تازہ تر ین

سانحہ مری سے متعلق اصل حقائق

محمدنعیم قریشی
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سانحہ مری کو پاکستان کی تاریخ میں ایک بدنما داغ کی طرح یاد رکھاجائے گا۔سات اورآٹھ جنوری کی رات کو مری میں برفانی طوفان اور با رش کے باعث 23افراد اپنی گاڑیوں میں انتقال کرگئے تھے۔ انتقال کرجانے والوں میں ایک ہی خاندان کے 8افراد بھی شامل تھے۔ واقعے کے بعد پنجاب حکومت نے سانحہ مری کی تحقیقات کیلئے تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی تھی۔
سانحہ مری کے بارے میں تحقیقاتی رپورٹ کے کچھ مندرجات کا انکشاف ہوگیا ہے اور ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پورے سانحے کی ذمہ دار حکومتی انتظامیہ یا ان کی لاپرواہیاں ہیں، عموماً شدید برف باری کے نتیجے میں برف ہٹانے والی گاڑیوں کے بارے میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ بیس گاڑیاں ایک جگہ کھڑی تھیں اور اس پر ان گاڑیوں کا عملہ بھی غائب تھا۔ اگر تحقیقاتی کمیٹی اس کا انکشاف نہ بھی کرتی تو یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ محکمہ موسمیات کی وارننگ کو نظر انداز کیا گیا جو کہ ایک بڑی غفلت کی طرف واضح اشارہ ہے۔ ان معاملات کو دیکھنے والے ادارے کی سوچ اس طرف جانے سے کس طرح قاصر رہی ہے کہ اگر پانچ چھ روز مسلسل شدید برفباری ہو تو اس کے نتائج کیا نکل سکتے ہیں، یہاں پورے مری کو بے یار رومددگار چھوڑ کر انتظامیہ خواب خرگوش کے مزے لیتی رہی جبکہ اس قدر غفلت کے باوجود اپنا ملبہ کسی اور پر ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے یعنی اب تجویز دی جارہی ہے کہ کار پارکنگ نہ رکھنے والے ہوٹلوں اور شاپنگ سنٹرز کو سیل کردیا جائے اور یہ کہ راستے میں رکاوٹ کھڑی کرنے والے تجاوزات کے خلاف گرینڈ آپریشن کیا جائے یہ باتیں بھی قابل غور ہوسکتی ہے مگر سزاکے اس عمل میں کسی چھوٹے بڑے کا لحاظ نہ کیا جائے کیونکہ یہ ایک معمولی واقع نہیں ہے بلکہ تاریخ کا ایک ایسا سانحہ جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔
کارپارکنگ کے بغیر ہوٹل اور شاپنگ سنٹرز بننے کی اجازت دینے والے افسران کو بھی سخت سزا دی جائے صرف ہوٹل یا شاپنگ سنٹر سیل کرنا کوئی سز ا نہیں ہے تجاوزات کے خلاف گرینڈ آپریشن کا واضح مطلب یہ ہے کہ حکومت کے اہلکار اپنی ہی نا اہلی پر پردہ ڈالنے کیلئے گرینڈ آپریشن کریں گے، خوب توڑ پھوڑ ہوگی اور پھر سب ٹھیک ہوجائیگا۔ اب جتنی توڑ پھوڑ ہوئی ہے حکومت میں اور اس کے افسران میں ہونی چاہیے، اس کے بعد ہوٹلوں کو قانون کے دائرے میں لایا جائے۔ اگرچہ کسی قسم کی رپورٹ کے بغیر ہی حکومت کو سزا کے طور پر برطرف کر دیا جانا چاہیے تھا لیکن اب یہ کھیل کھیلا جائے گا کہ حکومت پنجاب کے خلاف تحقیقات تو عدلیہ کے ذریعے ہونی چاہیے تھی لیکن چونکہ اوپر سے نیچے تک یہی نظام چل رہا ہے ہر بااختیار ادارہ، حکمران اور اعلیٰ افسر اپنے ہی خلاف تحقیقات کرتا ہے، اپنے ہی حق میں فیصلہ بھی صادر فرمادیتا ہے۔
