمد کردیے گئے۔

مصالحتی عدالت نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو 2 کروڑ 9 لاکھ ڈالر جرمانہ 30 دسمبر تک ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔

ہائی کمیشن لندن کے اکاؤنٹ سے رقم منہا نہیں کی گئی، 2018میں نیب کو براڈ شیٹ سے معاہدہ ختم کرنے پر 1 کروڑ 70 لاکھ ڈالر جرمانہ ہوا تھا۔

نیب نے وزارت قانون کی ہدایت کے برعکس 2 سال تک جرمانہ ادا نہ کیا، جرمانہ ادا نہ کرنے پر دو سال میں سود بھی شامل ہو گیا۔

دوسری جانب  ترجمان پاکستانی ہائی کمیشن کا کہنا ہے کہ اکاؤنٹس منجمد نہیں ہوئے۔

ذرائع کے مطابق براڈ شیٹ کیس میں لندن کی مصالحتی عدالت نے 2018 میں نیب کے خلاف 2 کروڑ ڈالر جرمانہ عائد کیا تھا، نیب نے رقم ادا نہ کی جس پر پاکستانی ہائی کمیشن کا اکاؤنٹ منجمد ہوا۔

لندن مصالحتی عدالت نے2کروڑ 9لاکھ ڈالر 30 دسمبر تک ادا کرنے کا حکم دیا تھا، پاکستانی روپوں میں یہ رقم ساڑھے چار ارب روپے بنتی ہے، مصالحتی عدالت نےاپنے حکم میں قرار دیا کہ عدم ادائیگی پر اکاؤنٹ منجمدکرکےرقم یکطرفہ طور پر منہا کی جائے تاہم اعلیٰ سفارتی ذرائع کے مطابق ہائی کمیشن لندن کےاکاؤنٹ سے رقم منہا نہیں کی گئی۔

پاکستانی ہائی کمیشن کا مؤقف ہے کہ سفارتخانوں کوجنیواکنونشن کےتحت استثنیٰ حاصل ہوتاہے۔