کینیڈا: (ویب ڈیسک) انسانی دماغی کی پیچیدگیوں کو سمجھنا ایک مشکل ترین عمل ہے۔ اب دماغ کی مختلف لہروں کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ ان میں سے تھیٹا لہریں یا امواج انسانی جذبات کو باقاعدہ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
تھیٹا امواج کی وجہ سے ہی ہم شور کے ماحول میں توجہ سے کام کرتے ہیں، یا پھرمشکل سورتحال میں غصہ جذب کرتے ہیں اور انہیں سمجھ کر کئی طرح کی نئی تھراپی وضع کی جاسکتی ہیں۔
جامعہ مانٹریال کے سائنسدانوں نے کہا ہے کہ اب تھیٹا امواج کے کئی دیگر پہلو سامنے آئے ہیں جنہیں جان کر ہم بے چینی، موڈ کے اتارچڑھاؤ اور بارڈرلائن پرسنیلٹی ڈس آرڈر جیسے عارضوں کا علاج کرسکیں گے۔
مانٹریال یونیورسٹی کے پروفیسر مارک لیوئی اور ان کے شاگرد نے ثابت کیا ہے کہ دماغ کے ایک مخصوص حصے، ’فرنٹکل کارٹیکس‘ میں تھیٹا لہریں جذبات کو ریگولیٹ کرتی ہیں۔ اس ضمن میں 24 افراد کا دماغی مطالعہ کیا گیا تو معلوم ہو اکہ جذباتی اظہار اور اسے قابو کرنے کے عمل میں تھیٹا امواج کی سرگرمی قدرے بڑھ جاتی ہے۔ تاہم یہ تحقیق 2013 میں کی گئی تھی۔
تمام شرکا کو ایک ٹیسٹ سے گزارا گیا تھا جسے ’اکتسابی بازگشت‘ یعنی کوگنیٹو ری اپریزل کا نام دیا گیا تھا۔ اس میں ایک صورتحال کی دوبارہ تشکیل کی جاتی ہے تاکہ مریض میں جذباتی اتار چڑھاؤ کو نوٹ کیا جاسکے۔ ماہرینِ کے پیشِ نظر یہ دیکھنا تھا کہ آیا کسطرح برقی اکتسابی عمل رونما ہوتا ہے اور اس میں تھیٹا امواج کا کردار کیا ہوسکتا ہے؟
سائنسدانوں نے اس ضمن میں 10 مرد اور 14 خواتین کی کھوپڑیوں پر الیکٹروڈ لگا کر انہیں پریشان کن تصاویر دکھائیں مثلاً ایک حملہ آور شخص کے ہاتھ میں خنجر تھا یا پھر ایک خونخوار کتے کو حملہ کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ اس دوران دماغی سرگرمیاں ای ای جی اور دیگر طریقوں سے نوٹ کی جاتی رہیں۔
اس دوران انہیں اپنے جذبات برقرار رکھنے، کم کرنے اور بڑھانے کے احکامات بھی دیئے جاتے رہے۔
اس دوران دماغی برقی سرگرمی کی لہروں کا بغور مطالعہ کیا جاتا رہا تو معلوم ہو کہ 4 سے 8 ہرٹز پر تھرتھرانے والی تھیٹا لہریں ہی زیادہ سرگرم تھیں۔ اس طرح جذٓباتی اتار چڑھاؤ میں تھیٹا امواج کا ایک اہم کردار سامنے آیا۔ اس تحقیق سے دماغ کا وہ گوشہ بھی سامنے آیا جہاں سے یہ امواج خارج ہوتی ہیں۔
لیکن ماہرین نے ایلفا امواج کو بھی دیکھا جو 8 سے 13 ہرٹز کے درمیان موجود ہوتی ہیں، اس طرح جذباتی سرگرمی میں ایلفا لہروں کا کوئی کردار سامنے نہیں آیا۔
اس تحقیق سے ایک جانب تو انسانی جذبات اور احساسات کو سمجھنے میں مدد ملے گی تو دوسری جانب کئی نفسیاتی عوارض کے علاج کی راہیں ہموار ہوں گی۔