سانحہ مری کیلئے کسی کمیٹی کی ضرورت نہیں۔ اس پر حکومت پنجاب کو خود ہی فیصلہ کرلینا چاہیے۔ اگر یہ نہیں ہوسکتا تو کم از کم وزیراعلیٰ پنجاب بھی اپنا محاسبہ کریں۔ اس سانحہ سے منسلک تمام وزراء سے بھی پوچھ گچھ کرنی چاہیے۔ اب خبر آ گئی ہے کہ یہ رپورٹ فی الحال وزیراعلیٰ کو نہیں دی گئی۔ تحقیقات کے دوران انتظامی محکموں کے تیس سے زائد افسران کے بیانات قلمبند کیے گئے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انتظامیہ کی غفلت سے مری سانحہ پیش آیا۔ اس بات پر بھی تعجب کا اظہار کیا گیا کہ مسلسل تبادلے صرف مری کے اسسٹنٹ کمشنرز کے ہی نہیں ہوئے بلکہ اس کی زد میں راولپنڈی کے چھ ڈپٹی کمشنرز اور پانچ کمشنرز بھی آچکے ہیں، جنہیں پی ٹی آئی حکومت نے تین سال چارماہ میں وقتاً فوقتاً تبدیل کیا ہے اور اس طرح ڈی سی راولپنڈی کے عہدے کی میعاد ساڑھے چھ ماہ جبکہ کمشنر راولپنڈی کے عہدے کی اوسط میعاد آٹھ ماہ رہی ہے، اس تمام تحریر میں قدم قدم پر بہت سے سوالات نے جنم لیاہے مگر چند ایک سوالات ایسے بھی جس کو میں آسان الفاظوں میں تحریر کے آخر میں بیان کرنا چاہونگا جسے پڑھنے کے بعد یہ جاننا آسان ہوجائے گا کہ اس سانحہ کا اصل قصور وار کون ہوسکتاہے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ محکمہ موسمیات کی وارننگ کے باوجود جب ٹول پلازہ سے سیاح مری جارہے تھے تو کسی نے ان کو نہیں روکا، نہ ہی انہیں کسی قسم کے خدشے سے آگاہ کیا گیا۔ دوسراسوال تو یہ بنتا ہے کہ پچیس ہزار سیاح کی گنجائش والے مری میں ایک لاکھ سے زائد سیاحوں کی اجازت کیوں دی گئی۔
یہ بھی سوالات ہیں کہ مشکل حالات میں برف باری میں پھنسے افراد کو بچانا کس کی ذمہ داری تھی؟ یہ افراد برف باری میں پھنسے کیسے،سڑکوں پر ٹریفک جام کیوں ہوا، ٹریفک پولیس اور ضلعی انتظامیہ نے گنجائش سے زائد گاڑیوں کو داخل کیوں ہونے دیا، اور سب سے بڑھ کرریسکیو آپریشن تاخیر سے کیوں شروع ہوا۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہنگامی صورتحال میں عوام کے جان و مال کا تحفظ قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی او ر صوبائی اداروں کی ذمہ داری ہے، موسمی خطرات کے حوالے سے عوام اور متعلقہ اداروں کو خبردار کرنا اور ان سے اس حوالے سے انتظامات کروانا بھی ان اداروں کی ذمہ داری ہوتی جو ظاہر ہے کسی بھی لحاظ سے پوری نہیں کی گئی۔
مری میں ہونے والے حالیہ سانحے میں ان اداروں کے مابین باہمی کوآرڈینیشن کا فقدان ہی شاید واحد وجہ تھی جس کی وجہ سے سیاحوں کو بچایا نہ جا سکا، سب سے پہلے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی بھی معاملے کو دیکھنے کیلئے وسائل کس کے پاس ہیں، موسم کی صورتحال سے لیکر کسی شہر میں داخل اور خارج ہوتی ٹریفک تک کی تمام اور مصدقہ معلومات کس کے پاس ہوتی ہیں کس سیاحتی مقام پر کتنے ہوٹلز ہیں اور تمام ہوٹلوں میں کتنے کمرے ہیں یہ علم کس کو ہوتا ہے؟۔ ذرا غور کریں آپ کی خود سمجھ میں آجائے گا کہ اس سانحہ کا اصل ذمہ دار کون ہوسکتا ہے۔
(کالم نگار مختلف امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain